نادرمگسی کا سیاسی کیریئرآزمایش سے دوچار
پی پی راہ نما کا نام وزارتوں کی فہرست سے بھی خارج
سیاست میں اگر اپنی کوتاہیوں پر نظر نہ رکھی جائے یا بدلتے وقت کے تقاضوں کو نظر انداز کردیا جائے تو بڑا نقصان ہوتا ہے۔
ایسا ہی کچھ شہداد کوٹ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ نظر آ رہا ہے، لیکن اسے یہ خسارہ مخالفین کے بجائے اپنے ہی لوگوں کے اختلافات کی وجہ سے پہنچ رہا ہے، جس سے براہ راست عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ الیکشن سے کچھ عرصہ قبل میڈم فریال تالپور کے ساتھ شہدادکوٹ سے 6 بار رکن اسمبلی اور پیپلزپارٹی کے دو ادوار میں تین بار وزارتیں لینے والے میر نادر علی مگسی کے علاقے کی بڑی قبائلی شخصیت ایم پی اے نواب سردار خان چانڈیو کی پارٹی میں شمولیت کے معاملے پر اختلافات شروع ہوئے تھے جن میں الیکشن کے دوران یہاں سے لڑنے والی فریال تالپور کی مہم سے نادر علی مگسی کی عدم دل چسپی کے باعث شدت آگئی تھی۔ یوں ان کا پارٹی میں سیاہ وسفید کا مالک ہونا ایک قصہ پارینہ بن گیا، یہی وجہ ہے کہ اس بار وزارتوں کی فہرست میں نام فائنل ہونے کے باوجود عین وقت پر میر نادر علی مگسی کا نام خارج کردیا گیا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ ان کی وزارت میں جعلی ڈگری کا معاملہ اور پارٹی میں نووارد نواب سردار خان چانڈیو آڑے آگئے۔ موجودہ دور میں فریال تالپور کی تمام شفقتیں نواب سردار خان چانڈیو اور انتخابات میں اپنی الیکشن مہم کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے لیے ہیں۔ ان دونوں کو نوازنے کی حتی المقدور کوششیں کرتی ہیں۔ شہدادکوٹ میں یہ کمیٹی تمام امور چلا رہی ہے، فریال تالپور کا ان کو مکمل آشیرباد حاصل ہے، بتایا جاتا ہے کہ ماضی کے برعکس وہ کمیٹی کے ذریعے علاقے میں ترقیاتی کام کرانے اور لوگوں کو ملازمتیں دینے میں سنجیدہ دکھائی دے رہی ہیں۔
ان کی سنجیدگی اور شہری مسائل کو حل کرنے میں دل چسپی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئے دن کمشنر اور ڈپٹی کمشنر علاقے کا دورہ کر کے رپورٹ فریال تالپور کو بھیجنے کے ساتھ ان کو حل کرنے کے لیے متعلقہ افسران کو ہدایات جاری کرتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان افسران کے مسلسل دوروں کے باوجود شہریوں کے لیے درد سر بننے والا صفائی کا مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکا ہے، اس کی بڑی وجہ میونسپل کمیٹی میں نا اہل اور سفارشی افسران کی تعیناتی ہے تاہم فریال تالپور کے اس بار کیے جانے والے اقدام قابل تحسین دکھائی دے رہے ہیں۔ فریال تالپور کمیٹی کے بیش تر ارکان اپنی قائد کے احکامات کی روشنی میں شہر کے مسائل حل کرنے اور شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں، تاہم بعض رکن کمیٹی ان کی تمام کوششوں پر پانی پھیرنے میں معروف عمل دکھائی دے رہے ہیں۔
نادر مگسی کی آشیرباد سے گزشتہ کئی برسوں سے اہم عہدوں پر براجماں افسران بھی عتاب کا شکار ہیں ایک طرف میر صاحب وزارت سے محروم ہونے کے ساتھ قیادت کے گڈ بک سے غائب ہوگئے ہیں۔ پارٹی قیادت کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیے جانے کے باعث میر نادر علی مگسی نے دورہ کراچی کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس دوران انہوں نے ان کے مقابلے میں فریال تالپور کی قائم کردہ کمیٹی کو ترجیح دینے کی شکایت کی اور جان بوجھ کر وزارت نہ دینے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ ذرایع کے مطابق آصف علی زرداری نے ان کو مثبت جواب نہیں دیا، جس کی وجہ سے وہ کافی حد تک مایوس ہوگیا اور ایسی مایوسی کی حالت میں شہر اور اپنے لوگوں کو عید کی خوشی کے تہوار کے موقع پر تنہا چھوڑ کر امریکا یاترا پر چلے گئے۔ واضح رہے کہ 28 سالہ سیاسی کیریئر میں پہلی بار میر نادر علی مگسی کو سیاسی طور پر اتنی کوفت اٹھانی پڑ رہی ہے اور ان کا زیادہ تر وقت امریکا میں گزرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نادر مگسی سیاسی تنہائی سے نکلنے کے لیے کوئی حکمت عملی کے ذریعے اپنی سیاست کو ٹریک پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
عید ملنے کے لیے آنے والوں کے ساتھ آصف علی زرداری بھیڑ کے باعث زیادہ دیر تک نہیں بیٹھے تاہم باہر پنڈال میں آکر بلاول زرداری بھٹو نے فرداً فرداً تمام لوگوں سے عید ملے ان کے ساتھ ان کی پھوپھی فریال تالپور بھی تھیں۔ یہاں کے لوگ اس لیے بھی خوش دکھائی دیے کہ نوڈیرو ہاؤس میں ان کو عید کا کھانا بھی کھلایا گیا تھا۔ پہلے روز لوگوں کا رش نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اپنے قائدین کے ساتھ فرداً فرداً عید ملنے کا اعزاز حاصل کیا عید کے دوسرے روز مختلف اضلاع سے عہدیداران اور منتخب ارکان اسمبلی و سینیٹ سے عید ملاقات کی گئی، اس دوران سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعلا سندھ سید قائم علی شاہ نے ان سے خطاب کیا۔ اس ملاقات میں بھی زیادہ تر کمیٹی کی جانب سے مدعو کیے گئے تھے یا ان کے ذریعے نوڈیرو ہاؤس نے کارڈ جاری کیے تھے۔
مگسی برادران میں سے ایم پی اے میر نادر علی مگسی اور ایم این اے میر عامر خان مگسی یا ان کا کوئی خاص بندہ دکھائی نہیں دیا حالاں کہ اس سے قبل زرداری صاحب کی گاڑی میر نادر مگسی ڈرائیو کرتے تھے، علاقے کے لوگوں نے مگسی برادران کی عدم موجودگی کا نوٹس لیا۔ ذرایع کے مطابق ان کی عدم موجودگی پر چہ مگوئیاں سننے میں آئیں کہ مگسی برادران سے قیادت ناراض ہے اس لیے وہ عید کے روز بھی قیادت اور نوڈیرو ہاؤس سے دور ہیں، اب دیکھنا ہے کہ آئندہ سامنے آنے والی صورت حال سے پیپلزپارٹی اور مگسی برادران میں کوئی سیاسی تصفیہ ہوتا ہے یا خلیج مزید بڑھتی ہے کیوں کہ سیاست پر بھی گرگٹ کی طرح کوئی بھروسہ نہیں کہ کسی وقت رنگ تبدیل کرتی ہے۔
ایسا ہی کچھ شہداد کوٹ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ نظر آ رہا ہے، لیکن اسے یہ خسارہ مخالفین کے بجائے اپنے ہی لوگوں کے اختلافات کی وجہ سے پہنچ رہا ہے، جس سے براہ راست عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ الیکشن سے کچھ عرصہ قبل میڈم فریال تالپور کے ساتھ شہدادکوٹ سے 6 بار رکن اسمبلی اور پیپلزپارٹی کے دو ادوار میں تین بار وزارتیں لینے والے میر نادر علی مگسی کے علاقے کی بڑی قبائلی شخصیت ایم پی اے نواب سردار خان چانڈیو کی پارٹی میں شمولیت کے معاملے پر اختلافات شروع ہوئے تھے جن میں الیکشن کے دوران یہاں سے لڑنے والی فریال تالپور کی مہم سے نادر علی مگسی کی عدم دل چسپی کے باعث شدت آگئی تھی۔ یوں ان کا پارٹی میں سیاہ وسفید کا مالک ہونا ایک قصہ پارینہ بن گیا، یہی وجہ ہے کہ اس بار وزارتوں کی فہرست میں نام فائنل ہونے کے باوجود عین وقت پر میر نادر علی مگسی کا نام خارج کردیا گیا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ ان کی وزارت میں جعلی ڈگری کا معاملہ اور پارٹی میں نووارد نواب سردار خان چانڈیو آڑے آگئے۔ موجودہ دور میں فریال تالپور کی تمام شفقتیں نواب سردار خان چانڈیو اور انتخابات میں اپنی الیکشن مہم کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے لیے ہیں۔ ان دونوں کو نوازنے کی حتی المقدور کوششیں کرتی ہیں۔ شہدادکوٹ میں یہ کمیٹی تمام امور چلا رہی ہے، فریال تالپور کا ان کو مکمل آشیرباد حاصل ہے، بتایا جاتا ہے کہ ماضی کے برعکس وہ کمیٹی کے ذریعے علاقے میں ترقیاتی کام کرانے اور لوگوں کو ملازمتیں دینے میں سنجیدہ دکھائی دے رہی ہیں۔
ان کی سنجیدگی اور شہری مسائل کو حل کرنے میں دل چسپی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئے دن کمشنر اور ڈپٹی کمشنر علاقے کا دورہ کر کے رپورٹ فریال تالپور کو بھیجنے کے ساتھ ان کو حل کرنے کے لیے متعلقہ افسران کو ہدایات جاری کرتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان افسران کے مسلسل دوروں کے باوجود شہریوں کے لیے درد سر بننے والا صفائی کا مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکا ہے، اس کی بڑی وجہ میونسپل کمیٹی میں نا اہل اور سفارشی افسران کی تعیناتی ہے تاہم فریال تالپور کے اس بار کیے جانے والے اقدام قابل تحسین دکھائی دے رہے ہیں۔ فریال تالپور کمیٹی کے بیش تر ارکان اپنی قائد کے احکامات کی روشنی میں شہر کے مسائل حل کرنے اور شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں، تاہم بعض رکن کمیٹی ان کی تمام کوششوں پر پانی پھیرنے میں معروف عمل دکھائی دے رہے ہیں۔
نادر مگسی کی آشیرباد سے گزشتہ کئی برسوں سے اہم عہدوں پر براجماں افسران بھی عتاب کا شکار ہیں ایک طرف میر صاحب وزارت سے محروم ہونے کے ساتھ قیادت کے گڈ بک سے غائب ہوگئے ہیں۔ پارٹی قیادت کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیے جانے کے باعث میر نادر علی مگسی نے دورہ کراچی کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس دوران انہوں نے ان کے مقابلے میں فریال تالپور کی قائم کردہ کمیٹی کو ترجیح دینے کی شکایت کی اور جان بوجھ کر وزارت نہ دینے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ ذرایع کے مطابق آصف علی زرداری نے ان کو مثبت جواب نہیں دیا، جس کی وجہ سے وہ کافی حد تک مایوس ہوگیا اور ایسی مایوسی کی حالت میں شہر اور اپنے لوگوں کو عید کی خوشی کے تہوار کے موقع پر تنہا چھوڑ کر امریکا یاترا پر چلے گئے۔ واضح رہے کہ 28 سالہ سیاسی کیریئر میں پہلی بار میر نادر علی مگسی کو سیاسی طور پر اتنی کوفت اٹھانی پڑ رہی ہے اور ان کا زیادہ تر وقت امریکا میں گزرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نادر مگسی سیاسی تنہائی سے نکلنے کے لیے کوئی حکمت عملی کے ذریعے اپنی سیاست کو ٹریک پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
عید ملنے کے لیے آنے والوں کے ساتھ آصف علی زرداری بھیڑ کے باعث زیادہ دیر تک نہیں بیٹھے تاہم باہر پنڈال میں آکر بلاول زرداری بھٹو نے فرداً فرداً تمام لوگوں سے عید ملے ان کے ساتھ ان کی پھوپھی فریال تالپور بھی تھیں۔ یہاں کے لوگ اس لیے بھی خوش دکھائی دیے کہ نوڈیرو ہاؤس میں ان کو عید کا کھانا بھی کھلایا گیا تھا۔ پہلے روز لوگوں کا رش نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اپنے قائدین کے ساتھ فرداً فرداً عید ملنے کا اعزاز حاصل کیا عید کے دوسرے روز مختلف اضلاع سے عہدیداران اور منتخب ارکان اسمبلی و سینیٹ سے عید ملاقات کی گئی، اس دوران سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعلا سندھ سید قائم علی شاہ نے ان سے خطاب کیا۔ اس ملاقات میں بھی زیادہ تر کمیٹی کی جانب سے مدعو کیے گئے تھے یا ان کے ذریعے نوڈیرو ہاؤس نے کارڈ جاری کیے تھے۔
مگسی برادران میں سے ایم پی اے میر نادر علی مگسی اور ایم این اے میر عامر خان مگسی یا ان کا کوئی خاص بندہ دکھائی نہیں دیا حالاں کہ اس سے قبل زرداری صاحب کی گاڑی میر نادر مگسی ڈرائیو کرتے تھے، علاقے کے لوگوں نے مگسی برادران کی عدم موجودگی کا نوٹس لیا۔ ذرایع کے مطابق ان کی عدم موجودگی پر چہ مگوئیاں سننے میں آئیں کہ مگسی برادران سے قیادت ناراض ہے اس لیے وہ عید کے روز بھی قیادت اور نوڈیرو ہاؤس سے دور ہیں، اب دیکھنا ہے کہ آئندہ سامنے آنے والی صورت حال سے پیپلزپارٹی اور مگسی برادران میں کوئی سیاسی تصفیہ ہوتا ہے یا خلیج مزید بڑھتی ہے کیوں کہ سیاست پر بھی گرگٹ کی طرح کوئی بھروسہ نہیں کہ کسی وقت رنگ تبدیل کرتی ہے۔