کتاب عمر کا آخری باب۔ کیا اورکیسے

آپ جیسے وہ تمام لوگ جو ساٹھ برس سے تجاوز کر چکے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ دولت سے زیادہ اپنی صحت پر توجہ دیں.


Amjad Islam Amjad September 01, 2012
[email protected]

ISLAMABAD: ایک چینی زبان میں لکھی گئی عبارت کا آزاد ترجمہ:

''آپ کو پہاڑوں میں ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پرانے درخت مل جائیں گے مگر سو برس سے زیادہ عمر پانے والے انسانوں کی تعداد ایک لاکھ میں صرف ایک ہے۔ یعنی اگر آپ نوے برس کے ہیں تو آپ کے پاس زندہ رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دس برس بچتے ہیں اور اگر آپ کی عمر اسی برس ہے تو باقی ماندہ ممکنہ برسوں کی تعداد 20 ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اب آپ کے پاس ممکنہ حد کے مطابق بہت زیادہ سال باقی نہیں بچے اور چلتے وقت آپ دو چیزیں ساتھ نہیں لے جا سکتے جو اس وقت آپ کے پاس موجود ہیں لیکن آپ کو بہت زیادہ شاہ خرچ ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ اتنا ہی خرچ کریں جتنی ضرورت ہے۔ زندگی کی جن جائز مسرتوں سے آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں انھیں نظر انداز نہ کیجیے۔ جتنی خیرات کر سکتے ہیں ضرور کریں لیکن سب کچھ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے لیے مت بچا کر رکھیں کیونکہ یہ انھیں بے عمل اور جونکیں بنانے کے مترادف ہو گا۔

اس کی پروا مت کریں کہ آپ کے جانے کے بعد کیا ہوگا؟ کیونکہ جب آپ خاک کا رزق بن جائیں گے تو آپ کے لیے تعریف یا تنقید دونوں بے معنی ہو جائیں گی۔ اپنے بچوں کے لیے بہت زیادہ فکر مند نہ ہوں کیونکہ ان کی اپنی قسمت اور راہ حیات ہے۔ اپنے بچوں کے غلام مت بنیں اور نہ ہی ان سے زیادہ توقعات وابستہ کریں کیونکہ اگر آپ کے بچے آپ کا خیال رکھنے والے ہیں تب بھی وہ اپنے کاموں اور حالات میں اس قدر مصروف ہوں گے کہ شاید ہی وہ آپ کی (کسی طرح کی) مدد کے قابل ہو سکیں۔ اور جو بچے آپ کا خیال رکھنے کی اہلیت اور جذبہ نہیں رکھتے ممکن ہے وہ آپ کی زندگی میں ہی آپ کی جائیداد کے لیے آپ آپس میں لڑنا شروع کر دیں اور آپ کے مرنے کے انتظار میں رہیں تا کہ وہ آپ کے ورثے پر قبضہ کر سکیں۔ آپ کے بچے اس بات کو ایک طے شدہ امر سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کی دولت اور جائیداد کے اصل اور صحیح وارث ہیں لیکن خود ان کی دولت پر آپ کا کوئی حق نہیں۔

آپ جیسے وہ تمام لوگ جو ساٹھ برس سے تجاوز کر چکے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ دولت سے زیادہ اپنی صحت پر توجہ دیں کیونکہ ممکن ہے کہ آپ کی دولت آپ کے لیے صحت نہ خرید سکے۔

دولت کے پیچھے بھاگنا کب بند کر دینا چاہیے اور کتنی دولت آپ کے لیے کافی ہے؟ (دس لاکھ۔ دس کروڑ یا دس ارب) ہزاروں مربع بہترین زرعی زمین میں سے صرف اتنی زمین اصل میں آپ کے کام کی ہے جو روزانہ آپ کو آپ کے استعمال کی خوراک مہیا کر سکے اور ہزاروں دکانوں اور محلات میں سے آپ کو صرف وہ آٹھ مربع میٹر جگہ درکار ہے جہاں آپ رات کو آرام سے سو سکیں۔ چنانچہ جب تک آپ کے پاس مطلوبہ خوراک اور دولت مہیا اور موجود ہے آپ خوشی اور اطمینان سے زندہ رہ سکتے ہیں۔

ہر خاندان کے کچھ اپنے مسائل اور وسائل ہوتے ہیں چنانچہ ان کا اور اپنے حالات کا دوسروں سے موازنہ اور مقابلہ کرنے کا راستہ ترک کر دیں اور ان باتوں پر مت اپنا وقت ضایع کریں کہ کس کی شہرت اور معاشرتی مقام کیا ہے؟ اور کس کے بچے آپ کے بچوں سے بہتر ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگر مقابلہ کرنا ہے تو خوشی، صحت اور سکون کی مقدار کے حوالے سے کیجیے۔ ان چیزوں کو سر پر سوار مت کیجیے جن کو تبدیل کرنا آپ کے بس میں نہیں کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور یہ روش آپ کی خوشی اور صحت کو بھی برباد کرے گی۔ اپنے لیے بہتری اور آسودگی کی تخلیق اور خوشی کی تلاش آپ کو خود کرنا ہو گی۔ جب آپ کا موڈ، رویہ اور نکتہ نظر اچھا ہے تو اچھی اور خوش کن چیزوں کے بارے میں سوچئے۔ اچھی اور خوشگوار باتیں اور چیزیں روزانہ کیجیے اور اس عمل سے لطف اٹھائیے، اس طرح آپ اپنا ہر دن اور سارا وقت ایک خوشی اور سرشاری کے عالم میں بسر کر سکتے ہیں۔

ہر گزرنے والا دن آپ کی زندگی سے منہا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ دن آپ خوشی سے گزارتے ہیں تو وہ آپ کی زندگی میں جمع ہو جاتا ہے۔ روحانی اور اندرونی مضبوطی ہر طرح کی بیماری کو دور کر دیتی ہے۔ مطمئن اور آسودہ طبیعت سے بیماری اور بھی جلد پسپائی اختیار کرتی ہے۔ لیکن اگر آپ بیک وقت اندرونی طور پر مضبوط اور خوش ہوں تو بیماری آپ تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔

اور ان سب باتوں سے زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ اس سچائی اور اچھائی کو محسوس اور استعمال کرنا سیکھیں جو آپ کے اردگرد بکھری پڑی ہے ان دوستوں کی صحبت سے فیض یاب ہوں جو آپ کو آپ کی زندگی سے بھر پور اور ''پسندیدہ'' ہونے کا احساس دلاتے رہیں۔''

یہ اقتباس ایک باقاعدہ اور مکمل مضمون کی شکل اختیار کر گیا ہے کہیں کہیں اس میں ایک طرح کے غیر سنجیدہ انداز نے بھی جگہ پالی ہے اور اس میں بیان کیے گئے بعض خیالات پہلی نظر میں ہمارے کئی مروجہ معاشرتی عقائد اور نظریات سے بھی متضاد نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر اسے غیر جانبدار ہو کر پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ اس چینی مفکر کے یہ خیالات ایک خاص عمر کے لوگوں سے متعلق اور ان سے مشروط ہیں تو اس میں کہی گئی بہت سی باتیں دنیا بھر میں پھیل ہوئے اور بظاہر مختلف نظر آنے والے انسانی معاشروں کی اجتماعی دانش کا عطر محسوس ہوتی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہر معاشرے کا انسان اپنے رشتوں اور خواہشوں کے جال کا اسیر ہوتا ہے لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ اپنے تمام اعمال کا حساب (چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں) اسے اپنی انفرادی ذات اور شخصیت کے حوالے سے ہی دینا ہوتا ہے اور خاص طور پر ساٹھ برس سے بعد کی عمر کا حصہ ایسا ہوتا ہے جب نہ صرف وہ اپنے فیصلے بہت حد تک خود کر سکتا ہے بلکہ اس کی دانش، بصیرت اور زندگی بھر کا تجربہ اور شعور بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ شاید اسی سے ملتی جلتی کسی ذہنی کیفیت میں ساحر نے کہا تھا کہ

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔