کرتار پور جس کا شہرہ دور دور

پاکستانی عوام اس تند و تیز گرانی کی ہوا میں امیدکا چراغ جلائے ہوئے ہیں کہ آنے والے دن ان کے لیے خوشی کاپیغام لائیں گے۔

anisbaqar@hotmail.com

علامہ نے کیا خوب فرمایا ہے:

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

اور اس مصرع نے عملی طور پر دنیا کو یہ دکھا دیا کہ اسلام تنگ نظری کی دعوت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ مباحثے اور عمل کی دنیا میں اگر کوئی قائل ہو جائے تو اس کا اسلام قبول کرنا زور زبردستی کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی اسلام یہ بتاتا ہے کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو مسمار کر کے مسجد بنائی جائے۔ اس کا ثبوت حضرت عمرؓ نے مصر کے کلیساؤں کا احترام کر کے دنیا کو دکھایا۔ جب مصر فتح ہوا تو وہاں بہت کلیسا تھے۔ یہی اسلامی شعار ہے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے عمران خان نے سکھ مذہب کے بانی 500 سال بعد گرو نانک جو وحدت خداوندی پر یقین رکھتے تھے ان کے مقبرے کی تزئین و آرائش میں عمران خان نے ایک مثالی کردار ادا کیا ہے۔

بھارت کے تین کروڑ سکھوں اور دنیا بھر میں سکھ مذہب کے تقریباً سات لاکھ لوگوں میں محبت کا ایسا پیغام بھیجا ہے جس سے پاکستان پر دہشتگردی کے لگائے گئے الزامات کی نفی ہو گئی ہے۔ اس عمل سے دنیا بھر کے لوگوں کو پاکستان وزٹ کرنے میں اب کوئی تامل نہ ہو گا۔ کیونکہ پاکستان کوئی کٹرپنتھی مذہبی ریاست نہیں۔ اس طرح انھوں نے دنیا کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ اب پاکستان وہ ملک نہیں رہا جہاں غیر مسلموں کی جان کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔

اس طرح موجودہ حکومت نے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ پاکستان ٹورازم کے لیے ایک بہترین سرزمین ہے۔ جہاں نہ صرف لینڈ اسکیپ کے بہترین نظارے ہیں بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب کے لیے ان کے مذاہب کی یادگاریں ہیں۔ بدھ مت ہو یا ہندو مت ان کے قدیم معبد موجود ہیں۔ کراچی سے براستہ حب جاتے ہوئے تقریباً 70 کلو میٹر پر ہنگلاج کی ہندو تیرتھ گاہ ہے جس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے پانچ سو سال قبل کی تیرتھ گاہ ہے۔ یہاں کے ٹیلوں پر بارہ سنگھوں والے ہرن نما مارخور بھی ہیں۔ اور ایسے ہی بے شمار مقامات پاک سرزمین پر موجود ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کرتار پور پر تقریباً پچاس ہزار لوگوں کی موجودگی میں افتتاحی تقریر فرمائی جس میں بھارت سے آئے ہوئے سکھ یاتری حضرات موجود تھے۔ اس کے علاوہ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ سے آئے ہوئے یاتری بھی موجود تھے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے جو تقریر فرمائی وہ بھی نہایت دلکش تھی۔ جس میں رنگ نسل اور مذہب سے بڑھ کر انسانیت کا درس تھا۔ انھوں نے کشمیر میں موجود حبس زدہ لوگوں کے لیے آزادی کا پیغام تو بھیجا ہی مگر ساتھ میں ایک اور بڑی بات کی اور بھارتی وزیر اعظم مودی کو یہ پیغام دیا کہ وہ دیگر بند سرحدیں بھی کھولنے کا عزم رکھتے ہیں تاکہ تلخی کے بادل چھٹ جائیں اور امن و آشتی کی فضا قائم ہو۔ گویا انھوں نے ایک طریقے سے یہ پیغام دیا کہ راجستھان کے بڑے ولی غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ سے بھی زور و شور بپا ہو اور مودی جواباً راجستھان کی راہداری کو اور وسیع کر دیں۔

خواجہ صاحب کے معتقد نہ صرف سندھ بلکہ دنیا بھر میں موجود ہیں۔ اس طرح عالم میں جو مسٹر نریندر مودی کے متعلق رنگ و نسل کی بیماری کی وبا پھیل گئی ہے اس میں بھی کمی واقع ہو گی۔ مسٹر نریندر مودی کو فی الوقت بھارتی مصنوعات کی دنیا بھر میں کھپت پر فخر ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ چھوت چھات اور رنگ و نسل کا عمل زیادہ بڑھا تو اسی دنیا میں مغرب اور مشرق سے ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں جو بھارتی مصنوعات کا محض اس لیے بائیکاٹ کریں کہ وہ دنیا میں رنگ، نسل اور مذہب کا مواد پھیلا رہے ہیں۔

لہٰذا بھارت کو اپنی تنگ نظری بدلنا ہو گی۔ آر ایس ایس کے پیغام کو آگے بڑھا کر مقامی لوگوں کو خوش کر کے ووٹ لینا آج کے دور میں آسان تو ہے مگر روشن دنیا میں یہ پہلو بھارت کی اقتصادی اور سیاسی زندگی کی ناکہ بندی کر سکتا ہے۔ آج کل مودی صاحب نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ٹیوشن لینی شروع کردی ہے۔ اس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی کشمیریوں کی ناکہ بندی ختم ہو گی اپنا علاقہ چھوڑ کر کہیں اور بھاگ جائیں گے۔ ایسا ہرگز نہ ہو گا بلکہ وہ اور سختی سے کشمیر ماتا کی آغوش میں ہی رہیں گے۔ کیونکہ پاکستان سے جو پیغام عمران خان نے دیا ہے وہ یہی ہے کہ:


میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے:

جگہ جگہ سے بارڈر کھولنے اور محبت کا جو پیغام کرتارپور سے دیا گیا اس نے اخلاقی طور پر مسٹر مودی کو اتنا تو جکڑ لیا کہ انھوں نے کرتارپور کے بارڈر کھولنے پر عمران خان کا شکریہ ادا کیا۔ اچھے تعلقات کا آخری نتیجہ یہی ہو گا کہ ممبئی کے فٹ پاتھوں پر جو لاکھوں لوگ سوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ اپنی چھت کے نیچے جا بسیں گے اور پاکستان کے بے روزگار بھی اپنے ملک میں اچھے حالات میں زندگی بسر کریں گے۔

روایتی جنگ بھی اربوں روپے کا اسلحہ برباد کرتی ہے اور ایٹمی جنگ تو زیست کا انکار کرتی ہے۔ ارد گرد کے ملکوں کو بھی برباد کر سکتی ہے۔ عمران خان نے کرتارپور سے جو پیغام دیا ہے وہ بالکل ایسا ہی ہے کہ یونان سے ہوتے ہوئے پورے مغرب کا سفر آسان ہے اسی لیے اس علاقے میں سرمایہ دارانہ نظام کے باوجود بھوک مری نہیں ہے۔ بیروزگاروں کو بھی گھر بیٹھے کھانا ملتا ہے ان کے بچوں کو تعلیم ملتی ہے آپسی جنگ جو سرد جنگ کی شکل میں تھی وہ بھی جاتی رہی۔ اب یہ صرف روس اور امریکا کے مابین کشمکش ہے اور اگر کہیں جنگ ہے بھی تو براہ راست نہیں بلکہ پراکسی وار ہے تاکہ اسلحے کی خرید و فروخت جاری رہے اور یہ وار انڈسٹری چلتی رہے۔

اگر عمران خان کے بیان کو عملی شکل دی جائے تو پھر براستہ بھارت برما، چین، نیپال، بھوٹان اور دیگر ممالک تک پاکستان کو راہداری مل سکتی ہے اور کاروباری لحاظ سے فائدہ تو ہے ہی لیکن سیاست کے اعتبار سے بھی بہت فوائد ہیں۔ پاکستان کی معیشت زرمبادلہ کے ذخائر کے اعتبار سے پستی کا شکار ہے۔ اس سے اردگرد کے تمام ملکوں کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔ کرتارپور کا نمونہ محض مذہبی نمونہ نہیں اور نہ ہی کوئی گریٹر پنجاب کا تصور ہے جو بعض لوگ اچھال رہے ہیں۔

یہ ایک لبرل سوچ کا اشارہ ہے کیونکہ پاکستان میں ٹورازم بالکل ہی ختم ہو چکا تھا۔ اور تھوڑے سے لوگ کالام اور ہنزہ گلگت کے پہاڑوں کو دیکھنے آتے تھے اور دنیا کے دوسرے شہری ماسوائے چینی باشندوں کے دیکھنے میں نہیں آتے۔ ان کو اس افواہ نے ڈرا رکھا ہے کہ پاکستان ایک مخدوش تفریحی علاقہ ہے۔ اب جب اس کے بعد غیر مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہبی مقامات کی زیارت پر آئیں گے تو ملک میں مزید مذہبی کشادگی کا منظر نمایاں ہو گا۔

ایک زمانہ تھا کہ کراچی کے کوچہ و بازار اور پشاور کے ہوٹل مغربی دنیا کے سیاحوں سے بھرے ہوتے تھے۔ مگر سیاسی نشیب و فراز کی وجہ سے سیاحت کا شوق رکھنے والے پاکستان کے نام سے ڈرنے لگے کیونکہ مغربی اخبارات میں یہ خبریں نمایاں ہوتی گئیں کہ ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کے لوگوں پر گولیاں چلاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اس دور میں کمی آئی اور آج کل انتہائی انہدام پر ہے۔ گویا ملک میں ایک بار پھر امن کا سورج لگتا ہے کہ طلوع ہو جائے گا اور معاشی طور پر جس راہ پر ملک چل رہا ہے، چلتا رہا تو معاشی بہتری نمایاں ہو گی۔ مگر فی الوقت فیول کی قیمتیں عروج پر ہیں اور اس میں مزید اضافے کے امکانات نظر آ رہے ہیں جس سے ٹیکسٹائل ویلیو ایڈڈ صنعت انتہائی زوال کی سمت رواں ہے یہی وجہ ہے کہ ایکسپورٹ مارکیٹ میں پاکستانی گارمنٹ اپنی موجودگی کھوتا جا رہا ہے۔

لہٰذا حکومت کو زرمبادلہ کو زرکثیر بنانے کے لیے محض سیاحت کی انڈسٹری نہیں بلکہ ٹیکسٹائل کی روایتی انڈسٹری کو بھی شانہ بشانہ لے کر چلنا ہو گا۔ یہ خبر آج کل سننے میں آ رہی ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مالکان بنگلہ دیش، افریقہ اور عرب امارات میں اپنی انڈسٹری لگانے کے لیے دوروں میں مصروف ہیں۔ کیونکہ ان کو ٹیکسز کے علاوہ فیول کا عفریت خوفزدہ کر رہا ہے۔ ان حالات میں عوام تو پریشانی سے گزر رہے ہیں اور تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں پھر بھی وہ کسی دھرنے میں قدم رکھنا پسند نہیں کرتے کیونکہ انھیں امید ہے کہ بجلی اور گیس کے دام نہ صرف ان کی پہنچ میں آسان ہوں گے بلکہ پاکستان کی انڈسٹری بھی بجلی اور گیس کو اپنی مصنوعات کے لیے استعمال کر سکے گی ابھی چند روز گزرے کے ایرانی وزیر خارجہ نے یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان ایرانی گیس پائپ لائن کو جلد فعال کرے گا۔ اس طرح اور تجارتی آسانیاں بھی پیدا ہوں گی۔ اگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ قربت میں اضافہ کیا جاتا رہا تو پھر کوئی شے ایسی نہ ہو گی جو بھارت میں بنی ہو اور براستہ دبئی پاکستان آتی ہو تاکہ زر کثیر خرچ نہ ہو۔

پاکستانی عوام اس تند و تیز گرانی کی ہوا میں امید کا چراغ جلائے ہوئے ہیں کہ آنے والے دن ان کے لیے خوشی کا پیغام لائیں گے۔ اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی ایسے تجارتی روابط قائم کیے جائیں گے جن سے فریقین کو سہولتیں فراہم ہوتی جائیں۔ مانا کہ کرتارپور کا شہرہ دور دور ہے ایسی انہونی سرگرمیوں کی ملک کو ضرورت ہے تاکہ اقتصادی اور عوامی خوشیوں میں اضافہ ہو۔
Load Next Story