عوامی مسائل کا حل

اگر نو آباد کار اپنے ملک واپس چلا گیا تو ملک کے عوام پھر پہلے کی سی پسماندگی اور جہالت کا شکار ہوجائیں گے

آفتاب احمد خانزادہ

کانٹ کہتا ہے '' تو آئیے ہم ذہن کو ایک ایسا سفید کاغذ فرض کرتے ہیں جو تمام خصوصیات سے خالی ہے اور جو کسی بھی تصورات کے بغیر ہے یہ سازوسامان سے کس طرح آراستہ ہوتا ہے وہ وسیع مواد کہاں سے آتا ہے جو انسان کا مصروف اور لا محدود تخیل اس پر غیر محدود تنو ع سے نقش کرتاہے، عقل وعلم کا تمام مواد کہاں سے آتا ہے میں اس کا جواب ایک لفظ میں یہ دیتا ہوں تجربہ سے ۔ تجربہ ہی ہمارے تمام علم کی اساس بنتا ہے اور علم بالآخر اسی سے اخذ ہوتا ہے ۔'' افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک کے عوام نے کچھ ایسے تجربات حاصل کیے ہیں جو امریکا اور یورپ کے لوگوں نے نہیں کیے یہ تجربات نوآبادیت کے دور سے گزرنے کے تجربات ہیں کئی افریقی اور ایشیائی ممالک یورپی نوآبادیت کے تسلط میں جکڑے رہے ہیں۔

1954 میں الجزائر کے عوام نے فرانسیسی نوآبادکاروں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی جب مسلح جدوجہد عروج پرتھی تو ماہرطب نفسی فنان جو ایک اسپتال میں کام کرتے تھے انھوں نے ایک طرف تو ان ذہنی مریضوں کی نفسیات سمجھنے کی کوشش کی جو ان کے پاس آتے تھے دوسر ی طرف انھوں نے الجزائر کے عوام کی جدوجہد کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس کا تجز یہ کیا۔ فنان نے اپنے نظریات کو دو اہم اور مشہورکتابوں میں پیش کیا ان کے نام ہیں (۱) Black skin white Mask (۲) Wretched of the Earth، فنان نے کہا کہ نو آباد کار اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے طاقت اور تشدد کا استعمال کرتا ہے اس کے علاوہ وہ کچھ نفسیاتی ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا ہے۔

نو آباد کار نو آبادی کے باشندوں پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ بڑے جاہل ، وحشی،جنگلی اور غیرمہذب ہیں اور ان کا ملک بہت پسماند ہ ہے اور نو آباد کار اس ملک کے باشندوں کو پسماندگی اور جہالت سے نکالنے اور تہذیب یافتہ بنانے کے لیے آیا ہے، نو آباد کار کا اصلی مقصد نو آبادی کے خام مال اور ذخا ئر کو لوٹنا ہوتا ہے اس کے علاوہ نو آباد کار ملک کی تاریخ پر تحقیقات کرکے یہ ''ثابت '' کرتے ہیں کہ اس ملک کے حالات کئی صدیوں سے بہت خراب تھے وہاں نہ کوئی تہذیب تھی نہ ثقافت نہ علم تھا اور نہ ادب ۔ فنان کہتا ہے کہ نو آباد کار نو آبادی کے باشندوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ باشندے نو آبادکار کے محتاج ہیں اور نوآباد کار کی مدد کے بغیر ملک چلا ہی نہیں سکتے ۔

اگر نو آباد کار اپنے ملک واپس چلا گیا تو ملک کے عوام پھر پہلے کی سی پسماندگی اور جہالت کا شکار ہوجائیں گے یعنی صرف وہ ہی حکومت کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نو آبادی کے عوام کبھی حکومت نہیں کرسکتے ۔ اس کے علاوہ لوگوں میں پائے جانے والی نسل ، ذات پات، قبائل ، زبان ، مذہب اور اس قسم کی دوسری تفریق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور لوگوں کو آپس میں ان باتوں پر لڑانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کے غصے اور تشدد کا اظہار ایک دوسرے کے خلاف ہو اور نو آباد کار اپنا اُلو سیدھا کرتا رہے ۔

فنان کہتا ہے کہ شہری درمیانے اور اونچے طبقے کے لوگ نو آباد کار کی زبان بولنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا لباس پہنتے ہیں ان کے آداب اپناتے ہیں ان کی ثقافت اپناتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ثقافت ،زبان ، لباس وغیرہ کو چھوڑ دیتے ہیں اس طریقے سے نو آبادی باشندہ اپنے آپ کو نوآباد کار سے بہت قریب بلکہ برابر محسوس کرنے لگتا ہے، اب انہیں کمتری اورمحتاجی کا احساس تنگ نہیں کرتا۔ اس قسم کی ذہنیت کو فنان نے ''نوآباد ی ذہنیت '' کانام دیا۔ اس ذہنیت کے شکار لوگ اپنے ہم وطنوں کو بالکل اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس نگاہ سے نو آباد کاردیکھتا ہے یعنی وہ اپنے ہم وطنوں کو گھٹیا ، جاہل بے ایمان گند ے ، سست اور کاہل سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو ان سے علیحدہ کر نے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنی رشتہ داریوں اور دیہاتی تعلقات سے انکار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک خالص، تہذیب یافتہ اور پڑھا لکھا شہر ی تصور کرتے ہیں ۔


فنان کہتا ہے کہ دانشور طبقہ اپنے دل کی بات چھپاتا ہے یا بہت غورو فکر اور ہچکچاہٹ کے بعد بات کرتا ہے۔ یہ طریقہ دانشور نے نوآبادکار سے سیکھا ہوتا ہے اس نے نو آباد کار سے خود غرضی بھی سیکھی ہوتی ہے کہ پہلے اپنا بھلا دیکھو پھر دوسروں کا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دانشور خود عرض ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ دانشور عوام کے سوچنے اور عمل کرنے کے انداز سیکھتا ہے اب وہ اپنے صحیح کردار سے آگاہ ہوتا ہے یعنی عوام کے ساتھ نوآباد کار کے خلا ف مسلح جدوجہد میں شامل ہونا اور انہیں باشعور بنانا عوام کو یہ احساس دلانا کہ جو کچھ ہے ان ہی کے بل بوتے پر ہے، ملک کی ترقی یا زوال ان ہی کے ہاتھوں میں ہے اور عوام میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے ملک کو خود چلا سکتے ہیں اور بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں۔

فنان نے یہ حقیقت اپنے اردگرد کے تجربات سے سیکھی کہ جب 1952 میں الجزائر کے عوام نے نوآبادیاتی نظام کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی تو الجزائر میں جرائم میں خاص طور پر لوگوں کی آپس کی لڑائیاں اور قتل و غارت کم ہوتے ہوتے بالکل نہ ہونے کے برابر رہ گئے اس کی وجہ بالکل واضح تھی وہ غصہ جو پہلے لوگ ایک دوسرے کے خلاف نکالتے تھے اب اس کا رخ صحیح دشمن یعنی نوآباد کار کی طرف ہوگیا تھا۔ فنان نے یہ بھی نوٹ کیا کہ کئی نو آبادیاتی ممالک میں عوام کی مسلح جدوجہد کی تکمیل سے پہلے ہی نام نہاد رہنما نو آباد کار کے ساتھ بات چیت کے ذریعے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور قومی ''آزادی '' حاصل کر لیتے ہیں اس آزادی کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ نو آباد کار چلاجائے اور اس کی جگہ نام نہاد رہنما لے لیں۔

یہ رہنما جاگیردار اور نیم سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ رہنما عوام کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو پہلے نو آباد کار کیا کرتے تھے یہ نام نہاد رہنما نو آبادکار کا اقتصادی ، فوجی ، پولیس اور سول سروس کا نظام بھی برقرار رکھتے ہیں اور نوآباد کار ملک کے حکمرانوں کے ساتھ اقتصادی ، فوجی اور ثقافتی رشتے بھی قائم رکھتے ہیں۔ اب نو آباد کاران رہنمائوں کے ذریعے عوام پر بالواسطہ حکومت کرتا ہے جس طرح نوآباد کار عوام میں صوبائی ، مذہبی ، قبائلی اور دوسرے تعصبات پھیلا کر حکومت کرتا تھا اسی طرح یہ رہنما بھی لوگوں کو آپس میں لڑا کر حکومت کرتے ہیں۔

یہ دیسی '' نوآباد کار ' ' بھی عوام کو یہ ہی سکھاتے ہیں کہ ان کی قسمت ہم جیسے رہنمائوں کے ہاتھ میں ہے اور عوام کمتر ہیں اور حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ فنان کہتا ہے کہ جب تک عوام ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں نہیںلیں گے اپنے حالات ٹھیک نہیں کر پائیں گے کیونکہ یہ مسائل اس نظام کی پیداوار ہوتے ہیں جس میں عوام زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں جب تک اس نظام کو تبدیل نہ کیاجائے گا عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔انگریزوں نے جب برصغیر پر اپنا نوآبادیاتی نظام مسلط کیا تو انھوں نے بھی اپنی حکومت چلانے کے لیے ایک ایسی نوکر شاہی پیدا کی جو ان کے آلہ کار کی حیثیت سے نوآبادیاتی نظام کو بر سراقتدار رکھ سکے،

اسے مضبوط اورمستحکم بنا سکے یہ طبقہ بڑی حد تک جونک کی مانند تھا جو انگریزوں کے دسترخوان سے ادھر ادھر گر جانے والے ٹکڑوں کو جھپٹ لینے کے لیے ہر وقت موقع کی تاک میں یا زیادہ سے زیادہ مال و دولت حاصل کرنے کی فکر میں رہتا تھا، وہ دوہرا فرض انجام دیتا تھا اول یہ کہ اپنے معاشرے سے اس قدر کٹا ہوا رہتا تھا کہ اپنے ہی ہم وطنوں کو اپنا دشمن تصور کرتا تھا دوئم یہ ایک ایسا اہم وسیلہ تھا جس کے بل بوتے پر قومی آزادی کے بعد بھی نوآبادیاتی حکمرانوں کے اقتصادی ، سماجی اور سیاسی اثر کو زیادہ سے زیادہ عرصہ تک برقرار رکھا جاسکتا تھا۔ ہماری موجودہ سول نوکر شاہی جو انگریزوں کے نوآبادیاتی نظام سے ہمیں ورثہ میں ملی اورقیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد اقتدار پر مسلط ہوگئی اور آج تک مسلط ہے۔ آزادی سے پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے اور آزادی کے بعد ہم غلاموں کے غلام ہوگئے۔

اس تمام عرصہ میں جمہوری اداروں اور جمہوری اقدار کو جس طرح پامال کیاگیا اور جس طرح ملک کو سماجی اور اقتصادی طور پر کھو کھلا کیاگیا وہ تاریخ پاکستان کا ایک المنا ک باب ہے، ان کی وجہ سے یہاں نہ کوئی مستحکم سیاسی نظام آسکا اور نہ کوئی قومی تصور۔ نوآبادیاتی ایکٹ 1861 اور ایکٹ1935 کے تحت چلنے والا یہ خداداد ملک آزاد ریاست کی بجائے محض ایک غلام ریاست میں تبدیل ہوگیا اور ان '' دیسی نوآبادکاروں '' نے ملک ،عوام کا اور جمہوری اداروں کا بھرکس نکال دیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام ان '' دیسی نو آبادکاروں '' سے چھٹکارہ حاصل کرلیں اور ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیں کیونکہ عوام کے سارے مسائل کا حل موجودہ نظام کی تبدیلی میں ہے اور جب تک عوام اس نظام کو تبدیل نہیں کریں گے ان کے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ نظام کی تبدیلی صرف ووٹ کی طاقت سے ممکن ہے عوام کے تمام مسائل کا حل جمہوریت میں موجود ہے اور اس کے تسلسل میں ۔ ہمارے عوام میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے ملک کو خود چلا سکتے ہیں اور بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں ۔
Load Next Story