جدید لبنان کی تاریخ میں صنفی کردار
شادیوں کو ختم کرنے کے لیے عورت کا خلع لینا قانونی طور پر بے حد مشکل بلکہ اکثر نا ممکن ہو جاتا ہے۔
یہ واقعہ ہے دسمبر 2017 کی ایک سرد شام کا، جب بیروت کی ایک موٹر وے پر برطانوی خاتون سفارت کار، ریبیکا ڈائکس کی لاش ملی اور پوری دنیا کی توجہ بیروت پر مرکوز ہوگئی۔
پوسٹ مارٹم سے ثابت ہوا کہ خاتون سفارت کار کو قتل کرنے سے پہلے اس کا ریپ کیا گیا تھا۔ تیس سالہ ریبیکا کے قتل کی تحقیقات مزید آگے بڑھیں اور جلد ہی بیروت میں مقیم ایک پرائیویٹ ٹیکسی سروس کے ڈرائیور طارق ہوشیش کو ریپ اور قتل کے جرم میں گرفتارکر لیا گیا ، جسے اسی مہینے کے شروع میں سزائے موت سنا دی گئی ہے۔
اپنے مجرم کو ملنے والی اس سزا سے ریبیکا ڈائکس کا توکوئی بھلا نہ ہوگا ، البتہ ان خواتین کو تحفظ ضرور ملے گا جو لبنان کی سڑکوں پر روزانہ نوچتی کھسوٹتی نگاہوں اور صنفی تشدد کا سامنا توکرتی ہیں لیکن چاہتے ہوئے بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ لبنان میں ہرچار میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان حملوں کی کوئی شکایت کہیں درج نہیں ہوتی، یوں مجرم لبنان کی سڑکوں پر آزادانہ گشت کرتے ہیں۔
ریبیکا کے مجرم کا شمارگنتی کے ان چند مجرموں میں ہوتا ہے جن کے گرد لبنانی قانون نے شکنجہ کسا ہے، لیکن باقی مجرم آزاد ہی ٹھہرے۔ اس کی پہلی وجہ تو لبنان کے قدامت پسند معاشرے کی وہ سوچ ہے جس نے عورتوں کے لیے جنسی مظالم کے خلاف بس چپ کی چادر اوڑھنے کا ہی طریقہ متعین کیا ہے اور دوسرے وہ امتیازی قوانین ہیں جنہوں نے عورتوں کی حفاظت کرنے کے بجائے ان کو مزید غیرمحفوظ کردیا ہے۔
صنفی امتیازات سے بھرے اس معاشرے میں جب جب لبنانی عورتوں نے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھائی، اس کے نتیجے میں وہ ملعون بلکہ اکثر آپ ہی مجرم ٹھہری ہیں۔ دنیا کے بہت سے معاشروں کی طرح یہاں بھی شاذ ہی کسی عورت کو وہ انصاف ملا ہے جو اس کا پیدائشی اور قانونی حق ہے۔ صنفی تشدد اور امتیازکے خلاف شعور بیدار کرتے ہوئے 2018میں یہاں shame on کے عنوان سے ایک مہم چلائی گئی تھی، جس میں زیادتی کا نشانہ بننے والی عورتوں کے ساتھ جڑے ان ایشوز پر بات کی گئی تھی، جن پر یہاں پہلے بات کرنا بے شرمی کے زمرے میں آتا تھا۔
لبنان میں کچھ عرصہ قبل اسی حوالے سے ایک سروے بھی کیا گیا جس کے نتائج کے مطابق لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات سے ہی نابلد تھی کہ ریپ یا کسی اور جنسی تشدد کا شکار ہونے والی کسی بھی عورت سے اس بارے میں مناسب گفتگو کیسے کی جائے۔ اس کے برعکس ان مظلوم عورتوں کے لیے ان کے پاس صرف زخموں کو ہرا کرنے والے الفاظ سے زیادہ اور کچھ نہ تھا۔ یعنی لبنان کا شمار اس حوالے سے ایک ایسے معاشرے میں ہوتا ہے جہاں ریپ کرنے والوں کے بجائے ریپ کا شکار بننے والی عورتوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا چلن عام رہا ہے۔
معاشرتی و ثقافتی روایتوں سے ہٹ کر اب بات کرتے ہیں وہاں رائج ان قوانین کی، جنہوں نے خواتین میں ریاست کے خلاف سوائے بے چینی اور غم و غصے کے کچھ نہ بڑھایا۔ ان قوانین کے مطابق نکاح ، طلاق ، بچوں کی کسٹڈی اور وراثت سمیت تمام اہم معاملات میں عورت کا درجہ مرد سے کہیں کم تر قرار دیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ لبنان میں چائلڈ میرج کی اجازت بھی عام ہے جس کو عورتیں انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہیں۔
یہاں عورتوں کے لیے ایک اور بڑی پریشانی کی وجہ شہریت کا وہ قانون ہے، جس کی رو سے کسی بھی غیر ملکی مرد سے شادی کرنے والی لبنانی عورت کے بچے اور اس کا شوہر شہریت کے بے شمار حقوق سے محروم کر دیے جاتے ہیں اور صرف انھی بچوں کو مکمل شہری حقوق فراہم کیے جاتے ہیں جن کا باپ لبنانی ہو۔ اسی طرح کے بے شمار قوانین عرصہ دراز سے لبنان میں نافذ ہیں جن کی وجہ سے لبنان کی عورتیں جبرکی چکی میں پِس رہی ہیں۔
سن 2014میں تاریخ میں پہلی بار یہاں ایک بِل پاس ہوا جس میں گھریلو تشدد کو جرم کے زمرے میں داخل کر کے عورتوں کے قبیلے پر بڑا احسان کیا گیا۔ اس کے بعد، صنفی حقوق کے لیے جاری کئی مہمات کے نتیجے میں 2017 میں لبنان میں تعزیرات کوڈ سے آرٹیکل 522 کو ختم کر دیا گیا، جس کے مطابق ریپ کرنے والے ہر اس مرد کو بَری کر دیا جاتا تھا جو متاثرہ لڑکی سے شادی کر لے۔ ریاستی سطح پر ان دو چار اقدامات کے علاوہ لبنانی عورتوں کے لیے اورکچھ نہ سوچا گیا۔
اب بھی جبری شادیاں یہاں عام ہیں، اور ان شادیوں کو ختم کرنے کے لیے عورت کا خلع لینا قانونی طور پر بے حد مشکل بلکہ اکثر نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ایک طرف لبنان میں معاشرے اور ریاست کی سطح پر عورتوں کے استحصال کی یہ تاریخ رہی ہے تو دوسری جانب ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔
اس وقت لبنان انتہائی نازک اور اہم دور سے گزر رہا ہے۔ تبدیلی کی خواہش سینے میں دبائے ہزاروں افراد سڑکوں پر جمع ہیں۔ ان مظاہروں کی ایک خاص الخاص بات لبنانی عورتوں کا ان کی قیادت کرنا ہے۔ ان عورتوں کا مطالبہ ایک ایسا سیاسی نظام ہے جو ان کے مکمل حقوق کا ضامن بن جائے۔ ایسا نظام جس میں ریبیکا کی طرح ہر عورت کا مجرم مرد سزا پائے کیوں کہ ثبوت کی عدم فراہمی کا جواز بنا کر آج تک لبنان میں بے شمار عورتوں کے ریپسٹ اور قاتل بری کیے جا چکے ہیں۔ سڑکوں پر اس وقت عورتوں کا جنون دیکھ کر لگتا تو یہ ہے کہ اب یہ عورتیں کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ ان کو جس قدر کچلا گیا ہے یہ اب اسی قدر طاقت مجتمع کیے سڑکوں پر کھڑی ہیں۔
صنفی امتیازات میں لتھڑے149 ممالک میں لبنان دسویں نمبر پر ہے۔ انٹرنیٹ پر عائد ٹیکسوں کے خلاف شروع ہونے والے حالیہ مظاہرے جلد ہی کرپشن کے خلاف مظاہروں میں بدل گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لبنانی عورتیں بھی ان کا ایسا حصہ بنیں کہ اب لبنان کا ذکر ان کے بنا ادھورا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لبنان کی عورتیں سیکنڈ کلاس شہریت کے اپنے درجے سے اکتا چکی ہیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے ماضی میں لبنان میں اٹھنے والی تحریکوں میں بھی بھرپور حصہ لیا لیکن تحریکوں کی کامیابی کے بعد ان کے حصے میں پرانے قوانین کے سوا نیا کچھ نہ آیا۔ اب اس انقلاب میں عورتیں خود اپنی لیڈر بن چکی ہیں۔
سڑکیں بلاک کرنا ہوں یا مظاہروں کی قیادت، لبنان کی عورتیں ہر سمت مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ یہ دراصل مقابل ہیں ان قوانین کے جنہوں نے اب تک بس ان کا استحصال ہی کیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ لبنانی خواتین اس بند ذہنیت سے بھی عاجز آچکی ہیں جن کو قومی میڈیا کے ذریعے مزید تقویت دی جاتی ہے۔ حالیہ مظاہروں میں بھی خواتین کے لباس اور جسمانی خطوط کو مردوں کی طرف سے بہت زیادہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مظاہروں کی کوریج کرنے والی خواتین رپورٹروں کو بھی تضحیک آمیز رویے جھیلنا پڑ رہے ہیں۔ لبنان کی عورتوں کے مطالبے مردانہ سماج کے لے ایک کڑوی گولی ہیں، جن کو آسانی سے نگلنا ممکن نہیں۔
لیکن لگتا تو یہ ہے کہ لبنانی عورتوں کے ان مطالبوں کو لبنان سے باہر بھی مردانہ سماج کے لیے ہضم کرنا مشکل ہورہا ہے۔ ہر مردانہ سماج میں نظریں اس تحریک پرگڑنے کے بجائے جسموں کو ہی رگید رہی ہیں۔ شاید اسی لیے ایک سعودی اخبار نے ان عورتوں کے مظاہروں کی ایک بڑی سی تصویر کے ساتھ '' لبنان کی خوب صورت خواتین'' کا کیپشن لگایا۔ ان سب منفی باتوں کے باوجود لبنانی عورتیں مثبت تبدیلی کے لیے پُر امید ہیں۔
سڑکیں انقلاب انقلاب کے جن نعروں سے گونج رہی ہیں ان میں نسوانی آوازیں سب پر بھاری ہیں۔ ''ہراسانی کے خلاف انقلاب، ریپ کے خلاف انقلاب'' وہ ماضی میں ہونے والے ہر ظلم کا نام لے کر انقلاب کے نعرے لگا رہی ہیں۔ ان کا جذبہ دیکھ کر لگتا ہے آنے والے مورخ جب بھی جدید لبنان کی تاریخ لکھیں گے، وہ عورتوں کے اس انقلابی کردارکوکبھی فراموش نہ کرسکیں گے۔
پوسٹ مارٹم سے ثابت ہوا کہ خاتون سفارت کار کو قتل کرنے سے پہلے اس کا ریپ کیا گیا تھا۔ تیس سالہ ریبیکا کے قتل کی تحقیقات مزید آگے بڑھیں اور جلد ہی بیروت میں مقیم ایک پرائیویٹ ٹیکسی سروس کے ڈرائیور طارق ہوشیش کو ریپ اور قتل کے جرم میں گرفتارکر لیا گیا ، جسے اسی مہینے کے شروع میں سزائے موت سنا دی گئی ہے۔
اپنے مجرم کو ملنے والی اس سزا سے ریبیکا ڈائکس کا توکوئی بھلا نہ ہوگا ، البتہ ان خواتین کو تحفظ ضرور ملے گا جو لبنان کی سڑکوں پر روزانہ نوچتی کھسوٹتی نگاہوں اور صنفی تشدد کا سامنا توکرتی ہیں لیکن چاہتے ہوئے بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ لبنان میں ہرچار میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان حملوں کی کوئی شکایت کہیں درج نہیں ہوتی، یوں مجرم لبنان کی سڑکوں پر آزادانہ گشت کرتے ہیں۔
ریبیکا کے مجرم کا شمارگنتی کے ان چند مجرموں میں ہوتا ہے جن کے گرد لبنانی قانون نے شکنجہ کسا ہے، لیکن باقی مجرم آزاد ہی ٹھہرے۔ اس کی پہلی وجہ تو لبنان کے قدامت پسند معاشرے کی وہ سوچ ہے جس نے عورتوں کے لیے جنسی مظالم کے خلاف بس چپ کی چادر اوڑھنے کا ہی طریقہ متعین کیا ہے اور دوسرے وہ امتیازی قوانین ہیں جنہوں نے عورتوں کی حفاظت کرنے کے بجائے ان کو مزید غیرمحفوظ کردیا ہے۔
صنفی امتیازات سے بھرے اس معاشرے میں جب جب لبنانی عورتوں نے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھائی، اس کے نتیجے میں وہ ملعون بلکہ اکثر آپ ہی مجرم ٹھہری ہیں۔ دنیا کے بہت سے معاشروں کی طرح یہاں بھی شاذ ہی کسی عورت کو وہ انصاف ملا ہے جو اس کا پیدائشی اور قانونی حق ہے۔ صنفی تشدد اور امتیازکے خلاف شعور بیدار کرتے ہوئے 2018میں یہاں shame on کے عنوان سے ایک مہم چلائی گئی تھی، جس میں زیادتی کا نشانہ بننے والی عورتوں کے ساتھ جڑے ان ایشوز پر بات کی گئی تھی، جن پر یہاں پہلے بات کرنا بے شرمی کے زمرے میں آتا تھا۔
لبنان میں کچھ عرصہ قبل اسی حوالے سے ایک سروے بھی کیا گیا جس کے نتائج کے مطابق لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات سے ہی نابلد تھی کہ ریپ یا کسی اور جنسی تشدد کا شکار ہونے والی کسی بھی عورت سے اس بارے میں مناسب گفتگو کیسے کی جائے۔ اس کے برعکس ان مظلوم عورتوں کے لیے ان کے پاس صرف زخموں کو ہرا کرنے والے الفاظ سے زیادہ اور کچھ نہ تھا۔ یعنی لبنان کا شمار اس حوالے سے ایک ایسے معاشرے میں ہوتا ہے جہاں ریپ کرنے والوں کے بجائے ریپ کا شکار بننے والی عورتوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا چلن عام رہا ہے۔
معاشرتی و ثقافتی روایتوں سے ہٹ کر اب بات کرتے ہیں وہاں رائج ان قوانین کی، جنہوں نے خواتین میں ریاست کے خلاف سوائے بے چینی اور غم و غصے کے کچھ نہ بڑھایا۔ ان قوانین کے مطابق نکاح ، طلاق ، بچوں کی کسٹڈی اور وراثت سمیت تمام اہم معاملات میں عورت کا درجہ مرد سے کہیں کم تر قرار دیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ لبنان میں چائلڈ میرج کی اجازت بھی عام ہے جس کو عورتیں انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہیں۔
یہاں عورتوں کے لیے ایک اور بڑی پریشانی کی وجہ شہریت کا وہ قانون ہے، جس کی رو سے کسی بھی غیر ملکی مرد سے شادی کرنے والی لبنانی عورت کے بچے اور اس کا شوہر شہریت کے بے شمار حقوق سے محروم کر دیے جاتے ہیں اور صرف انھی بچوں کو مکمل شہری حقوق فراہم کیے جاتے ہیں جن کا باپ لبنانی ہو۔ اسی طرح کے بے شمار قوانین عرصہ دراز سے لبنان میں نافذ ہیں جن کی وجہ سے لبنان کی عورتیں جبرکی چکی میں پِس رہی ہیں۔
سن 2014میں تاریخ میں پہلی بار یہاں ایک بِل پاس ہوا جس میں گھریلو تشدد کو جرم کے زمرے میں داخل کر کے عورتوں کے قبیلے پر بڑا احسان کیا گیا۔ اس کے بعد، صنفی حقوق کے لیے جاری کئی مہمات کے نتیجے میں 2017 میں لبنان میں تعزیرات کوڈ سے آرٹیکل 522 کو ختم کر دیا گیا، جس کے مطابق ریپ کرنے والے ہر اس مرد کو بَری کر دیا جاتا تھا جو متاثرہ لڑکی سے شادی کر لے۔ ریاستی سطح پر ان دو چار اقدامات کے علاوہ لبنانی عورتوں کے لیے اورکچھ نہ سوچا گیا۔
اب بھی جبری شادیاں یہاں عام ہیں، اور ان شادیوں کو ختم کرنے کے لیے عورت کا خلع لینا قانونی طور پر بے حد مشکل بلکہ اکثر نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ایک طرف لبنان میں معاشرے اور ریاست کی سطح پر عورتوں کے استحصال کی یہ تاریخ رہی ہے تو دوسری جانب ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔
اس وقت لبنان انتہائی نازک اور اہم دور سے گزر رہا ہے۔ تبدیلی کی خواہش سینے میں دبائے ہزاروں افراد سڑکوں پر جمع ہیں۔ ان مظاہروں کی ایک خاص الخاص بات لبنانی عورتوں کا ان کی قیادت کرنا ہے۔ ان عورتوں کا مطالبہ ایک ایسا سیاسی نظام ہے جو ان کے مکمل حقوق کا ضامن بن جائے۔ ایسا نظام جس میں ریبیکا کی طرح ہر عورت کا مجرم مرد سزا پائے کیوں کہ ثبوت کی عدم فراہمی کا جواز بنا کر آج تک لبنان میں بے شمار عورتوں کے ریپسٹ اور قاتل بری کیے جا چکے ہیں۔ سڑکوں پر اس وقت عورتوں کا جنون دیکھ کر لگتا تو یہ ہے کہ اب یہ عورتیں کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ ان کو جس قدر کچلا گیا ہے یہ اب اسی قدر طاقت مجتمع کیے سڑکوں پر کھڑی ہیں۔
صنفی امتیازات میں لتھڑے149 ممالک میں لبنان دسویں نمبر پر ہے۔ انٹرنیٹ پر عائد ٹیکسوں کے خلاف شروع ہونے والے حالیہ مظاہرے جلد ہی کرپشن کے خلاف مظاہروں میں بدل گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لبنانی عورتیں بھی ان کا ایسا حصہ بنیں کہ اب لبنان کا ذکر ان کے بنا ادھورا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لبنان کی عورتیں سیکنڈ کلاس شہریت کے اپنے درجے سے اکتا چکی ہیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے ماضی میں لبنان میں اٹھنے والی تحریکوں میں بھی بھرپور حصہ لیا لیکن تحریکوں کی کامیابی کے بعد ان کے حصے میں پرانے قوانین کے سوا نیا کچھ نہ آیا۔ اب اس انقلاب میں عورتیں خود اپنی لیڈر بن چکی ہیں۔
سڑکیں بلاک کرنا ہوں یا مظاہروں کی قیادت، لبنان کی عورتیں ہر سمت مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ یہ دراصل مقابل ہیں ان قوانین کے جنہوں نے اب تک بس ان کا استحصال ہی کیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ لبنانی خواتین اس بند ذہنیت سے بھی عاجز آچکی ہیں جن کو قومی میڈیا کے ذریعے مزید تقویت دی جاتی ہے۔ حالیہ مظاہروں میں بھی خواتین کے لباس اور جسمانی خطوط کو مردوں کی طرف سے بہت زیادہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مظاہروں کی کوریج کرنے والی خواتین رپورٹروں کو بھی تضحیک آمیز رویے جھیلنا پڑ رہے ہیں۔ لبنان کی عورتوں کے مطالبے مردانہ سماج کے لے ایک کڑوی گولی ہیں، جن کو آسانی سے نگلنا ممکن نہیں۔
لیکن لگتا تو یہ ہے کہ لبنانی عورتوں کے ان مطالبوں کو لبنان سے باہر بھی مردانہ سماج کے لیے ہضم کرنا مشکل ہورہا ہے۔ ہر مردانہ سماج میں نظریں اس تحریک پرگڑنے کے بجائے جسموں کو ہی رگید رہی ہیں۔ شاید اسی لیے ایک سعودی اخبار نے ان عورتوں کے مظاہروں کی ایک بڑی سی تصویر کے ساتھ '' لبنان کی خوب صورت خواتین'' کا کیپشن لگایا۔ ان سب منفی باتوں کے باوجود لبنانی عورتیں مثبت تبدیلی کے لیے پُر امید ہیں۔
سڑکیں انقلاب انقلاب کے جن نعروں سے گونج رہی ہیں ان میں نسوانی آوازیں سب پر بھاری ہیں۔ ''ہراسانی کے خلاف انقلاب، ریپ کے خلاف انقلاب'' وہ ماضی میں ہونے والے ہر ظلم کا نام لے کر انقلاب کے نعرے لگا رہی ہیں۔ ان کا جذبہ دیکھ کر لگتا ہے آنے والے مورخ جب بھی جدید لبنان کی تاریخ لکھیں گے، وہ عورتوں کے اس انقلابی کردارکوکبھی فراموش نہ کرسکیں گے۔