ڈپٹی اسپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کامیاب ہو گی
قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اپوزیشن جماعتوں کیلئے موجودہ حالات میں ایک ایسی ضروری وکٹ ہے۔
PESHAWAR:
اپوزیشن جماعتوں نے ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین میر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اب قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر محمد قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے۔
سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر محمد قاسم سوری کا تعلق بھی اسی صوبے سے ہے۔ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے پاس مطلوبہ اکثریت تھی لیکن عین وقت پر اپوزیشن جماعتوں کے دس سے زائد ارکان ٹوٹ گئے جبکہ اپوزیشن کے5 سے6 ووٹ مسترد بھی ہوئے اس طرح یہ تحریک ناکام ہوئی اور صادق سنجرانی بدستور چیئرمین سینٹ کے عہدے پر برقرار ہیں ۔
اپوزیشن جماعتوں کو اس حوالے سے ایک بڑا جھٹکا لگا اور اُنہوں نے اپنے اندر غداری کے مرتکب ارکان کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا بھی اعلان کیا لیکن اس پر تاحال کامیاب نہیں ہو سکیں اب جبکہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جنہیں الیکشن ٹریبونل نے جعلی ووٹوں کی بنیاد پر ڈی سیٹ کردیا تھا سپریم کورٹ سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد دوبارہ بحال ہوگئے تھے کہ اُن کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کر کے حکومت کیلئے ایک اور مشکل کھڑی کردی ہے۔
یہ تحریک عدم اعتماد ایسے وقت میں لائی گئی ہے جب اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے زیر اہتمام آزادی مارچ کے شرکاء دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور اس آزادی مارچ کو اپوزیشن جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ گو کہ حکومت اس آزادی مارچ میں اُلجھی ہوئی ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی رکن ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے حکومت کے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد اتحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کیلئے بھی ایک امتحان کی گھڑی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ سیاسی لحاظ سے اُسے بھی امتحان میں ڈال دیا گیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری2018ء کے عام انتخابات میں کوئٹہ شہر کی نشست سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور ان کے خلاف انتخابی عذر داری بی این پی مینگل کے اُمیدوار اورممتاز سیاسی شخصیت نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے داخل کرائی تھی اور جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور الیکشن ٹریبونل نے قاسم سوری کو ڈی سیٹ کیا تھا۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کو بی این پی کی بھی حمایت حاصل ہے اور تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کی وہ ایک اتحادی جماعت ہے جبکہ بی این پی نے وزیراعظم عمران خان کی حمایت کیلئے 6 نکات پر ایک معاہدہ بھی کر رکھا ہے جس کیلئے وقتاً فوقتاً پارٹی کے سربراہ اختر جان مینگل اور دیگر ارکان آواز بھی بلند کرتے رہے ہیں۔
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں بی این پی نے اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں نے خفیہ رائے شماری میں بی این پی کے واحد رکن کے ووٹ پر بھی اپنے ''تحفظات اور خدشات'' ظاہر کئے تھے لیکن ان کے واحد سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے اُن کے ان خدشات اور تحفظات و مسترد کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اُنہوں نے پارٹی فیصلے کے مطابق اپنا ووٹ دیا؟۔
اب جبکہ قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا معاملہ آیا ہے تو بی این پی مینگل کیلئے ایک کڑا امتحان آگیا ہے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو ڈی سیٹ کرانے میں بی این پی کے حاجی لشکری رئیسانی پیش پیش رہے ہیں۔ پارٹی اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتی ہے آیا وہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرتی ہے، نیوٹرل رہتی ہے یا پھر اتحادی جماعت ہونے کے ناطے تحریک کو سپورٹ کرتی ہے؟
کیونکہ تحریک انصاف کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی کوئٹہ میں میں ایک میڈیا ٹاک کے دوران بی این پی کی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہونے کے ناطے اس تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں ساتھ دے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اپوزیشن جماعتوں کیلئے موجودہ حالات میں ایک ایسی ضروری وکٹ ہے جسے وہ حاصل کر لے تو عمران خان کی حکومت کیلئے بڑا خطرہ بن سکتی ہے اس لئے یہ وکٹ حاصل کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھرپور زور لگائیں گی۔
اپوزیشن جماعتوں نے ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین میر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اب قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر محمد قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے۔
سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر محمد قاسم سوری کا تعلق بھی اسی صوبے سے ہے۔ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے پاس مطلوبہ اکثریت تھی لیکن عین وقت پر اپوزیشن جماعتوں کے دس سے زائد ارکان ٹوٹ گئے جبکہ اپوزیشن کے5 سے6 ووٹ مسترد بھی ہوئے اس طرح یہ تحریک ناکام ہوئی اور صادق سنجرانی بدستور چیئرمین سینٹ کے عہدے پر برقرار ہیں ۔
اپوزیشن جماعتوں کو اس حوالے سے ایک بڑا جھٹکا لگا اور اُنہوں نے اپنے اندر غداری کے مرتکب ارکان کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا بھی اعلان کیا لیکن اس پر تاحال کامیاب نہیں ہو سکیں اب جبکہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جنہیں الیکشن ٹریبونل نے جعلی ووٹوں کی بنیاد پر ڈی سیٹ کردیا تھا سپریم کورٹ سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد دوبارہ بحال ہوگئے تھے کہ اُن کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کر کے حکومت کیلئے ایک اور مشکل کھڑی کردی ہے۔
یہ تحریک عدم اعتماد ایسے وقت میں لائی گئی ہے جب اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے زیر اہتمام آزادی مارچ کے شرکاء دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور اس آزادی مارچ کو اپوزیشن جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ گو کہ حکومت اس آزادی مارچ میں اُلجھی ہوئی ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی رکن ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے حکومت کے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد اتحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کیلئے بھی ایک امتحان کی گھڑی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ سیاسی لحاظ سے اُسے بھی امتحان میں ڈال دیا گیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری2018ء کے عام انتخابات میں کوئٹہ شہر کی نشست سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور ان کے خلاف انتخابی عذر داری بی این پی مینگل کے اُمیدوار اورممتاز سیاسی شخصیت نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے داخل کرائی تھی اور جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور الیکشن ٹریبونل نے قاسم سوری کو ڈی سیٹ کیا تھا۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کو بی این پی کی بھی حمایت حاصل ہے اور تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کی وہ ایک اتحادی جماعت ہے جبکہ بی این پی نے وزیراعظم عمران خان کی حمایت کیلئے 6 نکات پر ایک معاہدہ بھی کر رکھا ہے جس کیلئے وقتاً فوقتاً پارٹی کے سربراہ اختر جان مینگل اور دیگر ارکان آواز بھی بلند کرتے رہے ہیں۔
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں بی این پی نے اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں نے خفیہ رائے شماری میں بی این پی کے واحد رکن کے ووٹ پر بھی اپنے ''تحفظات اور خدشات'' ظاہر کئے تھے لیکن ان کے واحد سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے اُن کے ان خدشات اور تحفظات و مسترد کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اُنہوں نے پارٹی فیصلے کے مطابق اپنا ووٹ دیا؟۔
اب جبکہ قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا معاملہ آیا ہے تو بی این پی مینگل کیلئے ایک کڑا امتحان آگیا ہے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو ڈی سیٹ کرانے میں بی این پی کے حاجی لشکری رئیسانی پیش پیش رہے ہیں۔ پارٹی اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتی ہے آیا وہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرتی ہے، نیوٹرل رہتی ہے یا پھر اتحادی جماعت ہونے کے ناطے تحریک کو سپورٹ کرتی ہے؟
کیونکہ تحریک انصاف کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی کوئٹہ میں میں ایک میڈیا ٹاک کے دوران بی این پی کی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہونے کے ناطے اس تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں ساتھ دے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اپوزیشن جماعتوں کیلئے موجودہ حالات میں ایک ایسی ضروری وکٹ ہے جسے وہ حاصل کر لے تو عمران خان کی حکومت کیلئے بڑا خطرہ بن سکتی ہے اس لئے یہ وکٹ حاصل کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھرپور زور لگائیں گی۔