کیا مولانا کے وار خطا ہوگئے

ساری صورتحال سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا کے چلائے تیر نشانے پر نہ لگ سکے

جے یو آئی نے پلان اے کے بعد پلان بی کی منصوبہ بندی اور پلان سی کی بھی تیاری کر رکھی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اسلام آباد دھرنے سے قبل جمیعت علمائے اسلام نے جس طرح ملک بھر میں ملین مارچ کیے اور ان ملین مارچ کو دیکھتے ہوئے سیاسی حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث تھا کہ اگر مولانا فضل الرحمان اسلام آباد چلے گئے تو دارالخلافہ لاک ڈاؤن ہوجائے گا۔ جب مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا تو حکومتی حلقوں میں بھی یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر جے یو آئی کارکنوں کی بڑی تعداد اسلام آباد میں لانے میں کامیاب ہوگئی تو اس وقت صورتحال کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اسی لیے حکومت نے مذاکرات کا راستہ اپنایا اور مذاکرات کے نتیجے میں جے یو آئی کا لاک ڈاؤن مارچ اور پھر دھرنے میں تبدیل ہوا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو معاہدہ حکومت اور جے یو آئی کے درمیان ہوا، اس پر فریقین نے عمل کیا۔ خیبرپختونخوا سے قافلے جب اسلام آباد کی جانب روانہ ہورہے تھے تو جے یو آئی کے رہنماؤں کا یہی کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کا استعفیٰ لینے جارہے ہیں اور جب جے یو آئی کے کارکن ریڈ زون کی جانب جائیں گے تو وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔ جب ان رہنمائوں سے پوچھا گیا کہ معاہدے میں ریڈ زون داخلے پر پابندی ہے تو جے یو آئی کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ معاہدہ ہم نے تو نہیں کیا، کارکنوں نے اپنا فیصلہ کرنا ہے۔ اور یہی خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ جس طرح 2014 میں پی ٹی آئی معاہدے کے باوجود ریڈ زون میں داخل ہوئے جے یو آئی کی جانب سے بھی یہی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

دھرنے میں مولانا فضل الرحمان کے تند و تیز تقاریر کے باعث سیاسی ماحول کافی کشیدہ بنتا دکھائی دے رہا تھا۔ مولانا فضل الرحمان سمیت کنٹینر سے تقاریر کرنے والے ایک مطالبے پر بضد تھے کہ وہ وزیراعظم کا استعفیٰ لے کر جائیں گے۔

حکومتوں کے خلاف تحریکیں چلتی رہی ہیں لیکن کسی وزیراعظم نے بھی اس طرح کسی اپوزیشن جماعتوں کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دیا۔ وزیراعظم عمران خان بھی جب نواز شریف سے استعفیٰ لینے کےلیے تحریک چلانے لگے تو وہ بھی نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکے۔ عدالتی حکم کے نتیجے میں نواز شریف کو گھر جانا پڑا۔ سیاسی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت اور اب کی صورتحال میں بہت فرق ہے۔ موجودہ حکومت ہر طرح سے اس وقت کی حکومت سے کافی مضبوط ہے۔ اسی لیے حکومت اپوزیشن جماعتوں کے دباؤ میں نہیں آرہی۔


جے یو آئی نے پلان اے کے بعد پلان بی کی منصوبہ بندی اور پلان سی کی بھی تیاری کر رکھی ہے۔ پلان اے کے تحت جے یو آئی اسلام آباد میں دھرنا دینے میں کامیاب ہوئی۔ اب پلان بی کے تحت جے یو آئی کے کارکنوں نے ملک کی اہم شاہراہوں اور سڑکوں پر دھرنے دے دیے ہیں۔ جے یو آئی کی جانب سے یہ توقع نہیں کی جارہی تھی کہ وہ انتی جلدی دھرنا ختم کردیں گے، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پلان اے کی ناکامی کے بعد جے یو آئی پلان بی کی جانب گئی ہے، جبکہ جے یو آئی اس بات کو ماننے کےلیے تیار نہیں کہ ان کا پلان اے ناکام ہوا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کو انتہائی منجھا ہوا زیرک سیاستدان سمجھا جاتا ہے، معلوم نہیں اس معاملے پر ان کی منصوبہ بندی کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مطالبہ کرکے کچھ نہ کچھ حاصل کرلیتے ہیں، لیکن ابھی تک کچھ دو اور کچھ لو کا منظرنامہ نظر نہیں آرہا۔ ملین مارچ کے بعد اسلام آباد لاک ڈاؤن انتہائی آخری حربہ تھا۔ اب اس کا دوبارہ ملک میں پھیل جانا، جے یو آئی کی یہ منطق سمجھ میں نہیں آرہی۔ اسلام آباد سے جے یو آئی کی واپسی کا مطلب یہی سمجھا جارہا ہے کہ حکومت کےلیے خطرہ ٹل گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے تمام کارڈ اپنے سینے سے لگا رکھے ہیں اور ان کے اتحادی بھی یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کیا کرنے جارہے ہیں اور ان کا ہدف کیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بھی تبصرے سننے میں آرہے ہیں کہ آئندہ انتخابات کےلیے مولانا کو یقین دہانیاں کرادی گئی ہیں کہ آئندہ سیاسی منظرنامے میں جے یو آئی باہر نہیں ہوگی۔

جے یو آئی کی جانب سے ملک بھر میں مظاہروں کے بعد کیا حکمت عملی ہوگی، اس بارے میں مختلف اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ملک بھر میں گرفتاریاں دینے کی تحریک شروع کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پارلیمنٹ سے استعفے بھی دیے جاسکتے ہیں، لیکن اس کےلیے ن لیگ اور پیپلزپارٹی راضی نہیں اور یہ بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکومت کو مستعفی ہونے کےلیے کچھ وقت مزید دے دیا جائے۔ اس ساری صورتحال سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا کے چلائے تیر نشانے پر نہ لگ سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story