کسان کو غلام بنانے کے ہتھکنڈے

ہم نے پچھلے کسی کالم میں لکھا تھا کہ ہماری حکومت پاکستان کے ہاتھ میں اس وقت تیل کے جو کنویں ہیں ان کی تعداد...

barq@email.com

KARACHI:
ہم نے پچھلے کسی کالم میں لکھا تھا کہ ہماری حکومت پاکستان کے ہاتھ میں اس وقت تیل کے جو کنویں ہیں ان کی تعداد اٹھارہ کروڑ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ تیل کے ان کنوؤں کے لیے کوئی ڈرلنگ کوئی کھدائی نہیں کرنا پڑتی کیوں کہ یہ برسر زمین ہیں اور خود ہی چل کر اپنا تیل حکومت کے ذخائر میں جمع کرتے ہیں، اس تیل کے لیے ریفائنری کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہر محکمہ ان سے اپنی مرضی اور اپنی ضرورت کے مطابق تیل نکال سکتا ہے اور نکالتا رہتا ہے،

''جو آگے بڑھ کے تھام لے مینا اس کی ہے''

آج ہم ان میں سے نمونے کے طور پر ایک کنویں کا قصہ سناتے ہیں جو بظاہر تو ایک کنویں کی کہانی ہے لیکن سارے کنوؤں کی کہانی تقریباً یہی ہے ... اور یہ جگ بیتی بھی نہیں بلکہ وہ کنواں جس کا تذکرہ مقصود ہے ہم خود ہیں، گھی اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور آٹے کی حشر سامانیوں سے تنگ آکر ہم نے حکومت کے ان اعلانات کا ساتھ دینا چاہا جو مختلف محکمے محض اشتہاروں میں پیسے مارنے کے لیے کرتے رہتے ہیں، پیداوار بڑھاؤ، سورج مکھی اگاؤ، کنولا کاشت کرو اور ترقی دادہ مکئی کی اقسام اپناؤ، سوچا بھلا اس سے اچھا کام اور کیا ہو سکتا ہے، زمین اپنی ہے اور محنت کے ہم صدیوں سے عادی ہیں، چلو روایتی فصلوں کے بجائے ''ترقی دادہ'' فصلیں اگاتے ہیں اور مہنگائی کی ایسی کی تیسی کر کے گھی کے کارخانوں کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہیں، علامہ اقبال کو یاد کیا اور ان کا وہ ''ذرا نم ہو'' والا شعر پڑھتے ہوئے یقین کر لیا کہ

اک ذرہ زمین نہیں بے کار باغ میں

یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالہ کے داغ کا

موسم سورج مکھی کا تھا، بیج کا پوچھا تو یوں شاک لگا جیسے ہم سورج مکھی کے بیج نہیں بلکہ موتی خرید رہے ہیں۔ یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ چلو ایک بار خریدتے ہیں، ایک کے سو اور سو کے ہزار دانے بنانا کیا مشکل ہے، دل سے کہا، ڈرو مت آگے بڑھ ۔۔۔ جو ڈر گیا وہ مرگیا ۔۔۔ ''موتی'' تو خرید لیے لیکن اس کے اوپر کا نوشتہ پڑھا تو ایک اور ہفت خواں سامنے تھا،

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

طریقہ کاشت میں بالکل وہی مشابہت پائی جو عام طور پر اخبار اور ٹی وی کے پکوانوں کی ترکیب میں ہوتی ہے کہ پکانا تو گوبھی ہوتی ہے لیکن اس کے لیے جو لوازمات درج ہوتے ہیں، ان سے دو چار مرغ خریدے جا سکتے ہیں۔ کسی زمانے میں ہم ان تراکیب کو اکثر پڑھا کرتے تھے کہ چلو نصیب میں کھانا تو ان پکوانوں کا لکھا نہیں ہے لیکن پڑھ کر دل ہی دل میں چکھا تو جا سکتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہوتا تھا کہ کوئی آسان اور سستی ترکیب ہوئی تو گھر میں میں ٹرائی بھی مار لیں گے۔ ایک دن ایک آسان ترکیب پڑھنے کو مل ہی گئی کیونکہ ہمارے جانے پہچانے دوست ''بینگن'' کے بارے میں تھی عنوان تھا بگھارے بینگن ۔۔۔ سوچا یہ ترکیب اپنے کو جمے گی بینگن کو بگھارنا کیا مشکل ہے لیکن نیچے جو نسخہ لکھا تھا اسے تفصیل سے لکھ کر ہم اپنے پڑھنے والوں پر چھریاں نہیں چلا سکتے لیکن اس میں بادام، خشخاش، اخروٹ، کھوپرا، الائچی، کالی مرچ، جائفل، کلونجی، تل وغیرہ تو ہم نے پہچان لیے لیکن آٹھ دس اور بھی چیزیں تھی اور آج ایک بار پھر ترقی دادہ قسم کی مکئی ہمارے سامنے تھی، کھیت کی تیاری کے لیے جو تین چار اقسام کے ہلوں کا استعمال بتایا گیا تھا اس کے لیے ہمیں عام ٹریکٹر کے ساتھ ساتھ کچھ اور مشینری بھی منگوانا پڑتی جو ہمارے علاقے میں مروج نہیں ہے، پھر نیچے ۔۔۔ کھاد کا سلسلہ تھا فاسفیٹ، نائٹریٹ، پوٹاش کی ایک ایک بوری ۔۔۔ گویا اس رادھا کو نچانے کے لیے پورا نو من تیل درکار تھا (شعر کی بے وزنی کے لیے معذرت)

کٹی کچلی چھنی پیسی اور پھر گوندھی گئی مہندی

تب ان کے پیروں سے کہیں جا کر لگی مہندی


اس سارے سلسلے میں جو ڈھارس ہم اپنے دل کو دے رہے تھے، وہ یہ تھی کہ چلو اس دفعہ تو خرچہ ہو جائے گا لیکن پھر فراغت ہی فراغت ہو گی، لیکن ایک تجربہ گار بلکہ پہلے سے ''زدہ'' کسان نے انکشاف کیا کہ یہ بیج صرف ایک مرتبہ بویا جا سکتا ہے کیونکہ یہ پیداوار تو دے دیتا ہے لیکن جو دانے پیدا ہوتے ہیں وہ ''مخنث'' یا بانجھ ہوتے ہیں دوبارہ نہیں بوئے جا سکتے۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا لیکن اس نے سمجھایا کہ اس کی پیداوار ''ولایتی انڈے'' کی طرح ہوتی ہے جسے کھایا تو جا سکتا ہے لیکن چوزہ نہیں نکالا جا سکتا۔ ہماری یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی کہ پیدائش نر و مادہ تیسری جنس اور ولایتی انڈے کی پیداور صرف خدا کا کام ہے یہاں تو انسان بھی تیسری جنس کے جنم داتا ہو گئے، کرید لگ گئی کہ کیوں؟ کیسے اور کس لیے ؟ ۔۔۔۔۔ لیکن ان سوالوں کے جواب ملے تو مارے دہشت کے پسینے پسینے ہو گئے، ہمیں پتہ بھی نہیں اور ہماری موت کے سامان تیار ہو رہے ہیں۔

خوش کیا کھیت پر میرے اگر سو بار ابر آئے

سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو

حیرت ہوئی کہ آخر یہ غالب کس طرح کا بندہ تھا، بظاہر بادہ خوار اور واہی تباہی لیکن جو کہہ گیا ہے ،کمال ہے

سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی

عبارت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

(یا)

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولی برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

تحقیق کرنے پر یہ معاملہ اتنا سیدھا سادہ نہیں نکلا کہ چلو کچھ کمپنیوں نے ہائبرڈ بیج تیار کر لیے اپنے منافعے کے ساتھ ساتھ کسان کو فائدہ پہنچایا اور بس ۔۔۔۔ نہیں بلکہ اس معاملے کے ڈانڈے سیدھے جا کر ڈبلیو ٹی او یعنی ورلڈ ٹریڈ آرگنائریشن سے جا ملتے ہیں، دنیا کے بڑے بڑے ساہوکار فن کار امریکا بھی مقروض ہے اوراس کی وساطت سے تقریباً دنیا کے سارے ممالک اس سودی نظام میں پھنسے ہوئے ۔۔۔ ان کے تھنک ٹینکوں کے سامنے جنگ عظیم دوم سے یہ مسئلہ تھا کہ دنیا بھر میں سرمایہ داری کا سارا تام جام، یہ بینک، یہ کمپنیاں، یہ نوٹ یہ مشینیں یہ کرنسیاں حتیٰ کہ سونا اور ہیرے موتی بھی محض ایک مایا جال ہیں، جھوٹے اعتبارات ہیں اور صرف نام ہیں، اصل چیز زمین، زمین زادے اور زمین سے اگنے والی غذائی اجناس ہیں ۔۔۔ کیوں کہ ساری دنیا کے بینک کرنسیاں کمپنیاں سونے کے ذخائر اور لعل و جواہر کے خزانے مل کر بھی خود سے ایک روٹی بھی نہیں بنا سکتے، اس کے لیے اسے زمین اور زمین زادے کی ضرورت ہو گی۔ پہلے پہلے تو غذائی اجناس کے ذخائر جمع کرنے کا سلسلہ چلایا گیا جو صدیوں سے چل رہا ہے کہ مختلف ہتھکنڈوں حیلہ سازیوں نو سر بازیوں کے ذریعے پیداوار کو پیدا کرنے والے سے فوراً چھین لیا جائے اور اپنے قبضے میں لے کر اپنی مرضی اور اپنے نرخوں سے بیچا جائے۔

یہ پرانا طریقہ بھی چل رہا ہے لیکن سرمائے دار کو پھر بھی کہیں نہ کہیں یہ خوف تھا کہ اس سارے مسئلے کا بنیادی مرکز تو زمین اور کسان ہے کیوں کہ پانی بیچنے کی بجائے پورے چشمے کو قبضے میں لے لیا جائے اس کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا شیطانی چرخا چلایا گیا جس کا اصل ٹارگٹ پیداوار کے سارے سرچشموں پر مکمل قبضہ کرنا ہے چناں چہ پیداوار بڑھانے کا نام لے کر ان خاص قسم کے بیجوں کا سلسلہ شروع کیا گیا، زیادہ پیداوار کی لالچ میں کسان اپنے روایتی بیج چھوڑ دے گا جو آہستہ آہستہ متروک ہو کر نابود ہو جائیں گے اور بہت سارے ہو بھی چکے ہیں، حکومتی اداروں کے ذریعے ترقی دادہ بیچوں کا رحجان تو اچھا ہے جیسے آج کی گندم اور گنے وغیرہ میں ہے، لیکن یہ جوبانجھ قسم کے بیجوں کا سلسلہ ہے یہ کسان کی شہ رگ پر دانت گاڑھنے جیسا ہے ۔کسان کو ہر بار نئے بیج خریدنا پڑیں گے کیونکہ ان ہی بیجوں سے پیدا ہونے والی اجناس دوبارہ کاشت کرنے کے لائق نہیں ہوتیں، ان بیجوں کی قیمتیں اب بھی ہیرے موتیوں جیسی ہیں لیکن جب کسان کے پاس بیج کے نام پر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا تو پھر وہ مجبور ہو گا کہ کچھ بھی قیمت دے کر بیج خرید لیے جائیں یوں منافع کا اصل بہاؤ بیجوں کے سوداگر بلکہ بیجوں کو پیدا کرنے والے ان نئے خداؤں کی طرف ہو جائے گا، بے چارے کسان کو احساس تک نہیں ہے کہ اسے کس دلدل میں دھکیلا جارہا ہے۔
Load Next Story