کیا نواز شریف کو ڈاکٹر مہاتیر محمد بننا چاہیے
ڈاکٹروں نے مہاتیر محمد کو جاپان یا برطانیہ لے جانے کا مشورہ دیا، لیکن انہوں نے باہر علاج کرانے سے صاف انکار کردیا
فواد چوہدری وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہیں، بڑے دبنگ قسم کے سیاستدان ہیں، بڑی سے بڑی بات بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہہ جاتے ہیں۔ فواد چوہدری کا شمار ان چند وفاقی وزرا میں ہوتا ہے جو نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے حق میں نہیں ہیں۔ فواد چوہدری کا خیال ہے کہ نواز شریف اپنے ادوار میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنا سکے جہاں پر ان کا علاج ہوسکے۔ اگر شریف میڈیکل کمپلیکس میں بھی ان کا علاج نہیں ہوسکتا تو عام آدمی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ فواد چوہدری کے اس بیان کو حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو ان کی اس بات میں کافی حد تک سچائی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں ایک ہی سوال زیر بحث ہے، نواز شریف علاج کےلیے کب اور کن شرائط پر لندن جائیں گے یا وہ پاکستان میں ہی رہ کر اپنی صحت یابی کی جنگ جاری رکھیں گے؟
بلاشبہ نواز شریف کا شمار پاکستان کے چوٹی کے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ ان کی ملک وقوم کےلیے خدمات بھی کسی طرح اوروں سے کم نہیں ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں، کروڑوں میں ہے۔ میری ذاتی رائے میں نواز شریف کو عام پاکستانی سیاستدان بننے کے بجائے ڈاکٹر مہاتیر محمد بننا چاہیے۔ ملائیشیا کے عظیم لیڈر ڈاکٹر مہاتیر محمد بننے کی تھیوری سمجھنے کےلیے ان کے بیک گراﺅنڈ میں جانا ضروری ہے۔
اسی طرز پر جاوید چوہدری کا کالم بھی پڑھیے: ذمے دار
مہاتیر محمد کو 1989 میں ہارٹ اٹیک ہوا۔ اس وقت ملائیشیا میں صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ملک کی اشرافیہ ہارٹ سرجری کےلیے انگلینڈ، سنگاپور، آسٹریلیا اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جایا کرتے تھے، یہی حال، وزرا ارکان اسمبلی اور بیوروکریٹس کا بھی تھا۔
ڈاکٹروں نے اسی پریکٹس کو دہراتے ہوئے مہاتیر محمد کو بھی سنگاپور، جاپان یا برطانیہ لے جانے کا مشورہ دیا، لیکن انہوں نے باہر علاج کرانے سے صاف صاف انکار کردیا۔ مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ یہ سراسر ظلم اور زیادتی ہوگی کہ ملائیشیا کے لوگ کم تر سہولتوں کے ساتھ علاج کرائیں اور وزیراعظم کا دنیا کے مہنگے ترین اسپتالوں میں علاج ہو۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر میرا دنیا سے دانا پانی اٹھ چکا ہے تو بڑے سے بڑا ڈاکٹر بھی مجھے نہیں بچا سکتا اور اگر میری زندگی باقی ہے تو کوئی مجھے مار نہیں سکتا۔ مہاتیر محمد کی اس سوچ کے آگے ملائیشیا کے ڈاکٹرز بے بس ہوگئے۔ وزیراعظم کا ملائیشیا میں ہی آپریشن ہوا اور کامیاب بھی رہا اور وہ 94 سال کی طویل عمر میں چاق و چوبند ہیں اور وزیراعظم کی حیثیت سے ملائیشیا کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ مہاتیر محمد کے اس فیصلے نے ملائیشیا کے "ہیلتھ سیکٹر" میں جان ڈال دی۔ ڈاکٹروں اور عوام میں اعتماد پیدا ہوا۔ امرا بھی مقامی اسپتالوں میں علاج کرانے لگے۔ آج ملائیشیا دنیا بھر کے مریضوں سے اربوں روپے کما رہا ہے۔
حیران کن طور پر پاکستان سے بھی ہزاروں مریض ملائیشیا جاتے ہیں اور کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ یہ طبی اور معاشی انقلاب مہاتیر محمد کے ایک فیصلے کا نتیجہ تھا۔ مہاتیر محمد بھی اگر 1989 میں اپنی اوپن ہارٹ سرجری کےلیے بیرون ملک چلے جاتے تو ملائیشیا کے عام لوگ آج بھی اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہوتے اور اشرافیہ مہنگے داموں پر بیرون ممالک سے علاج کروانے پر مجبور ہوتی۔
کتنے دکھ اور افسوس مقام ہے کہ پاکستان میں نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف 35 سال تک کسی نہ کسی صورت میں اقتدار میں رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی چار بار حکومت کے مزے لوٹتی رہی۔ قدرت نے جماعت اسلامی، مسلم لیگ ق، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی، ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کے مواقع فراہم کیے لیکن اس کو ملک کی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور۔ کوئی بھی ملکی سیاسی جماعت پاکستان میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنا سکی جس میں میاں نواز شریف سمیت اشرافیہ کا علاج ہوسکے۔ آج مسلم لیگ ن کے رہنما کیوں بیانات دے رہے ہیں کہ بیرون ملک علاج نہ ہونے کی صورت میں نواز شریف کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ میاں شہباز شریف علاج کےلیے بار بار کیوں لندن جاتے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہٰی جرمنی اور ناروے کے کلینکس میں کیوں جاتے رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی کمر کی تکلیف دور کرنے کےلیے بھی کوئی کلینک، کوئی اسپتال ملک میں موجود کیوں نہیں تھا۔ ماضی میں آصف علی زرداری کیوں علاج کےلیے لندن، نیویارک اور دبئی میں مارے مارے پھرتے رہے۔
میاں نواز شریف فارغ وقت میں خود سے یہ سوال ضرور کریں کہ میں علاج کےلیے بیرون ملک ہی کیوں جانا چاہتا ہوں؟ کیا یہ میری 35 سال تک اقتدار میں رہنے کی ناکامی نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بلاشبہ نواز شریف کا شمار پاکستان کے چوٹی کے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ ان کی ملک وقوم کےلیے خدمات بھی کسی طرح اوروں سے کم نہیں ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں، کروڑوں میں ہے۔ میری ذاتی رائے میں نواز شریف کو عام پاکستانی سیاستدان بننے کے بجائے ڈاکٹر مہاتیر محمد بننا چاہیے۔ ملائیشیا کے عظیم لیڈر ڈاکٹر مہاتیر محمد بننے کی تھیوری سمجھنے کےلیے ان کے بیک گراﺅنڈ میں جانا ضروری ہے۔
اسی طرز پر جاوید چوہدری کا کالم بھی پڑھیے: ذمے دار
مہاتیر محمد کو 1989 میں ہارٹ اٹیک ہوا۔ اس وقت ملائیشیا میں صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ملک کی اشرافیہ ہارٹ سرجری کےلیے انگلینڈ، سنگاپور، آسٹریلیا اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جایا کرتے تھے، یہی حال، وزرا ارکان اسمبلی اور بیوروکریٹس کا بھی تھا۔
ڈاکٹروں نے اسی پریکٹس کو دہراتے ہوئے مہاتیر محمد کو بھی سنگاپور، جاپان یا برطانیہ لے جانے کا مشورہ دیا، لیکن انہوں نے باہر علاج کرانے سے صاف صاف انکار کردیا۔ مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ یہ سراسر ظلم اور زیادتی ہوگی کہ ملائیشیا کے لوگ کم تر سہولتوں کے ساتھ علاج کرائیں اور وزیراعظم کا دنیا کے مہنگے ترین اسپتالوں میں علاج ہو۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر میرا دنیا سے دانا پانی اٹھ چکا ہے تو بڑے سے بڑا ڈاکٹر بھی مجھے نہیں بچا سکتا اور اگر میری زندگی باقی ہے تو کوئی مجھے مار نہیں سکتا۔ مہاتیر محمد کی اس سوچ کے آگے ملائیشیا کے ڈاکٹرز بے بس ہوگئے۔ وزیراعظم کا ملائیشیا میں ہی آپریشن ہوا اور کامیاب بھی رہا اور وہ 94 سال کی طویل عمر میں چاق و چوبند ہیں اور وزیراعظم کی حیثیت سے ملائیشیا کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ مہاتیر محمد کے اس فیصلے نے ملائیشیا کے "ہیلتھ سیکٹر" میں جان ڈال دی۔ ڈاکٹروں اور عوام میں اعتماد پیدا ہوا۔ امرا بھی مقامی اسپتالوں میں علاج کرانے لگے۔ آج ملائیشیا دنیا بھر کے مریضوں سے اربوں روپے کما رہا ہے۔
حیران کن طور پر پاکستان سے بھی ہزاروں مریض ملائیشیا جاتے ہیں اور کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ یہ طبی اور معاشی انقلاب مہاتیر محمد کے ایک فیصلے کا نتیجہ تھا۔ مہاتیر محمد بھی اگر 1989 میں اپنی اوپن ہارٹ سرجری کےلیے بیرون ملک چلے جاتے تو ملائیشیا کے عام لوگ آج بھی اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہوتے اور اشرافیہ مہنگے داموں پر بیرون ممالک سے علاج کروانے پر مجبور ہوتی۔
کتنے دکھ اور افسوس مقام ہے کہ پاکستان میں نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف 35 سال تک کسی نہ کسی صورت میں اقتدار میں رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی چار بار حکومت کے مزے لوٹتی رہی۔ قدرت نے جماعت اسلامی، مسلم لیگ ق، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی، ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کے مواقع فراہم کیے لیکن اس کو ملک کی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور۔ کوئی بھی ملکی سیاسی جماعت پاکستان میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنا سکی جس میں میاں نواز شریف سمیت اشرافیہ کا علاج ہوسکے۔ آج مسلم لیگ ن کے رہنما کیوں بیانات دے رہے ہیں کہ بیرون ملک علاج نہ ہونے کی صورت میں نواز شریف کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ میاں شہباز شریف علاج کےلیے بار بار کیوں لندن جاتے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہٰی جرمنی اور ناروے کے کلینکس میں کیوں جاتے رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی کمر کی تکلیف دور کرنے کےلیے بھی کوئی کلینک، کوئی اسپتال ملک میں موجود کیوں نہیں تھا۔ ماضی میں آصف علی زرداری کیوں علاج کےلیے لندن، نیویارک اور دبئی میں مارے مارے پھرتے رہے۔
میاں نواز شریف فارغ وقت میں خود سے یہ سوال ضرور کریں کہ میں علاج کےلیے بیرون ملک ہی کیوں جانا چاہتا ہوں؟ کیا یہ میری 35 سال تک اقتدار میں رہنے کی ناکامی نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔