بجلی کی قیمت متعین کرنے کیلیے عوام کی رائے لی جائےسپریم کورٹ

نیپرا نے قیمتوں کا تعین کرتے وقت عوامی سماعت نہیں کی بلکہ حکومت نے نوٹیفکیشن جا ری کرا دیا،ریمارکس

عام آدمی پوچھتا ہے بجلی ملتی نہیں اور قیمتوں میں اضافہ کیا جاتاہے تو اس کا کیا جواز ہے؟چیف جسٹس۔فوٹو: فائل

لاہور:
سپریم کورٹ نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے متعلق چیئرمین نیپرا کا موقف مسترد کرتے ہوئے نیپرا سے ٹیرف طے کرنے کے طریق کار اور عوامی سماعت کے بارے میں مکمل تفصیلات طلب کر لیں۔

جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عام آدمی پوچھتا ہے بجلی ملتی نہیں اور قیمتوں میں اضافہ کیا جاتاہے تو اس کا کیا جواز ہے؟ نیپرا نے آج تک عوام کو قیمتوں میں اضافہ کے عمل میں شریک نہیں کیا، عوام کوپتہ ہی نہیں ہوتا اور نوٹیفکیشن جاری ہوجاتے ہیں، نیپرا حکومت یا کسی اور کی وکیل نہیں بلکہ ایک آزاد ادارہ ہے جس نے حکومت یا کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ عوامی سماعت کر کے بجلی کی قیمتوں کو طے کر نا ہو تا ہے۔

نیپرا نے اعتراف کیا کہ نوٹیفکیشن حکومت کے کہنے پر جاری ہوتے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے چیئرمین نیپرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ آج عدالت کو بتائیں کہ بجلی کا ٹیرف طے کرنے کے حوالے سے عوامی سماعت کے موقع پر کتنی درخواستوں کو زیر غور لایا گیا، کتنی عوامی درخواستوں کا اندراج کیا گیا اور فیول پرائس کی کس طرح ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا نیپرا حکومت یا کسی اور کی وکیل نہیں بلکہ ایک آزاد ادارہ ہے جس نے حکومت یا کسی اور کے کہنے پر نہیں بلکہ عوامی سماعت کر کے بجلی کی قیمتوں کو طے کرنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیپرا نے اب بھی قیمتوں کا تعین کرتے وقت عوامی سماعت نہیں کی بلکہ حکومت نے نیپرا سے نئے اضافی نر خ کا نوٹیفکیشن جا ری کروا دیا اور عوام کو اس بات کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا یہاں خالی خوشامدی لوگ نہیں ہو نے چاہئیں بلکہ اس طرح کے اقدامات کریں کہ لوگوں کو ملکیت کا احساس اور اپنے ملک کے مسائل کا پتہ ہو۔ چیئرمین نیپرا خواجہ نعیم نے بتایا کہ لوگ اب نیپرا کی عوامی سماعت کے موقع پر نہیں آتے بلکہ لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔




انہوں نے بتایا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے پہلا نو ٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے اور11 اکتوبر کو نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ خواجہ نعیم نے بتایا کہ 2012 میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے لاھور میں لیسکو کے لیے عوامی سماعت کی گئی جس میں لیسکو کا ٹیرف دینا تھااس کے لیے درخواستیں بھی آئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست تو عیسیٰ خیل کی ایک تنظیم نے دی تھی،ایک بات تو طے ہے کہ جب آپ نے ٹیرف کا تعین کیا تھا تو اس وقت نہ تو درخواستیں آئیں اور نہ ہی عوامی سماعت کی گئی۔

چیف جسٹس نے چیئر مین نیپرا سے سوال کیا آپ نے اب کس طرح قیمت بڑھائی؟ آپ کے پاس اب کونسا فریق آیا تھا؟ اس کے جواب میں چیئرمین نیپرا نے کہا کہ ہمیں حکومت پاکستان نے قیمت بڑھانے کے لیے درخواست دی تھی۔ ہم ایک سال کے لیے بجلی کی قیمت طے کرتے ہیں اور پھر سارا سال فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کر تے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن فیول کی قیمتیں کم بھی تو ہوتی ہیںکیا اپ بجلی کی قیمتوں کو کم بھی کر تے ہیں؟ چیئرمین نیپرا نے کہا کہ ہم فیول کی قیمتوں کو دیکھ کر نظرثانی کر تے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے لاہور میں عوامی سماعت کے لیے جو نوٹس دیا ہے یہ تو سماعت کا نہیں بلکہ سول نافرمانی کا نوٹس ہے۔ یہ کونسی سماعت کر رہے تھے ،آپ نے تو باقاعدہ لوگوں کومطلع کر کے فیصلہ دینا ہوتا ہے۔ جب عدالت نے نمونے کے طور پربجلی کا بل طلب کیا تو کمرہ عدالت میں ایک شہری ناصر اقبال نے اپنے گھر کا بجلی کا بل عدالت میں پیش کیا جس کا چیف جسٹس نے جائزہ لیا تو چیئرمین نیپرا نے کہا کہ یہ بل درست نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس کا بل ہے لو اس کا کام تو بن گیا۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عام لوگ تو بجلی کا بل پڑھ کر سمجھ ہی نہیں سکتے کہ بجلی کی قیمتوں کے تعین میں کون کون سے ٹیکس لگائے گئے ہیں، بجلی کی قیمتوں کے تعین میں عوام کو لازمی شامل کیا جائے، عام لوگ تو بجلی کا بل پڑھ کر سمجھ ہی نہیں سکتے ہیں کہ بل میں کون کون سے ٹیکس لگائے گئے ہیں، حالیہ قیمتوں میں اضافے میں عوام کی رائے شامل نہیں۔ کیس کی مزید سماعت آج ہوگی۔
Load Next Story