سماج فنکار اور تنقید… آخری قسط
مغربی تنقید یا نظریات کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مغربی ہیں، بلکہ ان پر تحقیق اس لیے بھی ضروری ہے...
KARACHI:
مغربی تنقید یا نظریات کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مغربی ہیں، بلکہ ان پر تحقیق اس لیے بھی ضروری ہے کہ مشرق والے سمجھ سکیں کہ کیوں مغرب نے ان کو ہمیشہ سے اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے ہاں یہ خوش فہمی پائی جاتی ہے کہ شاعری، افسانہ، یا ناول انسانی حیات کے تما م مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ یہ دو طرفہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے لوگ اردو ادب کی ان اصناف کی تاریخی حیثیت جانے بغیر تنقیدی نظریات کے حوالے سے اس لیے بات کرنا سود مند نہیں سمجھتے کہ غالب تنقیدی نظریات کا تعلق مغرب سے ہے، مگر یہ بات جاننے سے بھی قاصر ہیں کہ تنقیدی شعور کی کمی ہی تو ہے کہ مغرب سے پٹ رہے ہیں۔
ایک فنکار کا کسی سماج میں اپنا اہم مقام اور کردار ہوتا ہے مگر اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ حقیقتاََ فنکار کون ہے؟ کیونکہ فنکار وہ بھی ہے جس کے ہاتھ کے بنائے ہوئے قلم یا بال پن سے کوئی حرف، عدم سے وجود میں آتا ہے، کسی قرطاس کی زینت بنتا ہے اور فنکار وہ بھی ہے جس نے اس قرطاس کو بنایا جس پر ایک لکھنے والا اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ کی پوشاک پہنا کر بکھیرتا ہے، فنکار وہ بھی ہے جو ان الفاظ و خیالات اور ان سے مزین بکھرے ہوئے قرطاس کو کسی خاص ترتیب سے اس طور سنوارتا ہے کہ وہ اشاعت کے مرحلوں سے گزر کر کسی شعری یا افسانوی مجموعے یا ناول کی ساخت میں ڈھل کر قاری تک پہنچتا ہے۔
ایک فنکار کی تعریف اور معیار بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ بدل چکے ہیں آج فن کو ہم شاعری یا افسانے کے علاوہ بلند و بانگ عمارتوں میں دیکھ سکتے ہیں یا ایک بڑھئی کے ہاتھ سے بنی لکڑی کی چیزیں یا کمہار کے کچی مٹی کے برتنوں اور کھلونوں میں بھی فن کو دیکھ سکتے ہیں اور ایک کسان سے بڑا اور کار آمد فنکار کون ہو گا جو زمین پر اپنی محنت سے ایسی ایسی فصل اُگاتا ہے جو انسانی حیات کی بقا کے لیے بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتی ہے اور بصارتوں کے لیے نئے نئے حسین منظروں کو تخلیق کرتا ہے۔ ایک مزدور کسی فنکار سے کسی طور بھی کم نہیں جو کچی مٹی کو اینٹوں میں تبدیل کرتا ہے اور پھر مکانوں کی بنیادوں اور در و دیوار میں اس طور سے آویزاں کرتا ہے کہ وہ فطرت کی بے رحمی کو شاعروں، ادیبوں کے لیے آشیانے کی صورت کسی مہربان آغوش میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کی پناہ میں ایک لکھنے والا آسودگی سے اپنی سوچ کو کسی قرطاس پر ڈھالنے کے قابل ہوتا ہے۔
غرض کہ ایک طرف تو کوئی بھی فنکار سماج کی مدد اور عمل دخل کے بنا فنکار نہیں ہے اور نہ ہی فنکار کی تعریف شاعری، افسانہ، ڈراما یا ناول لکھنے والوں کی مختصر ترین خود ساختہ فہرست پر مبنی ہے، دوسری طرف بدلتے ہوئے وقت نے فوقیتی ترتیب کو توڑ ڈالا ہے جس کے تحت بر سر اقتدار طبقات اور اشرافیہ کے دیے ہوئے معیارات پر سوالیہ نشان لگ چکے ہیں، لوگ اس قابل ہو چکے ہیں کہ وہ مخصوص روایتی معیارات کی مادی حقیقتوں میں پرکھ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب ان فنکاروں کا ادراک بھی رکھتے ہیں جن کے فن کی بنیاد پر اور ان سے استفادہ کرتے ہوئے قدیم دور کے فنکار اس قابل ہوئے کہ اپنے فن کو کسی وجود یا ٹھوس مادی ساخت میں ڈھال سکیں، اس لیے آج مسئلہ یہ نہیں رہا ہے کہ ادیب اہم ہے کہ نقاد، مسئلہ یہ ہے کہ کون نئی سوچ نیا خیال ایسا دیتا ہے جو خالصتاََ اس کی اپنی فکر کا نتیجہ ہو یا اس سے پہلے کبھی کسی نے بیان نہ کیا ہو۔ خیالات کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت بھی کھلتی ہے کہ بنیادی خیالات کو بدلتے وقت کے ساتھ نئی نئی الفاظ کی پوشاک پہنا دی جاتی رہی ہے جسے تخلیق کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اُردو ادب میں ادب ہے کہ تنقید سب اصناف میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے خیالات چراتے ہیں اور پھر ان کا اصرار یہ ہے کہ ان کو فنکار مان لیا جائے، ویسے ہوتے تو وہ ''فنکار'' ہی ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ تنقید کی افادیت کا شعور ہمیں ابھی تک نہیں ہو سکا، تنقیدی نظریات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا نتیجہ ہی ہے کہ ہمارے لوگ بے گناہ مارے جا رہے ہیں، تنقیدی شعور کی عدمیت ہی کا نتیجہ تھا کہ برصغیر کو بڑی آسانی سے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے تقسیم کر دیا گیا، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مجھے پاکستان سے محبت نہیں یا میں پاکستان کے خلاف کے ہوں، مقصود یہ ہے کہ ہم نے جہالت کی بناء پر کیا کیا صعوبتیں برداشت کیں کتنے بے گناہ انسانوں کا ناحق خون بہایا گیا، جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس کی روک تھام کے اہل اس لیے نہیں ہو سکے کہ ہم نے تنقیدی تھیوریوں اور تنقیدی نظریات کے فروغ کے لیے اُردو ادب کا دامن کشادہ نہیں کیا۔ اُردو ادب کی تمام اصناف اردو ادب کی جڑوں سے وابستہ نہیں تھیں بلکہ مستعار لی گئیں، ایسے میں تنقیدی نظریات کو بھی گود لے لیا جائے تو کیا برا ہے؟ کم از کم ہمارے لوگ اس قابل تو ہو جائیں گے کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کے چہرے پہچان سکیں۔
اس کے لیے ہمارا سماجی شعور اس سطح پر ہونا چاہیے کہ سماجی ساختوں کے انسان کے ساتھ رشتے کو سمجھ سکے۔ ان ساختوں کے انسانی حیات کو متعین کرنے والے عوامل کو سمجھ سکے۔ ہم اس بات کا شعور حاصل کر سکیں کہ سماج سے الگ فنکار کی شناخت نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے تنقید ہی وہ ہتھیار ہے جو ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم سماج کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی ماہیت کو سمجھ سکیں۔ اس کے لیے ہمیں ادبی تنقیدی نظریات اور نظریہ سازوں اور نقادوں کی ضرورت ہے جو ہمارے ادب میں پائے جانے والے مضمرات جو سماجی رویوں اور رائے عامہ کو متعین کرتے ہیں اور امکانات جو سماجی دھارے کا رخ، انسانی سوچ اور عمل کو تبدیل کر کے، موڑ دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
ادبی نقادوں کے علاوہ سماج کے ہر شعبے سے وابستہ سماجی و معاشی اور سیاسی نظام کا جائزہ لینے کے لیے نقادوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مغربی تنقیدی و سماجی اور معاشی نظریات اور تھیوریوں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے مخالف کو اور اس کی چالوں کو سمجھ سکیں اور اپنی حالت کو اپنے بل بوتے پر بہتر کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان نام نہاد ''فنکارانہ'' خو ش فہمیوں سے باہر نکل آئیں، کہ شاعری لکھنے والے یا افسانہ اور ناول لکھنے والے فنکار سماج سے الگ کوئی ماورا ہستی ہے، کیونکہ فنکار کسی بھی سطح پر ہو کسی بھی صنف سے وابستہ ہو سماج کی پیداوار ہے اور سماج سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ایک فنکار کی حیثیت حاصل کرنے کے لیے وہ کسی دوسرے انسان کا محتاج ہے یعنی اسے اپنے سماجی ساتھی کی قدم قدم پر ضرورت ہوتی ہے اور یہ مابعد جدیدیت کا مثبت پہلو ہے جس نے روایتی فوقیتی ترتیب کو ہی نہیں توڑا بلکہ خود ساختہ معیارات کے بانیوں کی فنکارانہ معنوی حیثیتوں پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔