پاک امریکا تعلقات میں غلط فہمیاں بہت پرانی ہیں حسین حقانی
پرویز مشرف نے ڈرون پروگرام کی منظوری دی مگر وہ اسے خفیہ رکھنا چاہتے تھے،سابق سفیر
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان غلط فہمیاں 1947 میں ہی شروع ہوگئی تھیں مگر بدگمانیاں بعد میں پیدا ہوئیں۔
پاکستان کا خیال تھا کہ امریکا کیمونزم کو روکنے کیلیے پاکستان کی مدد کرے گا اور اس سے پاکستان بھارت سے برابری کی پوزیشن میں آجائیگا مگر امریکا کا ارادہ ایسا نہیں تھا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنا چاہتا ہے، امریکا کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ ایک اسلامی ملک کی مضبوط فوج ہو اور امریکا اسی طرح پاکستان کو بھارت کا تابع کرنا چاہتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ امریکا کی غلط فہمی یہ رہی ہے کہ امریکی ہمیشہ امداد کا سہارا لیکر پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور انکا خیال ہے کہ امداد دینے کا انھیں کبھی بھی اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے، امریکیوں نے ہمیشہ پاکستان کو صرف ایٹمی پروگرام اور دہشتگردی کے تناظر میں ہی دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا نے بعض دفعہ پاکستان کی اس وقت مدد کی جب انھیں پاکستان کی ضرورت تھی مگر جیسے ہی ضرورت ختم ہوئی اس نے پاکستان کو چھوڑ دیا، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی امریکا سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہا، میں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ کیسے پاکستانی اشرافیہ نے امریکا سے کیے گئے وعدوں کے حوالے سے پاکستانی عوام کو گمراہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان و افغانستان کیلیے امریکی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے گرینڈ بارگین(grand bargain) کا تصور متعارف کرایا تھا جس میں پاکستان کے بھارت کے حوالے سے خدشات کو دور کیا گیا، افغانستان کے حوالے سے ارادوں پر بات چیت کی گئی اور پاکستان کو یقین دلایا گیا کہ امریکا لمبے عرصے تک افغانستان میں رہے گا، مگر اس گرینڈ بارگین کے تصور کے نفاذ کیلیے دونوں ملکوں میں مضبوط قیادت کی ضرورت تھی، ہالبروک صدر اوباما کو قائل نہ کرسکے اور صدر زرداری پیچیدہ قومی سیاست کی وجہ سے مجبور تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے ڈرون پروگرام کو منظور کیا تھا اور وہ اسے خفیہ رکھناچاہتے تھے، کبھی کبھار ہونیوالے ڈرون حملے کو خفیہ رکھا جاسکتا ہے مگر اوباما انتظامیہ نے ڈرون حملے بڑھا دیئے جس سے اس پروگرام کو خفیہ نہ رکھا جاسکا، پاکستانی قائدین کھلے عام حملوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، بہتر آپشن مشترکہ پروگرام ہے جو امریکا کو قبول نہیں کیونکہ اسے شک ہے کہ پاکستانی خفیہ سروسز میں شدت پسندوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کو ہوا دی لیکن اگر تاریخ کو دیکھاجائے تو 1979 میں امریکہ کی طرف سے افغان طالبان کو بھاری امداد دیئے جانے سے قبل ہی پاکستان مذہبی انتہاپسند گروپوں کی مدد کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف ایک نکتہ پر اٹکا ہوا ہے کہ بھارت سے کشمیر کیسے چھیننا ہے، چینی صدر جیانگ زیمن جب پاکستان آئے تو انہوں نے کہا کہ آپ کشمیر کیلیے وہی ماڈل لے سکتے ہیں جو ہم نے تائیوان میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے میمو سکینڈل کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب لوگ سمجھنا شروع کردیں کہ ایک شخص دشمن ہے تو وہ پل کا کردار ادا کرنا بھی چاہے تو اسے دشمن سمجھا جاتا ہے، 2011ء میں ایبٹ آباد آپریشن کے بعد حکومت کا تختہ الٹے جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
اسلئے اسے روکنے کیلئے کسی میمو کی بھی ضرورت نہیں تھی، میری واشنگٹن میں ہر شخص تک رسائی تھی، میں مشکوک کردار کے کسی تاجر کا سہارا کیوں لیتا؟ مگر اس کہانی کو پاکستان میں بہت پزیرائی ملی، یہاں تک کہ مجھے استعفیٰ دینا پڑا اور میری زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوگئے جس سے دوطرفہ تعلقات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کا خیال تھا کہ امریکا کیمونزم کو روکنے کیلیے پاکستان کی مدد کرے گا اور اس سے پاکستان بھارت سے برابری کی پوزیشن میں آجائیگا مگر امریکا کا ارادہ ایسا نہیں تھا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنا چاہتا ہے، امریکا کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ ایک اسلامی ملک کی مضبوط فوج ہو اور امریکا اسی طرح پاکستان کو بھارت کا تابع کرنا چاہتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ امریکا کی غلط فہمی یہ رہی ہے کہ امریکی ہمیشہ امداد کا سہارا لیکر پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور انکا خیال ہے کہ امداد دینے کا انھیں کبھی بھی اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے، امریکیوں نے ہمیشہ پاکستان کو صرف ایٹمی پروگرام اور دہشتگردی کے تناظر میں ہی دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا نے بعض دفعہ پاکستان کی اس وقت مدد کی جب انھیں پاکستان کی ضرورت تھی مگر جیسے ہی ضرورت ختم ہوئی اس نے پاکستان کو چھوڑ دیا، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی امریکا سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہا، میں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ کیسے پاکستانی اشرافیہ نے امریکا سے کیے گئے وعدوں کے حوالے سے پاکستانی عوام کو گمراہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان و افغانستان کیلیے امریکی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے گرینڈ بارگین(grand bargain) کا تصور متعارف کرایا تھا جس میں پاکستان کے بھارت کے حوالے سے خدشات کو دور کیا گیا، افغانستان کے حوالے سے ارادوں پر بات چیت کی گئی اور پاکستان کو یقین دلایا گیا کہ امریکا لمبے عرصے تک افغانستان میں رہے گا، مگر اس گرینڈ بارگین کے تصور کے نفاذ کیلیے دونوں ملکوں میں مضبوط قیادت کی ضرورت تھی، ہالبروک صدر اوباما کو قائل نہ کرسکے اور صدر زرداری پیچیدہ قومی سیاست کی وجہ سے مجبور تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے ڈرون پروگرام کو منظور کیا تھا اور وہ اسے خفیہ رکھناچاہتے تھے، کبھی کبھار ہونیوالے ڈرون حملے کو خفیہ رکھا جاسکتا ہے مگر اوباما انتظامیہ نے ڈرون حملے بڑھا دیئے جس سے اس پروگرام کو خفیہ نہ رکھا جاسکا، پاکستانی قائدین کھلے عام حملوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، بہتر آپشن مشترکہ پروگرام ہے جو امریکا کو قبول نہیں کیونکہ اسے شک ہے کہ پاکستانی خفیہ سروسز میں شدت پسندوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کو ہوا دی لیکن اگر تاریخ کو دیکھاجائے تو 1979 میں امریکہ کی طرف سے افغان طالبان کو بھاری امداد دیئے جانے سے قبل ہی پاکستان مذہبی انتہاپسند گروپوں کی مدد کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف ایک نکتہ پر اٹکا ہوا ہے کہ بھارت سے کشمیر کیسے چھیننا ہے، چینی صدر جیانگ زیمن جب پاکستان آئے تو انہوں نے کہا کہ آپ کشمیر کیلیے وہی ماڈل لے سکتے ہیں جو ہم نے تائیوان میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے میمو سکینڈل کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب لوگ سمجھنا شروع کردیں کہ ایک شخص دشمن ہے تو وہ پل کا کردار ادا کرنا بھی چاہے تو اسے دشمن سمجھا جاتا ہے، 2011ء میں ایبٹ آباد آپریشن کے بعد حکومت کا تختہ الٹے جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
اسلئے اسے روکنے کیلئے کسی میمو کی بھی ضرورت نہیں تھی، میری واشنگٹن میں ہر شخص تک رسائی تھی، میں مشکوک کردار کے کسی تاجر کا سہارا کیوں لیتا؟ مگر اس کہانی کو پاکستان میں بہت پزیرائی ملی، یہاں تک کہ مجھے استعفیٰ دینا پڑا اور میری زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوگئے جس سے دوطرفہ تعلقات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔