عوام اپنے مسائل پر سراپا احتجاج

ایتھوپیا کے عوام نے مہنگائی ، بیروزگاری اور بد امنی کے خلاف پر ہجوم اور قابل ذکر ریلیاں نکالیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

امریکا ، یورپ ، افریقہ اور ایشیا بھر میں مہنگائی ، بیروزگاری ، بد امنی ، مزدوروں ، کسانوں کے مسائل اور معاشی بحران کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں۔ یہ لڑائی فرانس سے ہانگ کانگ اور لبنان سے بھارت تک پھیل گئی ہے۔

ہندوستان کی کانگریس نے فیصلہ کیا ہے کہ پانچ نومبر سے پندرہ نومبر تک نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج پروگرام چلایا جائے گا۔ معاشی بحران ، بیروزگاری ، کسانوں کی پریشانیاں اور مجوزہ آر سی ای سی معاہدے کے منفی اثرات پر خصوصی مرکزیت کے توجہ ہوں گے۔

کانگریس کے جنرل سیکریٹری تنظیمی کے سی وینو گوپال نے اپنے بیان میں کہا کہ بی جے پی حکومت کی ناقص حکمرانی کے خلاف احتجاجی مظاہرے تمام ریاستی دارالحکومتوں اور ضلع سطح پر منعقد کیے جائیں گے۔ احتجاجی مظاہروں کا اہتمام قومی دارالحکومت میں نومبر کے آخری ہفتے میں ایک پر ہجوم پروگرام کے ذریعے ہو گا۔ ویسے تو کشمیر کے مسئلے پر انڈین کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ نے لاکھوں کے مظاہرے اور احتجاج کیا اورکر رہے ہیں۔

ادھر ایتھوپیا کے عوام نے مہنگائی ، بیروزگاری اور بد امنی کے خلاف پر ہجوم اور قابل ذکر ریلیاں نکالیں۔ مصر میں بیروزگاری بڑھ کر بارہ فیصد پر جا پہنچی ہے۔ وہاں کے عوام بھی بیروزگاری کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئے، جب کہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جب مصر کے فوجی آمر السیسی امریکا پہنچے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں پسندیدہ آمر قرار دیا۔

سوڈانی عوام دہائیوں سے جنرل حسن البشیر کی آمرانہ رجعتی حکمرانی سے اکتا چکے ہیں، مگر جب عوام سڑکوں پہ نکل آئے تو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا جس کی حمایت بدستور چین کی جانب سے جاری ہے۔ بے شمار انسانی جانوں کی قربانی دے کر اب جا کر سول عبوری حکومت کی تشکیل دی گئی ہے۔ اس سے قبل مالی کے فوجی آمر کو عوام نے مار بھگایا اور اب وہاں بھی سول عبوری حکومت انتخابات کروانے جا رہی ہے۔

صومالیہ میں بھی فوجی رجعتی انتہا پسند حکومت اقتدار پر قابض تھی اب وہاں سول عبوری حکومت قائم ہوئی۔ لیکن یہ حکومت افغانستان کی طرح غیر مستحکم ہے، اکثر دہشتگرد الشباب خودکش اور دہشتگرد حملے کرتی ہیں۔ الجزائر میں دہائیوں سے فوجی آمر اقتدار پر قابض ہیں لیکن وہاں بھی عوام بڑی بہادری اور جرأت مندی سے سول حکومت کے قیام اور فوجی جنرلوں کی اقتدار سے دست برداری کا مطالبہ اپنی احتجاجی ریلیوں کے ذریعے کر رہے ہیں۔


جنوبی امریکا کے ملک ایکواڈور میں حکمرانوں کی جانب سے آئی ایم ایف سے عوام دشمن معاہدہ کرنے کے خلاف عوام کا جم غفیر سڑکوں پر نکل آیا اور اس نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کو منسوخ کروایا۔ چلی میں دس لاکھ افراد کا مظاہرہ کر کے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ میٹرو ٹرین کے کرایوں میں اضافے کو واپس لے، آخرکار انھیں واپس لینا پڑا۔

فرانس نے تو مثال قائم کر دی۔ اٹھارہ نومبر دو ہزار اٹھارہ سے ہر ہفتے ریلی نکال کر حکمرانوں کو کئی مطالبات ماننے پر مجبور کیا۔ ان کے مظاہرے مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف ہیں ، وہ صدر میکرون کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور غیر ملکوں سے فرانس کی فوج کی واپسی اور نیٹو سے فرانس کی علیحدگی بھی شامل ہے۔

گزشتہ ماہ سعودی عرب کا ایک پانی کا جہاز فرانس سے اسلحہ لینے آیا تھا، اسے پیلی جیکٹ تحریک نے پتھراؤ کر کے اسلحے کی لوڈنگ نہیں کرنے دی، ان کا کہنا تھا کہ سعودی جہاز ان اسلحوں سے یمنیوں کا قتل کرے گا۔ فرانس کی پارلیمنٹ کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن نے یہ تصدیق کی کہ جہاز خالی واپس گیا۔ پیلی جیکٹ تحریک کی خاصیت ہے کہ ان کا کوئی لیڈر ہے اور نہ کوئی جماعت، یہ انارکسٹ ہیں۔ اکثر باکونن کی تصویر لیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسپین کا صوبہ کیٹالونیہ کے عوام نے لاکھوں کی ریلی نکالی اور مکمل فوری آزادی کا مطالبہ کیا۔

کیٹالونیہ کے عوام قوم پرست ہیں اور نہ علیحدگی پسند بلکہ یہ انارکسٹ ہیں اور اسٹیٹ لیس سوسائٹی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انارکوکمیونزم کے نظریے کو دبانے اور کیٹالونیہ کو آزادی سے روکنے کے خلاف اسپین کے حکمران انھیں قوم پرست اور علیحدگی پسندی کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ عراق میں بھی مہنگائی، بیروزگاری اور بدامنی کے خلاف لاکھوں عوام سڑکوں پہ نکل آئے۔ گزشتہ ماہ ڈھائی سو افراد ہلاک ہوئے اور دس ہزار زخمی ہوئے جب کہ گزشتہ ہفتے پانچ افراد کی ہلاکت ہوئی اور ڈھائی سو مارے گئے۔ اس تحریک کا بھی کوئی لیڈر نہیں اور نہ کوئی پارٹی۔

ہانگ کانگ نے تو اپنے جمہوری مطالبات پر قائم رہتے ہوئے حکومت کو برملا بتا دیا کہ عوام اپنی آزادی سلب نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں اوپو کمپنی پر دھاوا بول دیا۔ لبنان میں بھی بدامنی، مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف لاکھوں کا جلوس سڑکوں پر امنڈ آیا اور وزیر اعظم سعدالحریری استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔ استعفیٰ دینے کے بعد بھی مظاہرین نے بیروزگاری کے مسئلے پر مظاہرے جاری رکھا ہوئے ہیں۔ پاکستان میں پیشہ ورانہ اور طبقاتی گروہ اپنے مسائل کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان میں بہت سے مطالبات منوائے بھی ہیں، جیسا کہ پورٹ قاسم کے مزدوروں نے پانچ ماہ کی مسلسل ہڑتال اور دھرنوں کے ذریعے اپنے مطالبات منوائے، نرسوں نے بھی مسلسل جدوجہد کی، ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں، تشدد کیا گیا لیکن آخر کار اپنے مطالبات منوا لیے۔ اساتذہ نے بھی جرأت مندانہ جدوجہد کر کے اپنے مطالبات منوائے، تاجروں نے بھی کئی دن ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کر کے اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا اور حکومت نے مطالبات مان لیے۔ پیمرا کی پابندیوں کے خلاف صحافیوں کے احتجاج کرنے پر پیمرا نے اپنا نوٹس واپس لے لیا۔ پی ایم ڈی سی نے بھی شدید احتجاج کرنے پر ان کے مطالبات مان لیے مگر ابھی پی ایم ڈی اور جونیئر ڈاکٹرز ملک گیر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان پر ڈنڈے برسا کر انھیں زخمی بھی کیا گیا۔ اب پاکستان کی حزب اختلاف اور حزب اقتدار آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ یہی مولانا فضل الرحمن اور بینظیر بھٹو نے امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں نصیر اللہ بابر کی کمانڈ میں جے یو آئی کے مدارس سے طلبا (طالبان) کو افغانستان کی سامراج مخالف سوشلسٹ حکومت جس نے سامراجی معاہدات کا خاتمہ کیا تھا، جاگیرداری کا خاتمہ کیا تھا، بردہ فروشی کو ممنوع قرار دیا تھا، تیس جریپ سے زیادہ زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دی تھی۔ اس عوام دوست انقلابی حکومت کو پاکستان کی سرزمین سے مداخلت کر کے سامراج نواز حکومت قائم کی تھی۔ آج یہی مولانا عوام کی فلاح اور جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑنے نکلے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ ماضی کے جرم کو تسلیم کر کے عوام سے معافی مانگیں۔ انھوں نے خود کہا تھا کہ میں نے ریاست کے کہنے پر یہ سب کچھ کیا تھا اور اب کہہ رہے ہیں کہ ادارے غیر جانبدار رہیں ورنہ ہم چڑھ دوڑیں گے۔ کل انھی سے طالبان کو تربیت دلوا کر سامراج کی خدمت کی تھی اور آج مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ افواہ یہ ہے کہ اوپر کے ادارے میں دھڑے بندی کی وجہ سے عوام کو دھوکہ دے کر اقتدار میں رہنے کے لیے کوئی ناموس رسالت اور کوئی ریاست مدینہ کے کارڈ کو استعمال کر رہا ہے۔ جب کہ اس وقت سعودی عرب میں بارہ اعشاریہ دو پانچ فیصد بیروزگاری ہے اور عوام کو احتجاج سے روکا جا رہا ہے۔

اس وقت عوام کا واحد مسئلہ مہنگائی ہے اس پر تمام جماعتیں، عوام، شہری اور پیداواری قوتیں ملک گیر ہڑتال اور احتجاج کریں۔ اس احتجاج کو عراق اور فرانس کی طرح لیڈر لیس اور جماعت لیس ہونے کی ضرورت ہے تب جا کرکامیابی سے ہمکنار ہو گی ورنہ یہ صرف اقتدارکی چھینا جھپٹی ہے۔ اگر حزب اختلاف مہنگائی کو بنیاد بنا کر ملک گیر ہڑتال کی کال دیں تو یہ تحریک موثر ہو سکتی ہے۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی ممکن ہے۔
Load Next Story