دنیا کی سلامتی اور سلامتی کونسل
نئی حکومت کے آنے سے پہلے ہی پاکستان بھارتی دوستی کا دم بھرتا نظر آ رہا تھا۔ امن کی آشا کا راگ الاپتے الاپتے ہمارا ...
نئی حکومت کے آنے سے پہلے ہی پاکستان بھارتی دوستی کا دم بھرتا نظر آ رہا تھا۔ امن کی آشا کا راگ الاپتے الاپتے ہمارا حلق خشک ہو گیا لیکن تا حال بھارتی سرکار کے دیے میں ابھی تک تیل کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکا اس خشکی اس سرد مہری کے پیچھے ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑا ایشو ہے جس سے آنکھیں چرانا ممکن ہی نہیں لیکن اگر اس دوستی کے لیے ہمیں خون کی قربانی دینے کی ضرورت ہے تو پھر ہم ہی کیوں وہ قربانی دیں حالانکہ کشمیر کی وادی میں پہلے ہی ایک لاکھ بے گناہ افراد اپنا خون بہا چکے ہیں اور نجانے کتنے مظلوم ابھی تک لاپتہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہی کیوں ہر بار قربانی کا بکرا بنیں؟ دوستی کا یہ پرچار اب خاصا پرانا ہو چکا ہے لیکن اصل چہرہ تو کب کا بے نقاب ہو چکا ہے کیا اب بھی ہمیں بھارت کے آگے پیچھے پھرنے کی ضرورت ہے؟ صرف اس لیے کہ وہ امریکا کی گڈ بک میں شامل ہو چکا ہے اور ہمیں ہر اس گڈ بک کو تھپتھپانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے جسے کوئی بڑی طاقت کچھ توجہ سے نواز دیتی ہے لیکن اصل کہانی تو اب بھی پوشیدہ ہے۔
ایک عرصے سے بھارت کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کی صدائیں ابھرتی رہیں اور دم توڑتی رہیں اس کے ساتھ جاپان بھی خاصا تگڑا امیدوار بن کر ابھرا ہے جس کی معاشی پوزیشن بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم ہے اور جی ایٹ کا اہم رکن ہونے کے ساتھ وہ برطانیہ کے ساتھ بھی دوستانہ روابط خاصے گہرے کر چکا ہے اس گہرائی میں ہمیں جانے کی ضرورت نہیں کہ بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے مقاصد ہوتے ہیں ہم تو صرف اپنے اردگرد کے پڑوسیوں کی ہی خیر خبر رکھ لیں تو بہت ہے لیکن پاکستان کی اہمیت سے انکار کرنا ان بڑی طاقتوں کے لیے ممکن نہیں کیونکہ پاکستان وہ اہم خطہ ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے دنیائے عالم کی خبروں میں سرگرم رہا ہے اس میں اس معصوم سے ملک کا کوئی قصور نہیں لیکن اس کی جغرافیائی نوعیت اور زمینی ذخائر کئی سازشوں کو جنم دے چکے ہیں یہ بھی درست ہے کہ طالبان کی سرگرمیوں نے اسے دنیا بھر میں سرخ سگنل کی شکل تو دے دی ہے لیکن اس سگنل کے دبانے میں کون کہاں کہاں سے ملوث ہے یہ ہم جیسے کم علم لوگ نہیں جانتے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جوں جوں پاکستان بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے بھارت ایک قدم اور پیچھے کی جانب چلا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سیالکوٹ کے بارڈر پر بھارت کی جانب سے بلاوجہ فائرنگ اور معصوم لوگوں کی شہادتیں تو یہی ثابت کرتی ہیں کہ بھارت میں دو طاقتیں سرگرم عمل ہیں ایک طاقت پاکستان سے دوستی مضبوط کر کے ایشیا میں امن مستحکم کرنا چاہتی ہے تا کہ پاکستان اور بھارت کم ازکم اس خطرے سے نجات حاصل کر کے دوسرے اہم امور اور اپنی ترقی کی جانب توجہ دیں جس سے دونوں ممالک کا بھلا ہو گا لیکن دوسری طاقت نہیں چاہتی کہ امن قائم ہو اور یہ جنگ سردگرم چلتی ہی رہے زخم رستا ہی رہے تا کہ دونوں ممالک کے دوستی کے روابط کبھی نہ جڑنے پائیں اور دونوں ممالک اپنی جنگی قوت کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا سرمایہ اس جانب صرف کرتے رہیں یوں ترقی کی شرح خودبخود متاثر ہو گی اور بھلا نہ تیرا نہ میرا بلکہ اس کا ہو گا جو دونوں ممالک کا دوست نہیں۔ جہاں تک کشمیر کا مسئلہ ہے تو ظاہر ہے کہ ایک ایسے خطے کو آزادی دینا کیسے ممکن ہو سکتا ہے جس پر اکثریت مسلم طبقے کی ہو جسے حل کراتے کراتے برسوں گزر چکے ہوں نسلیں بوڑھی ہو کر پھر سے نئی پود جوان ہو چکی ہے لیکن آزادی کے خواب بھی بھلا مرتے ہیں۔
سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کو مسترد کر کے بڑے بڑوں کو حیران و پریشان کر دیا، یہ بھی درست ہے کہ اس سے پہلے سعودی عرب کا رویہ ہرگز بھی جارحانہ نہ تھا وہ انتہائی مستقل مزاجی اور عالمی قوانین کی پاسداری کرتے اپنے آپ کو اس اہم رکنیت کا اہل ثابت کر چکا تھا لیکن یہ بھی ایک اہم امر ہے کہ جس سے انکار کرنا ناممکن ہے کہ کیا سلامتی کونسل اپنے امور بخوبی انجام دیتی رہی ہے؟
سلامتی کونسل کا مشکوک رویہ بہت سے ابہام کو واضح ڈھانچے تو فراہم کر ہی چکا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب کے اس انکار سے اور کیا کچھ کھل کر سامنے آتا ہے۔
مسلم ممالک کے مسائل کے بارے میں بھی سلامتی کونسل نے جس ٹھنڈے لہجے کو اختیار کیا اس سے سب ہی واقف ہیں جب کہ اس کے مستقل ممبران میں بھی کوئی مسلمان ملک شامل نہیں۔ مسلم ممالک میں پچھلے چند برسوں میں جو قیامت خیزیاں ہوئیں کیا سلامتی کونسل نے ان پر نوٹس لیا، کارروائیاں ہوئیں؟ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل بھارت کے لیے مستقل ممبر بننے کے لیے صدائیں ابھرتی رہیں لیکن بڑے بڑے میناروں والی بڑی طاقتیں اس کا خواب کبھی پورا نہیں ہونے دیں گی بڑی طاقتوں کے پیٹھ سہلانے کو اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ بھی بڑے پنڈتوں کے درمیان بیٹھ کر خوش گپیاں برابر کی سطح پر کر سکتا ہے تو یہ صرف دیوانے کا خیال ثابت ہو سکتا ہے اس لیے کہ شطرنج کی چال پر مہرہ خود نہیں چلتا اسے چلایا جاتا ہے لیکن اگر مہرہ یہ سمجھ لے کہ وہ خود ہی چل پھر کر جیت سکتا ہے تو اس میں چال چلنے والے کا نہیں مہرے کی اپنی عقل کا قصور ہے۔
شام میں ہونے والی بے گناہ ہلاکتوں، مصر میں ہونے والی سیاسی لہر کا طوفان اور ہلاکتیں، عراق میں بے گناہ انسانوں کا خون یہ چند حالیہ رونما ہونے والے واقعات ہیں جس پر فوری ایکشن لینا ضروری تھا لیکن اس کے لیے کیا رویہ اختیار کیا گیا یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کو واضح طور پر دو مکتبہ فکر میں پاٹنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایک جانب اسلام تو دوسری جانب اس کے مخالفین جو اپنی اپنی طرز پر اس سے خائف ہیں چہرہ مہرہ کچھ بھی ہو سوچ اور نظریات ایک ہی نوعیت کے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ 65 سال سے گھٹ رہا ہے بے گناہ مسلمان مرد خواتین، بوڑھے، بچے سب ایک ہی انداز پر لقمہ اجل بن رہے ہیں، ان کا جرم آزادی کا خواب ہے لیکن ایک لاکھ سے زائد مظلومین کی شہادت بھی کسی بڑے مینارے کی چول بھی نہ ہلا سکی سات لاکھ فوج دندناتی وادی کشمیر میں گھوم رہی ہے اب اور کیا چاہیے؟ کیا دیکھنے والوں کی آنکھیں بینائی سے محروم ہیں لیکن کسی کو نظر آتے بھی نظر نہیں آتا۔ یوگو سلاویہ میں آج بھی بوسنیا کے معصوم مسلمانوں کے قتل عام کی دلخراش چیخوں کی بازگشت لوگوں کے دلوں کو دہلاتی ہے لیکن کسے پرواہ ہے، عراق میں معصوم بچیوں کی عصمت دری کی گئی اور کرنے والے کون تھے۔۔۔؟ یہ سوال اب گمشدہ تو نہیں کون جواب دہ ہے افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کے خون کا؟ یہ وہی عراق اور افغانستان ہیں جہاں اقوام متحدہ نے حملے کو قانونی شکل دے دی تھی یہ سب کس نے کیا کس کے ایما پر سازشوں کا جال بنا، جنھوں نے کیا سب جانتے ہیں لیکن ان کے بدنما چہروں کے پیچھے وہ لاکھوں کروڑوں معصوم عوام ہیں جو نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ کیا گیم کھیلا گیا جس غلط کو صحیح ثابت کر کے کسی مظلوم قوم پر لاگو کر دیا گیا لیکن کیا کبھی اس کا پردہ فاش ہو گا کیا کسی اور عدالت میں بھی یہ مقدمات ابھی منتظر ہیں اور جب اس عدالت کا فیصلہ ہو گا پھر سب دیکھیں گے کہ برائی اور گناہ کو کتنا ہی خوبصورت لبادہ کیوں نہ پہنا دیا جائے اس کی گندگی اور بد بو چھپائے نہیں چھپتی۔