’’اﷲ کی مرضی‘‘

جواب مضمون یا تجزیہ قسم کی تحریر میرے بس میں نہیں۔ میں نے صحافت میں شعبہ رپورٹنگ اختیار کیا اور پھر رپورٹر ہی رہا۔


Abdul Qadir Hassan October 22, 2013
[email protected]

جواب مضمون یا تجزیہ قسم کی تحریر میرے بس میں نہیں۔ میں نے صحافت میں شعبہ رپورٹنگ اختیار کیا اور پھر رپورٹر ہی رہا۔ یعنی جو حالات پیش آئے ان کو رپورٹ کر دیا،اس میں کوشش صرف یہ کی کہ کوئی ہیرا پھیری نہ کی جائے یعنی حالات کی ہو بہو تصویر۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برسوں کی رپورٹنگ میں آج تک میری کسی خبر کی تردید نہیں ہوئی۔ صرف ایک بار تردید آئی تو میں سخت پریشان ہو گیا لیکن جن صاحب کے بارے میں خبر تھی وہ مصر تھے کہ میں غلط ہوں اور وہ ٹھیک ہیں۔ ایڈیٹر کے سامنے یہ قصہ پیش ہوا تو میں وہاں بھی ہار گیا، اس کے بعد اس لیڈر نے ایک بار اعتراف کیا کہ انھوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا کوئی خاص وجہ تھی حقیقت ایسی نہیں تھی۔ ایڈیٹر نے مجھے بلا کر اس سے مطلع کیا کہ تم مطمئن رہو یہ اس لیڈر کا جھوٹ تھا لیکن مجھے زندگی کی جو پیشہ ورانہ پریشانی ہوئی تھی وہ ہو چکی۔

یہ کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان دنوں کالم کے لیے ہر روز ایک سے زیادہ ایسے کالمانہ واقعات پیش آ رہے ہیں کہ میں کوئی بیماری بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ بہر کیف انسان خود مختار نہیں ہے اور میں بھی نہیں، گزشتہ دنوں میں اچانک بیمار پڑ گیا۔ اُلٹیاں اور پھر بخار اور سردی۔ شکر ہے کہ یہ عید کے دن تھے اور چند چھٹیاں سرکاری تھیں پھر بھی مجھے چھٹی کرنی پڑی اور کل ڈاکٹر نے کہا کہ میں انھیں ایک بار پھر دکھا دوں۔ درست ہے میں بیمار ہوتا رہا ہوں لیکن کیوں اور کسی بیماری کا باعث اور سبب کیا تھا، یہ لاتعداد خونی تجزیوں ایکسرے اور تشخیص کے دوسرے طریقوں سے بھی معلوم نہ ہو سکا، اب تو مرض کی تشخیص بڑے سائنسی طریقوں سے کی جاتی ہے، انسانی جسم کو کھنگال لیا جاتا ہے، اس بار جب میں نے کسی حد تک صحت یاب ہونے کے بعد ڈاکٹر سے پوچھا کہ مجھے یہ سب کیوں ہوا ہے تو جواب تھا ''اللہ کی مرضی''۔ ڈاکٹری تشخیص کا یہ نتیجہ مجھے خود بھی معلوم تھا بشرطیکہ میں اپنے آپ کو بھاری بھر کم فیس دے سکتا تو اللہ کی مرضی والا جواب مجھے پہلے ہی خود بخود معلوم ہو جاتا۔ بہر حال یہ بھی اللہ کی مرضی۔

ہمارے معالج کبھی حکیم ہوا کرتے تھے۔ میری والدہ کو جوڑوں کا درد ہوا اور اتنا سخت کہ میں جو بچہ تھا وہ بھی ان کی چارپائی کو ہاتھ نہیں لگا سکتا کہ ان کی چیخ نکل جاتی تھی۔ میرے بڑے بھائی طب کے شوقیہ طالب علم تھے، وہ اپنے استاد حکیم عبدالرسول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علاج کے لیے انھیں زحمت دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے جواب میں انھیں نسخہ بتا دیا کہ یہ بیس دن تک جاری رکھیں، اکیسویں دن یہ جلاب دیں اور اللہ فضل کرے گا لیکن بھائی صاحب انھیں ضد کر کے ساتھ لے آئے، یہی علاج انھوں نے کیا ، درد کی جگہ پر میتھرے کا لیپ کرا دیتے جس سے درد میں بہت افاقہ ہو جاتا۔ بہر حال علاج مکمل ہوا اور پھر زندگی بھر والدہ کو یہ تکلیف نہیں ہوئی۔ یوں اس بیماری کی جڑ ہی کاٹ دی گئی۔

شفاء الملک حکیم اجمل خان کے پوتے میرے مہربان تھے، وہ کبھی کبھی اپنے بزرگوں کے قصے سناتے۔ مثلاً حکیم اجمل خان کا معمول یہ تھا کہ مریض جب ان کے سامنے آتا تو اسے دیکھتے ہی نسخہ لکھوا کر اس کے سپرد کر دیتے۔ ایک بار غلطی ہو گئی اور علاج الٹ ہو گیا، اس کے بعد انھوں نے مریض کا معائنہ کیے بغیر کبھی نسخہ نہیں لکھوایا۔ وائسرائے ہند کی بیٹی کو پیٹ میں سخت درد شروع ہو گیا۔ اس وقت کے ڈاکٹر مایوس ہو گئے، وائسرائے بیٹی کو حکیم صاحب کے پاس لائے اور انھوں نے بتایا کہ ٹینس کھیلتے ہوئے آنت چڑھ گئی ہے، علاج شروع ہوا اور وہ تندرست ہو گئی۔ حکیم صاحب ہر شام کو اپنی بگھی پر دلی شہر میں نکل جاتے، لوگ مریضوں کے بستر راستے میں رکھ دیتے، حکیم صاحب اس طرح ہر روز نہ جانے کتنے مریضوں کو گویا ان کے گھر جا کر دیکھتے، مریض سے فیس لینے کا کوئی تصور تک نہ تھا، معلوم ہوا کہ سال بہ سال نواب مہاراجے ان کو بلایا کرتے اور ان کی فیس پر حکیم صاحب دلی کے امراء میں شمار ہوتے تھے۔ ویسے ان کا خاندان شریفی بہت مشہور تھا اور ان کے محل آج بھی آباد ہیں۔ حکیم صاحبان جہاں بھی رہے وہ اللہ کی مرضی سے بیماروں کی خدمت کرتے رہے۔ ایلوپیتھی کے جدید طریقہ علاج نے نبض شناسی ترک کرا دی اور اس کی جگہ مشینوں نے لے لی، اب ہمارا علاج مشینیں کرتی ہیں۔ میرے ایک دوست ڈاکٹر پروفیسر سجاد حسین نے ایک بار مجھ سے کہا کہ اب حالت یہ ہے کہ ڈاکٹر کا دوست ہونا ضروری ہے یعنی یہ کہ ڈاکٹر صرف کسی مریض کا نہیں ایک دوست مریض کا علاج ہی کرے۔

کسی ڈاکٹر کا کسی مرض کا خصوصی معالج ہونا بہت اچھی بات ہے کیونکہ اس طرح وہ کسی خاص مرض کے علاج کا زیادہ ماہر ہو جاتا ہے لیکن میں نے دیکھا کہ گلی محلے کے بعض ڈاکٹر علاج میں کمال کر دیتے ہیں۔ گلبرگ میں میرے گھر کے قریب ہی ڈاکٹر ڈنشا کا کلینک تھا۔ گائوں سے آنے والے کئی مہمانوں کو میں نے ان کے پاس بھیجا جو صحت مند ہو کر واپس گئے۔ صحت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے حضورؐ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ مجھے شفا دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیماری اللہ کی مرضی سے آتی ہے چنانچہ میرے ڈاکٹر میرے ساتھ متفق ہیں کہ میری بیماری کی وجہ اللہ کی مرضی تھی۔

تعزیت

میرے عزیز دوست سابق سینیٹر طارق چوہدری کا بیٹا فوت ہو گیا، اللہ ان کو صبر دے۔ میں سفر سے معذوری کی وجہ سے فیصل آباد حاضر نہ ہو سکا ورنہ درد و رنج کے اس موقعے پر اپنے مہربان کی دلجوئی کی کوشش ضروری تھی، اپنے لیے بھی اور مرحوم کے والد کے لیے بھی، اللہ طارق کو اس کا نعم البدل عطا کرے۔ ایک مجبور انسان اس کے سوا کیا عرض کر سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں