زندگی پر مہربان رہیں
جتنا انسان خود کو کامیابی کےلیے تیار کرتا ہے، اتنا ہی اسے ناکامی کےلیے تیار ہونا چاہیے
اللہ نے جب انسان کو زندگی گزارنے کےلیے پیدا کیا تو اس کو رشتوں کی مضبوط لڑی میں باندھ دیا، تاکہ انسان ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ کر بہترین مددگار بن سکے۔ کیونکہ ہمارے بنانے والے کو معلوم تھا کہ انسان کو دنیا میں ان گنت مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور یہ اکیلا کبھی بھی ان مسائل سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔
زند گی گزارتے ہوئے انسان کچھ ایسی مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے جس میں اس کو دوسروں کی ہمدردی، محبت اور وقت کی بہت ضرورت محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مگر جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا گیا، ویسے ویسے اس کا زندگی گزارنے کا طریقہ بھی بدلتا گیا۔ اپنے مقصد کا حصول اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش نے سماجی طور پر انسان کو تنہا کردیا۔ اور اسی سماجی تنہائی نے دماغ کو مختلف الجھنوں میں ڈال دیا۔ اور جب یہ ذہنی الجھنیں حد سے بڑھنے لگیں تو یہ ذہنی بیماریوں کی شکل اختیار کرگئیں۔ ان بیماریوں نے ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا، اسی لیے دنیا ذہنی صحت کو اہمیت دینے لگی۔
دنیا ذہنی صحت کی اہمیت کو جان چکی ہے، اسی لیے ایسے مراکز قائم کردیے گئے ہیں جن میں مریض کا نفسیاتی اور سائنسی طریقوں سے علاج کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس ہم آج تک اس مسئلے کے بارے میں بھی سنجیدہ نہیں ہوسکے۔ پاکستان سائیکاٹرسٹ سوسائٹی کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا فرد مختلف ذہنی امراض کا شکار ہے اور اس وقت ملک بھر میں 2 کروڑ سے زائد افراد نفسیاتی اور ذہنی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ اتنی بدتر صورت حال ہونے کے باوجود ہم ذہنی امراض اور مریض کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں عام لوگوں میں ذہنی صحت سے متعلق شعور نہیں ہے۔
اگر ہم حکومتی سطح پر بات کریں تو ہماری حکومت صحت کےلیے مختص کیے گئے بجٹ میں سے صرف 2 فیصد دماغی امراض پر خرچ کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ذہنی صحت اچھی اور متوازن زندگی کےلیے بہت حد تک ضروری ہے۔ کیونکہ انسان کے سارے جسم کا دارومدار ہی دماغ پر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر انسان کے دماغ میں کسی چیز کا بوجھ ہو تو زندگی انتشار کا شکار ہونے لگتی ہے۔ اور ایسے میں انسان کبھی بھی زندگی کو بہتر طریقے سے نہیں گزار پاتا۔ آج کل ہمارا سماجی نظام چند پیچیدگیوں کا شکار ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے بارے میں رائے بناتے وقت اتنے منفی ہوچکے ہیں کہ ہمارے ہاں مریض اپنی دماغی حالت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی شرمند گی محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ لوگ اسے پاگل سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور سماجی بائیکاٹ کردیتے ہیں۔
ذہنی امراض کی بات کی جائے تو ان میں شیزوفرینیا، ڈپریشن، اعصابی دباؤ، تنہائی پسندی، بے خوابی و کم خوابی، منفی خیالات کا تسلسل، فرسٹریشن، احساس محرومی، نیند کے دوران سانس کا رکنا، ذہنی تناؤ، افسردگی، منفی خیالات کا تسلط شامل ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سماجی اعتبار سے تنہا ہونے کے بعد انسان غلط اور منفی خیالات کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے۔ ذہنی امراض کی اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم آج کل بطور انسان ایک دوسرے کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اسی لیے انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو عزت نہیں دیتے۔ مگر ہمیں اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس دنیا میں ہر کھوئی چیز مل سکتی ہے مگر انسان جو ایک بار اس دنیا سے چلا گیا، وہ واپس نہیں آئے گا۔
یہ دنیا انسان کےلیے تخلیق کی گئی، مگر ہم بطور معاشرہ انسان سے زیادہ چیزوں کو اہمیت دینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مرتبے، عہدے، دولت، نمود و نمائش کے ترازو میں ہم انسان کو تولتے ہیں۔ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان سب کے سامنے انسان اپنی قدر و قیمت کھو دیتا ہے۔ ہم سطحی چیزیں دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ حالانکہ چیزوں کی حقیقت مختلف ہوتی ہے، مگر ہمیں وہ ویسی ہی نظر اور سمجھ آتی ہیں جیسی ہم دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم سب ہی کسی نہ کسی جنگ میں مبتلا ہیں۔ بس سب کا جنگ لڑنے کا انداز مختلف ہے۔ کوئی دنیا کے سامنے ہنس کر رہتا ہے تو کوئی رو کر۔ کوئی مضبوط بن کر اپنا آپ دکھاتا ہے تو کوئی مشکلات کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔
اتنی سائنسی ترقی ہوجانے کے باوجود آج بھی انسان ہی انسان کی اصل دوا ہے۔ انسان کو سمجھنے، سمیٹنے کےلیے دوسرا انسان نہایت ضروری ہے۔ اسی لیے ہمیں دوسروں کے مسائل کو بہتر طریقے سے سننا اور سمجھنا چاہیے۔ اور ذہنی امراض کا شکار ہونے والے افراد کو بھی اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی کےلیے کام کرنا چاہیے۔ اپنی عادات کو بدلنا چاہیے اور اپنے آپ کو تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رکھنا چاہیے، تاکہ زندگی کے چھپے مقصد کو جان کر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکے۔
جتنا انسان خود کو کامیابی کےلیے تیار کرتا ہے، اتنا ہی اسے ناکامی کےلیے تیار ہونا چاہیے۔ کیونکہ ناکامی ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے اور ناکامی ملنے کے بعد ہی تو اصل کامیابی کی قیمت سمجھ آتی ہے۔ زندگی کو مثبت طریقے سے چلانے کےلیے ضروری ہے کہ زند گی پر اور دوسروں پر جہاں تک ممکن ہو مہربان رہنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
زند گی گزارتے ہوئے انسان کچھ ایسی مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے جس میں اس کو دوسروں کی ہمدردی، محبت اور وقت کی بہت ضرورت محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مگر جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا گیا، ویسے ویسے اس کا زندگی گزارنے کا طریقہ بھی بدلتا گیا۔ اپنے مقصد کا حصول اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش نے سماجی طور پر انسان کو تنہا کردیا۔ اور اسی سماجی تنہائی نے دماغ کو مختلف الجھنوں میں ڈال دیا۔ اور جب یہ ذہنی الجھنیں حد سے بڑھنے لگیں تو یہ ذہنی بیماریوں کی شکل اختیار کرگئیں۔ ان بیماریوں نے ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا، اسی لیے دنیا ذہنی صحت کو اہمیت دینے لگی۔
دنیا ذہنی صحت کی اہمیت کو جان چکی ہے، اسی لیے ایسے مراکز قائم کردیے گئے ہیں جن میں مریض کا نفسیاتی اور سائنسی طریقوں سے علاج کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس ہم آج تک اس مسئلے کے بارے میں بھی سنجیدہ نہیں ہوسکے۔ پاکستان سائیکاٹرسٹ سوسائٹی کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا فرد مختلف ذہنی امراض کا شکار ہے اور اس وقت ملک بھر میں 2 کروڑ سے زائد افراد نفسیاتی اور ذہنی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ اتنی بدتر صورت حال ہونے کے باوجود ہم ذہنی امراض اور مریض کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں عام لوگوں میں ذہنی صحت سے متعلق شعور نہیں ہے۔
اگر ہم حکومتی سطح پر بات کریں تو ہماری حکومت صحت کےلیے مختص کیے گئے بجٹ میں سے صرف 2 فیصد دماغی امراض پر خرچ کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ذہنی صحت اچھی اور متوازن زندگی کےلیے بہت حد تک ضروری ہے۔ کیونکہ انسان کے سارے جسم کا دارومدار ہی دماغ پر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر انسان کے دماغ میں کسی چیز کا بوجھ ہو تو زندگی انتشار کا شکار ہونے لگتی ہے۔ اور ایسے میں انسان کبھی بھی زندگی کو بہتر طریقے سے نہیں گزار پاتا۔ آج کل ہمارا سماجی نظام چند پیچیدگیوں کا شکار ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے بارے میں رائے بناتے وقت اتنے منفی ہوچکے ہیں کہ ہمارے ہاں مریض اپنی دماغی حالت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی شرمند گی محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ لوگ اسے پاگل سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور سماجی بائیکاٹ کردیتے ہیں۔
ذہنی امراض کی بات کی جائے تو ان میں شیزوفرینیا، ڈپریشن، اعصابی دباؤ، تنہائی پسندی، بے خوابی و کم خوابی، منفی خیالات کا تسلسل، فرسٹریشن، احساس محرومی، نیند کے دوران سانس کا رکنا، ذہنی تناؤ، افسردگی، منفی خیالات کا تسلط شامل ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سماجی اعتبار سے تنہا ہونے کے بعد انسان غلط اور منفی خیالات کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے۔ ذہنی امراض کی اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم آج کل بطور انسان ایک دوسرے کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اسی لیے انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو عزت نہیں دیتے۔ مگر ہمیں اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس دنیا میں ہر کھوئی چیز مل سکتی ہے مگر انسان جو ایک بار اس دنیا سے چلا گیا، وہ واپس نہیں آئے گا۔
یہ دنیا انسان کےلیے تخلیق کی گئی، مگر ہم بطور معاشرہ انسان سے زیادہ چیزوں کو اہمیت دینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مرتبے، عہدے، دولت، نمود و نمائش کے ترازو میں ہم انسان کو تولتے ہیں۔ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان سب کے سامنے انسان اپنی قدر و قیمت کھو دیتا ہے۔ ہم سطحی چیزیں دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ حالانکہ چیزوں کی حقیقت مختلف ہوتی ہے، مگر ہمیں وہ ویسی ہی نظر اور سمجھ آتی ہیں جیسی ہم دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم سب ہی کسی نہ کسی جنگ میں مبتلا ہیں۔ بس سب کا جنگ لڑنے کا انداز مختلف ہے۔ کوئی دنیا کے سامنے ہنس کر رہتا ہے تو کوئی رو کر۔ کوئی مضبوط بن کر اپنا آپ دکھاتا ہے تو کوئی مشکلات کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔
اتنی سائنسی ترقی ہوجانے کے باوجود آج بھی انسان ہی انسان کی اصل دوا ہے۔ انسان کو سمجھنے، سمیٹنے کےلیے دوسرا انسان نہایت ضروری ہے۔ اسی لیے ہمیں دوسروں کے مسائل کو بہتر طریقے سے سننا اور سمجھنا چاہیے۔ اور ذہنی امراض کا شکار ہونے والے افراد کو بھی اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی کےلیے کام کرنا چاہیے۔ اپنی عادات کو بدلنا چاہیے اور اپنے آپ کو تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رکھنا چاہیے، تاکہ زندگی کے چھپے مقصد کو جان کر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکے۔
جتنا انسان خود کو کامیابی کےلیے تیار کرتا ہے، اتنا ہی اسے ناکامی کےلیے تیار ہونا چاہیے۔ کیونکہ ناکامی ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے اور ناکامی ملنے کے بعد ہی تو اصل کامیابی کی قیمت سمجھ آتی ہے۔ زندگی کو مثبت طریقے سے چلانے کےلیے ضروری ہے کہ زند گی پر اور دوسروں پر جہاں تک ممکن ہو مہربان رہنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔