مختار سموں شاعر ادیب اور ماہر تعلیم
مختارکئی اداروں کے ساتھ کام کرچکے ہیں جن میں سندھی ادبی سنگت بھی شامل ہے۔
سندھ میں علم کی روشنی کو پھیلانے اور بڑھانے میں بہت سی شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں ایک نام پروفیسر مختارسموں کا بھی ہے، ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، لیکن انھیں بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کا جنون تھا ۔
میٹرک انھوں نے ڈی سی ہائی اسکول لاڑکانہ سے 1976 میں پاس کیا۔ ان کو ابتداء ہی سے انگریزی زبان سے بڑا گہرا لگاؤ تھا، وہ انگریزی اخبارات و رسائل کا مطالعہ ذوق وشوق سے کرتے، دوستوں سے انگریزی میں گفتگوکرنا اور بڑے لوگوں سے ملنا انھیں اچھا لگتا تھا۔انھوں نے 1978 میں انٹر سائنس کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے پاس کیا۔
اچانک والدکا انتقال ہونے کے باعث انھوں نے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لیے ایک پرائیویٹ ڈاکٹرکے پاس کمپاؤنڈرکے طور پرکام کرنے لگے جس کی وجہ سے ان کی تعلیم کچھ عرصے کے لیے متاثر ہوئی۔ انھوں نے انٹرکا امتحان کامرس کالج لاڑکانہ سے 1981 میں پاس کیا جو شام کے اوقات میں چلتا تھا ، وہ صبح نوکری کرتے تھے اور شام کوکالج جاتے تھے۔ پڑھائی کو جاری رکھنے کے لیے انھوں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں پاکستان اسٹڈیز میں داخلہ لیا اور اخراجات پورے کرنے کے لیے مختلف کام کرتے رہے۔
اس دوران انھوں نے انگریزی زبان کا مطالعہ جاری رکھا اور جہاں بھی کوئی کانفرنس یا پروگرام منعقد ہوتا تھا وہاں جاتے، انھیں انگریزی تلفظ کو سمجھنے میں مدد ملتی۔ یونیورسٹی میں ان کے دوستوں میں لال چند اور یعقوب مغل شامل تھے، انھیں مشہور تاریخ دان مبارک علی سے قربت کا موقعہ میسر آیا اور دوست یعقوب سے ترکی اور انگریزی زبانیں سمجھنے میں بھی کافی مدد ملی۔ ایم کام پاس کرنے کے بعد وہ کراچی چلے گئے۔ جہاں انھوں نے ٹیوشن پڑھنا شروع کی جس سے انھیں کافی پیسے ملتے تھے۔
ایک دن زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کا اشتہارچھپا، انھوں نے لیکچررکے لیے اپلائی کردیا۔ جہاں پر وہ 1987 فروری میں لیکچرر بن گئے۔کچھ ہی عرصے کے بعد ہائر ایجوکیشن اسلام آباد انسٹیٹیوٹ کی طرف سے ایک تربیتی پروگرام آگیا جس میں پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں سے 25 لوگوں کو بلایا گیا تھا، جس میں زرعی یونیورسٹی کی طرف سے ان کا نام بھیجا گیا۔
اسلام آباد سے ڈھائی مہینے کی تربیت پوری کرکے وہ جب واپس آئے تو انھیں سی ایس ایس کا امتحان دینے کا خیال آیا، وہ امتحان میں پاس تو ہوگئے مگر میرٹ پر نہ آسکے اور دوبارہ اس امتحان میں بیٹھ نہیں سکتے تھے،کیونکہ یہ ان کا پہلا اور آخری attempt تھا۔ انھوں نے دل میں یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے بھائیوں اور غریب ونادار بچوں کو سی ایس ایس امتحان کے لیے تیاری کروائیں گے۔ 1993 میں زیڈ اے بھٹو زرعی کالج لاڑکانہ ایٹ ڈوکری قائم ہوا تو انھوں نے اپنا تبادلہ وہاں کروایا جس میں یہ شرط رکھی گئی کہ وہ اسٹوڈنٹس کو اپنے مضمون کے علاوہ انگریزی بھی پڑھائیں گے جس کو انھوں نے بڑی خوشی کے ساتھ قبول کرلیا۔
اپنے خواب کو تعبیر دینے کے لیے نالج سینٹر قائم کیا، وہاں سے آنکھوں سے محروم غریب بچوں نے، باگڑی اور ہریجن بچوں نے مفت میں تعلیم حاصل کرکے انگریزی میں مہارت حاصل کی اور اب وہ سرکاری اورغیر سرکاری دفتروں میں ملازمت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دوستوں، رشتے داروں اور کم آمدنی والوں کے لیے 50 فیصد رعایت پر بھی پڑھ رہے ہیں تاکہ صرف عمارت کا کرایہ، استادوں کی تنخواہ اور دوسرے بجلی وغیرہ کے اخراجات پورے ہوں۔ بڑی اہم بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ 25 سال سے چل رہا ہے ۔
اس سینٹر سے ان کے بھائی عمران سموں نے بھی سی ایس ایس کی تیاری کی اور سندھ سے پہلی پوزیشن حاصل کرکے اس وقت سکھر میں ایس ایس پی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی لڑکیوں اور لڑکوں نے یہاں سے سی ایس ایس کی تیاری کرکے کامیابی حاصل کی ہے جن میں ڈاکٹرز اور انجینئرز ملازمت کے لیے تیاری کرتے رہے ہیں۔ حال میں ایک غریب لڑکی نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرلیا ہے جو اس سینٹر سے پڑھی ہے۔
انگریزی گرامرکو سندھی میں ترجمہ کرکے طالب علموں کو اچھوتی سہولت فراہم کی گئی ہے، انگریزی لیکچرزکوآڈیو اور ویڈیو کے ذریعے سکھاتے ہیں اور جب بھی کوئی پاکستان سے یا باہر ممالک سے وزٹر آتا ہے تو سموں اسے اس مرکز میں لے آتے ہیں جو اپنے پروفیشن اور تجربات کو انگریزی میں شیئرکرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اچھی انگریزی کی کتابیں اور اچھے آرٹیکل کو عام طالب علموں کے فائدے کے لیے فیس بک پر بھی پوسٹ کرتے ہیں۔
یادش بخیر، میری ملاقات مختار سموں سے جب ہوئی تھی جب انھوں نے لاڑکانہ میں ہمارے محلے کے قریب انگریزی سکھانے کا ایک کمرہ والا مرکزکھولا تھا۔ مرکز میں مجھے ایک میز، چند ٹوٹی پھوٹی کرسیاں اور چند بچے بیٹھے ہوئے نظر آئے تھے۔ مختار سموں کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ پسماندہ بستی کے غریب بچوں کو انگریزی زبان سکھائیں۔ کچھ عرصے کے بعد انھوں نے مشہورگرین پیلس ہوٹل کے برابر مکینک کی دکانوں پر ایک کمرے والا مرکز شفٹ کر لیا تھا، جہاں پر وہ خود دروازہ کھولتے تھے، جھاڑو دیتے، پانی کا چھڑکاؤ کرتے اور خود بچوں کو داخل کرتے اور خود ہی پڑھاتے تھے۔
اس زمانے میں مہتاب اکبر راشدی نے ایک انگلش میڈیم اسکول اسٹیرتھ مورکے نام سے قائم کیا تھا جہاں پر انگریزی زبان کی ماہر دردانہ بٹ ( اداکارہ) پڑھاتی تھیں۔ جب دردانہ بٹ کو معلوم ہوا کہ مختار سموں اس مرکزکو ایک مشن کے طور پر چلاتے ہیں۔ تو وہ ان کے پاس آئیں اور ان کا جذبہ دیکھ کر وہاں پر مفت پڑھانا شروع کیا تو بچوں اور بچیوں کے تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور یہ جگہ چھوٹی پڑگئی، مرکز کو وہاں سے اچھی اور تین کمروں والی جگہ منتقل کرنا پڑا۔ میں ان دنوں سندھ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں جاب کرتا تھا اور میرے تعلقات ڈی سی اورکمشنر سے قریبی تھے۔ میں نے ان دونوں سے اس مرکزکا ذکرکیا اور انھیں وہاں لے کرگیا جسے دیکھ کر وہ حیران ہوئے اور انھوں نے خود بھی لیکچر دیا اور پھر آنے والے وزرا، گورنر اور دوسری شخصیات کو یہ مرکز دکھانے لایا کرتے تھے جس کی وجہ سے مختارسموں میں اور زیادہ جذبہ اور خود اعتمادی پیدا ہوئی۔
مختار سموں بڑے اچھے شاعر ، ادیب ، کالم نگار اور سوشل ورکر بھی ہیں۔ انھوں نے تقریباً 8 کتابیں لکھیں اور Compile کی ہیں۔ پہلی کتاب '' دھرتی روشن تھیندی'' جو بچوں کا ادب ہے اور اس کتاب کوکلچرڈ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پہلا انعام دیا گیا تھا جب کہ ان کی دوسری کتاب دنیا گول ہے۔ تیسری کتاب جو بچوں کے لیے لکھی ہے وہ ''گلن جھرا بارڑا'' جسے سندھی لینگویج اتھارٹی کی طرف سے پہلا انعام مل چکا ہے۔ ان کی ایک ''کتاب دنیا جوں درسگاہوں'' ہے جسے انھوں نے سندھی میں لکھا ہے، پہلا والیوم چھپ چکا ہے جب کہ باقی دو والیوم آنے والے ہیں جب کہ چوتھی کتاب ہے۔ Women Their Rights and Violation Against Them ، پانچویں کتاب ہے تاریخ و تہذیب اردو میں ہے جسے انھوں نے Compile کیا ہے۔ چھٹی کتاب غزلوں پر مشتمل ہے جس کا نام ہے '' وفاؤن منتظر'' ہے۔ اس کے علاوہ باقی دوکتابیں بھی انگریزی گرامرکے متعلق لکھی ہیں۔
مختارکئی اداروں کے ساتھ کام کرچکے ہیں جن میں سندھی ادبی سنگت بھی شامل ہے، لاڑکانہ ہسٹریکل کے صدر اور جنرل سیکریٹری کی حیثیت میں کام کرچکے ہیں اورکر رہے ہیں۔ مختار سموں آنے والے طالب علموں کی کونسلنگ بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام علوم کی کتابیں زیادہ تر انگریزی زبان میں ہیں اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل کریں۔ ان کی خواہش ہے کہ غریب کا بچہ بھی علم حاصل کرکے معاشرے میں بلند مقام ومرتبے کا حقدار ٹھہرے۔