آزادی مارچ اور چوہدری برادران کی سفارتکاری
عمران خان کو ملک کے سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے لیے چوہدری برادران کی بات ماننی چاہیے۔
مولانا کا آزادی مارچ ابھی تک قائم ہے۔ مولانا کسی پلان بی کی تیاری کر رہے ہیں۔ میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ کسی پلان بی کی موجودگی کے ساتھ ساتھ یہ دھرنا بھی قائم رہے گا۔ مولانا اس کو یک دم طاہر القادری کی طرح ختم نہیں کر سکتے۔ حکومت کے پاس بھی ابھی تک اس دھرنے سے نبٹنے اور اس کو شکست دینے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔
بس ایک ہی امید ہے کہ مولانا آگے نہ بڑھیں اور یہیں بیٹھ بیٹھ کر تھک جائیں اورگھر چلے جائیں گے اور ہم فتح کے شادیانے بجائیں گے۔ ایسا کیسے ممکن ہے۔ جانے سے پہلے مولانا اپنی پوری قوت لگائیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان نے مولانا کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی۔ اس کی کارکردگی صفر جمع صفر رہی ہے۔ اس کمیٹی کو سیاسی مذاکرات کی الف ب کا علم نہیں تھا۔ انھیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ ایک جمہوری معاشرے میں حکومت کا ر ویہ کیسا ہوتا ہے۔
حکومتی کمیٹی کا لب و لہجہ اپوزیشن والا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا لہجہ زیادہ بہتر رہا ہے۔ رہبر کمیٹی نے سیاسی طور پر زیادہ بہتر انداز میں خود کو پیش کیا ہے۔ پرویز خٹک اور ان کے ساتھی شاید پہلے دن سے ناامید تھے اور صرف اتمام حجت کے تحت مذاکرات کر رہے تھے۔
ادھر میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری برادران کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ انھوں نے کامیابی سے خود کو سیاست کے سینٹر اسٹیج پر فٹ کیا ہے۔ ان کا انداز بھی سیاسی تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی ٹریک تو ڈپلومیسی میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ چوہدری برادران کی مولانا سے ملاقاتوں نے بہترین نتائج دیے ہیں۔
آپ دیکھیں پہلے دن جب یہ مارچ اسلام آباد پہنچا تھا تو اس کا لب و لہجہ کیا تھا۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقاریر نہیں ہو رہی تھیں۔ ایک ماحول تھا جس میں یہ تاثر بن رہا تھا کہ مولانا کا دھرنا عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ کسی اورکے خلاف ہے۔ محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی خان اسٹیج پر تھے۔ بلاول کی تقریر بھی بہت جارحا نہ تھی۔ پھر مولانا کے اپنے لہجہ میں بھی تلخیٰ موجود تھی اور اس طرح ایک تنائو پیدا ہو گیا تھا۔ یہ تنائو اور یہ ماحول پاکستان کے لیے اچھا نہیں تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہاں عمران خان اور ان کی ٹیم سے بنیادی غلطی ہوئی ہے۔ عمران خان کی ٹیم کو کم از کم مولانا سے یہ بات کرنی چاہیے تھی کہ وہ بے شک حکومت اور اس کی ٹیم پر جتنی مرضی تنقید کریں لیکن قومی اداروں پر تنقید مثبت بات نہیں ہے۔ انھیں مولانا کو قائل کرنا چاہیے تھا کہ مولانا توپوں کا رخ بے شک حکومت کی طرف رکھیں لیکن اداروں کو نشانہ نہ بنائیں۔ لیکن حکومت کی مذ اکراتی ٹیم نے سیاسی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ اور اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے بجائے اس کو انجوائے کرنا شروع کر دیا۔ یہ حکومت جس کی طاقت ہی یہ ہے کہ حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں اس موقع پر ملک کے اداروں کے دفاع میں ناکام رہی۔ حکومتی ٹیم کے پاس اتنی سیاسی اہلیت ہی نہیں تھی۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ پرویز خٹک اور ان کی ٹیم براہ راست مولانا سے بات کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھی۔ وہ رہبر کمیٹی تک پھنس کر رہ گئے تھے۔ ایسے میں صرف چوہدری برادران ہی تھے جو براہ راست مولانا کے پاس جا سکتے تھے، بات کر سکتے تھے اور مذاکرات کا راستہ کھول سکتے تھے۔ لیکن یہ مذاکرات عمران خان یا اس کی حکومت کے لیے نہیں ہوئے بلکہ ملک کے قومی اداروں کے تقدس اور عزت کے لیے ہوئے۔
آپ دیکھیں کہ جس مارچ میں جارحانہ تقاریر ہو رہی تھیں۔ چوہدری برادران کی سیاسی سفارتکاری کے بعد اسی مارچ میں پاک فوج زندہ باد کے نعرہ بھی لگ گئے۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔حکومتی کمیٹی کو اس سفارتکاری سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ جب چوہدری برادران نے مولانا کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی شروع کی تو سوشل میڈیا پر ایک شور مچ گیاکہ چوہدری برادران جس معاملہ میں بھی شریک ہوئے ہیں وہ خراب ہی ہوا ہے۔
افتخار چوہدری کے معاملہ میں چوہدری شجاعت نے مفاہمت کرانے کی کوشش کی وہ ناکام ہوا۔ لال مسجد میں مفاہمت کی کوشش کی ناکام ہوئی۔ اکبر بگٹی کے معاملہ پر کوشش کی وہ بھی ناکام ہوئی۔لیکن میرے دوست معاملات کو غلط انداز میں پیش کر رہے تھے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ان تمام مواقعے پر چوہدری برادران کی سوچ اور کاوشیں درست تھیں۔ اور مشرف نے ان کی بات نہ مان کر نقصان ہی اٹھایا ہے۔
دراصل چوہدری برادران کے مشرف کے ساتھ بھی ویسے ہی تعلقات تھے جیسے آجکل ان کے عمران خان کے ساتھ ہیں۔ مشرف کے ساتھ بھی وہ حکومت میں شریک تو تھے لیکن ایک فاصلہ موجود تھا۔ مشرف بھی چوہدریوں کے مقابلہ میں ایک الگ ٹیم کو اہمیت دیتے تھے۔ مشرف کی ٹیم میں شوکت عزیز شیخ رشید اور دیگر شامل تھے۔ آج بھی صورتحال کو ئی خاص مختلف نہیں ہے۔کیا جب چوہدری برادران جنرل مشرف کو افتخار چوہدری سے مفاہمت کا مشورہ دے رہے تھے تو غلط دے رہے تھے۔
آج جو لوگ مشرف کو محاذ آرائی کا مشورہ دے رہے تھے وہ درست ثابت ہوئے ہیں یا چوہدری برادران کا موقف درست ثابت ہوا ہے۔ اگر مشرف افتخار چوہدری سے مفاہت کر لیتے تو بچ سکتے تھے۔ اسی طرح لال مسجد میں بھی مفاہمت ہی بہترین راستہ تھا۔آج کوئی بھی اس ایکشن کی تائید نہیں کرتا۔ اکبر بگٹی والے معاملے بھی دیکھ لیں۔ اس کا پاکستان کو کتنا نقصان ہوا ہے۔ میری رائے میں چوہدری برادران جس بھی حکومت کے ساتھ رہے ہیں انھوں نے اس کو درست مشورہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اب یہ اس حکمران پر منحصر ہے کہ وہ ان کی بات مانے یا مسترد کر دے۔ تا ہم وقت نے ابھی تک یہی ثابت کیا ہے کہ بات ان کی ہی ٹھیک تھی۔
آج بھی عمران خان کو ملک کے سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے لیے چوہدری برادران کی بات ماننی چاہیے۔ نواز شریف کی بیماری پر پہلے دن چوہدری شجاعت نے جو بات کی تھی آج حکومت کو وہ ماننی پڑ رہی ہے۔ اگر پہلے دن مان لیتے تو انداز بھی بہتر ہوتا اور فائدہ بھی ہوتا۔ اسی طرح مولانا کے دھرنے کا معاملہ حل کرنے کا ٹاسک بھی اگرچوہدری برادران کو دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ورنہ نقصان عمران خان کا ہی ہوگا۔ وقت نے تو یہی ثابت کیا ہے۔
بس ایک ہی امید ہے کہ مولانا آگے نہ بڑھیں اور یہیں بیٹھ بیٹھ کر تھک جائیں اورگھر چلے جائیں گے اور ہم فتح کے شادیانے بجائیں گے۔ ایسا کیسے ممکن ہے۔ جانے سے پہلے مولانا اپنی پوری قوت لگائیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان نے مولانا کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی۔ اس کی کارکردگی صفر جمع صفر رہی ہے۔ اس کمیٹی کو سیاسی مذاکرات کی الف ب کا علم نہیں تھا۔ انھیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ ایک جمہوری معاشرے میں حکومت کا ر ویہ کیسا ہوتا ہے۔
حکومتی کمیٹی کا لب و لہجہ اپوزیشن والا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا لہجہ زیادہ بہتر رہا ہے۔ رہبر کمیٹی نے سیاسی طور پر زیادہ بہتر انداز میں خود کو پیش کیا ہے۔ پرویز خٹک اور ان کے ساتھی شاید پہلے دن سے ناامید تھے اور صرف اتمام حجت کے تحت مذاکرات کر رہے تھے۔
ادھر میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری برادران کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ انھوں نے کامیابی سے خود کو سیاست کے سینٹر اسٹیج پر فٹ کیا ہے۔ ان کا انداز بھی سیاسی تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی ٹریک تو ڈپلومیسی میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ چوہدری برادران کی مولانا سے ملاقاتوں نے بہترین نتائج دیے ہیں۔
آپ دیکھیں پہلے دن جب یہ مارچ اسلام آباد پہنچا تھا تو اس کا لب و لہجہ کیا تھا۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقاریر نہیں ہو رہی تھیں۔ ایک ماحول تھا جس میں یہ تاثر بن رہا تھا کہ مولانا کا دھرنا عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ کسی اورکے خلاف ہے۔ محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی خان اسٹیج پر تھے۔ بلاول کی تقریر بھی بہت جارحا نہ تھی۔ پھر مولانا کے اپنے لہجہ میں بھی تلخیٰ موجود تھی اور اس طرح ایک تنائو پیدا ہو گیا تھا۔ یہ تنائو اور یہ ماحول پاکستان کے لیے اچھا نہیں تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہاں عمران خان اور ان کی ٹیم سے بنیادی غلطی ہوئی ہے۔ عمران خان کی ٹیم کو کم از کم مولانا سے یہ بات کرنی چاہیے تھی کہ وہ بے شک حکومت اور اس کی ٹیم پر جتنی مرضی تنقید کریں لیکن قومی اداروں پر تنقید مثبت بات نہیں ہے۔ انھیں مولانا کو قائل کرنا چاہیے تھا کہ مولانا توپوں کا رخ بے شک حکومت کی طرف رکھیں لیکن اداروں کو نشانہ نہ بنائیں۔ لیکن حکومت کی مذ اکراتی ٹیم نے سیاسی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ اور اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے بجائے اس کو انجوائے کرنا شروع کر دیا۔ یہ حکومت جس کی طاقت ہی یہ ہے کہ حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں اس موقع پر ملک کے اداروں کے دفاع میں ناکام رہی۔ حکومتی ٹیم کے پاس اتنی سیاسی اہلیت ہی نہیں تھی۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ پرویز خٹک اور ان کی ٹیم براہ راست مولانا سے بات کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھی۔ وہ رہبر کمیٹی تک پھنس کر رہ گئے تھے۔ ایسے میں صرف چوہدری برادران ہی تھے جو براہ راست مولانا کے پاس جا سکتے تھے، بات کر سکتے تھے اور مذاکرات کا راستہ کھول سکتے تھے۔ لیکن یہ مذاکرات عمران خان یا اس کی حکومت کے لیے نہیں ہوئے بلکہ ملک کے قومی اداروں کے تقدس اور عزت کے لیے ہوئے۔
آپ دیکھیں کہ جس مارچ میں جارحانہ تقاریر ہو رہی تھیں۔ چوہدری برادران کی سیاسی سفارتکاری کے بعد اسی مارچ میں پاک فوج زندہ باد کے نعرہ بھی لگ گئے۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔حکومتی کمیٹی کو اس سفارتکاری سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ جب چوہدری برادران نے مولانا کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی شروع کی تو سوشل میڈیا پر ایک شور مچ گیاکہ چوہدری برادران جس معاملہ میں بھی شریک ہوئے ہیں وہ خراب ہی ہوا ہے۔
افتخار چوہدری کے معاملہ میں چوہدری شجاعت نے مفاہمت کرانے کی کوشش کی وہ ناکام ہوا۔ لال مسجد میں مفاہمت کی کوشش کی ناکام ہوئی۔ اکبر بگٹی کے معاملہ پر کوشش کی وہ بھی ناکام ہوئی۔لیکن میرے دوست معاملات کو غلط انداز میں پیش کر رہے تھے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ان تمام مواقعے پر چوہدری برادران کی سوچ اور کاوشیں درست تھیں۔ اور مشرف نے ان کی بات نہ مان کر نقصان ہی اٹھایا ہے۔
دراصل چوہدری برادران کے مشرف کے ساتھ بھی ویسے ہی تعلقات تھے جیسے آجکل ان کے عمران خان کے ساتھ ہیں۔ مشرف کے ساتھ بھی وہ حکومت میں شریک تو تھے لیکن ایک فاصلہ موجود تھا۔ مشرف بھی چوہدریوں کے مقابلہ میں ایک الگ ٹیم کو اہمیت دیتے تھے۔ مشرف کی ٹیم میں شوکت عزیز شیخ رشید اور دیگر شامل تھے۔ آج بھی صورتحال کو ئی خاص مختلف نہیں ہے۔کیا جب چوہدری برادران جنرل مشرف کو افتخار چوہدری سے مفاہمت کا مشورہ دے رہے تھے تو غلط دے رہے تھے۔
آج جو لوگ مشرف کو محاذ آرائی کا مشورہ دے رہے تھے وہ درست ثابت ہوئے ہیں یا چوہدری برادران کا موقف درست ثابت ہوا ہے۔ اگر مشرف افتخار چوہدری سے مفاہت کر لیتے تو بچ سکتے تھے۔ اسی طرح لال مسجد میں بھی مفاہمت ہی بہترین راستہ تھا۔آج کوئی بھی اس ایکشن کی تائید نہیں کرتا۔ اکبر بگٹی والے معاملے بھی دیکھ لیں۔ اس کا پاکستان کو کتنا نقصان ہوا ہے۔ میری رائے میں چوہدری برادران جس بھی حکومت کے ساتھ رہے ہیں انھوں نے اس کو درست مشورہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اب یہ اس حکمران پر منحصر ہے کہ وہ ان کی بات مانے یا مسترد کر دے۔ تا ہم وقت نے ابھی تک یہی ثابت کیا ہے کہ بات ان کی ہی ٹھیک تھی۔
آج بھی عمران خان کو ملک کے سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے لیے چوہدری برادران کی بات ماننی چاہیے۔ نواز شریف کی بیماری پر پہلے دن چوہدری شجاعت نے جو بات کی تھی آج حکومت کو وہ ماننی پڑ رہی ہے۔ اگر پہلے دن مان لیتے تو انداز بھی بہتر ہوتا اور فائدہ بھی ہوتا۔ اسی طرح مولانا کے دھرنے کا معاملہ حل کرنے کا ٹاسک بھی اگرچوہدری برادران کو دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ورنہ نقصان عمران خان کا ہی ہوگا۔ وقت نے تو یہی ثابت کیا ہے۔