مورموت اورماحولیات
متعلقہ محکموں کی وضاحتیں مسئلہ کی شدت میں اضافہ کر رہی ہیں
NEW DEHLI:
میرے پیدا ہونے پر
میری ماں نے ایک گیت گایا تھا
''مور تھو ٹِلّے رانا۔۔۔مور تھو ٹلے''
یہ گیت،ایک گیت نہیں
ایک دعا ہے،
اس گیت میں بیٹے کو مور سے تشبیہ دی گئی ہے
دعا اورمور
ایک گیت کی شکل میں
زندگی بھر
ہمارے آس پاس گھومتے رہتے ہیں،
اس گیت کے بِنا ہمارے خطے میں
کسی نے جنم نہیں لیا،
اس سال،
ہماری مائوں نے، ہمیشہ کی طرح
اپنے موروں کا جنم دن منایا
ہماری مائیں بیٹوں کو مور کہتے ہوئے،
رو رہی تھیں۔ (مصطفی ارباب)
مائوں کی آنکھیں نم ہیں اور لوگوں کی زبانیں گُنگ۔صحرا میں ، مرنے والے مور کا بھی پُرسا دیا جاتا ہے۔اس بار وہ آفت ہے کہ پُرسا دینے والے خود مَاتم کُناںہیں۔تھر کے خوبصورت اور ہندوئوں کے متبّرک ترین پرندے پر عرصئہ حیات تنگ ہے۔مور آج بھی جنگل میں ناچ رہے ہیں۔مگر آج یہ موت کا رقص ہے۔وہ اپنے بدنما پیر دیکھے بغیر،منہ سے جھاگ اُڑاتے اپنے ہی پیروںپر گرکے دم دے رہے ہیں،جان ہار رہے ہیں۔اُن کے مرنے کی خبر شاید خبر نہیں ہے یا اس خبر میں اثر نہیں۔یہی وجہ ہے کہ نظر انداز کیے گئے ،بچھڑے ہوئے صحرائی باشندے جو بغیر کسی جی ڈی پی کے زندگی گزارنے کے عادی ہیں اُن کے اس کرب کو محسوس کرنے والا انھیں دلاسا دینے والا، اُن سے پرسا کرنے والا کوئی نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق تھر میں 70ہزار سے زائد مور پائے جاتے ہیں۔ ''واشنگٹن پوسٹ'' 10،اگست کو لکھتاہے کہ تھر کے مور پراسرار طور پر نہایت تیزی سے ہلاک ہوتے جا رہے ہیں۔ موروں کی اس طرح سینکڑوںکی تعداد میں کسی نامعلوم وجہ سے ہلاکت ایک ایسا المیہ ہے ماضی قریب میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔تھر سے یہ مرض پھیلتا ہوا آس پاس کے علاقوں میں بھی پہنچ گیا ہے۔گزشتہ دنوں سانگھڑ سے بھی موروں کی ہلاکتوں کی خبریں آئی ہیں۔متعلقہ اداروں اور حکومتی اہل کاروں کی بے بسی،غفلت اورتجاہلِ عارفانہ تو ہمیشہ مثالی رہا ہی ہے۔
لیکن تھرکی رکھوالی کے دعوے داروںاور جنگلی حیات کو تحفظ دینے والی این جی اوزکی توجہ بھی اس جانب ملتفت نہ ہو سکی۔ یہ صرف مقامی افراد اور اُن کے بچّے ہی ہیں جو موروں کی چاہ میں چھوت چھات کی بھی پروا کیے بنا انھیں گود میں لیے ادھر اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں، کبھی اسپرین پانی میں گھول کے پلاتے ہیں تو کبھی کوئی ٹوٹکا کرتے ہیں ۔ شایدکسی طرح موروںکو بچایا جا سکے۔لیکن موت کے پنجے موروں کو مسلتے ،کچلتے چلے جا رہے ہیں۔
متعلقہ محکموں کی وضاحتیں مسئلہ کی شدت میں اضافہ کر رہی ہیں، معاملہ نایاب جنگلی حیات کی بقا اور مستقل افزائش کا ہے، وائلڈ لائف کے چھاپے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بااثرسمگلر اور شخصیات کی کاروباری ذہنیت کے باعث جنگلی حیات کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ موروں کو اگر بربادی اور تباہی کا سامنا ہے توٹھوس احتیاطی اور طبی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کے علاج اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ قدرت کی حسین تخلیق ہیں ان کی بقا نوع انسانیت کی اجتماعی ذمے داری ہے۔مقامی افراد نے اپنے ہی طور پر اس مرض کو ''رانی کھیت'' کا نام دے دیا ہے۔کچھ لوگ اسے newcastle disease کے نام سے یاد کر رہے ہیں۔خبروں کے تجزیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مرض بھارت سے پاکستان منتقل ہوا۔اوائل جولائی میںموروں کی ہلاکتوں سے متعلق ابتدائی خبریں بھارت کے سرحدی علاقوں سے آئی تھیں۔
بعض مبصر اس کا سبب کیمیائی، جراثیمی یا حیاتیاتی تجربات میں تلاش کر رہے ہیں۔ایک نقطہ نظر اس طرح کے مسائل کو ماحولیات کے تناظر میں دیکھنے کا بھی ہے۔صنعتی اور سائنسی ترقی کے نتیجے میں زمین کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ماحولیات تباہی سے دوچار ہے۔آلودگی نے پودوں اور جانوروںاور خود زمین کا سانس لینا دشوار کر دیا ہے۔ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بالکل ساتھ ہی دو بڑے ایسے دیو ہیں کہ جنھوں نے آلودگی اُگل اُگل کر خود اپنا اور پوری دنیا کا ماحول زہر آلود کر دیا ہے۔جنگلی حیات کا تو کہنا ہی کیا عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ ہے کہ چین میں آلودگی کے باعث ہر برس 656,000 شہری ہلاک ہوئے۔
یہ اُن 95600 افراد کے علاوہ ہیں جو آلودہ پانی پینے کے باعث ہلاک ہوئے۔ yaleاورcolumbia یونی ورسٹیز نے ماحولیات کے بارے میں اپنی تازہ ترین رپورٹ میںبتایا ہے کہ صنعتی ترقی کے بعد بھارت کی ہوا دنیا کی سب سے زیادہ زہریلی ہوا ہوگئی ہے۔چین اور بھارت علی الترتیب دنیا میں پہلے اور تیسرے سب سے بڑے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ممالک ہیں۔
مور کی زندگی میںمسرت و شادمانی کا پیغام چھپا ہوتاہے، تھرکا موردیوانہ وار اپنی جان دے کر دنیا کو بچانے کا پیغام دے رہا ہے۔خدشہ ہے کہ کہیں صحرائی پرندے کی قربانی کا حال بھی صدا بہ صحرا کا سا نہ ہو۔