مذہب ایک زندہ حقیقت
آغاز میں ہر مذہب خالص ہوتا ہے اور خرافات سے پاک۔ لیکن جوں جو ں وقت گزرتا ہے لوگ اپنی ہوس اور...
آغاز میں ہر مذہب خالص ہوتا ہے اور خرافات سے پاک۔ لیکن جوں جو ں وقت گزرتا ہے لوگ اپنی ہوس اور مفادات کے تحفظ کے لیے اس کی تعلیمات کو بگاڑتے چلے جاتے ہیں ۔ آئیں امریکا کے اصل باسیوں Siowx Indian کی ایک دعا ملاحظہ فرمائیں جو کہ حسن و عدل کا منبع ہے اور کس خوبصورتی سے اس میں وحدت کا پرچار کیا گیا ہے ''او میرے پروردگار مجھے ان چیزوں کو چھونے کی اجازت مرحمت فرما جن کو تونے اپنی قدرت کاملہ سے تخلیق کیا میرے کانوں کی شنوائی کو تقویت دے کہ میں تیری آواز پر کان دھروں مجھے علم و حکمت سے سرفراز فرما تا کہ میں تیرے ان سر بستہ رازوں کو پا سکوں جو تو نے ہر پتے اور ہر پتھر میں پنہاں کر رکھے ہیں میں تیری بارگاہ سے قوت کا طلب گار ہوں لیکن اپنے بھائیوں پر فوقیت کے لیے نہیں بلکہ برائی کی طاقتوں پر غلبہ پانے کے لیے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور جن چیزوں کو تبدیل کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں انہیں برداشت کرنے کی ہمت بھی عطا فرما اور جن چیزوں کو میں تبدیل کر سکتا ہوں ان میں انقلاب بر پا کرنے کی توفیق دے۔''
ہر مذہب کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک اخلاقی اور دوسرا رسمی۔ اخلاقی پہلو میں محبت، مر وت، احسان، نیکی، قربانی، تعاون اور احساس جیسی پاکیزہ اور اعلیٰ اقدار شامل ہوتی ہیں جب کہ رسمی میں روز مرہ کی رسوم و رواج اور عبادت وغیرہ شامل ہوتی ہیں تاریخ عالم گواہ ہے کہ مذہبی طبقے نے ہمیشہ اخلاقی پہلو کے بجائے رسمی پہلو کو زیادہ اہمیت دی تا کہ ان کی اجارہ داری قائم رہ سکے پادریوں، پنڈتوں اور ملائوں کی زیادہ سے زیادہ کوشش رہی کہ تعلیمات کو ناقابل فہم ہی رکھا جائے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ان پر انحصار کریں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مذہبی تعلیمات کو ہمیشہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنا کر ہی پیش کیا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے ناتھن نامی یہودی سے پوچھا کہ تمہارے نزدیک یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں سے کون سا مذہب سچا ہے یہودی عالم نے سوال کا جواب دینے کی بجائے سلطان صلاح الدین ایوبی کو ایک جادوئی کڑے کی کہانی سنائی کہا کہ جس کے پاس یہ کڑا ہو گا وہ شخص خدا اور اس کی مخلوق میں اتنا ہی پسندیدہ تصور ہو گا۔ یہ کڑا باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتا رہا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ ایک شخص کے 3 بیٹے ہو گئے لہذا اس آدمی کو دو نئے کڑے بنوانے پڑے جن میں سے ایک اصل تھا اور باقی دو نقل، بھائی حقیقی کڑے کی تلاش میں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو گئے اور بالآخر متنازعہ مسئلہ کے حل کے لیے وقت کے قاضی کے پاس چلے گئے قاضی نے فریقین کا مسئلہ سماعت کرنے کے بعد کہا کہ میں ان کے تنا زعے کا فیصلہ نہیں کر سکتا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اصل کڑا اس شخص کے پاس جائے گا جو خدا اور انسان کی نظر میں معتبر ہو گا اور اس چیز کو ثابت کر نے کے لیے اسے خدا کے سامنے زیادہ عاجزی اور تقوی ٰ اختیار کرنا پڑے گا اور ساتھ ساتھ خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک بھی کرنا پڑے گا۔
ناتھن کے پیغام کے مطابق مذہب ایک زندہ حقیقت ہے بھلے اسے کوئی نام بھی دے دیا جائے اگر یہ اپنے ماننے والے کو خدا کے زیادہ قریب اور اپنے ہمسائے اور بھائی سے حسن سلوک کرنے والا کر دیتا ہے تو یہ ہی حق ہے۔ ہیگل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب فلسفہ تاریخ میں ترویج اور تشہیر اسلام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ''یہ سچے جذبوں کی ایسی معراج تھی جو تاریخ انسانی میں کبھی دیکھنے میں نہ آئی''۔ مونٹین نے لکھا ہے کہ ''انسان آپے سے باہر ہونا چاہتے ہیں اور مزید انسان نہیں رہنا چاہتے''۔ تمام مذاہب نے تشدد کی مذمت کی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بدترین نوعیت کے جرائم مذہب کے نام پر ہی روا رکھے گئے ہیں۔ مذہب کے نام پر ظلم و تشدد کے استعمال سے دوستو فسکی کے ناول The Possessed کا ایک منظر یا د آ گیا کہ اس عالم میں پکڑ دھکڑ اور محاسبے کا سلسلہ جاری ہے اور بے دینوں کو دہکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پھینکا جا رہا ہے حضرت عیسیٰ زمین پر تشریف لاتے ہیں وہ تشدد کے طریقوں کی کھلی مذمت کرتے ہیں اس کے جواب میں دین سے انحراف کا الزام لگا کر خود انہیں محتسب اعلیٰ کے آگے پیش کیا جاتا ہے ان سے کہا جا تا ہے کہ اپنا دفاع کرنے کے لیے دلائل پیش کریں۔
حضرت عیسیٰ کہتے ہیں کہ تم مجھے نہیں جانتے، میں ہی مسیح مذہب کا بانی ہوں، محتسب اعلیٰ اس بات پر مناسب تعظیم بجا لاتا ہے اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہے لیکن ساتھ ہی انہیں متنبہ کرتا ہے کہ مسیحیت کے معنی اب و ہ ہیں جسے مسیحی کلیسا درست سمجھتا ہے۔ مذہبی جنون تین طریقوں سے عدم رواداری کو جنم دیتا ہے پہلی بات یہ کہ و ہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرا مذہب مطلق، مکمل اور آخری سچائی ہے دوسری بات یہ کہ میرے مذہبی عقید ے سے باہر سارے لوگ باطل، طاغوت اور قابل نفرت ہیں اور تیسری بات یہ کہ متذکرہ وجوہات کی بنیاد پر یہ لوگ دشمنوں کی صف میں شامل ہیں جن کے ساتھ پرا من طور پر نہیں رہا جا سکتا۔ یہ طرز عمل قریب قریب سب مذاہب کی انتہا پسند تشریحات میں شامل ہے، اسی طرح رنگ، نسل، زبان، سماجی مرتبے اور جنس کی بنیاد پر خود کو برتر سمجھنے اور دوسروں کو حقیر جاننے کا رویہ بھی عدم رواداری کو جنم دیتا ہے اور یہ مرض جب معاشروں کے اندر داخل ہو جاتا ہے تو وہ معاشرے اندرونی توڑ پھوڑ اور شکست و ریخت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
آج ہم خود بھی بری طرح اس مرض کا شکار ہیں ہمارا پورا معا شر ہ شدید مذہبی عدم رواداری کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے بد ترین جرائم مذہب کے نام پر کیے جا رہے ہیں عقل و خرد کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ۔
ابراہم لنکن نے کہا تھا جو لوگ دوسروں کی آزادی کی نفی کرتے ہیں وہ خود بھی اس کے مستحق نہیں ہوتے، آئیں ہم سب اٹھ کھڑے ہوں اپنی آزادی چھیننے والوں کے خلاف۔ رواداری اختیار کیے بغیر ہمیں عذابوں سے نجات نہیں مل سکتی، آئیں ہم قرآن پاک کی سچی، صاف ستھری، سلیس و قابل عمل تعلیمات کو خود سمجھ کر اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں نا کہ ان لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے مطابق جنھوں نے دین اسلام کی شکل بگاڑ کر رکھ دی ہے۔