علامہ اقبال یہودیت اورجمہوریت
قائد اعظم اور دوسرے اکابرین کی آرا نے کتاب کو سند کا درجہ دے دیا ہے۔
'' علامہ اقبالؒ یہودیت اور جمہوریت '' اس کتاب کے مولف آزاد بن حیدر ہیں اور یہ کتاب 700 صفحات پر مشتمل ہے۔ ہمارے بزرگ، تحریک پاکستان کے سپاہی جناب آزاد بن حیدر نے فکر انگیز تحریروں کو یکجا کرکے کتاب کو مرصع کردیا ہے۔ ان لوگوں کے فن پاروں کو شامل کتاب کیا ہے جو دانش وبینش میں یکتا ہیں، فکر وآگہی کے موتیوں کو اپنی تحریروں میں ٹانکتے ہیں، قاری کا سچے نگینوں کی چمک سے دل ودماغ روشن ہوجاتا ہے اس روشنی میں اسے ایمان فروش بھی نظر آتے ہیں اور مجاہدین بھی۔
مجھے اندازہ ہے کہ اس قدر وقیع مضامین کا احاطہ میرا قلم اس لیے نہیں کرسکے گا کہ جگہ محدود ہے اور مواد زیادہ ہے لہٰذا خاص خاص باتوں کا تذکرہ و تعارف پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔ 649 صفحات پر مضامین اور باقی صفحات حوالہ جات، کتابیات، قارئین کے نام کھلا خط کا احاطہ کرتے ہیں۔ کتاب کو 6 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اس طرح قاری کے لیے اس کا مطالعہ آسان ترین ہوگیا ہے۔ انتساب کی انفرادیت یہ ہے کہ علامہ اقبال کی تصویرکے علاوہ تحریر درج نہیں ہے۔ البتہ سر علامہ اقبال کو ملنے والے خطابات کا ذکر ملتا ہے۔
قائد اعظم اور دوسرے اکابرین کی آرا نے کتاب کو سند کا درجہ دے دیا ہے۔ قائد اعظم نے علامہ اقبال کے حوالے سے فرمایا ہے کہ ''مرحوم دورحاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے،کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی شخص نے نہیں سمجھا۔ مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا (3 مارچ 1941 بہ مقام پنجاب یونیورسٹی ہال ) ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رائے کے مطابق ''جناب آزاد بن حیدر کی کتاب ''علامہ اقبالؒ یہودیت اور جمہوریت'' میں علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں یہودی سازشوں اور مغربی جمہوریت کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال ایک اعلیٰ عالم دین، مفکر تھے۔''
ابتدائیہ کے عنوان سے جو تحریر میری نگاہوں کے حصار میں ہے وہ ہے ''قرآن اور یہود'' (ترجمہ) ''مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے یہود و مشرکین ہی کو پاؤ گے۔'' مذکورہ مضمون طویل ضرور ہے لیکن علامہ کے نظریات اور یہودیوں کی فتنہ سازیوں اور عادات رذیلہ کے حوالے سے معلومات کے درکھولتا ہے۔ مثال کے طور پر کنجوسی، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی، زمین میں فساد کرنیوالے، علما اور داعی کا قتل، اقبال کی نظر میں اسرائیلی فتنہ، اقبال اور مسئلہ فلسطین اسی باب سے چند سطور اقبال اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں مضمون نگار نے لکھا ہے جوکہ علامہ اقبال کی تحریر کا ایک پیراگراف ہے۔
'' ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فلسطین برطانیہ کی ملکیت نہیں، برطانیہ تو محض جمعیت اقوام کے انتداب کے تحت فلسطین پر قابض ہے۔ ایشیا کے مسلمان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ جمعیت اقوام دراصل ایک اینگلو فرانسیسی ادارہ ہے جس کا مقصد صرف اسلامی ملکوں کے حصے بخرے کرکے انھیں کمزور سے کمزور تر کردینا ہے، فلسطین یہودیوں کا ملک بھی نہیں، کیونکہ یہودی تو عربوں کی آمد سے بہت پہلے اپنی مرضی سے فلسطین چھوڑ کر چلے گئے تھے یہ امر بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ صیہونیت کوئی مذہبی تحریک نہیں اس تحریک کے خدو خال سے قطع نظر کرکے صرف فلسطین کمیشن کے ذریعے اس سودے کا معاوضہ یوں چکایا گیا ہے کہ عربوں کو کچھ روپیہ دے دیا گیا ہے اور ادھر یہودیوں کو بھی ایک قطعہ اراضی عطا کردیا گیا ہے۔''
چوہدری طالب حسین کے مضمون کا عنوان ''علامہ اقبال اور اجتہاد'' ہے وہ اس حوالے سے رقم طراز ہیں حضرت علامہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کو اجتہاد کا حق اس لیے نہیں دیتے کہ وہ اپنے فرقے کے لیے اپنی فقہ کی تعبیر تو کرسکتے ہیں مگر پوری قوم کے لیے شریعت کی تعبیر نہیں کرسکتے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اسلام میں اختیار تعبیر شریعت پوری قوم کا حق ہے، عہد رسالت میں آنحضرت ؐ ریاستی امور، حکومتی معاملات، معاشرتی و معاشی اداروں کی تشکیل میں عوام کی رائے معلوم فرماتے تھے۔
مفتی ابوالبابہ شاہ منصورکی ایک ایمان افروز تحریر ''دجالی ریاست کے نامہربان ہمنوا'' اس مضمون میں فلسطین ارض مقدس کے اطراف میں رہنے والے نام نہاد حکمرانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اردن کے موجودہ شاہی خاندان نے تاریخ کے اہم ترین موڑ پر مسلمانوں سے غداری کی اس کا آغاز خلافت عثمانیہ کے سقوط سے ہوتا ہے، اس سلسلے میں خاندان کے پہلے غدار شریف مکہ (گورنر مکہ) اور اس کے بیٹوں کی غداری تھی جس نے مسلمانوں کے لیے ایسے مسائل پیدا کیے جن کا زخم صدیوں تازہ رہے گا لیکن اس کے عمل سے اس کی قبر جہنم کا گڑھا بنی رہے گی۔ ان حالات وواقعات کے پیش منظر میں ایک اہم نام سامنے آتا ہے۔ وہ ہے مشہور عثمانی سپہ سالار فخری پاشا ان کے ذمے مدینے کا دفاع تھا۔
یہ ایمانی جذبے سے سرشار ہوکر اسلام کے دشمنوں سے جنگ میں مصروف تھے۔ 30 اکتوبر 1918 میں ترکی اور انگریز افواج کے درمیان جب مدروس کا معاہدہ طے پا گیا تو انھیں ہتھیار ڈالنے پر زور دیا گیا لیکن ان صاحب ایمان ہستی نے معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ایک ترک مصنف نے لکھا ہے ، ایک دفعہ جمعہ کے دن فخری پاشا مسجد نبوی میں نماز کی امامت سے پہلے خطبہ دینے کے لیے منبر کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگے تو آدھے ہی راستے میں رک گئے اور اپنا چہرہ حضور اقدسؐ کے روضے کی طرف کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا کہ'' اے اللہ کے رسول! میں آپؐ کوکبھی نہیں چھوڑوں گا'' اس کے بعد مجاہدوں اور نمازیوں سے ولولہ انگیز خطاب کیا۔
مسلمانو! میں تم سے حضورؐ کا نام لے کر جہاد کی اپیل کرتا ہوں جو اس وقت میرے گواہ بھی ہیں، میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ دشمن کی طاقت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے (ان ؐ کا) اور ان کے شہر کا آخری گولی تک دفاع کرو۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو اور حضور اکرمؐ کی برکت ہمارے ساتھ ہو۔ تقریر مکمل کرنے کے بعد فخری پاشا نے کہا کہ مجھے حضور اکرمؐ کی زیارت نصیب ہوئی تھی اور حضورؐ نے انھیں حکم دیا تھا کہ وہ ابھی ہتھیار نہ ڈالے۔
14 ذی الحج کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ میں پیدل چل رہا تھا یہ سوچتا ہوا کہ کس طرح مدینے کا دفاع ہوجائے، اچانک میں نے نامعلوم افراد کے درمیان اپنے آپ کو پایا، انھی میں سے ایک بزرگ شخصیت کو دیکھا، یہ حضورؐ تھے۔ان پر اللہ کی رحمت ہو، انھوں نے اپنا بایاں ہاتھ میری پیٹھ پر رکھا اور تحفظ کا احساس دلانے والے انداز میں فرمایا، میرے ساتھ چلو، میں ان کے ساتھ تین چار قدموں تک چلا، پھر بیدار ہوگیا۔
میں فوراً مسجد نبوی گیا اور ان کے روضے کے قریب اپنے رب کے حضور سجدے میں گر پڑا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور اب میں حضورؐ کی پناہ میں ہوں جو میرے سپہ سالار ہیں۔ فخری پاشا نے عثمانیہ کے وزیر جنگ کو بھی نظرانداز کردیا اس کے بعد عثمانی خلیفہ کی منت سماجت کے بعد انھوں نے 9 جنوری 1919 کو Bir Darwish کے مقام پر 456 افسروں اور 9,364 نوجوانوں کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی ہتھیار سپرد کر دیے۔ یہ تھے عظیم سپہ سالار جنھوں نے دین ودنیا میں عزت وکامیابی حاصل کی۔ ان کے مقابلے میں غداروں کا انجام عبرت ناک ہوا۔
صفحہ 71 سے 78 تک آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ کا تعارف ہے یعنی 8 صفحوں پر ان کے کارنامے اور خدمات درج ہیں جو انھوں نے ملت اسلامیہ اور اسلام کے حوالے سے دامے، درمے، سخنے انجام دیں۔
میں نے علامہ کے حوالے سے بہت سی کتابیں پڑھیں کہ ان کی شاعری میرا عشق ہے لیکن اس قدر افکار عالیہ اور شعر و سخن کے حوالے سے ایسی کتاب میری نگاہوں سے نہیں گزری۔ میں انھیں مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اقبال جیسے معلم، مدرس، مفکر اور شاعر مشرق، فلاسفر کے اشعار جو امت مسلمہ کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے تخلیق ہوئے تھے آج بھی ایسی ہی صبح کی ضرورت ہے۔
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
مجھے اندازہ ہے کہ اس قدر وقیع مضامین کا احاطہ میرا قلم اس لیے نہیں کرسکے گا کہ جگہ محدود ہے اور مواد زیادہ ہے لہٰذا خاص خاص باتوں کا تذکرہ و تعارف پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔ 649 صفحات پر مضامین اور باقی صفحات حوالہ جات، کتابیات، قارئین کے نام کھلا خط کا احاطہ کرتے ہیں۔ کتاب کو 6 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اس طرح قاری کے لیے اس کا مطالعہ آسان ترین ہوگیا ہے۔ انتساب کی انفرادیت یہ ہے کہ علامہ اقبال کی تصویرکے علاوہ تحریر درج نہیں ہے۔ البتہ سر علامہ اقبال کو ملنے والے خطابات کا ذکر ملتا ہے۔
قائد اعظم اور دوسرے اکابرین کی آرا نے کتاب کو سند کا درجہ دے دیا ہے۔ قائد اعظم نے علامہ اقبال کے حوالے سے فرمایا ہے کہ ''مرحوم دورحاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے،کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی شخص نے نہیں سمجھا۔ مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا (3 مارچ 1941 بہ مقام پنجاب یونیورسٹی ہال ) ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رائے کے مطابق ''جناب آزاد بن حیدر کی کتاب ''علامہ اقبالؒ یہودیت اور جمہوریت'' میں علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں یہودی سازشوں اور مغربی جمہوریت کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال ایک اعلیٰ عالم دین، مفکر تھے۔''
ابتدائیہ کے عنوان سے جو تحریر میری نگاہوں کے حصار میں ہے وہ ہے ''قرآن اور یہود'' (ترجمہ) ''مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے یہود و مشرکین ہی کو پاؤ گے۔'' مذکورہ مضمون طویل ضرور ہے لیکن علامہ کے نظریات اور یہودیوں کی فتنہ سازیوں اور عادات رذیلہ کے حوالے سے معلومات کے درکھولتا ہے۔ مثال کے طور پر کنجوسی، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی، زمین میں فساد کرنیوالے، علما اور داعی کا قتل، اقبال کی نظر میں اسرائیلی فتنہ، اقبال اور مسئلہ فلسطین اسی باب سے چند سطور اقبال اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں مضمون نگار نے لکھا ہے جوکہ علامہ اقبال کی تحریر کا ایک پیراگراف ہے۔
'' ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فلسطین برطانیہ کی ملکیت نہیں، برطانیہ تو محض جمعیت اقوام کے انتداب کے تحت فلسطین پر قابض ہے۔ ایشیا کے مسلمان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ جمعیت اقوام دراصل ایک اینگلو فرانسیسی ادارہ ہے جس کا مقصد صرف اسلامی ملکوں کے حصے بخرے کرکے انھیں کمزور سے کمزور تر کردینا ہے، فلسطین یہودیوں کا ملک بھی نہیں، کیونکہ یہودی تو عربوں کی آمد سے بہت پہلے اپنی مرضی سے فلسطین چھوڑ کر چلے گئے تھے یہ امر بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ صیہونیت کوئی مذہبی تحریک نہیں اس تحریک کے خدو خال سے قطع نظر کرکے صرف فلسطین کمیشن کے ذریعے اس سودے کا معاوضہ یوں چکایا گیا ہے کہ عربوں کو کچھ روپیہ دے دیا گیا ہے اور ادھر یہودیوں کو بھی ایک قطعہ اراضی عطا کردیا گیا ہے۔''
چوہدری طالب حسین کے مضمون کا عنوان ''علامہ اقبال اور اجتہاد'' ہے وہ اس حوالے سے رقم طراز ہیں حضرت علامہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کو اجتہاد کا حق اس لیے نہیں دیتے کہ وہ اپنے فرقے کے لیے اپنی فقہ کی تعبیر تو کرسکتے ہیں مگر پوری قوم کے لیے شریعت کی تعبیر نہیں کرسکتے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اسلام میں اختیار تعبیر شریعت پوری قوم کا حق ہے، عہد رسالت میں آنحضرت ؐ ریاستی امور، حکومتی معاملات، معاشرتی و معاشی اداروں کی تشکیل میں عوام کی رائے معلوم فرماتے تھے۔
مفتی ابوالبابہ شاہ منصورکی ایک ایمان افروز تحریر ''دجالی ریاست کے نامہربان ہمنوا'' اس مضمون میں فلسطین ارض مقدس کے اطراف میں رہنے والے نام نہاد حکمرانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اردن کے موجودہ شاہی خاندان نے تاریخ کے اہم ترین موڑ پر مسلمانوں سے غداری کی اس کا آغاز خلافت عثمانیہ کے سقوط سے ہوتا ہے، اس سلسلے میں خاندان کے پہلے غدار شریف مکہ (گورنر مکہ) اور اس کے بیٹوں کی غداری تھی جس نے مسلمانوں کے لیے ایسے مسائل پیدا کیے جن کا زخم صدیوں تازہ رہے گا لیکن اس کے عمل سے اس کی قبر جہنم کا گڑھا بنی رہے گی۔ ان حالات وواقعات کے پیش منظر میں ایک اہم نام سامنے آتا ہے۔ وہ ہے مشہور عثمانی سپہ سالار فخری پاشا ان کے ذمے مدینے کا دفاع تھا۔
یہ ایمانی جذبے سے سرشار ہوکر اسلام کے دشمنوں سے جنگ میں مصروف تھے۔ 30 اکتوبر 1918 میں ترکی اور انگریز افواج کے درمیان جب مدروس کا معاہدہ طے پا گیا تو انھیں ہتھیار ڈالنے پر زور دیا گیا لیکن ان صاحب ایمان ہستی نے معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ایک ترک مصنف نے لکھا ہے ، ایک دفعہ جمعہ کے دن فخری پاشا مسجد نبوی میں نماز کی امامت سے پہلے خطبہ دینے کے لیے منبر کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگے تو آدھے ہی راستے میں رک گئے اور اپنا چہرہ حضور اقدسؐ کے روضے کی طرف کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا کہ'' اے اللہ کے رسول! میں آپؐ کوکبھی نہیں چھوڑوں گا'' اس کے بعد مجاہدوں اور نمازیوں سے ولولہ انگیز خطاب کیا۔
مسلمانو! میں تم سے حضورؐ کا نام لے کر جہاد کی اپیل کرتا ہوں جو اس وقت میرے گواہ بھی ہیں، میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ دشمن کی طاقت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے (ان ؐ کا) اور ان کے شہر کا آخری گولی تک دفاع کرو۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو اور حضور اکرمؐ کی برکت ہمارے ساتھ ہو۔ تقریر مکمل کرنے کے بعد فخری پاشا نے کہا کہ مجھے حضور اکرمؐ کی زیارت نصیب ہوئی تھی اور حضورؐ نے انھیں حکم دیا تھا کہ وہ ابھی ہتھیار نہ ڈالے۔
14 ذی الحج کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ میں پیدل چل رہا تھا یہ سوچتا ہوا کہ کس طرح مدینے کا دفاع ہوجائے، اچانک میں نے نامعلوم افراد کے درمیان اپنے آپ کو پایا، انھی میں سے ایک بزرگ شخصیت کو دیکھا، یہ حضورؐ تھے۔ان پر اللہ کی رحمت ہو، انھوں نے اپنا بایاں ہاتھ میری پیٹھ پر رکھا اور تحفظ کا احساس دلانے والے انداز میں فرمایا، میرے ساتھ چلو، میں ان کے ساتھ تین چار قدموں تک چلا، پھر بیدار ہوگیا۔
میں فوراً مسجد نبوی گیا اور ان کے روضے کے قریب اپنے رب کے حضور سجدے میں گر پڑا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور اب میں حضورؐ کی پناہ میں ہوں جو میرے سپہ سالار ہیں۔ فخری پاشا نے عثمانیہ کے وزیر جنگ کو بھی نظرانداز کردیا اس کے بعد عثمانی خلیفہ کی منت سماجت کے بعد انھوں نے 9 جنوری 1919 کو Bir Darwish کے مقام پر 456 افسروں اور 9,364 نوجوانوں کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی ہتھیار سپرد کر دیے۔ یہ تھے عظیم سپہ سالار جنھوں نے دین ودنیا میں عزت وکامیابی حاصل کی۔ ان کے مقابلے میں غداروں کا انجام عبرت ناک ہوا۔
صفحہ 71 سے 78 تک آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ کا تعارف ہے یعنی 8 صفحوں پر ان کے کارنامے اور خدمات درج ہیں جو انھوں نے ملت اسلامیہ اور اسلام کے حوالے سے دامے، درمے، سخنے انجام دیں۔
میں نے علامہ کے حوالے سے بہت سی کتابیں پڑھیں کہ ان کی شاعری میرا عشق ہے لیکن اس قدر افکار عالیہ اور شعر و سخن کے حوالے سے ایسی کتاب میری نگاہوں سے نہیں گزری۔ میں انھیں مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اقبال جیسے معلم، مدرس، مفکر اور شاعر مشرق، فلاسفر کے اشعار جو امت مسلمہ کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے تخلیق ہوئے تھے آج بھی ایسی ہی صبح کی ضرورت ہے۔
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا