خبردار سنگین قسم کے فراڈ سے بچیے
اگر کوئی سنگین جرم آپ کے نام سے کیا جاتا ہے تو آپ خود سوچیے کہ آپ کس مصیبت میں پھنس سکتے ہیں
آج کے بلاگ میں ہم آپ کو ایک نہایت ہی سنگین قسم کے فراڈ سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا دھوکا جس میں پھنس کر آپ کی زندگی بھی تباہ ہوسکتی ہے۔
گزشتہ شب ہم اپنے ایک دوست کے ساتھ نیپا چورنگی کے اسٹاپ پر موجود تھے اچانک کچھ خوش پوش، خوش شکل نوجوان ہمارے دوست کے قریب آئے اور ایک بائیک رائیڈر کمپنی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اس کمپنی کے نمایندے ہیں اور اگر ہمارے دوست اس کمپنی میں رجسٹر نہیں تو اپنا موبائل نمبر شیئر کردیں۔ ہمارے دوست پہلے تو جھجکے اور انھیں منع کردیا۔ جس پر ایک لڑکے نے نہایت التجائیہ انداز میں کہا کہ انھیں اپنا ڈیلی ٹاسک مکمل کرنا ہوتا ہے، اگر وہ اپنی آئی ڈی بنوالیں گے تو اس سے ان کی ہیلپ ہوجائے گی۔
ہمارے دوست ان لڑکوں کی باتوں سے پسیج گئے اور نمبر دینے کی حامی بھرلی۔ ان لڑکوں نے فوراً ہی ایک اینڈروائیڈ موبائل نکالا اور اس بائیک رائیڈ کمپنی میں ان کے نمبر کا اندراج کرکے کہا ''آپ کے نمبر پر ایک ایکٹیویشن کوڈ آئے گا، وہ بتا دیجئے۔''
چند سیکنڈ میں ہی دوست کے نمبر پر کوڈ کا ایس ایم ایس آگیا اور وہ لڑکے اسے نوٹ کرکے آگے بڑھ گئے۔ بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے۔ لیکن اس کے مضمرات کا اندازہ شاید ہمارے دوست کو نہیں تھا۔ ہم چونکہ یہ تمام کارروائی بغور دیکھ رہے تھے اس لیے ہمیں کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ ان لڑکوں نے متذکرہ کمپنی کی ایپلی کیشن کو ہی آئی ڈی بنانے کے لیے استعمال کیا تھا اور جب ہمارے دوست نے انہیں کوڈ بتایا تو انھوں نے فوراً ہی کوڈ اس ایپلی کیشن میں ڈال کر آئی ڈی کنفرم کردی۔
یہ واقعہ اتنی جلدی ہوا کہ ہمیں اپنے دوست کو خبردار یا منع کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ لیکن ان لڑکوں کے جاتے ہی ہم نے اپنے دوست کی سرزنش کی کہ انھوں نے یہ کیا حرکت کی ہے؟ ہمارے دوست کو اس وقت تک واقعے کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہوا تھا اس لیے انھوں نے بات کو بہت معمولی سمجھتے ہوئے کہا کہ وہ لڑکے بے چارے چند روپوں کی جاب کے لیے اپنا ڈیلی ٹاسک مکمل کرنے کےلیے اتنی رات کو پریشان ہورہے ہیں، صرف ایک نمبر دینے سے اگر ان کا بھلا ہوتا ہے تو کیا حرج ہے؟
''ارے خدا کے بندے! تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم نے کتنی بڑی غلطی کی ہے؟'' اپنے دوست کی لاپرواہی پر ہمیں واقعی غصہ آرہا تھا۔ کچھ دیر کی بحث کے بعد جب ہم نے انھیں اپنے موقف اور اس سنگین دھوکے کے مضمرات سے آگاہ کیا تو واقعی ان کی حالت غیر ہونے لگی اور پیش آنے والے خدشات نے انھیں پریشانی میں گھیر لیا۔ جو باتیں ہم نے اپنے دوست سے کیں ان کو مختصراً یہاں پیش کررہے ہیں تاکہ باقی لوگ اس فراڈ سے بچ سکیں۔
مذکورہ بائیک رائیڈر کمپنی یا اسی قبیل کی دیگر آن لائن ٹیکسی سروسز پر یوں کسی اجنبی فرد کے ذریعے رجسٹرڈ ہونے میں کئی طرح کے مضمرات پوشیدہ ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنی ایپلی کیشن پر آپ کو موبائل نمبر اور ای میل کے ذریعے رجسٹر کرتی ہیں۔ موبائل نمبر سے رجسٹر ہونے کی صورت میں آپ کو ایک ایکٹیویشن کوڈ کا ایس ایم ایس موصول ہوتا ہے جسے درج کرتے ہی آپ کی آئی ڈی کنفرم ہوجاتی ہے۔ جب ان لڑکوں نے آئی ڈی بنائی تو انھوں نے اپنے ہی موبائل کا استعمال کیا۔ نتیجتاً وہ آئی ڈی ان کے موبائل میں کھلی رہ گئی۔
اب ذرا ماضی میں پیش آنے والے واقعات کو اپنے ذہن میں تازہ کیجئے اور معاملے کی سنگینی کو سمجھئے۔ اگر وہ لڑکے اس آئی ڈی سے کوئی رائیڈ بک کرواتے ہیں اور اس کا استعمال کسی منفی کام کے لیے کیا جاتا ہے تو کمپنی میں رجسٹرڈ نمبر کے مطابق وہ عمل ''آپ'' کررہے ہیں۔
فرض کرلیجیے کہ آج کل کے جو حالات ہیں ان میں اگر وہ لڑکے بائیک رائیڈ بک کروانے کے بعد کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں یا کسی سنسان جگہ پر پہنچ کر بائیک رائیڈر کو لوٹ لیتے ہیں تو رائیڈر کمپنی میں یہی شکایت کرے گا کہ سواری نے اسے لوٹ لیا۔ کمپنی میں رجسٹر آپ کا موبائل نمبر یہی بتائے گا کہ یہ واردات آپ نے کی ہے۔ پاکستان میں تمام تر موبائل سمز شناختی کارڈ پر جاری کی جاتی ہیں۔ یعنی اس جرم کے ارتکاب کے بعد تھوڑی سی تگ و دو سے نہ صرف پولیس آپ تک پہنچ جائے گی بلکہ آپ ہی کو مجرم قرار دے گی۔ اور پاکستانی میں پولیسنگ، قانون اور انصاف کی صورتحال سے تو آپ واقف ہی ہیں۔ اس جھمیلے سے نمٹنا کتنا مشکل ہوسکتا ہے شریف لوگوں کے نزدیک تو یہ خیال ہی سوہانِ روح ہوگا۔
ماضی قریب میں آن لائن ٹیکسی سروس کے کیپٹن کو لوٹنے اور جان سے مار دینے کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔ اگر ایسا ہی سنگین جرم آپ کے نام سے کیا جاتا ہے تو آپ خود سوچیے کہ آپ کس مصیبت میں پھنس سکتے ہیں اور آپ کی زندگی کتنی بڑی تباہی سے دوچار ہوسکتی ہے۔ ماضی میں ہمارے ایک اور جاننے والے کے ساتھ ایسا ہی سنگین واقعہ پیش آچکا ہے جب ان کے نام پر جاری موبائل سم (جو کہ ان کی لاعلمی میں جاری کی گئی) سے ایک جرم کیا گیا اور پولیس و تھانہ کے شیطانی چکروں میں وہ بے چارے پھنس گئے۔
ہمارے دوست ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں جو اپنی ذاتی انفارمیشن کو اس طرح شیئر کرنے کے مضمرات سے بھی واقف ہیں لیکن پھر بھی نادانستگی میں یہ غلطی کر بیٹھے، کتنے ہی دیگر لوگ بھی ان فراڈیوں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔ خود سوچئے کہ ایک کمپنی کو کیا ضرورت ہے وہ لوگوں کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے اس طرح کے ملازم رکھے جو جگہ جگہ گھوم پھر کر موبائل پر آپ کی آئی ڈی بنا کردیں۔ اسی طرح فری سم بانٹنے والوں کے فراڈ بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ آج کا دور ایسا نہیں کہ آپ اپنی ذاتی معلومات کسی سے بھی شیئر کریں، جبکہ یہ معاملہ تو اور بھی زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔
اگر آپ سے بھی ایسی غلطی ہوچکی ہے تو فوراً اس کا تدارک کیجئے۔ اگر کسی آن لائن ٹیکسی یا بائیک سروس میں خود کو ایسے جعلی نمائندگان کے ذریعے رجسٹر کیا ہے تو فوراً اپنے موبائل پر وہ ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے نمبر سے لاگ اِن ہوں۔ رائیڈز کے ریکارڈ میں جاکر چیک کیجئے کہیں آپ کی نئی آئی ڈی پر کوئی بکنگ تو نہیں کرائی گئی۔ اگر کوئی ریکارڈ موجود ہے تو اس کا مطلب ہے آپ کے نام سے ''واردات'' ہوچکی ہے۔ اور اگر ریکارڈ نہیں تو شکر ادا کیجیے۔ فوراً ایپلی کیشن کی ہیلپ لائن کال کرکے اپنا اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویٹ کرنے کا کہیے۔ احتیاطی تدبیر لازم ہے۔ اگر رائیڈ کا ریکارڈ ملتا ہے تو اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت میں ہیلپ لائن پر اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بھی بتائیے کہ کس طرح کمپنی کا نمائندہ بن کر کسی نے آپ کے نام سے آئی ڈی بنائی ہے، نیز پولیس سے پیشگی رابطہ کرنا بھی مناسب ہوگا۔
یہاں کمپنی کا موقف شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ کمپنی کے حقیقی نمایندے سے جب اس سلسلے میں بات ہوئی تو ان کا موقف تھا کہ کمپنی کی طرف سے ایسے نمایندگان رجسٹریشن کے لیے ہائر نہیں کیے گئے۔ نیز اپنی ذاتی معلومات کی حفاظت یوزر کی اپنی ذمے داری ہوتی ہے۔ اگر کوئی آپ سے ایکٹیویشن کوڈ مانگتا ہے تو اس کا صاف مطلب دھوکا دہی ہے۔ جیسے آپ اگر کسی نمبر سے واٹس ایپ پر کو رجسٹر کریں تو چاہے اینڈروائیڈ موبائل میں وہ سم نہ بھی لگی ہو تو صرف ایکٹیویشن کوڈ کے ذریعے آپ آئی ڈی ایکٹیویٹ کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں یوزر کو ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ نیز کسی بھی ناگہانی صورتحال میں کمپنی کی ہیلپ لائن پر رابطہ کیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کا نمبر اگر کمپنی کے پاس رجسٹر ہوچکا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ آپ کمپنی کی ہیلپ لائن سے اپنا نمبر ڈی ایکٹیویٹ کروا سکتے ہیں۔ کمپنی کی ہیلپ لائن بہت ذمے دار ہے اور لوگوں کی مدد کا فریضہ بخوبی انجام دے رہی ہے۔
مستقبل میں ہمارے دوست کو اس غلطی کا خمیازہ کیا بھگتنا پڑے ہم نہیں کہہ سکتے، لیکن دیگر لوگوں تک یہ واقعہ پہنچانے کا مقصد یہی ہے کہ خدارا آپ لوگ ایسی غلطی نہ کریں اور اس قسم کے فراڈ سے بچیں۔ اگر آپ کو بھی آن لائن ٹیکسی سروس یا بائیک رائیڈ کا نمایندہ بن کر کوئی اس طرح سے ملتا ہے تو نہ صرف انکار کردیجیے بلکہ قریبی پولیس وین کو ممکنہ فراڈیوں اور مذکورہ خدشات سے آگاہ کرکے اپنی ذمے داری ادا کیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گزشتہ شب ہم اپنے ایک دوست کے ساتھ نیپا چورنگی کے اسٹاپ پر موجود تھے اچانک کچھ خوش پوش، خوش شکل نوجوان ہمارے دوست کے قریب آئے اور ایک بائیک رائیڈر کمپنی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اس کمپنی کے نمایندے ہیں اور اگر ہمارے دوست اس کمپنی میں رجسٹر نہیں تو اپنا موبائل نمبر شیئر کردیں۔ ہمارے دوست پہلے تو جھجکے اور انھیں منع کردیا۔ جس پر ایک لڑکے نے نہایت التجائیہ انداز میں کہا کہ انھیں اپنا ڈیلی ٹاسک مکمل کرنا ہوتا ہے، اگر وہ اپنی آئی ڈی بنوالیں گے تو اس سے ان کی ہیلپ ہوجائے گی۔
ہمارے دوست ان لڑکوں کی باتوں سے پسیج گئے اور نمبر دینے کی حامی بھرلی۔ ان لڑکوں نے فوراً ہی ایک اینڈروائیڈ موبائل نکالا اور اس بائیک رائیڈ کمپنی میں ان کے نمبر کا اندراج کرکے کہا ''آپ کے نمبر پر ایک ایکٹیویشن کوڈ آئے گا، وہ بتا دیجئے۔''
چند سیکنڈ میں ہی دوست کے نمبر پر کوڈ کا ایس ایم ایس آگیا اور وہ لڑکے اسے نوٹ کرکے آگے بڑھ گئے۔ بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے۔ لیکن اس کے مضمرات کا اندازہ شاید ہمارے دوست کو نہیں تھا۔ ہم چونکہ یہ تمام کارروائی بغور دیکھ رہے تھے اس لیے ہمیں کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ ان لڑکوں نے متذکرہ کمپنی کی ایپلی کیشن کو ہی آئی ڈی بنانے کے لیے استعمال کیا تھا اور جب ہمارے دوست نے انہیں کوڈ بتایا تو انھوں نے فوراً ہی کوڈ اس ایپلی کیشن میں ڈال کر آئی ڈی کنفرم کردی۔
یہ واقعہ اتنی جلدی ہوا کہ ہمیں اپنے دوست کو خبردار یا منع کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ لیکن ان لڑکوں کے جاتے ہی ہم نے اپنے دوست کی سرزنش کی کہ انھوں نے یہ کیا حرکت کی ہے؟ ہمارے دوست کو اس وقت تک واقعے کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہوا تھا اس لیے انھوں نے بات کو بہت معمولی سمجھتے ہوئے کہا کہ وہ لڑکے بے چارے چند روپوں کی جاب کے لیے اپنا ڈیلی ٹاسک مکمل کرنے کےلیے اتنی رات کو پریشان ہورہے ہیں، صرف ایک نمبر دینے سے اگر ان کا بھلا ہوتا ہے تو کیا حرج ہے؟
''ارے خدا کے بندے! تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم نے کتنی بڑی غلطی کی ہے؟'' اپنے دوست کی لاپرواہی پر ہمیں واقعی غصہ آرہا تھا۔ کچھ دیر کی بحث کے بعد جب ہم نے انھیں اپنے موقف اور اس سنگین دھوکے کے مضمرات سے آگاہ کیا تو واقعی ان کی حالت غیر ہونے لگی اور پیش آنے والے خدشات نے انھیں پریشانی میں گھیر لیا۔ جو باتیں ہم نے اپنے دوست سے کیں ان کو مختصراً یہاں پیش کررہے ہیں تاکہ باقی لوگ اس فراڈ سے بچ سکیں۔
مذکورہ بائیک رائیڈر کمپنی یا اسی قبیل کی دیگر آن لائن ٹیکسی سروسز پر یوں کسی اجنبی فرد کے ذریعے رجسٹرڈ ہونے میں کئی طرح کے مضمرات پوشیدہ ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنی ایپلی کیشن پر آپ کو موبائل نمبر اور ای میل کے ذریعے رجسٹر کرتی ہیں۔ موبائل نمبر سے رجسٹر ہونے کی صورت میں آپ کو ایک ایکٹیویشن کوڈ کا ایس ایم ایس موصول ہوتا ہے جسے درج کرتے ہی آپ کی آئی ڈی کنفرم ہوجاتی ہے۔ جب ان لڑکوں نے آئی ڈی بنائی تو انھوں نے اپنے ہی موبائل کا استعمال کیا۔ نتیجتاً وہ آئی ڈی ان کے موبائل میں کھلی رہ گئی۔
اب ذرا ماضی میں پیش آنے والے واقعات کو اپنے ذہن میں تازہ کیجئے اور معاملے کی سنگینی کو سمجھئے۔ اگر وہ لڑکے اس آئی ڈی سے کوئی رائیڈ بک کرواتے ہیں اور اس کا استعمال کسی منفی کام کے لیے کیا جاتا ہے تو کمپنی میں رجسٹرڈ نمبر کے مطابق وہ عمل ''آپ'' کررہے ہیں۔
فرض کرلیجیے کہ آج کل کے جو حالات ہیں ان میں اگر وہ لڑکے بائیک رائیڈ بک کروانے کے بعد کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں یا کسی سنسان جگہ پر پہنچ کر بائیک رائیڈر کو لوٹ لیتے ہیں تو رائیڈر کمپنی میں یہی شکایت کرے گا کہ سواری نے اسے لوٹ لیا۔ کمپنی میں رجسٹر آپ کا موبائل نمبر یہی بتائے گا کہ یہ واردات آپ نے کی ہے۔ پاکستان میں تمام تر موبائل سمز شناختی کارڈ پر جاری کی جاتی ہیں۔ یعنی اس جرم کے ارتکاب کے بعد تھوڑی سی تگ و دو سے نہ صرف پولیس آپ تک پہنچ جائے گی بلکہ آپ ہی کو مجرم قرار دے گی۔ اور پاکستانی میں پولیسنگ، قانون اور انصاف کی صورتحال سے تو آپ واقف ہی ہیں۔ اس جھمیلے سے نمٹنا کتنا مشکل ہوسکتا ہے شریف لوگوں کے نزدیک تو یہ خیال ہی سوہانِ روح ہوگا۔
ماضی قریب میں آن لائن ٹیکسی سروس کے کیپٹن کو لوٹنے اور جان سے مار دینے کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔ اگر ایسا ہی سنگین جرم آپ کے نام سے کیا جاتا ہے تو آپ خود سوچیے کہ آپ کس مصیبت میں پھنس سکتے ہیں اور آپ کی زندگی کتنی بڑی تباہی سے دوچار ہوسکتی ہے۔ ماضی میں ہمارے ایک اور جاننے والے کے ساتھ ایسا ہی سنگین واقعہ پیش آچکا ہے جب ان کے نام پر جاری موبائل سم (جو کہ ان کی لاعلمی میں جاری کی گئی) سے ایک جرم کیا گیا اور پولیس و تھانہ کے شیطانی چکروں میں وہ بے چارے پھنس گئے۔
ہمارے دوست ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں جو اپنی ذاتی انفارمیشن کو اس طرح شیئر کرنے کے مضمرات سے بھی واقف ہیں لیکن پھر بھی نادانستگی میں یہ غلطی کر بیٹھے، کتنے ہی دیگر لوگ بھی ان فراڈیوں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔ خود سوچئے کہ ایک کمپنی کو کیا ضرورت ہے وہ لوگوں کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے اس طرح کے ملازم رکھے جو جگہ جگہ گھوم پھر کر موبائل پر آپ کی آئی ڈی بنا کردیں۔ اسی طرح فری سم بانٹنے والوں کے فراڈ بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ آج کا دور ایسا نہیں کہ آپ اپنی ذاتی معلومات کسی سے بھی شیئر کریں، جبکہ یہ معاملہ تو اور بھی زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔
اگر آپ سے بھی ایسی غلطی ہوچکی ہے تو فوراً اس کا تدارک کیجئے۔ اگر کسی آن لائن ٹیکسی یا بائیک سروس میں خود کو ایسے جعلی نمائندگان کے ذریعے رجسٹر کیا ہے تو فوراً اپنے موبائل پر وہ ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے نمبر سے لاگ اِن ہوں۔ رائیڈز کے ریکارڈ میں جاکر چیک کیجئے کہیں آپ کی نئی آئی ڈی پر کوئی بکنگ تو نہیں کرائی گئی۔ اگر کوئی ریکارڈ موجود ہے تو اس کا مطلب ہے آپ کے نام سے ''واردات'' ہوچکی ہے۔ اور اگر ریکارڈ نہیں تو شکر ادا کیجیے۔ فوراً ایپلی کیشن کی ہیلپ لائن کال کرکے اپنا اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویٹ کرنے کا کہیے۔ احتیاطی تدبیر لازم ہے۔ اگر رائیڈ کا ریکارڈ ملتا ہے تو اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت میں ہیلپ لائن پر اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بھی بتائیے کہ کس طرح کمپنی کا نمائندہ بن کر کسی نے آپ کے نام سے آئی ڈی بنائی ہے، نیز پولیس سے پیشگی رابطہ کرنا بھی مناسب ہوگا۔
یہاں کمپنی کا موقف شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ کمپنی کے حقیقی نمایندے سے جب اس سلسلے میں بات ہوئی تو ان کا موقف تھا کہ کمپنی کی طرف سے ایسے نمایندگان رجسٹریشن کے لیے ہائر نہیں کیے گئے۔ نیز اپنی ذاتی معلومات کی حفاظت یوزر کی اپنی ذمے داری ہوتی ہے۔ اگر کوئی آپ سے ایکٹیویشن کوڈ مانگتا ہے تو اس کا صاف مطلب دھوکا دہی ہے۔ جیسے آپ اگر کسی نمبر سے واٹس ایپ پر کو رجسٹر کریں تو چاہے اینڈروائیڈ موبائل میں وہ سم نہ بھی لگی ہو تو صرف ایکٹیویشن کوڈ کے ذریعے آپ آئی ڈی ایکٹیویٹ کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں یوزر کو ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ نیز کسی بھی ناگہانی صورتحال میں کمپنی کی ہیلپ لائن پر رابطہ کیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کا نمبر اگر کمپنی کے پاس رجسٹر ہوچکا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ آپ کمپنی کی ہیلپ لائن سے اپنا نمبر ڈی ایکٹیویٹ کروا سکتے ہیں۔ کمپنی کی ہیلپ لائن بہت ذمے دار ہے اور لوگوں کی مدد کا فریضہ بخوبی انجام دے رہی ہے۔
مستقبل میں ہمارے دوست کو اس غلطی کا خمیازہ کیا بھگتنا پڑے ہم نہیں کہہ سکتے، لیکن دیگر لوگوں تک یہ واقعہ پہنچانے کا مقصد یہی ہے کہ خدارا آپ لوگ ایسی غلطی نہ کریں اور اس قسم کے فراڈ سے بچیں۔ اگر آپ کو بھی آن لائن ٹیکسی سروس یا بائیک رائیڈ کا نمایندہ بن کر کوئی اس طرح سے ملتا ہے تو نہ صرف انکار کردیجیے بلکہ قریبی پولیس وین کو ممکنہ فراڈیوں اور مذکورہ خدشات سے آگاہ کرکے اپنی ذمے داری ادا کیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔