تجارتی خسارہ 3352 فیصد کی کمی سے 777 ارب ڈالر ہوگیا
رواں مالی سال کے 4 ماہ کے دوران درآمدات 15.32 اور برآمدات 7.54ارب ڈالر رہیں
مالی سال 2019-20 کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 33.52 فیصد کمی سے 7.77 ارب ڈالر کی سطح پر آگیا۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کی رپورٹ کے مطابق تجارتی خسارے میں کمی کی بنیادی وجہ درآمداتی حجم کا محدود ہونا ہے۔ پی بی ایس کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ میں درآمدات میں گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 19.21فیصد کمی آئی اور درآمداتی حجم 15.32 ارب ڈالر رہا جو مالی سال 2018-19 میں 18.96 ارب ڈالر تھا۔
زیرتبصرہ عرصے کے دوران بر آمدات میں صرف 3.81 اضافہ ہوا اور برآمداتی حجم 7.54 ارب ڈالر ہوگیا جو گذشتہ مالی سال کی اس مدت میں 7.27 ارب ڈالر رہا تھا۔ اقتصادی عدم توازن کے خاتمے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات جیسے روپے کی قدر میں کمی، شرح سود میں اضافہ اور درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ سے تجارتی توازن کو بہتر بنانے میں مدد ضروری ملی ہے مگر ان اقدامات کی وجہ سے صنعتی سرگرمیاں بری طرح متأثر ہوئی ہیں اور معاشی نمو کی رفتار دھیمی پڑگئی ہے۔
جے ایس گلوبل کے ہیڈ آف ریسرچ حسین حیدر نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت درآمدات پر قابل ذکر حد تک قابو پانے میں کامیاب ہوجاتی تو تجارتی خسارے میں بھی نمایاں کمی واقع ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدامات کے باوجود سپرمارکیٹیں درآمداتی سامان سے بھری پڑی ہیں۔ حکومت کے اصلاحاتی اقدامات برآمداتی حجم میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
حسین حیدر کا مزید کہنا تھا کہ چار ماہ کے دوران تجارتی خسارے میں کمی اتنی بڑی کامیابی نہیں کہ اس پر خوشیاں منائی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر معاشی نمو کی رفتار سست پڑچکی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی نمو کی شرح کا تخمینہ 3.5 فیصد لگایا ہے جو نو برس میں گذشتہ سال رہنے والی سب سے کم شرح نمو 3.3 فیصد کے قریب قریب ہے۔
حسین حیدر کا کہنا تھا کہ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نمایاں طور پر کم ہوا ہے مگر یہ بہتری ملک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں نظر نہیں آرہی۔ زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم آج 8.3 ارب ڈالر ہے۔ اگست میں بھی زرمبادلہ کے ذخائر اسی سطح پر تھے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کی رپورٹ کے مطابق تجارتی خسارے میں کمی کی بنیادی وجہ درآمداتی حجم کا محدود ہونا ہے۔ پی بی ایس کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ میں درآمدات میں گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 19.21فیصد کمی آئی اور درآمداتی حجم 15.32 ارب ڈالر رہا جو مالی سال 2018-19 میں 18.96 ارب ڈالر تھا۔
زیرتبصرہ عرصے کے دوران بر آمدات میں صرف 3.81 اضافہ ہوا اور برآمداتی حجم 7.54 ارب ڈالر ہوگیا جو گذشتہ مالی سال کی اس مدت میں 7.27 ارب ڈالر رہا تھا۔ اقتصادی عدم توازن کے خاتمے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات جیسے روپے کی قدر میں کمی، شرح سود میں اضافہ اور درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ سے تجارتی توازن کو بہتر بنانے میں مدد ضروری ملی ہے مگر ان اقدامات کی وجہ سے صنعتی سرگرمیاں بری طرح متأثر ہوئی ہیں اور معاشی نمو کی رفتار دھیمی پڑگئی ہے۔
جے ایس گلوبل کے ہیڈ آف ریسرچ حسین حیدر نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت درآمدات پر قابل ذکر حد تک قابو پانے میں کامیاب ہوجاتی تو تجارتی خسارے میں بھی نمایاں کمی واقع ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدامات کے باوجود سپرمارکیٹیں درآمداتی سامان سے بھری پڑی ہیں۔ حکومت کے اصلاحاتی اقدامات برآمداتی حجم میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
حسین حیدر کا مزید کہنا تھا کہ چار ماہ کے دوران تجارتی خسارے میں کمی اتنی بڑی کامیابی نہیں کہ اس پر خوشیاں منائی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر معاشی نمو کی رفتار سست پڑچکی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی نمو کی شرح کا تخمینہ 3.5 فیصد لگایا ہے جو نو برس میں گذشتہ سال رہنے والی سب سے کم شرح نمو 3.3 فیصد کے قریب قریب ہے۔
حسین حیدر کا کہنا تھا کہ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نمایاں طور پر کم ہوا ہے مگر یہ بہتری ملک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں نظر نہیں آرہی۔ زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم آج 8.3 ارب ڈالر ہے۔ اگست میں بھی زرمبادلہ کے ذخائر اسی سطح پر تھے۔