وزیر اعظم نواز شریف کے دورۂ امریکا سے وابستہ توقعات

ملاقات میں دو طرفہ دلچسپی کے تمام امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

پاکستان اور امریکاخدشات اور توقعات کی پٹاریاں لیے ملاقات کی میز پر بیٹھیں گے۔ فوٹو : اے ایف پی

آج وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف اور امریکی صدر باراک اوباما کی وائٹ ہاؤس واشنگٹن میں ملاقات ہو گی۔

75 منٹ کے طے شدہ وقت میں پہلے 45 منٹ کے دوران وفود کی سطح کی ملاقات میں دو طرفہ دلچسپی کے تمام امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اس سے حاصل ہونے والے نکات کو حتمی شکل دینے کے لیے محدود ارکان پر مشتمل وفود پندرہ منٹ کی مختصر میٹنگ کریں گے اور اس کے بعد پندرہ منٹ کے لیے دونوں ممالک کے سربراہان ون آن ون ملاقات کریں گے اور بعد ازاں اس سارے عمل سے حاصل ہونے والے نتائج ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ذریعے پبلک کر دیے جائیں گے۔

سفارتی تعلقات کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی بھی ملک مستقلاً کسی کا دوست یا دشمن ہرگز نہیں ہوتا، اسی فارمولے کے تحت پاکستان اور امریکہ بھی آج اپنے اپنے مسائل مجبوریوں، خدشات اور توقعات کی پٹاریاں لیے ملاقات کی میز پر بیٹھیں گے۔ پاکستان کی خطے میں جغرافیائی اہمیت کے باعث یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اب کی بار وزیراعظم نواز شریف امریکہ کے صدر سے قدرے مختلف ماحول میں مل رہے ہیں۔ وہ شاید پاکستان کی تاریخ کے خوش قسمت ترین وزیراعظم ہیں کہ ان کو پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل ہے۔

حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی تمام جماعتیں ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے ایسے اہم ترین قومی معاملات میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلا چکی ہیں۔ ملکی سطح پر بظاہر کوئی بھی عنصر ان کے مخالف نہیں۔ خطے کی تمام قوتیں اور ممالک بشمول بھارت، ایران، چین، افغانستان اور سعودی عرب اپنے اپنے مسائل کے باعث پاک امریکہ تعاون و تعلقات میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے محتاط روّیہ اپنانے پر مجبور ہیں۔ امریکہ کو 2014 ء میں افغانستان سے ہر صورت واپس جانا ہے۔

پہلے وہ اپنی اور اپنے اتحادی ممالک کی افواج کی ایک محدود تعداد افغانستان اس غرض سے چھوڑ کر جانے کا سوچ رہا تھا کہ وہ افغان فوج کو ٹریننگ دے گی اور ان کی کارکردگی مانیٹر کرے گی مگر آئندہ سال کے اوائل میں افغانستان میں ہونے والے انتخابات میں عوامی حمایت حاصل کرنے کی مجبوری کے پیش نظر افغان صدر حامد کرزئی امریکی انتظامیہ کو کولڈ شولڈر دیتے نظر آئے تو امریکہ نے اب ریموٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے افغانستان سے باہر بحیرہ عرب یا کسی نزدیک ترین مقام میں اپنے فوجیوں کو رکھ کر افغان فوج کی کارکردگی مانیٹر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکہ کو یہ بھی تشویش نہیں کہ دسمبر 2014 کے بعد امریکی و اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان یا پاکستان کے عوام کا کیا ہو گا، انہیں فی الوقت خوش اسلوبی و خیر و عافیت سے اپنے انخلاء کو ممکن بنانا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے ملاقات کے دوران اہم سوال یہی پوچھیں گے کہ آپ ہم سے تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈرون حملے بند کیے جائیں پر یہ تو بتائیں کہ پاکستان سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے آپ نے اب تک حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے ہیں۔




اس بات کا علم پاکستان کے حکومی زعماء کو بھی بروقت ہو چکا تھا، اسی لیے انہوں نے پہلے 10 اکتوبر کو انسداد دہشت گردی آرڈی نینس اور 20 اکتوبر کو ہنگامی بنیادوں پر پاکستان پروٹیکشن آرڈی نینس جاری کرکے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا۔ اب آئندہ 90 یوم کے اندر پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ان اقدامات کے حوالے سے ضروری قانون سازی کر لی جائے تو اس کے مثبت نتائج بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اس اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والی ملاقات و مذاکرات سے توقع ہے کہ امریکہ ڈرون حملے مکمل اور فوری طور پر بند کرنے کا وعدہ تو نہ کرے گا مگر حکومت پاکستان کو پیشگی اطلاع دے کر حملے کرنے اورڈرون حملوں کی تعداد بہت حد تک کم کر دینے کا وعدہ ضرور کرے گا ،کیوں کہ اگر امریکہ نے ایسا نہ کرنا ہوتا تو وہ حکومت پاکستان اور حکومتی زعماء کو ڈرون حملے رکوانے کے حوالے سے اس حد تک ہائپ Create کرنے کی بھی حوصلہ افزائی نہ کرتا۔

اور ویسے بھی امریکہ یہ ناپسندیدہ عمل کب تک جاری رکھ سکتا ہے اسے ایک نہ ایک دن تو یہ کام بند کرنا ہے تو پھر کیوں نہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے دیگر شعبوں میں بھرپور تعاون حاصل کرکے ایک جذباتی قوم کے جذباتی معاملے کو ٹھنڈا کرکے امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرے، نیوکلیئر سول ٹیکنالوجی کی فراہمی کے معاملے پر بھی امریکہ محض وعدۂ فردا پر اکتفا کرے گا جبکہ پاکستانی مصنوعات بالخصوص ٹیکسٹائل مصنوعات کو امریکی منڈیوں تک حوصلہ افزاء رسائی اور توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے داسو ڈیم سمیت متعدد منصوبوں کے لیے مالی مدد فراہم کرنے کے اعلان کی توقع ضرور رکھنی چاہیے۔

پاکستانی طالبان سے حکومت پاکستان کے مذاکرات کے معاملہ سے امریکہ بالواسطہ رابطے میں رہنا چاہتا ہے جبکہ افغان طالبان کے افغان حکومت سے مذاکرات میں وہ براہ راست سٹیک ہولڈر ہے اور اسے حکومت پاکستان کی معاونت درکار ہے۔ اس حوالے سے اب تک پاکستان نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کیونکہ اسے پختہ یقین ہے کہ مستحکم افغانستان ایک خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔

امریکہ کو البتہ یہ پریشانی ضرور ہے کہ پاکستان و افغانستان کی حکومتیں کچھ عرصہ پہلے تک بضد تھیں کہ اگر ملا برادرز کو رہا کر دیا جائے تو وہ افغان طالبان کو شدت پسندی کی راہ سے ہٹانے اور مذاکرات کی میز پر لانے و جنگ بندی کا اعلان کرنے میں معاون ثابت ہوں گے مگر عملاً ایسا نہیں ہو رہا۔ وزیراعظم نواز شریف کو اپنے سابقہ دورۂ اقوام متحدہ اور حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران امریکی زعماء جان کیری، جیمز ڈوبنز، سوزن رائس اور جان برینن وغیرہ سے ایسی ہی متعدد شکایات سننے کو ملیں اور اسی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف کو منگل کے روز امریکہ میں متعدد مواقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ امریکہ عزت کرے اور عزت کرائے۔

یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ امریکی حکام نے ازخود وزیراعظم نواز شریف کی امریکہ کے تمام بڑے اخبارات کے مدیران و سینئر صحافیوں سے ملاقات کا اہتمام کیا ہے جس میں نیو یارک ٹائمز، وال سٹریٹ جرنل، واشنگٹن پوسٹ، ایسوسی ایٹڈ پریس، لاس اینجلس ٹائمز، یو ایس ٹوڈے اور باسٹن گلوب جیسے تمام بڑے اشاعتی ادارے شامل ہیں اور وزیراعظم نواز شریف بھی زمینی حقائق اور امریکی مجبوریوں کا صحیح ادراک رکھتے ہوئے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اظہار خیال کر رہے ہیں اور یہی پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی خواہش کہ ان کا منتخب وزیراعظم اپنی پوزیشن و جغرافیائی اہمیت کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ملک و قوم کے مفاد کی خاطر جرأت مندی سے بات اور مذاکرات کرے۔

ادھر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کی جانب سے تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے اہم معاملات پر مشورہ نہ کرنے اور اہم قومی معاملات پر اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا نہ کرنے کی شکایت پر اپنی پارٹی کے اکلوتے رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد چائے کی پیالی میں طوفان کھڑے کرنے کی کوشش کا آغاز کر چکے ہیں۔ وہ بظاہر اپوزیشن لیڈر بدلنے اور درحقیقت خود کو قائد حزب اختلاف بنوانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کی یہ اُمید تو شاید بر نہ آئے لیکن اگر وہ ایم کیو ایم کے 24 اور تحریک انصاف کے 35 اراکین قومی اسمبلی کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر کے مراعات بھرے عہدے سے شاید ہاتھ دھونا پڑیں۔
Load Next Story