بھارتی انتہا پسند ہندو جیت گئے
مذہب کا احترام تو پھر سارے مذاہب پر فرض ہے، کشمیر سے کرتار پور تک مذہب ہی آپ کی شیلڈ بن سکتا ہے۔
ایک ہی دن یعنی ہفتہ 09 نومبرکو جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کی پیدائش کا دن تھا، اس دن کے حوالے سے مدت ہوئی ہے سرکاری چھٹی کو ختم کر دیا گیا ہے اس روز ایک طرف حکومت پاکستان نے سکھوں کے مقدس مقام (گوردوارے دربار صاحب) کی 550 ویں جنم دن کے مناسبت سے ، بغیر ویزا و پاسپورٹ کے بھارتی سکھوں کے لیے پاکستان کا بارڈرکھول دیا۔
کرتار پور راہداری کا با ضابطہ افتتاح کرنے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بابا گرو نانک دیوجی کے 550 ویں جنم دن پر تمام سکھ برادری کو مبارک باد دی اور انھیں کرتار پور آمد پر خوش آمدید کہا۔ جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی واہ واہ ہوئی تو دوسری طرف اس روز بھارتی سپریم کورٹ نے 1528ء میں تعمیر کی گئی شہید بابری مسجد کا معتصبانہ فیصلہ سناتے ہوئے اس مسجد کی زمین کو انتہا پسند ہندووٗں کے حوالے کر دیا جہاں اب مندر تعمیرکیا جائے گا۔
اس فیصلے کو بھارتی مسلمانوں سمیت دنیا بھرکے مسلمانوں نے شرمناک اور معتصبانہ قرار دیا ہے۔ اس طرح دنیا بھر میں بھارت کی بد نامی ہوئی۔ یاد رہے کہ 06 دسمبر1992ء کو بھارتی انتہا پسند ہندووٗں نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور بھارت بھر میں مسلم کشی کی گئی تھی اس دوران دو ہزار مسلمان شہید کیے گئے تھے اور ان کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ بعد میں یہ معاملہ بھارتی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس کا فیصلہ 25 سال بعد سنایا گیا ۔ اس طرح قائد اعظم محمد علی جناح کا ہندؤ توا کے حوالے سے نظریہ پھر صحیح ثابت ہو گیا ہے۔
نہرو والا بھارت اب نہیں رہا بلکہ ہندوستان بن گیا ہے، ہندوستان میں ہندو توا غالب آ چکی ہے، سیکولر سوچ، جس کا پرچار کیا کرتے تھے وہ بابری مسجد کے منوں مٹی تلے دفن ہو چکی ہے۔ ہندوستان گاندھی کی سوچ سے ہٹ کر آر ایس ایس کی ڈگر پر چل پڑا ہے جب کہ پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے وجہ یہ بتائی کہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کے مطابق وہاں زیر زمین مندر تھا۔
محکمہ اور نیچے کھدائی کرتا تو شاید بدھوں کا ٹمپل بھی نکل آتا اور نیچے جاتا تو آگ پرستوں کی قربان گاہ بھی مل جاتی اور نیچے جاتا تو پتھرکے زمانے کے اوزار برآمد ہو جاتے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے ثابت کیا کہ بھارت ایک مکمل ہندو ریاست بن چکا ہے۔ جو ہر مسئلے کا حل ہندو ازم کی عینک لگا کر ڈھونڈ تا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہانا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ انتہا پسند ہے لیکن کانگریس کوکیا ہو گیا ہے وہ تو سیکولر ازم کے داعی ہے۔
کانگریس نے بھی شہید بابری مسجد کی جگہ پر رام مندرکی تعمیرکے حق میں ہے، البتہ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹ نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بتایا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، عدالت نے جارحیت کی حمایت کی، 500 سال پہلے مندر گرا کر مسجد تعمیر کرنے کی بات احمقانہ ہے، ایسی باتیں کچھ لوگوں کے سیاسی ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے ہیں، بھارتی سپریم کورٹ نے خطرناک رجحان کی بنیاد رکھ دی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد کیس میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہارکیا ہے۔ مسلمانوں کے حق کی وکالت کرنے والے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا ہے کہ شریعت کی رو سے ہم مسجد کسی کو نہیں دے سکتے، لیکن عدالتی فیصلے پر مشورہ کریں گے کہ اس کے جائزے کے لیے اپیل دائر کریں یا نہیں۔
مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے اسے حقائق کے بجائے عقیدے کی جیت قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ بابری مسجد شہید کرنے والوں سے ہی کہا جا رہا ہے کہ ٹرسٹ بنا کر رام مندرکی تعمیر شروع کرائی جائے۔
اسد اویسی نے کہا ہم اپنے قانونی حق کے لیے لڑ رہے تھے، بھارتی مسلمان غریب ہیں پر اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین نہ خرید سکیں، ہمیں کسی کی خیرات یا بھیک کی ضرورت نہیں، میری ذاتی رائے ہے کہ مسلمانوں کو اس تجویز کو مسترد کر دینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت اب ہندو توا کے راستے پر چل رہا ہے لیکن ہم اپنی نسلوں کو یہ بتاتے جائیں گے کہ یہاں 500 سال تک مسجد تھی لیکن 1992ء میں سنگھ پریوار اور کانگریس کی سازش نے اس مسجد کو شہید کر دیا۔
دسمبر 2017ء کو بی بی سی نے بابری مسجد کے انہدام کی کہانی، تصویروں کی زبانی کے عنوان سے ایک رپورٹ شایع کی جس میں بتایا گیا کہ بابری مسجد کی تباہی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسجد کو ایک گہری سازش کے تحت گرا گیا۔
بی بی سی کی اس رپورٹ کے مطابق فوٹو گرافر پروین جین نے بابری مسجد کو گرانے سے پہلے یعنی ایک دن پہلے کی جانے والی مشقوں کی تصاویر بنائیں۔ ان مشقوں میں آر ایس ایس کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی تھی۔ کارکنوں نے مٹی کے ٹیلے زمین پر گرا دیے تھے اور اگلے دن چھ دسمبر 1992ء کو یہ عمل دہرایا گیا۔ چھ دسمبر کو پولیس اہلکار بھی وہاں نعرے لگا رہے تھے۔ دوپہرکے بعد بھیڑ پرتشدد ہو گئی اور مسجد کی حفاظت کے لیے تعینات پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد فسادات میں دو ہزار افراد (مسلمان) شہید ہوئے۔ بابری مسجد کو گرانے میں نہ صرف کارکنان بلکہ عمارت گرانے والے پیشہ ور افراد بھی شامل تھے۔ کچھ ہندوؤں کا خیال ہے کہ اس متنازع جگہ پر ہندو دیوتا شری رام کی جائے پیدائش ہے۔ تباہ ہونے والی بابری مسجد کو 16 ویں صدی میں تعمیرکیا گیا تھا۔
بابری مسجد کی تباہی کی تحقیقات کرنے والے جسٹس البرہان کمیشن نے 2009ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ مسجد کو ایک گہری سازش کے تحت گرایا گیا۔ جس کے بعد لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اما بھارتی سمیت بہت سے افراد کے خلاف مجرمانہ سازش کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں دو مقدمات چل رہے ہیں ایک سازش کرنے کا اور دوسرا زمین کے مالکانہ حقوق کا۔
اس رپورٹ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور مسلمانوںکے خلاف سازش کرنے والوں اور بابری مسجدکو شہیدکرنے والوں کے حق میں فیصلہ سنا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت اب ہندوستان بن چکا ہے۔ اس طرح بھارتی انتہا پسند ہندو جیت گئے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ مذہبی گروہ اہم ممالک کے اقتدار میں جگہ بنا رہے ہیں۔
بھارت اس کی تازہ مثال ہے، امریکا کے صدر ٹرمپ گوری عیسائیت کے علم بردار ہیں ۔ ان سے قبل بش تو اسلام مخالفت میں اتنے آگے تھے کہ خود کو صلیبی جنگوں کے نائب سمجھنے لگے تھے، افغانستان میں شریعت کے نام لیوا طالبان غلبہ پا رہے ہیں، ایران پہلے ہی سے ایک مذہبی ریاست ہے، ایسے میں پاکستان میں مذہب پسند گروہوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے جو بدلتی سیاست کے تقاضوں کو مذہبی ترجیحات کے مطابق پورا کر سکیں اور مذہبی سوچ رکھنے والے غیر مسلم گروہوں سے معاملات طے کر سکیں۔
اس طرح مذہبی بنیاد پر برابری کا پیمانہ بھی قائم ہو جائے گا اور قومی سلامتی اور قومی مفاد کو مذہبی دلائل بھی مل جائیں گے۔ مذہب کا احترام تو پھر سارے مذاہب پر فرض ہے، کشمیر سے کرتار پور تک مذہب ہی آپ کی شیلڈ بن سکتا ہے۔
کرتار پور راہداری کا با ضابطہ افتتاح کرنے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بابا گرو نانک دیوجی کے 550 ویں جنم دن پر تمام سکھ برادری کو مبارک باد دی اور انھیں کرتار پور آمد پر خوش آمدید کہا۔ جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی واہ واہ ہوئی تو دوسری طرف اس روز بھارتی سپریم کورٹ نے 1528ء میں تعمیر کی گئی شہید بابری مسجد کا معتصبانہ فیصلہ سناتے ہوئے اس مسجد کی زمین کو انتہا پسند ہندووٗں کے حوالے کر دیا جہاں اب مندر تعمیرکیا جائے گا۔
اس فیصلے کو بھارتی مسلمانوں سمیت دنیا بھرکے مسلمانوں نے شرمناک اور معتصبانہ قرار دیا ہے۔ اس طرح دنیا بھر میں بھارت کی بد نامی ہوئی۔ یاد رہے کہ 06 دسمبر1992ء کو بھارتی انتہا پسند ہندووٗں نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور بھارت بھر میں مسلم کشی کی گئی تھی اس دوران دو ہزار مسلمان شہید کیے گئے تھے اور ان کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ بعد میں یہ معاملہ بھارتی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس کا فیصلہ 25 سال بعد سنایا گیا ۔ اس طرح قائد اعظم محمد علی جناح کا ہندؤ توا کے حوالے سے نظریہ پھر صحیح ثابت ہو گیا ہے۔
نہرو والا بھارت اب نہیں رہا بلکہ ہندوستان بن گیا ہے، ہندوستان میں ہندو توا غالب آ چکی ہے، سیکولر سوچ، جس کا پرچار کیا کرتے تھے وہ بابری مسجد کے منوں مٹی تلے دفن ہو چکی ہے۔ ہندوستان گاندھی کی سوچ سے ہٹ کر آر ایس ایس کی ڈگر پر چل پڑا ہے جب کہ پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے وجہ یہ بتائی کہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کے مطابق وہاں زیر زمین مندر تھا۔
محکمہ اور نیچے کھدائی کرتا تو شاید بدھوں کا ٹمپل بھی نکل آتا اور نیچے جاتا تو آگ پرستوں کی قربان گاہ بھی مل جاتی اور نیچے جاتا تو پتھرکے زمانے کے اوزار برآمد ہو جاتے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے ثابت کیا کہ بھارت ایک مکمل ہندو ریاست بن چکا ہے۔ جو ہر مسئلے کا حل ہندو ازم کی عینک لگا کر ڈھونڈ تا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہانا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ انتہا پسند ہے لیکن کانگریس کوکیا ہو گیا ہے وہ تو سیکولر ازم کے داعی ہے۔
کانگریس نے بھی شہید بابری مسجد کی جگہ پر رام مندرکی تعمیرکے حق میں ہے، البتہ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹ نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بتایا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، عدالت نے جارحیت کی حمایت کی، 500 سال پہلے مندر گرا کر مسجد تعمیر کرنے کی بات احمقانہ ہے، ایسی باتیں کچھ لوگوں کے سیاسی ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے ہیں، بھارتی سپریم کورٹ نے خطرناک رجحان کی بنیاد رکھ دی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد کیس میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہارکیا ہے۔ مسلمانوں کے حق کی وکالت کرنے والے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا ہے کہ شریعت کی رو سے ہم مسجد کسی کو نہیں دے سکتے، لیکن عدالتی فیصلے پر مشورہ کریں گے کہ اس کے جائزے کے لیے اپیل دائر کریں یا نہیں۔
مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے اسے حقائق کے بجائے عقیدے کی جیت قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ بابری مسجد شہید کرنے والوں سے ہی کہا جا رہا ہے کہ ٹرسٹ بنا کر رام مندرکی تعمیر شروع کرائی جائے۔
اسد اویسی نے کہا ہم اپنے قانونی حق کے لیے لڑ رہے تھے، بھارتی مسلمان غریب ہیں پر اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین نہ خرید سکیں، ہمیں کسی کی خیرات یا بھیک کی ضرورت نہیں، میری ذاتی رائے ہے کہ مسلمانوں کو اس تجویز کو مسترد کر دینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت اب ہندو توا کے راستے پر چل رہا ہے لیکن ہم اپنی نسلوں کو یہ بتاتے جائیں گے کہ یہاں 500 سال تک مسجد تھی لیکن 1992ء میں سنگھ پریوار اور کانگریس کی سازش نے اس مسجد کو شہید کر دیا۔
دسمبر 2017ء کو بی بی سی نے بابری مسجد کے انہدام کی کہانی، تصویروں کی زبانی کے عنوان سے ایک رپورٹ شایع کی جس میں بتایا گیا کہ بابری مسجد کی تباہی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسجد کو ایک گہری سازش کے تحت گرا گیا۔
بی بی سی کی اس رپورٹ کے مطابق فوٹو گرافر پروین جین نے بابری مسجد کو گرانے سے پہلے یعنی ایک دن پہلے کی جانے والی مشقوں کی تصاویر بنائیں۔ ان مشقوں میں آر ایس ایس کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی تھی۔ کارکنوں نے مٹی کے ٹیلے زمین پر گرا دیے تھے اور اگلے دن چھ دسمبر 1992ء کو یہ عمل دہرایا گیا۔ چھ دسمبر کو پولیس اہلکار بھی وہاں نعرے لگا رہے تھے۔ دوپہرکے بعد بھیڑ پرتشدد ہو گئی اور مسجد کی حفاظت کے لیے تعینات پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد فسادات میں دو ہزار افراد (مسلمان) شہید ہوئے۔ بابری مسجد کو گرانے میں نہ صرف کارکنان بلکہ عمارت گرانے والے پیشہ ور افراد بھی شامل تھے۔ کچھ ہندوؤں کا خیال ہے کہ اس متنازع جگہ پر ہندو دیوتا شری رام کی جائے پیدائش ہے۔ تباہ ہونے والی بابری مسجد کو 16 ویں صدی میں تعمیرکیا گیا تھا۔
بابری مسجد کی تباہی کی تحقیقات کرنے والے جسٹس البرہان کمیشن نے 2009ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ مسجد کو ایک گہری سازش کے تحت گرایا گیا۔ جس کے بعد لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اما بھارتی سمیت بہت سے افراد کے خلاف مجرمانہ سازش کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں دو مقدمات چل رہے ہیں ایک سازش کرنے کا اور دوسرا زمین کے مالکانہ حقوق کا۔
اس رپورٹ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور مسلمانوںکے خلاف سازش کرنے والوں اور بابری مسجدکو شہیدکرنے والوں کے حق میں فیصلہ سنا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت اب ہندوستان بن چکا ہے۔ اس طرح بھارتی انتہا پسند ہندو جیت گئے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ مذہبی گروہ اہم ممالک کے اقتدار میں جگہ بنا رہے ہیں۔
بھارت اس کی تازہ مثال ہے، امریکا کے صدر ٹرمپ گوری عیسائیت کے علم بردار ہیں ۔ ان سے قبل بش تو اسلام مخالفت میں اتنے آگے تھے کہ خود کو صلیبی جنگوں کے نائب سمجھنے لگے تھے، افغانستان میں شریعت کے نام لیوا طالبان غلبہ پا رہے ہیں، ایران پہلے ہی سے ایک مذہبی ریاست ہے، ایسے میں پاکستان میں مذہب پسند گروہوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے جو بدلتی سیاست کے تقاضوں کو مذہبی ترجیحات کے مطابق پورا کر سکیں اور مذہبی سوچ رکھنے والے غیر مسلم گروہوں سے معاملات طے کر سکیں۔
اس طرح مذہبی بنیاد پر برابری کا پیمانہ بھی قائم ہو جائے گا اور قومی سلامتی اور قومی مفاد کو مذہبی دلائل بھی مل جائیں گے۔ مذہب کا احترام تو پھر سارے مذاہب پر فرض ہے، کشمیر سے کرتار پور تک مذہب ہی آپ کی شیلڈ بن سکتا ہے۔