ٹڈی دل کا حملہ کاشکاروں کا مداوا کون کرے گا

بروقت اسپرے کرکے نقصان کو بڑھنے سے روکا جاسکتا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔

بروقت اسپرے کرکے نقصان کو بڑھنے سے روکا جاسکتا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ فوٹو:فیس بک

ٹڈی دل نے دوسری بارکراچی پر حملہ کیا ہے۔ گزشتہ روز شہری اپنے سروں پر منڈلانے والی ہزاریوں ٹڈیوں کی وجہ سے آفت ناگہانی سے دوچار ہوئے۔ گوکہ سندھ کے دیگر علاقوں تھر، سانگھڑ، نوابشاہ ، بدین اوردادو میں بھی ٹڈی دل نے حملہ کر کے کاشتکاروں کی تیار فصلوں اور پودوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس نقصان کے باعث کاشتکاروں کو جو بھاری نقصان ہوا ہے اس کے ازالے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے چاہیے تھے۔ بروقت اسپرے کرکے نقصان کو بڑھنے سے روکا جاسکتا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ کاشتکاروں کو جو مالی نقصان ہوا اس کا مداوا کون کرے گا، کیونکہ ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ کسانوں کا گزر بسر ان ہی فصلوں پر ہوتا ہے۔ دوسری جانب صوبائی وزیر زراعت اسماعیل راہو نے یہ کہہ کر '' شہری گھبرائیں نہیں، ٹڈیوں کی کڑھائی بنائیں اور بریانی جم کرکھائیں'' غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا ہے۔


ٹڈی دل کی بعض مقامات پر پرواز اتنی اونچی تھی کہ چیل کوے انھیں کھا کھا کر تھک گئے اورکہیں اتنی نیچی کہ بچے اور خواتین خوفزدہ ہوگئے، ٹڈیوں کی بڑی تعدادکہیں مکانات کی چھتوں پر بیٹھی توکہیں دیواروں سے چپکی نظر آئی۔ اس کے علاوہ اسکولوں اور اسپتالوں پر بھی ہزاروں کی تعداد میں حملہ آور ہوئیں ، یعنی شہریوںکے نہ صرف اس افتاد سے پریشان ہوئے بلکہ ان کے معمولات زندگی بری طرح متاثر بھی ہوئے۔

یہ بات درست سہی کہ ٹڈی دل مسلسل حرکت میں رہتے ہیں اور محکمے کے مطابق یہ اب بلوچستان کی طرف چلے جائیں گے۔1961 میں کراچی پر ٹڈی دل نے پہلی بار حملہ کیا تھا، ٹڈل دل کے خاتمے کے لیے فوری طور اسپرے کروانا صوبائی حکومت سمیت متعلقہ محکموں کی ذمے داری ہے انھیں اپنے اس فرض کا احساس ہونا چاہیے۔
Load Next Story