ایکسپریس کے زیراہتمام لاہور کی تاریخ کا یادگارمشاعرہ
باذوق سامعین کی داد نے شعراء کو سرشار کر دیا۔
JAKARTA, INDONESIA:
فارسی شاعر انوری نے کہا تھا کہ آسمان سے جو بھی بلا نازل ہوتی ہے وہ پوچھتی پھرتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے۔پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے لگتا ہے جیسے ہر بری خبر اس دشت بے اماں کو ڈھونڈ رہی ہو، اور ان حالات میں تو، بقول میرحسن
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑانکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
شاعر کی یہ بات ہمارے حالات سے مطابقت رکھتی ہے لیکن کیا کیجئے بقول مجید امجد 'دوست یہ سب سچ ہے لیکن زندگی، کاٹنی تو ہے بسرکرنی تو ہے!اس لیے اس پرآشوب دور میں بھی کچھ اہل دل ایسے ضرور ہیں، جو نامساعد حالات سے نبرد آزما لوگوں کے لیے کچھ مسرت اور ذہنی آسودگی کا ساماں پیدا کرنے پریقین رکھتے ہیں۔
اس کار خیر میں ایکسپریس میڈیا گروپ نے بھی حصہ لیا اور ''اردو کے حل طلب مسائل اور نئی نسل''کے عنوان سے دوسری دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کرڈالی، جس میں دو دن میں مختلف سیشنز میں اردو سے متعلق متفرق موضوعات پر ملکی اور غیر ملکی ادیبوں اور دانشوروں نے پرمغزگفتگو کی۔ پہلے روز رات میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ستار نواز استاد رئیس کی پرفارمنس تھی ، جس سے لوگوں نے بھرپور حظ اٹھایا ۔لیکن اس کانفرنس کا وہ آئیٹیم جس نے صحیح معنوں میں میلہ لوٹ لیا وہ ایکسپریس کے زیراہتمام ہونے والا مشاعرہ تھا۔دوسرے دن رات کو ہونے والے مشاعرے کو جس طرح اہل لاہور نے پذیرائی بخشی ، اس نے شاعروں کو سرشاراور نہال کردیا، ذوق رکھنے والے سامعین میسر آجائیں تو شاعروں کے آہنگ میں ایک اور ہی طرح کا رنگ آجاتا ہے ، اور اس کا مظاہرہ یہاں دیکھنے کو ملا۔
اس مشاعرے کو بلاخوف تردید کھڑکی توڑ قراردیا جاسکتاہے ، حالیہ برسوں میں اس شہر میں ایسے زبردست مشاعرے کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی۔ ہندوستان سے آئے معروف شاعر زبیر رضوی جن کو مشاعروں کو ''لوٹنے''کا خاصا تجربہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ بڑی مدت کے بعد ایساشاندار مشاعرہ پڑھنے کاموقع ملا، وہ اس مشاعرے کی ریکارڈنگ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے وطن جاکر لوگوں کو دکھا سکیں کہ 'دوستو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا۔اور یہ الفا ظ محض رسمی جملے نہیں بلکہ ان کے دل سے نکلے تھے۔مشاعرے میں شریک دیگرشعرا نے بھی زبیر رضوی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔ سامعین نے بھی ایکسپریس کی اس کاوش کو مستحسن قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ادارہ آیندہ بھی اس نوع کی سرگرمیوں کوفروغ دیتا رہے گا۔
ایکسپریس کی اس کانفرنس کو بین الاقوامی ہم آہنگی اور قومی ہم آہنگی کی سمت میں اٹھنے والا قدم بھی قرار دیا جاسکتا ہے ، جس میں دنیا بھر سے بڑے بڑے دانشور اور ادیب تو آئے ہی ، وطن عزیزکے مختلف علاقوں کے اہل قلم نے بھی اکٹھے ہوکر دل کی بات سنی بھی سنائی بھی۔ لاہور میں مشاعرے کی بڑی پرانی روایت ہے اور مختلف قریوںسے آنے والے شعرایہاں اپنے فن کی داد پاتے اور اسے اپنے لیے سند جانتے۔حالیہ برسوں میں اس روایت میں ضعف آیا ۔مشاعرے ہوتے تو رہے مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ لیکن'' ایکسپریس ''کے مشاعرے سے گویا مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی ہو ۔
اس مشاعرے میں جس والہانہ انداز میں لوگ جوق در جوق شریک ہوئے ، اس سے یہ گواہی بھی ملتی ہے کہ لوگ شعرو شاعری سے اب بھی التفات رکھتے ہیں اوراپنا وقت نکال کرکلام شاعر بزبان شاعرسننے کا شوق اب بھی باقی ہے۔بس ذرا معاملات کو ڈھنگ اور سلیقے سے ترتیب دینے کا ہنر ہونا چاہیے، جس کا ثبوت ایکسپریس کی منتظمین نے دیا۔مشاعرہ ایسی فطری روانی سے جاری رہا کہ وقت گزرنے کا احساس نہ ہوا اور آخر تک لوگ پوری دل جمعی سے محفل میں شریک رہے۔مشاعرے کے آخری شاعرانورمسعود کو سنتے ہوئے بھی وہ اتنے ہی بشاش اور پرجوش نظر آئے۔
جتنا کہ مشاعرے میں سب سے پہلے شاعر کا کلام سنتے وقت۔ داد سب شاعروں کو ملی بس اس کے تناسب میں کمی بیشی رہی۔ آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اس میں ایسے پلیٹ فارمز کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے جس کے ذریعے سے لوگ اپنا کتھارسز کرسکیں، اور مسائل میں گھرے لوگوں کو دوبارہ زندگی کی خوبصورتیوں کی طرف لوٹایا جا سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ نے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آگے بڑھ کر ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے، جس کی ایک عملی صورت اس منفرد اور یادگار مشاعرے کی صورت میں سب کے سامنے ہے، جسے لوگوں میں بے حد پذیرائی ملی۔ مشاعرے کی صدارت ممتاز شاعرظفر اقبال کے سپرد تھی،لیکن وہ علالت کے باعث تشریف نہ لاسکے البتہ اپنی غزل ضرور انھوں نے بھیجی ، جس کووہاں پڑھ کا سنایا گیا، ان کی غیرموجودگی میں مشاعرہ کی صدارت کا بارمعروف شاعر انور مسعود نے اٹھایا۔تقریب کی نظامت کے فرائض معروف شاعرسعود عثمانی نے بحسن وخوبی انجام دیے۔
فارسی شاعر انوری نے کہا تھا کہ آسمان سے جو بھی بلا نازل ہوتی ہے وہ پوچھتی پھرتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے۔پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے لگتا ہے جیسے ہر بری خبر اس دشت بے اماں کو ڈھونڈ رہی ہو، اور ان حالات میں تو، بقول میرحسن
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑانکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
شاعر کی یہ بات ہمارے حالات سے مطابقت رکھتی ہے لیکن کیا کیجئے بقول مجید امجد 'دوست یہ سب سچ ہے لیکن زندگی، کاٹنی تو ہے بسرکرنی تو ہے!اس لیے اس پرآشوب دور میں بھی کچھ اہل دل ایسے ضرور ہیں، جو نامساعد حالات سے نبرد آزما لوگوں کے لیے کچھ مسرت اور ذہنی آسودگی کا ساماں پیدا کرنے پریقین رکھتے ہیں۔
اس کار خیر میں ایکسپریس میڈیا گروپ نے بھی حصہ لیا اور ''اردو کے حل طلب مسائل اور نئی نسل''کے عنوان سے دوسری دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کرڈالی، جس میں دو دن میں مختلف سیشنز میں اردو سے متعلق متفرق موضوعات پر ملکی اور غیر ملکی ادیبوں اور دانشوروں نے پرمغزگفتگو کی۔ پہلے روز رات میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ستار نواز استاد رئیس کی پرفارمنس تھی ، جس سے لوگوں نے بھرپور حظ اٹھایا ۔لیکن اس کانفرنس کا وہ آئیٹیم جس نے صحیح معنوں میں میلہ لوٹ لیا وہ ایکسپریس کے زیراہتمام ہونے والا مشاعرہ تھا۔دوسرے دن رات کو ہونے والے مشاعرے کو جس طرح اہل لاہور نے پذیرائی بخشی ، اس نے شاعروں کو سرشاراور نہال کردیا، ذوق رکھنے والے سامعین میسر آجائیں تو شاعروں کے آہنگ میں ایک اور ہی طرح کا رنگ آجاتا ہے ، اور اس کا مظاہرہ یہاں دیکھنے کو ملا۔
اس مشاعرے کو بلاخوف تردید کھڑکی توڑ قراردیا جاسکتاہے ، حالیہ برسوں میں اس شہر میں ایسے زبردست مشاعرے کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی۔ ہندوستان سے آئے معروف شاعر زبیر رضوی جن کو مشاعروں کو ''لوٹنے''کا خاصا تجربہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ بڑی مدت کے بعد ایساشاندار مشاعرہ پڑھنے کاموقع ملا، وہ اس مشاعرے کی ریکارڈنگ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے وطن جاکر لوگوں کو دکھا سکیں کہ 'دوستو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا۔اور یہ الفا ظ محض رسمی جملے نہیں بلکہ ان کے دل سے نکلے تھے۔مشاعرے میں شریک دیگرشعرا نے بھی زبیر رضوی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔ سامعین نے بھی ایکسپریس کی اس کاوش کو مستحسن قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ادارہ آیندہ بھی اس نوع کی سرگرمیوں کوفروغ دیتا رہے گا۔
ایکسپریس کی اس کانفرنس کو بین الاقوامی ہم آہنگی اور قومی ہم آہنگی کی سمت میں اٹھنے والا قدم بھی قرار دیا جاسکتا ہے ، جس میں دنیا بھر سے بڑے بڑے دانشور اور ادیب تو آئے ہی ، وطن عزیزکے مختلف علاقوں کے اہل قلم نے بھی اکٹھے ہوکر دل کی بات سنی بھی سنائی بھی۔ لاہور میں مشاعرے کی بڑی پرانی روایت ہے اور مختلف قریوںسے آنے والے شعرایہاں اپنے فن کی داد پاتے اور اسے اپنے لیے سند جانتے۔حالیہ برسوں میں اس روایت میں ضعف آیا ۔مشاعرے ہوتے تو رہے مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ لیکن'' ایکسپریس ''کے مشاعرے سے گویا مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی ہو ۔
اس مشاعرے میں جس والہانہ انداز میں لوگ جوق در جوق شریک ہوئے ، اس سے یہ گواہی بھی ملتی ہے کہ لوگ شعرو شاعری سے اب بھی التفات رکھتے ہیں اوراپنا وقت نکال کرکلام شاعر بزبان شاعرسننے کا شوق اب بھی باقی ہے۔بس ذرا معاملات کو ڈھنگ اور سلیقے سے ترتیب دینے کا ہنر ہونا چاہیے، جس کا ثبوت ایکسپریس کی منتظمین نے دیا۔مشاعرہ ایسی فطری روانی سے جاری رہا کہ وقت گزرنے کا احساس نہ ہوا اور آخر تک لوگ پوری دل جمعی سے محفل میں شریک رہے۔مشاعرے کے آخری شاعرانورمسعود کو سنتے ہوئے بھی وہ اتنے ہی بشاش اور پرجوش نظر آئے۔
جتنا کہ مشاعرے میں سب سے پہلے شاعر کا کلام سنتے وقت۔ داد سب شاعروں کو ملی بس اس کے تناسب میں کمی بیشی رہی۔ آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اس میں ایسے پلیٹ فارمز کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے جس کے ذریعے سے لوگ اپنا کتھارسز کرسکیں، اور مسائل میں گھرے لوگوں کو دوبارہ زندگی کی خوبصورتیوں کی طرف لوٹایا جا سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ نے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آگے بڑھ کر ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے، جس کی ایک عملی صورت اس منفرد اور یادگار مشاعرے کی صورت میں سب کے سامنے ہے، جسے لوگوں میں بے حد پذیرائی ملی۔ مشاعرے کی صدارت ممتاز شاعرظفر اقبال کے سپرد تھی،لیکن وہ علالت کے باعث تشریف نہ لاسکے البتہ اپنی غزل ضرور انھوں نے بھیجی ، جس کووہاں پڑھ کا سنایا گیا، ان کی غیرموجودگی میں مشاعرہ کی صدارت کا بارمعروف شاعر انور مسعود نے اٹھایا۔تقریب کی نظامت کے فرائض معروف شاعرسعود عثمانی نے بحسن وخوبی انجام دیے۔