کیا ہونے والا ہے
پاکستان کو معاشی طور پر آگے بڑھنے کے لیے عوام کو خوشحال بنانا ہوگا۔
پاکستان کے ذرایع ابلاغ میں جے یو آئی کے آزادی مارچ کو دی جانے والی اہمیت اس لیے غیر ضروری تھی کہ عوام کی بھاری اکثریت اس سے لاتعلق تھی۔ پاکستان کے کسی شہر اور بازار میں جاکر صرف ایک نگاہ ڈالی جائے تو آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جے یو آئی کے آزادی مارچ کے شرکا ان کی نمایندگی نہیں کرتے، یہ ایک جماعت کے مخصوص کارکنوں اور مدرسوں کے بالغ طلبا کا مجمع تھا۔ اس میں خواتین بھی نہیں تھیں جو پاکستان کی نصف آبادی ہیں۔
تقابلی جائزے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے جلسوں کے شرکا کا مشاہدہ کریں۔ کسی پرہجوم بازار پر نگاہ ڈالیں، کسی کرکٹ میچ، ہاکی میچ، عید کے اجتماع کو دیکھیں اور ان سب کے برخلاف جے یو آئی کے اجتماع کو دیکھ لیں۔ فرق صاف نظر آجائے گا۔ یہ ایک خاص گروہ دکھائی دے گا۔قومی شاہراہیں بند کرنے کے اعلان سے جے یو آئی کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے عوام اس کی پذیرائی نہیں کریں گے۔
جمہوریت کا بنیادی مقصد ہی انتخابات کے ذریعے مخصوص مدت کے لیے حکومت کی تشکیل ہے جو بنیادی طور پر ہجوم کے ذریعے کسی بھی فیصلے کی نفی ہے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بہت بڑا ہجوم جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ، لیکن انتخابات میں نمایندگی حاصل نہیں کرتی۔ کیا وہ اپنے ہجوم کے ذریعے وزیر اعلیٰ سندھ کوگرفتار کرنے کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں کوئی سیاستدان ایسا دعویٰ کرتا تو اس پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد ہوتی۔ پاکستان عوامی تحریک بھی بہت بڑا اجتماع کرسکتی ہے لیکن انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا سیاسی نظام غیر مستحکم ہے۔ اس کے باوجود کچھ عناصر کے مشورے پر اب بھی امکان موجود ہے کہ جے یو آئی کو جلد یا بدیر حکومت کا حصہ بنا لیا جائے گا۔ جے یو آئی کے سربراہ کی سابقہ حیثیت کچھ کمی کے ساتھ بحال ہوجائے گی اس طرح وہ بھی حکومت کا حصہ ہوں گے اور یہ نظام جوں کا توں برقرار رہے گا۔ جے یو آئی کے سربراہ نے اگر صدارتی انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی کو راضی کرلیا ہوتا تو غالب امکان تھا کہ وہ صدر پاکستان ہوتے یا اگر وہ دستبردار ہونے کی قربانی دیتے تو صدارت پی پی کے پاس ہوتی۔ اب ان کی کوشش یہ ہوگی کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ متبادل منصوبے کے بغیر اس قسم کے حالات میں معزول وزیر اعظم زیادہ طاقت کے ساتھ سامنے آتا ہے موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی مزید طاقت کے ساتھ واپسی ہوسکتی ہے، عوام میں یہ تاثر عام ہوسکتا ہے کہ کرسی کی لڑائی میں تحریک انصاف کی حکومت کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ جے یو آئی کے سربراہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ دنیا میں آنے والی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جو کچھ عوام کے سامنے آتا ہے اس سے ان کی پوزیشن مزید کمزور ہو رہی ہے۔ وہ اس تاثر کی نفی نہیں کرسکتے کہ وہ اقتدار کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو شاید اس بات کی پرواہ بھی نہیں ہے کہ ملک کی معیشت جس بحران میں ہے، اس میں سیاسی رسہ کشی کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے اور اس سے عام آدمی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔اس سیاسی رسہ کشی میں ملک کے اہم ترین مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں۔ ملک حالت جنگ میں ہے سرحدوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بڑی طاقتوں کی پاکستان میں بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ پاکستان لاقانونیت کا شکار رہے گا تو مختلف قوتوں کو اپنے مقاصد کے حصول میں آسانی ہوگی۔
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی صورت میں پاکستان پر دباؤ بڑھانا مشکل ہوگا۔ اس دھرنے کے پس پردہ مختلف مقاصد میں نیب کو بے اختیار بنانے ، مدرسوں کو جدید تعلیم سے دور رکھنے اور سیاستدانوں کی دولت اور جائیداد سے متعلق کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کے مطالبات کو قطعی خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے کچھ آثار نمایاں ہیں۔ ملک میں اشرافیہ کی بالادستی، حکمرانی اور دولت پر ان کے اختیار کو تحفظ دینے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ باالواسطہ طور پر یہ تسلیم کرانا مقصود ہے کہ اعلیٰ سیاسی وسرکاری شخصیات حاکمیت کا حق رکھتی ہیں۔
کسی نئی سیاسی قوت کو ان کے اس حق کو ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ لہٰذا آیندہ الیکشن بھی ایسا ہونا چاہیے جس میں نتائج اشرافیہ کی پسند کے مطابق ہوں۔ اشرافیہ کی اس بالادستی کو برقرار رکھنے کی جنگ جاری ہے۔ موجودہ دھرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دنیا کے کسی مہذب اور جمہوری ملک میں کوئی اقلیتی گروہ پورے نظام کو یرغمال نہیں بناسکتا۔ نہ ہی ایسا دباؤ ڈال سکتا ہے جس سے قانون کی بالادستی محض مذاق بن جائے۔ موجودہ صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اہم ترین مسائل کے حل میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔
ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی انتہائی اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے آبادی میں اضافے کا یہ سلسلہ نہ رُک سکا تو آیندہ پچاس سے ستر سال میں یہ آبادی ایک ارب تک جاسکتی ہے۔ پاکستان میں وسائل کے اضافے کی رفتار انتہائی سست ہے۔ پاکستان کی بعض مذہبی قوتیں اس مسئلے کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش نے اس مسئلے پر قابو پایا ہے وہاں کے مذہبی علما نے بھی اس میں تعاون کیا آج بنگلہ دیش خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان کو غیر ملکی زر مبادلہ کی اشد ضرورت ہے، اس کا بہترین حل برآمدات میں اضافہ ہے۔ حکومت کی کسی حد تک توجہ ضرور ہے لیکن ایک سازگار ماحول کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے ملک میں سیاسی افراتفری کی صورت میں ایسی صنعتوں کو فروغ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان کو معاشی طور پر آگے بڑھنے کے لیے عوام کو خوشحال بنانا ہوگا۔ جب زراعت، صنعت اور تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔ اسی صورت میں عوام تک اس کے ثمرات پہنچ سکیں گے۔ جب زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا صنعت کو فروغ حاصل ہوگا۔ تجارتی سرگرمیاں تیز ہوں گی تو ایسی صورت میں روزگار کے ذرایع پیدا ہوں گے ملازمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ تعلیم کے شعبے کو بہتر بنانا اور تعلیم کو عام کرنا، خواتین میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔ خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگارکے مواقع فراہم کرنے انھیں بااختیار بنانے کے اقدامات، ہنگامی بنیادوں پر کرنے ہوں گے۔
تقابلی جائزے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے جلسوں کے شرکا کا مشاہدہ کریں۔ کسی پرہجوم بازار پر نگاہ ڈالیں، کسی کرکٹ میچ، ہاکی میچ، عید کے اجتماع کو دیکھیں اور ان سب کے برخلاف جے یو آئی کے اجتماع کو دیکھ لیں۔ فرق صاف نظر آجائے گا۔ یہ ایک خاص گروہ دکھائی دے گا۔قومی شاہراہیں بند کرنے کے اعلان سے جے یو آئی کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے عوام اس کی پذیرائی نہیں کریں گے۔
جمہوریت کا بنیادی مقصد ہی انتخابات کے ذریعے مخصوص مدت کے لیے حکومت کی تشکیل ہے جو بنیادی طور پر ہجوم کے ذریعے کسی بھی فیصلے کی نفی ہے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بہت بڑا ہجوم جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ، لیکن انتخابات میں نمایندگی حاصل نہیں کرتی۔ کیا وہ اپنے ہجوم کے ذریعے وزیر اعلیٰ سندھ کوگرفتار کرنے کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں کوئی سیاستدان ایسا دعویٰ کرتا تو اس پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد ہوتی۔ پاکستان عوامی تحریک بھی بہت بڑا اجتماع کرسکتی ہے لیکن انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا سیاسی نظام غیر مستحکم ہے۔ اس کے باوجود کچھ عناصر کے مشورے پر اب بھی امکان موجود ہے کہ جے یو آئی کو جلد یا بدیر حکومت کا حصہ بنا لیا جائے گا۔ جے یو آئی کے سربراہ کی سابقہ حیثیت کچھ کمی کے ساتھ بحال ہوجائے گی اس طرح وہ بھی حکومت کا حصہ ہوں گے اور یہ نظام جوں کا توں برقرار رہے گا۔ جے یو آئی کے سربراہ نے اگر صدارتی انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی کو راضی کرلیا ہوتا تو غالب امکان تھا کہ وہ صدر پاکستان ہوتے یا اگر وہ دستبردار ہونے کی قربانی دیتے تو صدارت پی پی کے پاس ہوتی۔ اب ان کی کوشش یہ ہوگی کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ متبادل منصوبے کے بغیر اس قسم کے حالات میں معزول وزیر اعظم زیادہ طاقت کے ساتھ سامنے آتا ہے موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی مزید طاقت کے ساتھ واپسی ہوسکتی ہے، عوام میں یہ تاثر عام ہوسکتا ہے کہ کرسی کی لڑائی میں تحریک انصاف کی حکومت کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ جے یو آئی کے سربراہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ دنیا میں آنے والی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جو کچھ عوام کے سامنے آتا ہے اس سے ان کی پوزیشن مزید کمزور ہو رہی ہے۔ وہ اس تاثر کی نفی نہیں کرسکتے کہ وہ اقتدار کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو شاید اس بات کی پرواہ بھی نہیں ہے کہ ملک کی معیشت جس بحران میں ہے، اس میں سیاسی رسہ کشی کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے اور اس سے عام آدمی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔اس سیاسی رسہ کشی میں ملک کے اہم ترین مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں۔ ملک حالت جنگ میں ہے سرحدوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بڑی طاقتوں کی پاکستان میں بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ پاکستان لاقانونیت کا شکار رہے گا تو مختلف قوتوں کو اپنے مقاصد کے حصول میں آسانی ہوگی۔
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی صورت میں پاکستان پر دباؤ بڑھانا مشکل ہوگا۔ اس دھرنے کے پس پردہ مختلف مقاصد میں نیب کو بے اختیار بنانے ، مدرسوں کو جدید تعلیم سے دور رکھنے اور سیاستدانوں کی دولت اور جائیداد سے متعلق کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کے مطالبات کو قطعی خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے کچھ آثار نمایاں ہیں۔ ملک میں اشرافیہ کی بالادستی، حکمرانی اور دولت پر ان کے اختیار کو تحفظ دینے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ باالواسطہ طور پر یہ تسلیم کرانا مقصود ہے کہ اعلیٰ سیاسی وسرکاری شخصیات حاکمیت کا حق رکھتی ہیں۔
کسی نئی سیاسی قوت کو ان کے اس حق کو ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ لہٰذا آیندہ الیکشن بھی ایسا ہونا چاہیے جس میں نتائج اشرافیہ کی پسند کے مطابق ہوں۔ اشرافیہ کی اس بالادستی کو برقرار رکھنے کی جنگ جاری ہے۔ موجودہ دھرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دنیا کے کسی مہذب اور جمہوری ملک میں کوئی اقلیتی گروہ پورے نظام کو یرغمال نہیں بناسکتا۔ نہ ہی ایسا دباؤ ڈال سکتا ہے جس سے قانون کی بالادستی محض مذاق بن جائے۔ موجودہ صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اہم ترین مسائل کے حل میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔
ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی انتہائی اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے آبادی میں اضافے کا یہ سلسلہ نہ رُک سکا تو آیندہ پچاس سے ستر سال میں یہ آبادی ایک ارب تک جاسکتی ہے۔ پاکستان میں وسائل کے اضافے کی رفتار انتہائی سست ہے۔ پاکستان کی بعض مذہبی قوتیں اس مسئلے کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش نے اس مسئلے پر قابو پایا ہے وہاں کے مذہبی علما نے بھی اس میں تعاون کیا آج بنگلہ دیش خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان کو غیر ملکی زر مبادلہ کی اشد ضرورت ہے، اس کا بہترین حل برآمدات میں اضافہ ہے۔ حکومت کی کسی حد تک توجہ ضرور ہے لیکن ایک سازگار ماحول کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے ملک میں سیاسی افراتفری کی صورت میں ایسی صنعتوں کو فروغ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان کو معاشی طور پر آگے بڑھنے کے لیے عوام کو خوشحال بنانا ہوگا۔ جب زراعت، صنعت اور تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔ اسی صورت میں عوام تک اس کے ثمرات پہنچ سکیں گے۔ جب زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا صنعت کو فروغ حاصل ہوگا۔ تجارتی سرگرمیاں تیز ہوں گی تو ایسی صورت میں روزگار کے ذرایع پیدا ہوں گے ملازمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ تعلیم کے شعبے کو بہتر بنانا اور تعلیم کو عام کرنا، خواتین میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔ خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگارکے مواقع فراہم کرنے انھیں بااختیار بنانے کے اقدامات، ہنگامی بنیادوں پر کرنے ہوں گے۔