سیاسی گرداب سے نکلنا ضروری
سیاسی اور معاشی حوالے سے ہر چیز دھندکا شکار ہے۔
پاکستان کو ''گیم آف پالیٹکس'' کے تزویراتی، معاشی، انسانی بساط پر اعصاب شکن معرکے درپیش ہیں، حکومت امڈتے طوفانوں سے نمٹنے میں مصروف ہے، اپوزیشن محاذ پر مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) میں چپقلش ،کشیدگی اور تناؤ دیدنی ہے، چیلنجز متنوع ہیں، سیاستدان ڈپلومیسی، عملیت پسندی اور جمہوری عمل کے انوکھے تجربوں سے آشنا ہو رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین، تجزیہ کار اور معتبر رہنماؤں میں کوئی اس پوزیشن میں نہیں کہ قوم کو یہ بتا سکے کہ آیندہ کیا ہونے والا ہے، اور سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، معیشت کی ممکنہ مثبت صورت گری میںکتنا وقت لگے گا اورکب عوام کو جمہوریت ایک سموتھ سیلنگ کرتی نظرآئے گی، ایک طرف دھرنا ختم اور اہم شاہراہیں بند کی جا رہی ہیں، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کی جڑیں کاٹ دیں اب تنا گرانا باقی رہ گیا۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کی گرتی صحت کا ایشو انتہائی تشویشناک رخ اختیارکر گیا ہے، حکومت نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دیدی ہے، وہ 7 ارب روپے کا شیورٹی بانڈ جمع کرا کر بیرون ملک جا سکتے ہیں جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے میمورنڈم کے مطابق نواز شریف یا شہباز شریف کی جانب سے فوری طور پر 8 ملین برطانوی پاؤنڈ 25 ملین امریکی ڈالر یا اس کے برابر پاکستانی مالیت کے بانڈز جمع کرانے ہونگے۔
ادھر مسلم لیگ ن نے نواز شریف کا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالنے کے مشروط حکومتی فیصلے کو انتقام قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے اسے حکومتی آفرکی بد ترین مثال سے تعبیر کیا ہے۔
حکومتی ذرایع کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنا کام مکمل کر لیا اب آگے بڑھنے کا انحصار ن لیگ پر ہے، وزیر قانون فروغ نسیم اورمعاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ کوئی سیاسی رنگ نہیں ہونا چاہیے، مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ یہ خطرناک کھیل ہے۔
ذرایع کے مطابق نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے مسلم لیگ ن نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے، دریں اثنا سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علاج کے لیے بانڈ جمع کرانے کے موقف کو حکومتی رہنماؤں نے بھی مسترد کیا، تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر اور متحدہ قومی موومنٹ کے اتحادی سینیٹر محمد علی سیف نے اپنی جماعت کے وزیر قانون کے موقف کو تسلیم نہیں کیا ہے، دونوں رہنماؤں نے الگ الگ بیانات میں فروغ نسیم کے موقف کو رد کیا۔
علی ظفر نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ حکومتی فیصلہ چیلنج ہوا تو عدالت اسے مسترد کر دے۔ واضح رہے نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے لیے طویل ترین اجلاس ہوئے، وزیر اعظم عمران خان سمیت پوری کابینہ نے بیماری کے بارے میں مکمل تصدیق کی، میڈیکل بورڈکی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ نواز شریف کی صحت کی خراب صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف کو ایک بارکے لیے یہ اجازت دی جا رہی ہے کہ وہ بیرون ملک جائیں اور علاج کروائیں، حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا، ون ٹائم اجازت دی ہے، دورانیہ چار ہفتے کا ہو گا، جو قابل توسیع ہے، فروغ نسیم نے وضاحت کی کہ حکومت نے ضمانتی بانڈ نہیں مانگے بلکہ انڈیمنٹی بانڈ مانگ رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ انڈیمنٹی بانڈ جمع کرانے پر ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ اس پر کارروائی آگے بڑھائیں گے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ نوازشریف کی صحت اچھی نہیں، ہمیں اس چیزکا احساس ہے، مگر حکومت کی ذمے داری ہے کہ نواز شریف کی واپسی یقینی بنائے، پارٹی کی مرکزی ترجمان مریم اونگ زیب نے وزیر قانون اور معاون خصوصی برائے احتساب کی پریس کانفرنس پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ قائد محمد نواز شریف کے بیرون ملک علاج کی شرط کا حکومتی فیصلہ مسترد کرتے ہیں۔
نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کو مشروط کرنے کا حکومتی فیصلہ عمران خان کے متعصابانہ رویے اورسیاسی انتقام پر مبنی ہے، کیونکہ ضمانت کے وقت تمام آئینی تقاضے پورے اور ضمانتی مچلکے جمع کرائے جا چکے ہیں، عدالت کے اوپر ایک حکومتی عدالت نہیں لگ سکتی۔
ادھر ذرایع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی صحت بدستورگر رہی ہے، ان کی قوت مدافعت انتہائی کم ہے، ڈاکٹرز نے انھیں 24 گھنٹے میں باہر منتقل کرنے کا مشورہ دیا ہے، ان کا بلڈ پریشر، شوگر لیول زیادہ ، جسم پر بننے والے دھبے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں، بیرون ملک روانگی میں مزید تاخیر سے زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ سٹیرائڈزکی مزید ڈوزز سے دورے سمیت دیگر پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں، ڈاکٹرزکا پلیٹ لیٹس کی سطح برقرار رکھنے کے لیے مختلف آپشنز پر بھی غور جاری ہے۔
وزیر ِاعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں غربت کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ کاروباری عمل تیز ہو، لوگ منافع بخش کاروباری سرگرمیاں سر انجام دیں، معاشی عمل تیز ہونے سے نوکریوںکے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور لوگ غربت سے نکلتے ہیں، حکومت کی معاشی اصلاحات کے نتیجے میں معیشت میں بہتری اور استحکام آیا ہے، ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، ملکی برآمدات میں بڑھوتری جب کہ درآمدات میں کمی آئی ہے، اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔
بدھ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے سینئر افسران سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ امر باعث تعجب ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں صدقات و خیرات اور فلاح و بہبودکے کاموں میں عوام سبقت لیتے ہیں وہاں ٹیکس اکٹھا کرنے کی شرح سب سے کم ہے۔ اس ملک میں انھوں نے سب سے زیادہ پیسہ اکٹھا کیا ہے، وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ایک طرف تو پاکستانی عوام کی جانب سے انسانی خدمت کا یہ مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف یہاں ٹیکس دینے کی شرح سب سے کم ہے۔
وزیر ِاعظم نے کہاکہ کاروباری طبقہ ایف بی آر پر اعتماد نہیںکرتا، ان میں ایک خوف پایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان آج ایک دوراہے پرکھڑا ہے، ماضی میں جس طرح اس ملک کو چلایا جا رہا تھا یہ ملک اب مزید اس طرح نہیں چل سکتا۔ ملک کو درپیش معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ بڑا مسئلہ ملک کی نوجوان آبادی جو کہ کل آباد ی کا 60 فیصد ہے اس کے ٹیلنٹ کو بروئے کار لانا ہے، نوجوان نسل کو تعلیم دے کر ان کو معاشرے کی تعمیر و ترقی کا جزو بنانا ہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ جب تک عوام کا ٹیکس کے نظام پر اعتماد بحال نہیں ہو گا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر پائے گا۔
سیاسی ذرایع کے مطابق سیاسی اور معاشی حوالے سے ہر چیز دھندکا شکار ہے، التباس ، بے یقینی، انتشار، بدنظمی، بے سمتی اور خود پیدا کردہ سماجی گرداب میں سب پھنسے ہوئے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ صورت حال کی بہتری کے لیے کون سا طریقہ اختیارکیا جائے، کیونکہ انا، ہٹ دھرمی اور منتقمانہ رویے نے آپشنزکے استعمال کو محدود کر دیا ہے، ایک رسہ کشی ہو رہی ہے، اور سیاسی بریک تھرو اور ڈیڈ لاک کے خاتمہ کے لیے جس تدبر اور سیاسی افہام وتفہیم کی ملک کو ضرورت ہے اس کا فقدان ہر سطح پر محسوس کیا جاتا ہے۔
بظاہر معاملات ٹھیک چل رہے ہیں، کوئی خطرہ کی بات نہیں، مسائل، مشکلات اور دشواریاں ضرور ہیں جنھیں حکومت سیاسی دانش و حکمت سے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
سیاسی مبصرین، تجزیہ کار اور معتبر رہنماؤں میں کوئی اس پوزیشن میں نہیں کہ قوم کو یہ بتا سکے کہ آیندہ کیا ہونے والا ہے، اور سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، معیشت کی ممکنہ مثبت صورت گری میںکتنا وقت لگے گا اورکب عوام کو جمہوریت ایک سموتھ سیلنگ کرتی نظرآئے گی، ایک طرف دھرنا ختم اور اہم شاہراہیں بند کی جا رہی ہیں، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کی جڑیں کاٹ دیں اب تنا گرانا باقی رہ گیا۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کی گرتی صحت کا ایشو انتہائی تشویشناک رخ اختیارکر گیا ہے، حکومت نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دیدی ہے، وہ 7 ارب روپے کا شیورٹی بانڈ جمع کرا کر بیرون ملک جا سکتے ہیں جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے میمورنڈم کے مطابق نواز شریف یا شہباز شریف کی جانب سے فوری طور پر 8 ملین برطانوی پاؤنڈ 25 ملین امریکی ڈالر یا اس کے برابر پاکستانی مالیت کے بانڈز جمع کرانے ہونگے۔
ادھر مسلم لیگ ن نے نواز شریف کا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالنے کے مشروط حکومتی فیصلے کو انتقام قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے اسے حکومتی آفرکی بد ترین مثال سے تعبیر کیا ہے۔
حکومتی ذرایع کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنا کام مکمل کر لیا اب آگے بڑھنے کا انحصار ن لیگ پر ہے، وزیر قانون فروغ نسیم اورمعاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ کوئی سیاسی رنگ نہیں ہونا چاہیے، مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ یہ خطرناک کھیل ہے۔
ذرایع کے مطابق نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے مسلم لیگ ن نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے، دریں اثنا سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علاج کے لیے بانڈ جمع کرانے کے موقف کو حکومتی رہنماؤں نے بھی مسترد کیا، تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر اور متحدہ قومی موومنٹ کے اتحادی سینیٹر محمد علی سیف نے اپنی جماعت کے وزیر قانون کے موقف کو تسلیم نہیں کیا ہے، دونوں رہنماؤں نے الگ الگ بیانات میں فروغ نسیم کے موقف کو رد کیا۔
علی ظفر نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ حکومتی فیصلہ چیلنج ہوا تو عدالت اسے مسترد کر دے۔ واضح رہے نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے لیے طویل ترین اجلاس ہوئے، وزیر اعظم عمران خان سمیت پوری کابینہ نے بیماری کے بارے میں مکمل تصدیق کی، میڈیکل بورڈکی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ نواز شریف کی صحت کی خراب صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف کو ایک بارکے لیے یہ اجازت دی جا رہی ہے کہ وہ بیرون ملک جائیں اور علاج کروائیں، حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا، ون ٹائم اجازت دی ہے، دورانیہ چار ہفتے کا ہو گا، جو قابل توسیع ہے، فروغ نسیم نے وضاحت کی کہ حکومت نے ضمانتی بانڈ نہیں مانگے بلکہ انڈیمنٹی بانڈ مانگ رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ انڈیمنٹی بانڈ جمع کرانے پر ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ اس پر کارروائی آگے بڑھائیں گے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ نوازشریف کی صحت اچھی نہیں، ہمیں اس چیزکا احساس ہے، مگر حکومت کی ذمے داری ہے کہ نواز شریف کی واپسی یقینی بنائے، پارٹی کی مرکزی ترجمان مریم اونگ زیب نے وزیر قانون اور معاون خصوصی برائے احتساب کی پریس کانفرنس پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ قائد محمد نواز شریف کے بیرون ملک علاج کی شرط کا حکومتی فیصلہ مسترد کرتے ہیں۔
نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کو مشروط کرنے کا حکومتی فیصلہ عمران خان کے متعصابانہ رویے اورسیاسی انتقام پر مبنی ہے، کیونکہ ضمانت کے وقت تمام آئینی تقاضے پورے اور ضمانتی مچلکے جمع کرائے جا چکے ہیں، عدالت کے اوپر ایک حکومتی عدالت نہیں لگ سکتی۔
ادھر ذرایع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی صحت بدستورگر رہی ہے، ان کی قوت مدافعت انتہائی کم ہے، ڈاکٹرز نے انھیں 24 گھنٹے میں باہر منتقل کرنے کا مشورہ دیا ہے، ان کا بلڈ پریشر، شوگر لیول زیادہ ، جسم پر بننے والے دھبے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں، بیرون ملک روانگی میں مزید تاخیر سے زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ سٹیرائڈزکی مزید ڈوزز سے دورے سمیت دیگر پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں، ڈاکٹرزکا پلیٹ لیٹس کی سطح برقرار رکھنے کے لیے مختلف آپشنز پر بھی غور جاری ہے۔
وزیر ِاعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں غربت کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ کاروباری عمل تیز ہو، لوگ منافع بخش کاروباری سرگرمیاں سر انجام دیں، معاشی عمل تیز ہونے سے نوکریوںکے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور لوگ غربت سے نکلتے ہیں، حکومت کی معاشی اصلاحات کے نتیجے میں معیشت میں بہتری اور استحکام آیا ہے، ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، ملکی برآمدات میں بڑھوتری جب کہ درآمدات میں کمی آئی ہے، اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔
بدھ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے سینئر افسران سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ امر باعث تعجب ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں صدقات و خیرات اور فلاح و بہبودکے کاموں میں عوام سبقت لیتے ہیں وہاں ٹیکس اکٹھا کرنے کی شرح سب سے کم ہے۔ اس ملک میں انھوں نے سب سے زیادہ پیسہ اکٹھا کیا ہے، وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ایک طرف تو پاکستانی عوام کی جانب سے انسانی خدمت کا یہ مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف یہاں ٹیکس دینے کی شرح سب سے کم ہے۔
وزیر ِاعظم نے کہاکہ کاروباری طبقہ ایف بی آر پر اعتماد نہیںکرتا، ان میں ایک خوف پایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان آج ایک دوراہے پرکھڑا ہے، ماضی میں جس طرح اس ملک کو چلایا جا رہا تھا یہ ملک اب مزید اس طرح نہیں چل سکتا۔ ملک کو درپیش معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ بڑا مسئلہ ملک کی نوجوان آبادی جو کہ کل آباد ی کا 60 فیصد ہے اس کے ٹیلنٹ کو بروئے کار لانا ہے، نوجوان نسل کو تعلیم دے کر ان کو معاشرے کی تعمیر و ترقی کا جزو بنانا ہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ جب تک عوام کا ٹیکس کے نظام پر اعتماد بحال نہیں ہو گا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر پائے گا۔
سیاسی ذرایع کے مطابق سیاسی اور معاشی حوالے سے ہر چیز دھندکا شکار ہے، التباس ، بے یقینی، انتشار، بدنظمی، بے سمتی اور خود پیدا کردہ سماجی گرداب میں سب پھنسے ہوئے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ صورت حال کی بہتری کے لیے کون سا طریقہ اختیارکیا جائے، کیونکہ انا، ہٹ دھرمی اور منتقمانہ رویے نے آپشنزکے استعمال کو محدود کر دیا ہے، ایک رسہ کشی ہو رہی ہے، اور سیاسی بریک تھرو اور ڈیڈ لاک کے خاتمہ کے لیے جس تدبر اور سیاسی افہام وتفہیم کی ملک کو ضرورت ہے اس کا فقدان ہر سطح پر محسوس کیا جاتا ہے۔
بظاہر معاملات ٹھیک چل رہے ہیں، کوئی خطرہ کی بات نہیں، مسائل، مشکلات اور دشواریاں ضرور ہیں جنھیں حکومت سیاسی دانش و حکمت سے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔