نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے… ’’اے سیاستدانو‘‘
سب سے پہلے ہمیں اس ہمسائے کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن میں رہنے کا طریق کار درست کرنا ہے۔
MELBOURNE:
ہمارا سیاسی کلچر بھی کیا خوب ہے۔ نعرہ جمہوریت کا لگاتے ہیں، لیکن حکمرانی بادشاہوں کی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ انصاف خلفائے راشدین کے دور کا چاہتے ہیں لیکن فیصلے اپنی پسند کے کرتے ہیں۔ لوٹ مار پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں لیکن اسے جمع بیرون ملک کرنا چاہتے ہیں۔
قیادت پاکستانی عوام کی کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے بچوںکو اس ملک میں رکھنا نہیں چاہتے۔ درد پاکستان کا لیے پھرتے ہیں لیکن شہریت دوسرے ملک کی رکھنا چاہتے ہیں۔ ووٹ غریب کی حالت بدلنے کے لیے مانگتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد صرف اپنے خاندان اور کاروبار کا تحفظ کرتے ہیں۔ بات نظام بدلنے کی کرتے ہیں لیکن جب اقتدار مل جائے تو ''اسٹیٹس کو'' رکھنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں ہر اول دستہ بنتے ہیں لیکن جب وہ ان کی خواہش کے مطابق فیصلے نہ دے یا ریٹارئر ہو جائے تو اسے دشمنوں کی طرح للکارتے ہیں۔
فوج کو سیاست سے باہر رکھنے کے نعرے لگاتے ہیں لیکن جب سیاسی داؤپیچ میں پھنس جائیں تو فوج کو سیاست میں آنے کی کھلے عام دعوت دیتے ہیں۔ انقلاب نوجوانوں کے ساتھ لانے کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن کور کمیٹی اور عمل در آمد کمیٹی میں انھی گھاک لوگوں کی رکھتے ہیں جنہوں نے جمہوریت کُش اور طالع آزمائوں کی معاونت کی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''جو'' کی کاشت کر کے اس پودے سے '' گندم'' کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔
دو وزرائے اعظموں کو جلسہ عام میں شہید کرنے، ایک وزیر اعظم کو تختہ دار پر لٹکانے، ایک صدر مملکت اور آرمی چیف کے طیارے کو سازش کے ذریعے اڑانے اور تین وزرائے اعظم ایک اور صدر کو سپریم کورٹ کے کٹہرے میںلانے کے باوجود طرز حکمرانی کی اصلاح میں ناکام رہے ہیں۔یہ ایسے معاملات ہیں جن کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ اصل وجہ ہمارا Electoral System اور نیت کی خرابی ہے۔ جب تک ہم اس جانب توجہ نہیں دیں گے معاملات کو صحیح ڈگر پر نہیں ڈالا جا سکے گا۔ ہم نے بڑے بڑے مگر مچھ پکڑے، سیکڑوں بیوروکریٹس کو برطرف اورسیاستدانوں کو نا اہل قرار دیا لیکن حالات کو درست نہ کیا جا سکا۔
آج ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر ہیں کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے بتدریج جمہوریت کی منزل حاصل کرنا ہے یا محض انقلاب کا نعرہ لگا کر دوبارہ فوجی آمریت کے چنگل میں جانا ہے۔ ''الیکشن کمیشن کی اصلاح کا مطالبہ ہو یا دھاندلیوں'' کو آشکار کرنا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا فائدہ ہمارے سیاسی قائدین کو ہو گا یا کہ ان لوگوں کا جن کے پاس نہ تو ووٹ اور نہ ہی کوئی حقیقی سیاسی جماعت۔آزادی حقوق اور جمہوریت کا نعرہ تو مصری عوام نیبھی لگایا، تحریر اسکوائر چند ماہ میڈیا اور عوام کی نظروں میں ''انقلاب آمد دلیل انقلاب'' کا نعرہ مستانہ لگاتا رہا لیکن مصر دوبارہ فوجی آمریت کے چنگل میں چلا گیا۔ اسی طرح یوکرین کی پارلیمنٹ کے باہر دھرنے نے بھی لولی لنگڑی جمہوریت کو آمریت کی گود میں دھکیل دیا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے سیاسی نظام اور جمہوریت کی ''چولیں'' ڈھیلی ہیں۔ وہ پورا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ لانگ مارچ اور ریلیوں کو کامیاب بنا کر حاصل حصول کیا ہو گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک اٹھی توجنرل یحییٰ خان آ گیا۔ ملک دو لخت ہوا تو بھٹو صاحب جیسے سیاستدان کو اقتدار ملا ۔ جب انھوںنے جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنے کی کوشش کی تو ریلیوں اور جلسوں نے ان کا کام تمام کر دیا لیکن اقتدار سیاستدانوں کی بجائے جنرل ضیاء الحق کو ملا ۔ اگر ''C-130 محسن جمہوریت'' کا ٹائٹل حاصل نہ کرتا تونہ پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا اور نہ ہی بینظیر بھٹو کبھی وزیرا عظم نہ بن سکتیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد بینظیر اور نواز شریف دونوں سیاستدان بننے کی بجائے ایک دوسرے کے ''ذاتی مخالف'' بنے رہے نتیجتاً دونوں کو جلا وطنی میں طویل مدت گزرانا پڑی۔اس جلاوطنی نے انھیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سبق یاد کرائے تو دونوں نے''میثاق جمہوریت'' کیا۔ زرداری صاحب نے میثاق جمہوریت سے ہٹ کر جب بھی نئے تجربات کا سوچا تو انھیں لُٹیا ڈوبتی نظر آئی اور مجبوراً تھرڈ چینل کے ذریعے ن لیگ اور پیپلز پارٹی ''عقل'' حاصل کرتے رہے۔ یہی''عقل'' ان دونوں کے درمیان ابھی تک قائم ہے۔
گزشتہ چھ دہائیوں میں ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑیں۔ ملک دو لخت ہوا۔ دو وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو سرعام گولی کا نشانہ بنے۔صدر ضیاء الحق کا طیارہ ایک سازش کے نتیجے میں حادثے کا شکار ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود معزول اور جلا وطن ہوئے۔ ذرا سوچئے تو جس ملک کی مختصر سی تاریخ میں صدر اور وزرائے اعظموں کا یہ حشر ہوا ہو وہاں کی طرز حکمرانی کو کس طرح مطمئن کہا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف دیکھئے توپاکستان ایک زرخیز ملک جسے قدرت نے چار موسم پہاڑ، صحرا اور زرخیز میدانی علاقوں سے نوازا ہو جس کے دریائوں کا پانی میٹھا اور زراعت کے لیے معاون ہو، پاکستان کا سمندر اور ساحلی پٹی جغرافیائی حکمت عملی کے اعتبار سے دنیا بھر کے لیے انتہائی کشش کا باعث ہو۔ پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی طاقت ہو۔جس کے عوام جفا کش اور محنتی ہوں۔
ہماری فوج نہ صرف یہ کہ علاقائی اعتبار سے مضبوط بلکہ دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتی ہو اور اس میں وہ صلاحیت اور عزم ہو کہ وہ عالمی دہشتگردوں کے خوفناک ٹھکانوں اور چھپے دشمنوں کی تاریخی بیخ کنی کر سکے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دوسروں کے دست نگر رہیں۔یہ ہیں وہ نکات جن پر ہماری حکومت، صاحب الرائے افراد اور میڈیا کو بحث کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی غلطیوں کی نشاندہی کر کے اصلاح کا اہتمام کرنا ہے۔
ان نا گفتہ نہ حالات کی وجہ صرف ہماری سمت کا درست نہ ہونا ہے۔ کبھی ہم اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں کبھی سب سے پہلے پاکستان،کبھی جمہوریت، کبھی اشرافیہ اور کبھی کرپشن کے خاتمے کا۔ہم کبھی امریکا کے حاشتہ بردار بنتے ہیں تو کبھی چین کے ہمنوا اور کبھی روس کے مخالف ۔
سب سے پہلے ہمیں اس ہمسائے کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن میں رہنے کا طریق کار درست کرنا ہے۔ اپنا گھر درست کیے بغیر ہم کبھی بھی دوسروں کی مداخلت یا سازشوں سے نہیں بچ سکتے۔اگر ہم اقوام عالم کی تاریخ کا جائزہ لیں تو بڑی بڑی سلطنتیں اور مضبوط ترین حکومتیں طرز حکومت میں خرابی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔
پاکستانی عرصہ دراز سے بیڈ گورننس کا شکار رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی اور عسکری قائدین بھی ہوش کے نا خن لیں۔ تاریخ نے ان کو بہت جھٹکے دیے ہیں۔اگر سیاسی حکمران گڈ گورننس کو منزل مقصود بنا لیں اور ایک عمرانی معاہدہ کر کے آگے بڑھیں تو ہماری معیشت کا پہیہ تیزی سے رواں دواں ہو گا۔
ہمارا سیاسی کلچر بھی کیا خوب ہے۔ نعرہ جمہوریت کا لگاتے ہیں، لیکن حکمرانی بادشاہوں کی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ انصاف خلفائے راشدین کے دور کا چاہتے ہیں لیکن فیصلے اپنی پسند کے کرتے ہیں۔ لوٹ مار پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں لیکن اسے جمع بیرون ملک کرنا چاہتے ہیں۔
قیادت پاکستانی عوام کی کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے بچوںکو اس ملک میں رکھنا نہیں چاہتے۔ درد پاکستان کا لیے پھرتے ہیں لیکن شہریت دوسرے ملک کی رکھنا چاہتے ہیں۔ ووٹ غریب کی حالت بدلنے کے لیے مانگتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد صرف اپنے خاندان اور کاروبار کا تحفظ کرتے ہیں۔ بات نظام بدلنے کی کرتے ہیں لیکن جب اقتدار مل جائے تو ''اسٹیٹس کو'' رکھنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں ہر اول دستہ بنتے ہیں لیکن جب وہ ان کی خواہش کے مطابق فیصلے نہ دے یا ریٹارئر ہو جائے تو اسے دشمنوں کی طرح للکارتے ہیں۔
فوج کو سیاست سے باہر رکھنے کے نعرے لگاتے ہیں لیکن جب سیاسی داؤپیچ میں پھنس جائیں تو فوج کو سیاست میں آنے کی کھلے عام دعوت دیتے ہیں۔ انقلاب نوجوانوں کے ساتھ لانے کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن کور کمیٹی اور عمل در آمد کمیٹی میں انھی گھاک لوگوں کی رکھتے ہیں جنہوں نے جمہوریت کُش اور طالع آزمائوں کی معاونت کی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''جو'' کی کاشت کر کے اس پودے سے '' گندم'' کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔
دو وزرائے اعظموں کو جلسہ عام میں شہید کرنے، ایک وزیر اعظم کو تختہ دار پر لٹکانے، ایک صدر مملکت اور آرمی چیف کے طیارے کو سازش کے ذریعے اڑانے اور تین وزرائے اعظم ایک اور صدر کو سپریم کورٹ کے کٹہرے میںلانے کے باوجود طرز حکمرانی کی اصلاح میں ناکام رہے ہیں۔یہ ایسے معاملات ہیں جن کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ اصل وجہ ہمارا Electoral System اور نیت کی خرابی ہے۔ جب تک ہم اس جانب توجہ نہیں دیں گے معاملات کو صحیح ڈگر پر نہیں ڈالا جا سکے گا۔ ہم نے بڑے بڑے مگر مچھ پکڑے، سیکڑوں بیوروکریٹس کو برطرف اورسیاستدانوں کو نا اہل قرار دیا لیکن حالات کو درست نہ کیا جا سکا۔
آج ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر ہیں کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے بتدریج جمہوریت کی منزل حاصل کرنا ہے یا محض انقلاب کا نعرہ لگا کر دوبارہ فوجی آمریت کے چنگل میں جانا ہے۔ ''الیکشن کمیشن کی اصلاح کا مطالبہ ہو یا دھاندلیوں'' کو آشکار کرنا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا فائدہ ہمارے سیاسی قائدین کو ہو گا یا کہ ان لوگوں کا جن کے پاس نہ تو ووٹ اور نہ ہی کوئی حقیقی سیاسی جماعت۔آزادی حقوق اور جمہوریت کا نعرہ تو مصری عوام نیبھی لگایا، تحریر اسکوائر چند ماہ میڈیا اور عوام کی نظروں میں ''انقلاب آمد دلیل انقلاب'' کا نعرہ مستانہ لگاتا رہا لیکن مصر دوبارہ فوجی آمریت کے چنگل میں چلا گیا۔ اسی طرح یوکرین کی پارلیمنٹ کے باہر دھرنے نے بھی لولی لنگڑی جمہوریت کو آمریت کی گود میں دھکیل دیا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے سیاسی نظام اور جمہوریت کی ''چولیں'' ڈھیلی ہیں۔ وہ پورا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ لانگ مارچ اور ریلیوں کو کامیاب بنا کر حاصل حصول کیا ہو گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک اٹھی توجنرل یحییٰ خان آ گیا۔ ملک دو لخت ہوا تو بھٹو صاحب جیسے سیاستدان کو اقتدار ملا ۔ جب انھوںنے جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنے کی کوشش کی تو ریلیوں اور جلسوں نے ان کا کام تمام کر دیا لیکن اقتدار سیاستدانوں کی بجائے جنرل ضیاء الحق کو ملا ۔ اگر ''C-130 محسن جمہوریت'' کا ٹائٹل حاصل نہ کرتا تونہ پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا اور نہ ہی بینظیر بھٹو کبھی وزیرا عظم نہ بن سکتیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد بینظیر اور نواز شریف دونوں سیاستدان بننے کی بجائے ایک دوسرے کے ''ذاتی مخالف'' بنے رہے نتیجتاً دونوں کو جلا وطنی میں طویل مدت گزرانا پڑی۔اس جلاوطنی نے انھیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سبق یاد کرائے تو دونوں نے''میثاق جمہوریت'' کیا۔ زرداری صاحب نے میثاق جمہوریت سے ہٹ کر جب بھی نئے تجربات کا سوچا تو انھیں لُٹیا ڈوبتی نظر آئی اور مجبوراً تھرڈ چینل کے ذریعے ن لیگ اور پیپلز پارٹی ''عقل'' حاصل کرتے رہے۔ یہی''عقل'' ان دونوں کے درمیان ابھی تک قائم ہے۔
گزشتہ چھ دہائیوں میں ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑیں۔ ملک دو لخت ہوا۔ دو وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو سرعام گولی کا نشانہ بنے۔صدر ضیاء الحق کا طیارہ ایک سازش کے نتیجے میں حادثے کا شکار ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود معزول اور جلا وطن ہوئے۔ ذرا سوچئے تو جس ملک کی مختصر سی تاریخ میں صدر اور وزرائے اعظموں کا یہ حشر ہوا ہو وہاں کی طرز حکمرانی کو کس طرح مطمئن کہا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف دیکھئے توپاکستان ایک زرخیز ملک جسے قدرت نے چار موسم پہاڑ، صحرا اور زرخیز میدانی علاقوں سے نوازا ہو جس کے دریائوں کا پانی میٹھا اور زراعت کے لیے معاون ہو، پاکستان کا سمندر اور ساحلی پٹی جغرافیائی حکمت عملی کے اعتبار سے دنیا بھر کے لیے انتہائی کشش کا باعث ہو۔ پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی طاقت ہو۔جس کے عوام جفا کش اور محنتی ہوں۔
ہماری فوج نہ صرف یہ کہ علاقائی اعتبار سے مضبوط بلکہ دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتی ہو اور اس میں وہ صلاحیت اور عزم ہو کہ وہ عالمی دہشتگردوں کے خوفناک ٹھکانوں اور چھپے دشمنوں کی تاریخی بیخ کنی کر سکے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دوسروں کے دست نگر رہیں۔یہ ہیں وہ نکات جن پر ہماری حکومت، صاحب الرائے افراد اور میڈیا کو بحث کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی غلطیوں کی نشاندہی کر کے اصلاح کا اہتمام کرنا ہے۔
ان نا گفتہ نہ حالات کی وجہ صرف ہماری سمت کا درست نہ ہونا ہے۔ کبھی ہم اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں کبھی سب سے پہلے پاکستان،کبھی جمہوریت، کبھی اشرافیہ اور کبھی کرپشن کے خاتمے کا۔ہم کبھی امریکا کے حاشتہ بردار بنتے ہیں تو کبھی چین کے ہمنوا اور کبھی روس کے مخالف ۔
سب سے پہلے ہمیں اس ہمسائے کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن میں رہنے کا طریق کار درست کرنا ہے۔ اپنا گھر درست کیے بغیر ہم کبھی بھی دوسروں کی مداخلت یا سازشوں سے نہیں بچ سکتے۔اگر ہم اقوام عالم کی تاریخ کا جائزہ لیں تو بڑی بڑی سلطنتیں اور مضبوط ترین حکومتیں طرز حکومت میں خرابی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔
پاکستانی عرصہ دراز سے بیڈ گورننس کا شکار رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی اور عسکری قائدین بھی ہوش کے نا خن لیں۔ تاریخ نے ان کو بہت جھٹکے دیے ہیں۔اگر سیاسی حکمران گڈ گورننس کو منزل مقصود بنا لیں اور ایک عمرانی معاہدہ کر کے آگے بڑھیں تو ہماری معیشت کا پہیہ تیزی سے رواں دواں ہو گا۔