میرے بھی دام لگائے جائیں
یہ جو خوان نعمت سجا ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس سے سیر ہونے والوں میں صحافت کے اس خوشہ چیں کا نام نامی نہ ہو۔
میری چھٹی حس بتا رہی ہے کہ میں عنقریب بہت امیر ہوجانے والا ہوں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میرے پاس کوئی گیدڑ سنگھی موجود ہے یا کوئی چراغ ہے جس پر میں اپنا دست شفقت پھیروں گا اور ایک بھوت نکل کے حاضر ہوجائے گا۔ جھٹ پٹ میری خواہش دریافت کرے گا اور کھٹا کھٹ 300کنال میں میری کوٹھی کھڑی کردے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔میری یہ ساری امیدیں اپوزیشن لیڈر کے اس انکشاف سے وابستہ ہیں جس میں انھوں نے اشارہ دیا ہے کہ خوش حالی میرے بھائی بندوں کے در پہ دستک دے چکی ہے اور اربوں روپے میڈیا میں بانٹے جا رہے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ ان کے پاس جو ثبوت ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔ کچھ ہے بھی یا یونہی ہوا میں تیر چلایا ہے۔ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ بظاہر انھوں نے سبھی کو لپیٹے میں لے لیا ہے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے یہ ایک معزز پیشہ ہے۔ بے نام بدنامی کس لیے اس میں اگر کچھ کالی بھیڑیں ہیں تو ان کا نام لیا جائے۔ بکائوکوٹھے ہیں تو نشان دہی کی جائے۔ جناب تھوڑا دھیان رکھیں۔ لوگوں کو دشنام اور دھتکارکا ٹارگٹ صاف صاف دکھائی نہ دیا تو ان کا رخ پلٹ کے آپ کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ قتل نامے جیب میں لیے پھرنے سے کچھ نہیں ہوتا ان پر لکھی تحریر بھی سامنے لائیں۔
باقی رہی بات ادھر سے ادھر جانے کی تو عرض ہے کہ ترقی کے لیے ملازمت کا ادارہ تبدیل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ ہاں جہاں لکھنے والے کی قلم کی دھار بھی بدل جائے اور قبلہ بھی بدل جائے وہاں سوال ضرور اٹھے گا۔ اخبارات کے قارئین اور ٹی وی کے ناظرین بہت ہوشیارہیں وہ اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں۔ کوئی کس طرح بکا ، کہاں کہاں بکا، کیسے کیسے بکا اور کون کون بکا؟ اس سوال کا جواب انھیں اگلے کچھ دنوں میں ادھر ادھر دیکھنے سے خود ہی مل جائے گا۔ کتنے میں بکا ہوگا اس کا اندازہ بھی وہ بخوبی لگالیں گے۔ بھرے پرے گلشن کا کاروبار چھوڑ کے انجان راہوں کی طرف کوئی یونہی نہیں چل دیتا۔
ایسا کام اس وقت ہوتا ہے جب ترغیب کا حجم بہت بڑا ہوا۔ کتنا بڑا؟ اس کے بارے میں قائد حزب اختلاف سے پوچھیے۔اور اب ان پندونصاح کے بعد آمدم برسر مطلب۔ اگر قائد حزب اختلاف کی بات درست ہے۔ ان کے ثبوت درست ہیں۔ اور ابھی انویسٹ کیے جانے کے لیے خاصا مال باقی ہے تو قبلہ میں نے کیا قصور کیا ہے؟ میں بھی دور حاضر کے چلن اور تمام تر بشری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا موڈ بدلتا ہوں۔ میں نے کالم کے شروع میں امیر ہوجانے کی جو امید ظاہر کی تھی وہ بلاوجہ نہیں ہے میں بہت دیر سے اور بہت دور سے اس خزانے کی بو سونگھ رہا ہوں۔
یہ جو خوان نعمت سجا ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس سے سیر ہونے والوں میں صحافت کے اس خوشہ چیں کا نام نامی نہ ہو۔ یہ موسم جو حسیں ہے تو کس لیے؟ یہ ہوائیں جو چلتی ہیں، بجلیاں جو کڑکتی ہیں ، تہمتیں جو برستی ہیں، خواہش جو ترستی ہیں، لیڈر جو گرجتے ہیں، گیدڑ جو بھبھگتے ہیں، الزامات جو پھڑکتے ہیں، عوام جو لرزتے ہیں، خواص جو بدکتے ہیں، سنار جو کچلتے ہیں، لوہار جو دہکتے ہیں، ترکھان جو کھڑکتے ہیں، دہقان جو بہلتے ہیں، امیر جو مچلتے ہیں، فقیرجو سسکتے ہیں، حقیر جو لٹکتے ہیں، سفیر جو مہکتے ہیں، تو یہ سب کس بات کی خبر دیتے ہیں؟ یہ مژدہ سناتے ہیں کہ میرے دن پھرنے والے ہیں۔
اپنے منہ میاں مٹھو بننا کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن کیا کروں حقیقت تو بتانا ہی پڑتی ہے لہٰذا عرض ہے کہ اس دور میں اور اس فیلڈ میں مجھ جیسے موم کی ناک والے کم ہی ہوں گے۔ آپ جیسے چاہیں میری خدمات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کسی بھی موضوع کی مواقفیت یا مخالفت میں انتہائی مدلل گفتگو کرنا میرے بائیں جبڑے کا کام ہے۔ دوسروں کے نام سے کالم لکھنے میں بھی مجھے کمال حاصل ہے۔ نرخ بھی زیادہ نہیں اور ورائٹی بھی بہت ہے۔ مثلاً سیاسی قد و قامت بڑھانے والے کالم، غیر ملکی دوروں کے دعوت نامے لانے والے کالم، ہلال پاکستان دلانے والے کالم، کاروبار میں برکت ڈالنے والے کالم، کالموں میں برکت ڈالنے والے کالم وغیرہ وغیرہ۔ آپ بات تو کرکے دیکھیں۔
میں یقیناً امیدوں پر پورا اتروں گا کیوں کہ میں انھی کالی بھیڑوں میں سے ایک ہوں جن کی تلاش میں اربوں روپے مارے مارے پھررہے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جس میں اخلاق کے سب معیار نئے سرے سے تخلیق ہورہے ہیں اور زندگی کو ایک نرالے ڈھنگ سے بسر کرنے کے آداب سکھائے جارہے ہیں۔ میں عمر بھر جن اصولوں کی مالا جپتا رہا وہ جانے کیا تھے۔ آج میں بھی برائے فروخت ، میرے آدرش بھی برائے فروخت، بس اپوزیشن لیڈر اور خطیر سی رقم کا انتظار ہے۔
آخر میں ایک گزارش میرے ناچیز قارئین مجھ سے کسی بھی فون نمبر پر کسی بھی دن اور کسی بھی وقت رابطہ کرسکتے ہیں۔ ہاں البتہ اگر کسی روز رابطہ نہ ہوسکے تو پھر سمجھ جائیں کہ میں کسی اہم سازش میں مصروف ہوں۔ ایسی صورت میں اگلے دور حکومت میں رابطہ کریں۔