ٹیکسوں میں اضافہ سے معیشت پر دباؤ بڑھا انڈسٹری کو گیس اوربجلی فراہم کی جائے
تنزلی کا شکار معیشت اور بدترین اقتصادی بحران کا شکار انڈسٹری ٹیکس دینے کی متحمل نہیں ہوسکتی، کاروباری شخصیات
ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کا نفاذ مہنگائی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ بجلی ،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
ٹیکس سسٹم اور مہنگائی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ حکومت ریونیو بڑھانے کے لئے ٹیکسوں کے نفاذکو آسان اور فوری حل سمجھتی ہے جبکہ اقتصادی ماہرین صنعت وتجارت کی ترقی کو معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے کلیدی اہمیت دیتے ہیں۔
کیونکہ جب اقتصادی سرگرمیاں بڑھیں گی تو حکومت کو بھی ریونیو حاصل ہوگا تنزلی کا شکار معیشت اور بدترین اقتصادی بحران کا شکار انڈسٹری ٹیکس دینے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ انہی حالات اور محرکات کو سامنے رکھتے ہوئے روزنامہ ایکسپریس کے زیر اہتمام ''ملکی معاشی صورتحال، ٹیکس سسٹم اورمہنگائی کی لہر ''کے موضوع پر فورم کا اہتمام کیا گیا جس میں بزنس کمیونٹی، بیورو کریسی، اقتصادی ماہرین اور صارفین کے نمائندوں نے شرکت کی۔
انجینئر سہیل لاشاری
(صدرلاہور چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری )
حکومت ریونیو بڑھانا چاہتی ہے تو ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر ے، پہلے سے رجسٹرڈ ٹیکس گزاروں پر نئے ٹیکس لگا کر ان کا مزید خون نہ نچوڑے۔ ہمارے ہاں سسٹم کو لوگ چلاتے ہیں جبکہ دیگر ممالک میں سسٹم لوگوں کو چلاتا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔ بجلی ،گیس نہیں ہے ایسے میں معیشت کیسے ترقی کرے گی؟ اگر حکومت ٹیکس لینا چاہتی ہے تو پہلے انڈسٹری کا پہیہ رواں رکھنے کے لئے بجلی ،گیس فراہم کرے۔ حکومت کے پاس پرائس کنڑول کا کوئی میکینزم نہیں۔
ایف بی آر نے ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بغیر رشوت کے ایف بی آر سے ریفنڈز کا حصول ناممکن ہے۔ ہم حکومت کے اچھے اقدامات کو سراہتے ہیں لیکن ایف بی آر میں یہ سوچ پختہ ہوچکی ہے کہ اس ملک میں(CREATING OF WEALTH IS A CRIME) دولت کما نا جرم ہے ۔ ہمیں اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والی بزنس کمیونٹی کو عزت دینا ہوگی۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ پروڈکشن ہوگی تو ٹیکس ملے گا مگر یہ صرف زبانی بات ہے۔
صنعتی پیداوار تب ہی بڑھے گی جب بجلی کی پیداواربڑھے گی اس کے لئے ہم حکومت کی طرف دیکھتے ہیں کب بجلی کی جنریشن کب بڑھے گی؟ حکو مت جب بھی کوئی نیا ٹیکس لگاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ریونیو اکٹھا کرنے کے لئے لگایا ہے۔ بجٹ میں ٹیکس لگائے جاتے ہیں مگر بجٹ کے بعد منی بجٹ آجاتے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں آئے روز بڑھ جاتی ہیں، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ دنیا کے ساتھ چلتے ہیں، عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو ہم بھی بڑھاتے ہیں مگر جب کم ہوتی ہیں تو ہمارے ہاں کم نہیں کی جاتیں۔
ایف بی آر کا کام صرف ٹیکس اکٹھاکرنا ہے۔ ٹیکس اکٹھا کرنے پر ان کو مراعات بھی دی جاتی ہیں کہ حکومت کو ریونیو اکٹھا کرکے دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں ٹیکس لگانے کا کام بھی ایف بی آر ہی کرتا ہے۔ ٹیکس لگاتے وقت چیمبر آف کامرس اور دیگر سٹیک ہولڈرزکے ساتھ کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی، نہ ہی کی جاتی ہے حالانکہ ٹیکس ہم نے ہی دینا ہوتا ہے۔ ہر ملک کا اپنا ٹیکس سسٹم ہے۔کوئی ترقی یافتہ ملک ہے کوئی ترقی پذیر ہے تو کوئی اس سے بھی کم کسی اور کے ٹیکس سسٹم کا پاکستان کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ حکومت نے ٹیکس ریٹ بڑھا دیئے ہیں جو کہ زیادتی ہے۔
ہم حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کرتے ہیں یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ٹیکس میں اضافے سے قیمتیں نہیں بڑھیں گی یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ ریٹیل اور ہول سیل پر ٹیکس مختلف ہوگا۔ کاروباری حضرات کو ٹیکس جمع کرانے کے بعد ٹٰیکس ریفنڈ ملتا ہے۔ مگر یہاں ٹیکس ریفنڈ ملتا نہیں ہے اور اگر ملے بھی تو پیسے دے کر ملتا ہے۔ دیگر ممالک میں سسٹم لوگوں کو چلاتا ہے مگر ہمارے ہاں لوگ سسٹم کو چلاتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق چلاتے ہیں ، ہم نے سسٹم بنا تو لیا مگر اس پر چلنا نہیں ہے، ہر کسی کو پتہ ہے کہ لال بتی پر رکنا اور سبز پر چلنا ہے مگر ہر بندے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب سے آگے نکل جائے۔
ٹیکس نیٹ میں نئے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنا ضروری ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں صرف 12لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں حکومت نے جب بھی ریونیو بڑھانا ہوتا ہے انہی لوگوں پر ٹیکس کو مزید بڑھا دیا جاتا ہے مگر اب یہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گا نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ جب تک کاروباری حضرات کو وسائل نہیں ملیں گے کاروبار ترقی نہیں کرے گا۔ وسائل کی فراہمی کی طرف بالکل توجہ نہیں ہے اب پھر اعلان کردیا ہے کہ 3ماہ تک گاؑڑیوں کیلئے سی این جی نہیں ملے گی۔ حکومت نے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی۔
یہ جوکہا جارہا ہے کہ ٹیکس بڑھنے سے قیمتیں نہیں بڑھیں گی تو یہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہاں تو ٹماٹر کی قیمت بڑھتی ہے تو اسے کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا تو ٹیکس بڑھنے سے جب قیمتیں بڑھیں گی تو کیسے کنٹرول کر سکیں گے۔ عام آدمی مہنگائی کو ایک حد تک ہی برداشت کرسکتا ہے اور اب اس کی برداشت ختم ہو رہی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ پہلے سے موجود لوگوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے ہر کسی سے ٹیکس لیا جائے ریڑھی والا ہو یا تانگے والا سب سے چاہے 5سو ہی ہو مگر سب کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
اگر حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں کاروبار بڑھے تو کاروبار کے خواہش مند حضرات کیلئے ون ونڈو آپریشن ہونا چاہیئے، کاروباری حضرات کو کاروبار شروع کرنے کیلئے اجازت ہی نہیں ملتی۔ یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ ڈچ حکومت پاکستان میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا چاہ رہی ہے۔
جس کیلئے فنڈز بھی وہی خرچ کریں گے مگر پلانٹ لگانے کیلئے انہیں حکومت سے این او سی نہیں مل رہا۔ پاکستان میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہاں امیر ہونا جرم بن گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیر ہی ملازمتیں پیدا کرتا ہے، امیر اور غریب مل کر ہی چل سکتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے دونوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ تمام مسائل مل بیٹھ کر حل کرلئے جائیں،احتجاج کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہیے ، حکومت اور کاروباری حضرات مل بیٹھیں گے تو ہی مسائل حل ہوسکیں گے۔
ذوالفقار خان
(سابق صدرپاکستان ٹیکس بارایسوسی ایشن)
ٹیکس سسٹم اور مہنگائی باہم منسلک ہیں۔ ہمارے ہاں ٹیکس بھتہ خوری کے انداز میں مسلط کردیا جاتا ہے۔بجٹ کے بعد درجنوں مرتبہ بجلی ،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں بجٹ بے معنی ہوجاتا ہے۔ ٹیکسوں کے نفاذ سے پہلے ٹیکس دینے والوں کو اس قابل تو بنایا جائے کہ وہ ٹیکس ادا کر سکیں ۔کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے مراعاتی سکیمیں متعارف کرائی جائیں۔ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی بجائے کمی کر کے ٹیکس گزاروں کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی جائے ،بیوروکریسی کی بجائے کابینہ کی اقتصادی کمیٹی بجٹ تیار کرے۔
سیلز ٹیکس سے اول وآخر صارف ہی متاثر ہوتا ہے۔ یہ پہلے 1954میں لگایا گیا پھر ختم ہوگیا۔''سرکاری''اقتصادی ماہرین نے 1990ء میں اسے دوبارہ ''دریافت''کر کے قوم پر مسلط کردیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلز ٹیکس کی شرح خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ ٹیکس سسٹم میں اضافہ سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹیکس سسٹم اور معاشی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے جب کسی ملک میں ٹیکس پالیسی ٹھیک ہو گی تووہ ملک ترقی کرے گا۔ جہاں ٹیکس سسٹم ٹھیک نہیں وہاں ترقی کی رفتار بھی سست ہوگی۔
پاکستان میں ٹیکس سسٹم موجود تو ہے مگر اس کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں ٹیکس تو لگائے جاتے ہیں جو کہ لگانے چاہیئں کیونکہ ترقی کیلئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور پیسہ ٹٰیکس لگانے سے ہی حاصل ہوتا ہے، یہ کام عوام کے منتخب نمائندوں اور پارلیمنٹ کا ہے مگر ہمارے ہاں ٹیکس لگانے کا کام ایف بی آر کو دے دیا جاتا ہے جو کہ اس حوالے سے سٹیک ہولڈر ہی نہیں ہے۔
ٹیکس میں سٹیک ہولڈر عوام اور کاروباری لوگ ہیں ، سی ایس پی افسران کا اس سے تعلق ہی نہیں ہے اس لئے ٹیکس لگاتے وقت سٹیک ہولڈرز یعنی کاروباری شخصیات اور عوامی نمائندوں کو طے کرنا چاہیے کہ کس شرح سے ٹیکس لگانا ہے ، مگر یہا ں اس کے الٹ ہوتاہے۔ جب بھی بجٹ بننا ہوتا ہے ایف بی آر کو تالے لگادیئے جاتے ہیں اور پورا کا پورا ایف بی آر ٹیکس لگانے میں لگ جاتا ہے۔ ایف بی آر ایک بھتہ خور کا کام کرتا ہے۔ پاکستان میں بھتہ خوری تو ویسے ہی عام ہے، کسی زمانے میں ڈسٹرکٹ کونسل والے عوام سے مختلف ٹیکسوں کی شکل میں بھتہ لیا کرتے تھے، چور ڈاکو اور بھتہ خور بندوق سے لوگوں کو ڈرا کر بھتہ وصول کرتے ہیں اور اس کی بندوق کے ڈر سے لوگ بھتہ دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایف بی آر بھی بھتہ خور کا کردار ادا کرتا ہے اور اس کے قانون کے ڈر سے لوگ پیسے دیتے ہیں۔ جب تک باقاعدہ پالیسیاں نہیں بنائی جائیں گی تو ریونیو اکٹھا کرنے کا کوئی باقاعدہ سسٹم نہیں بن سکے گا اور نہ پیسے اکٹھے ہوسکیں گے۔ ہمارے ہاں بجٹ تو سال بعد آتا ہے مگر ہر ماہ منی بجٹ آجاتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات،گیس اور بجلی کی قیمتیں ہر ماہ بڑھ جاتی ہیں، یہاں ٹیکس کاڈھانچہ مضبوط نہیں ہے۔ ہر روز ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے، ڈالر یا پاؤنڈ کی قیمت بڑھنے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ انڈے والا انڈے مہنگے کردیتا ہے۔
بجلی کی قیمتیں اتنی زیادہ کردی گئی ہیں کہ عام آدمی کی برداشت سے باہر ہیں۔ سیلز ٹیکس کی شرح خطے کے دیگر تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ سنگا پور میں 5فیصد، کینیڈا میں 5فیصد، ملائیشیا میں 6فیصد، سری لنکا میں 10فیصد، مالدیپ میں 13فیصد اور انڈیا میں 13.5فیصد ہے مگر ہمارے ہاں سیلز ٹیکس کو 16فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کیا گیا تو بہت شور مچایا گیا اب اسے مزید 2فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔ قانون یہ ہے کہ 5کروڑ سے زیادہ آمدن پر ٹیکس زیادہ لگے گا، یہاں یہ بات ہے کہ سرمایہ دار ''احمق''ہے کہ وہ اپنی آمدن کو 5کروڑ سے زیادہ ظاہر کرکے زیادہ ٹٰیکس دے۔ سیلز ٹیکس دنیا بھر میں لاگو ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے مگر اسے دینے میں گھپلے ہوتے ہیں۔ این ٹی این بنوانے کے لئے رجسٹریشن نہیں ہوتی، یہ بالکل غلط ہے کہ سیلز ٹیکس مینو فیکچرر ادا کرتا ہے ، سیلز ٹیکس کا بوجھ صارف کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اظہر سعید بٹ
(ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
سیلز ٹیکس کی شرح میں حالیہ اضافے سے یہ انیس فیصد نہیں ہوا بلکہ تکنیکی طور پر اس کی شرح 22فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہمارے ملک میں ہر شعبے میں طاقتور لوگوں نے کارٹٰیل بنائے ہوئے ہیں ۔ اربوں ڈالر کے اثاثے رکھنے والوٓںکو چھوڑ کر ریڑھی والوں سے ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض لینے کے بجائے ڈیفالٹ قبول کرنے والی لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ ہر شعبے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کیا جائے۔ بھتہ خوری اور امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے بزنس کمیونٹی پریشان ہے ایسے میں اس پر نئے ٹیکسوں کی تلوار چلادی گئی ہے۔
حکومت بزنس کمیونٹی پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے بجائے اپنے وسائل میں اضافہ کرے۔ بڑے ٹٰیکس چوروں اور مگر مچھوں کو کڑی سزا دی جائے۔ عالمی ساہوکاروں کی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے معاشی بحالی کے لئے منصوبہ بندی کی جائے۔ ٹٰیکس لگاتے وقت سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ بیوروکریسی کی بجائے سٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو معتبر جانا جائے۔ یہاں بڑے ٹیکس چوروں نے گٹھ جوڑ کے ذریعے سسٹم کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
سسٹم ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال ہو رہا ہے، سیلز ٹیکس و دیگر ٹیکسوں کے نفاذ سے کاروباری سرگرمیاں منجمد ہو جائیں گی اور عام آدمی کی زندگی عذاب بن جائے گی۔ حکومت کی طرف سے کاروبار دشمن اقدامات کے باعث ملک سے سرمایے کا انخلاء تیز ہوگیا ہے اب بزنس مین سرمایے کے ساتھ ساتھ اپنی انڈسٹری بھی دیگر ممالک میں منتقل کررہے ہیں۔ خطے کے پسماندہ اور کم وسائل رکھنے والے ممالک کی ایکسپورٹ ہم سے زیادہ ہے، کل تک جس مارکیٹ پر پاکستانی مصنوعات کا راج تھا آج وہ ہم سے چھین لی گئی ہیں۔
حکومت بھتہ خوری کے خاتمے کیلئے بزنس کمیونٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ٹاسک فورس بنائیں ایسے تمام شعبوں کا ٹیکس سے استثنیٰ ختم کیا جائے جو کاروبار کررہے ہیں اور منافع کما رہے ہیں۔ پراپرٹی مافیا کی مانیٹرنگ کی جائے اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ امریکہ نے ہمیں دہشتگردی کی جنگ میںدھکیلا ہے اور ہم نے اس میں ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے ہیں۔ اب ہماری قوم اور یہ ملک مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اس لیے امریکہ سے جان چھڑا لی جائے۔سسٹم کو بہتر بنایا جائے میرٹ پر لوگوں کو ذمہ داریاں دی جائیں دوسری صورت میں اگر سسٹم فیل ہوا تو سیاستدانوں کا بوریا بستر بھی گول ہوجائے گا۔
نسیب احمد سیفی
(چیئرمین آل پاکستان حلال میٹ پروسیسرزاینڈ ایکسپورٹرزایسوسی ایشن)
ہمیں معاشی ایمرجنسی کا سامنا ہے ایسے میںہم ایکسپورٹ بڑھا کر ملکی معیشت کو مضبوط بناتے ہوئے اسے ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں منیوفیکچرنگ بڑھانا ہوگی اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ برآمدات بڑھانے کیلئے حکومت ایکسپورٹ انڈسٹری کو مراعات فراہم کرے اور ٹیکس سے استثنٰی دے۔کیونکہ جب ایکسپورٹ بڑھے گی تو ملک میں زرمبادلہ آئے گا اورڈالرکے مقابلے میں روپے کی قیمت مستحکم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک روپے کی گرتی ہوئی قدر کورولنے کیلئے اقدامات کرے ۔
روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے انڈسٹریلائزیشن کو فروغ دیا جائے ۔ درجنوں ٹیکسوں کی بجائے سنگل ٹیکس لگایا جائے اور ٹیکس سٹم کوآسان بنایا جائے۔ انڈسٹڑی چلنے سے روزگار ملے گا، بیروزگاری ختم ہونے سے جرائم کی شرح بھی کم ہوجائے گی۔ بجلی،گیس کی قیمتوں میں اضافے سے انڈسٹری کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے ۔
18روپے فی یونٹ بجلی خرید کر انڈسٹری چلانا ناممکن ہے ایسے میں ایکسپورٹ سے وابستہ صنعتیں ہی ملکی معیشت کو تباہی سے بچا سکتی ہیں۔ مینو فیکچرنگ سیکٹرملازمتیں پیدا کر کے بیروزگاری کی شرح میں کمی کر سکتا ہے ۔
حکومت کو ا س کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ پاکستان کو قدرت نے تمام وسائل سے نوازا ہے لیکن ضرورت صرف اور صرف بہتر منصوبہ بندی کرنے کی ہے۔ ہماری ایکسپورٹ انڈسٹری میں ترقی کی بہت گنجائش ہے۔ ہمیں عالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کی رسائی کا دائرہ بڑھانے کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ حلال فوڈ کی کھربوں ڈالر کی مارکیٹ میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ہمارے ہاں بہترین لائیو سٹاک ہے جس سے ہم بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اگر حکومت حلال میٹ کی ایکسپورٹ سے وابستہ افراد کو مراعات دے تو سالانہ اربوں ڈالر کی ایکسپورٹ سے بھاری زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کیلئے بیوروکریسی کی بجائے سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر منصوبہ بندی کی جائے۔
مصطفٰی اشرف
(چیف کمشنرلارج ٹیکس پیئر یونٹ)
ایف بی آر نے سیلز ٹیکس مسلط نہیں کیا بلکہ بجٹ سے پہلے ہی ہماری اس حوالے سے سٹیک ہولڈرز سے مشاور ت جاری تھی۔ سیلز ٹیکس کی جوترامیم 13جون کو نافذالعمل ہوئیں ان پر دومہینے سے میٹنگز چل رہی تھیں۔ پہلے یہ ہول سیل پر تھا پھر ایف بی آر نے اسے ریٹیل کی سطح پر اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ منیوفیکچررز کو ریٹیل کی سطح پر سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کے حوالے سے مکمل اعتماد میں لیا گیا۔ ایف بی آر کے نقطہ نظر کے مطابق سیلز ٹیکس میں اضافے کے اطلاق سے ٹیکس سسٹم تبدیل ہوا ہے ٹیکس میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس طرح مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا۔
ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے ایف بی آر اہم اقدامات کر رہا ہے۔ ٹیکس کے اطلاق کا مقصد ملکی ریونیومیں اضافہ کرنا ہے اور پالیسی سازوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ عام آدمی پر اس کا بوجھ کم سے کم پڑے ۔کیونکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کاروبار ہوگا تو حکومت کو ریونیو ملے گا اس لیے ایف بی آر کی پالیسیاں بھی کاروبار دوست ہیں۔
جنرل سیلزٹیکس میں اچانک اضافہ نہیں کیا گیا اس کے لئے کئی ماہ مختلف سٹیک ہولڈزرسے بات چیت جاری تھی ۔ انہیں اعتماد میں لے کر ہی جی ایس ٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں جی ایس ٹی16فیصد سے بڑھاکر 17فیصد کیا گیا اس طرح تکنیکی طور پر جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا ہے۔ پہلے یہ ہول سیلر پر تھا پھر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور ان کی آسانی کیلئے اسے ریٹیل پر لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کا مقصد تھا کہ مصنوعات پر ریٹیل قیمت لکھی جائے۔ مینوفیکچررزنے اس سے مکمل اتفاق کیا ۔ ایف بی آر کی یہ کوشش ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیے بغیر ٹیکس نیٹ میں اضافہ کے ذریعے ریونیو بڑھایا جائے۔
محمد حنیف گورائیہ
(صدرکنزیومررائٹس فورم پاکستان)
جو بھی ٹیکس لگایا جاتا ہے آخر کار وہ صارف کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے ٹیکس پر ٹیکس لگائے جارہی ہے جس سے عام آدمی کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ آٹے کی قیمت 16سو روپے فی من ہے عام آدمی کیلئے روٹی کھانا بھی مشکل ہے۔ آئے روز کی مہنگائی سے بھوک اور صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بڑے زمینداروں پر ٹیکس لگائے۔ جب بھی کوئی ٹیکس لگتا ہے تو صارف ہی اسے ادا کرتا ہے کبھی مینو فیکچرر پر اس کا بوجھ نہیں پڑا، اس وقت جو ٹیکسز لگائے گئے ہیں ان سے عام آدمی کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔
ہمارے ہاں اپنے عالمی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں عوام کا بالکل خیال نہیں کیا جاتا۔ توانائی بحران اور دہشت گردی کے باعث 100ارب ڈالر نقصان ہوچکا ہے مگر امریکا نے صرف 10ارب ڈالر کولیشن سپورٹ کے نا م پر پاکستان کو دیئے ہیں اس کے بعد کچھ اور دینے تھے مگر ابھی تک نہیں دیئے۔ اس وقت آٹا ایک من 16سو روپے میں مل رہا ہے ، بجلی پہلے 2سو یونٹ تک 8روپے فی یونٹ سے زیادہ پڑ رہی ہے، 2سو سے 3سو یونٹ تک 12روپے اس سے اوپر 18روپے فی یونٹ تک پڑ رہی ہے، اس کے بعد اس پر سیلز ٹیکس لگایا جاتا ہے جس سے یہ قیمت بڑھ کر 20روپے فی یونٹ سے بھی زیاد ہوجاتی ہے، اس کے نتیجے میںغربت بڑھ گئی اور بھوک بڑھ رہی ہے اور بھوک کے ساتھ صحت کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
حکومت سے گزارش ہے کہ کچن میں استعمال ہونے والے کم ازکم 12فوڈ آئٹمز کی قیمتیں فکس کردی جائیں، حکومت ان کے مینو فیکچررز کو بلائے اور ان سے بات کرے کہ یہ قیمتیں فکس کرنی ہیں تاکہ عوام آئے روز کی مہنگائی میں روٹی تو کھا سکیں۔ بھارت میں راشن کارڈ کا سسٹم ہے جس کے ذریعے انہیں آٹا 2روپے کلو ملتا ہے یہ راشن کارڈ گھر سربراہ عورت کو دیتے ہیں ، سابق حکومت بھی یہ سوچ رہی تھی اس نے کچھ نہیں کیا اور اب موجودہ حکومت بھی کچھ نہیں کر رہی۔ ہماری معیشت کو آئی ایم ایف کنٹرول کر رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ آئی ایم ایف کو کہتی کہ پچھلے 5سال میں بد انتظامی کے باعث ہم قرض اتارنے کے قابل نہیں اور ان سے مزید قر ض نہ لیتے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا مگر نیپرا کے ذریعے پھر سے قیمتیں بڑھا دی گئیں۔
ٹیکس میں اضافہ کرنے کیلئے 50ایکڑ سے زیادہ اراضی والے زمینداروں سے ٹیکس لیا جائے کیونکہ زراعت کاجی ڈٰ پی میں 2 فیصد حصہ ہے، جنرل سیلز ٹیکس کو 5 فیصد تک لایا جائے۔ سٹاک ایکسچینج کو ٹیکس نیٹ میںلایا جائے جو صارف پہلے ہی گیس میٹر لگوانے کیلئے سکیورٹی دے چکے ہیں ان سے اب مزید سکیورٹی لی جا رہی ہے اس کو ختم کیا جائے۔100ارب روپے کی بجلی چوری اورلائن لاسز کو ختم کیا جائے تو تبھی ہم ٹیکس سے بچ سکیں گے۔ بدانتظامی کی وجہ سے جو لائن لاسز ہیں ان کو ختم کرنے کے لئے قابل لوگوں کو تعینات کیا جائے تاکہ لائن لاسز پورا کرنے کیلئے صارف پر بوجھ پڑنے سے بچا جا سکے۔
ٹیکس سسٹم اور مہنگائی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ حکومت ریونیو بڑھانے کے لئے ٹیکسوں کے نفاذکو آسان اور فوری حل سمجھتی ہے جبکہ اقتصادی ماہرین صنعت وتجارت کی ترقی کو معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے کلیدی اہمیت دیتے ہیں۔
کیونکہ جب اقتصادی سرگرمیاں بڑھیں گی تو حکومت کو بھی ریونیو حاصل ہوگا تنزلی کا شکار معیشت اور بدترین اقتصادی بحران کا شکار انڈسٹری ٹیکس دینے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ انہی حالات اور محرکات کو سامنے رکھتے ہوئے روزنامہ ایکسپریس کے زیر اہتمام ''ملکی معاشی صورتحال، ٹیکس سسٹم اورمہنگائی کی لہر ''کے موضوع پر فورم کا اہتمام کیا گیا جس میں بزنس کمیونٹی، بیورو کریسی، اقتصادی ماہرین اور صارفین کے نمائندوں نے شرکت کی۔
انجینئر سہیل لاشاری
(صدرلاہور چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری )
حکومت ریونیو بڑھانا چاہتی ہے تو ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر ے، پہلے سے رجسٹرڈ ٹیکس گزاروں پر نئے ٹیکس لگا کر ان کا مزید خون نہ نچوڑے۔ ہمارے ہاں سسٹم کو لوگ چلاتے ہیں جبکہ دیگر ممالک میں سسٹم لوگوں کو چلاتا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔ بجلی ،گیس نہیں ہے ایسے میں معیشت کیسے ترقی کرے گی؟ اگر حکومت ٹیکس لینا چاہتی ہے تو پہلے انڈسٹری کا پہیہ رواں رکھنے کے لئے بجلی ،گیس فراہم کرے۔ حکومت کے پاس پرائس کنڑول کا کوئی میکینزم نہیں۔
ایف بی آر نے ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بغیر رشوت کے ایف بی آر سے ریفنڈز کا حصول ناممکن ہے۔ ہم حکومت کے اچھے اقدامات کو سراہتے ہیں لیکن ایف بی آر میں یہ سوچ پختہ ہوچکی ہے کہ اس ملک میں(CREATING OF WEALTH IS A CRIME) دولت کما نا جرم ہے ۔ ہمیں اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والی بزنس کمیونٹی کو عزت دینا ہوگی۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ پروڈکشن ہوگی تو ٹیکس ملے گا مگر یہ صرف زبانی بات ہے۔
صنعتی پیداوار تب ہی بڑھے گی جب بجلی کی پیداواربڑھے گی اس کے لئے ہم حکومت کی طرف دیکھتے ہیں کب بجلی کی جنریشن کب بڑھے گی؟ حکو مت جب بھی کوئی نیا ٹیکس لگاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ریونیو اکٹھا کرنے کے لئے لگایا ہے۔ بجٹ میں ٹیکس لگائے جاتے ہیں مگر بجٹ کے بعد منی بجٹ آجاتے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں آئے روز بڑھ جاتی ہیں، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ دنیا کے ساتھ چلتے ہیں، عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو ہم بھی بڑھاتے ہیں مگر جب کم ہوتی ہیں تو ہمارے ہاں کم نہیں کی جاتیں۔
ایف بی آر کا کام صرف ٹیکس اکٹھاکرنا ہے۔ ٹیکس اکٹھا کرنے پر ان کو مراعات بھی دی جاتی ہیں کہ حکومت کو ریونیو اکٹھا کرکے دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں ٹیکس لگانے کا کام بھی ایف بی آر ہی کرتا ہے۔ ٹیکس لگاتے وقت چیمبر آف کامرس اور دیگر سٹیک ہولڈرزکے ساتھ کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی، نہ ہی کی جاتی ہے حالانکہ ٹیکس ہم نے ہی دینا ہوتا ہے۔ ہر ملک کا اپنا ٹیکس سسٹم ہے۔کوئی ترقی یافتہ ملک ہے کوئی ترقی پذیر ہے تو کوئی اس سے بھی کم کسی اور کے ٹیکس سسٹم کا پاکستان کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ حکومت نے ٹیکس ریٹ بڑھا دیئے ہیں جو کہ زیادتی ہے۔
ہم حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کرتے ہیں یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ٹیکس میں اضافے سے قیمتیں نہیں بڑھیں گی یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ ریٹیل اور ہول سیل پر ٹیکس مختلف ہوگا۔ کاروباری حضرات کو ٹیکس جمع کرانے کے بعد ٹٰیکس ریفنڈ ملتا ہے۔ مگر یہاں ٹیکس ریفنڈ ملتا نہیں ہے اور اگر ملے بھی تو پیسے دے کر ملتا ہے۔ دیگر ممالک میں سسٹم لوگوں کو چلاتا ہے مگر ہمارے ہاں لوگ سسٹم کو چلاتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق چلاتے ہیں ، ہم نے سسٹم بنا تو لیا مگر اس پر چلنا نہیں ہے، ہر کسی کو پتہ ہے کہ لال بتی پر رکنا اور سبز پر چلنا ہے مگر ہر بندے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب سے آگے نکل جائے۔
ٹیکس نیٹ میں نئے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنا ضروری ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں صرف 12لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں حکومت نے جب بھی ریونیو بڑھانا ہوتا ہے انہی لوگوں پر ٹیکس کو مزید بڑھا دیا جاتا ہے مگر اب یہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گا نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ جب تک کاروباری حضرات کو وسائل نہیں ملیں گے کاروبار ترقی نہیں کرے گا۔ وسائل کی فراہمی کی طرف بالکل توجہ نہیں ہے اب پھر اعلان کردیا ہے کہ 3ماہ تک گاؑڑیوں کیلئے سی این جی نہیں ملے گی۔ حکومت نے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی۔
یہ جوکہا جارہا ہے کہ ٹیکس بڑھنے سے قیمتیں نہیں بڑھیں گی تو یہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہاں تو ٹماٹر کی قیمت بڑھتی ہے تو اسے کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا تو ٹیکس بڑھنے سے جب قیمتیں بڑھیں گی تو کیسے کنٹرول کر سکیں گے۔ عام آدمی مہنگائی کو ایک حد تک ہی برداشت کرسکتا ہے اور اب اس کی برداشت ختم ہو رہی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ پہلے سے موجود لوگوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے ہر کسی سے ٹیکس لیا جائے ریڑھی والا ہو یا تانگے والا سب سے چاہے 5سو ہی ہو مگر سب کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
اگر حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں کاروبار بڑھے تو کاروبار کے خواہش مند حضرات کیلئے ون ونڈو آپریشن ہونا چاہیئے، کاروباری حضرات کو کاروبار شروع کرنے کیلئے اجازت ہی نہیں ملتی۔ یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ ڈچ حکومت پاکستان میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا چاہ رہی ہے۔
جس کیلئے فنڈز بھی وہی خرچ کریں گے مگر پلانٹ لگانے کیلئے انہیں حکومت سے این او سی نہیں مل رہا۔ پاکستان میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہاں امیر ہونا جرم بن گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیر ہی ملازمتیں پیدا کرتا ہے، امیر اور غریب مل کر ہی چل سکتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے دونوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ تمام مسائل مل بیٹھ کر حل کرلئے جائیں،احتجاج کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہیے ، حکومت اور کاروباری حضرات مل بیٹھیں گے تو ہی مسائل حل ہوسکیں گے۔
ذوالفقار خان
(سابق صدرپاکستان ٹیکس بارایسوسی ایشن)
ٹیکس سسٹم اور مہنگائی باہم منسلک ہیں۔ ہمارے ہاں ٹیکس بھتہ خوری کے انداز میں مسلط کردیا جاتا ہے۔بجٹ کے بعد درجنوں مرتبہ بجلی ،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں بجٹ بے معنی ہوجاتا ہے۔ ٹیکسوں کے نفاذ سے پہلے ٹیکس دینے والوں کو اس قابل تو بنایا جائے کہ وہ ٹیکس ادا کر سکیں ۔کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے مراعاتی سکیمیں متعارف کرائی جائیں۔ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی بجائے کمی کر کے ٹیکس گزاروں کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی جائے ،بیوروکریسی کی بجائے کابینہ کی اقتصادی کمیٹی بجٹ تیار کرے۔
سیلز ٹیکس سے اول وآخر صارف ہی متاثر ہوتا ہے۔ یہ پہلے 1954میں لگایا گیا پھر ختم ہوگیا۔''سرکاری''اقتصادی ماہرین نے 1990ء میں اسے دوبارہ ''دریافت''کر کے قوم پر مسلط کردیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلز ٹیکس کی شرح خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ ٹیکس سسٹم میں اضافہ سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹیکس سسٹم اور معاشی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے جب کسی ملک میں ٹیکس پالیسی ٹھیک ہو گی تووہ ملک ترقی کرے گا۔ جہاں ٹیکس سسٹم ٹھیک نہیں وہاں ترقی کی رفتار بھی سست ہوگی۔
پاکستان میں ٹیکس سسٹم موجود تو ہے مگر اس کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں ٹیکس تو لگائے جاتے ہیں جو کہ لگانے چاہیئں کیونکہ ترقی کیلئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور پیسہ ٹٰیکس لگانے سے ہی حاصل ہوتا ہے، یہ کام عوام کے منتخب نمائندوں اور پارلیمنٹ کا ہے مگر ہمارے ہاں ٹیکس لگانے کا کام ایف بی آر کو دے دیا جاتا ہے جو کہ اس حوالے سے سٹیک ہولڈر ہی نہیں ہے۔
ٹیکس میں سٹیک ہولڈر عوام اور کاروباری لوگ ہیں ، سی ایس پی افسران کا اس سے تعلق ہی نہیں ہے اس لئے ٹیکس لگاتے وقت سٹیک ہولڈرز یعنی کاروباری شخصیات اور عوامی نمائندوں کو طے کرنا چاہیے کہ کس شرح سے ٹیکس لگانا ہے ، مگر یہا ں اس کے الٹ ہوتاہے۔ جب بھی بجٹ بننا ہوتا ہے ایف بی آر کو تالے لگادیئے جاتے ہیں اور پورا کا پورا ایف بی آر ٹیکس لگانے میں لگ جاتا ہے۔ ایف بی آر ایک بھتہ خور کا کام کرتا ہے۔ پاکستان میں بھتہ خوری تو ویسے ہی عام ہے، کسی زمانے میں ڈسٹرکٹ کونسل والے عوام سے مختلف ٹیکسوں کی شکل میں بھتہ لیا کرتے تھے، چور ڈاکو اور بھتہ خور بندوق سے لوگوں کو ڈرا کر بھتہ وصول کرتے ہیں اور اس کی بندوق کے ڈر سے لوگ بھتہ دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایف بی آر بھی بھتہ خور کا کردار ادا کرتا ہے اور اس کے قانون کے ڈر سے لوگ پیسے دیتے ہیں۔ جب تک باقاعدہ پالیسیاں نہیں بنائی جائیں گی تو ریونیو اکٹھا کرنے کا کوئی باقاعدہ سسٹم نہیں بن سکے گا اور نہ پیسے اکٹھے ہوسکیں گے۔ ہمارے ہاں بجٹ تو سال بعد آتا ہے مگر ہر ماہ منی بجٹ آجاتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات،گیس اور بجلی کی قیمتیں ہر ماہ بڑھ جاتی ہیں، یہاں ٹیکس کاڈھانچہ مضبوط نہیں ہے۔ ہر روز ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے، ڈالر یا پاؤنڈ کی قیمت بڑھنے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ انڈے والا انڈے مہنگے کردیتا ہے۔
بجلی کی قیمتیں اتنی زیادہ کردی گئی ہیں کہ عام آدمی کی برداشت سے باہر ہیں۔ سیلز ٹیکس کی شرح خطے کے دیگر تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ سنگا پور میں 5فیصد، کینیڈا میں 5فیصد، ملائیشیا میں 6فیصد، سری لنکا میں 10فیصد، مالدیپ میں 13فیصد اور انڈیا میں 13.5فیصد ہے مگر ہمارے ہاں سیلز ٹیکس کو 16فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کیا گیا تو بہت شور مچایا گیا اب اسے مزید 2فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔ قانون یہ ہے کہ 5کروڑ سے زیادہ آمدن پر ٹیکس زیادہ لگے گا، یہاں یہ بات ہے کہ سرمایہ دار ''احمق''ہے کہ وہ اپنی آمدن کو 5کروڑ سے زیادہ ظاہر کرکے زیادہ ٹٰیکس دے۔ سیلز ٹیکس دنیا بھر میں لاگو ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے مگر اسے دینے میں گھپلے ہوتے ہیں۔ این ٹی این بنوانے کے لئے رجسٹریشن نہیں ہوتی، یہ بالکل غلط ہے کہ سیلز ٹیکس مینو فیکچرر ادا کرتا ہے ، سیلز ٹیکس کا بوجھ صارف کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اظہر سعید بٹ
(ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
سیلز ٹیکس کی شرح میں حالیہ اضافے سے یہ انیس فیصد نہیں ہوا بلکہ تکنیکی طور پر اس کی شرح 22فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہمارے ملک میں ہر شعبے میں طاقتور لوگوں نے کارٹٰیل بنائے ہوئے ہیں ۔ اربوں ڈالر کے اثاثے رکھنے والوٓںکو چھوڑ کر ریڑھی والوں سے ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض لینے کے بجائے ڈیفالٹ قبول کرنے والی لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ ہر شعبے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کیا جائے۔ بھتہ خوری اور امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے بزنس کمیونٹی پریشان ہے ایسے میں اس پر نئے ٹیکسوں کی تلوار چلادی گئی ہے۔
حکومت بزنس کمیونٹی پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے بجائے اپنے وسائل میں اضافہ کرے۔ بڑے ٹٰیکس چوروں اور مگر مچھوں کو کڑی سزا دی جائے۔ عالمی ساہوکاروں کی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے معاشی بحالی کے لئے منصوبہ بندی کی جائے۔ ٹٰیکس لگاتے وقت سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ بیوروکریسی کی بجائے سٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو معتبر جانا جائے۔ یہاں بڑے ٹیکس چوروں نے گٹھ جوڑ کے ذریعے سسٹم کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
سسٹم ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال ہو رہا ہے، سیلز ٹیکس و دیگر ٹیکسوں کے نفاذ سے کاروباری سرگرمیاں منجمد ہو جائیں گی اور عام آدمی کی زندگی عذاب بن جائے گی۔ حکومت کی طرف سے کاروبار دشمن اقدامات کے باعث ملک سے سرمایے کا انخلاء تیز ہوگیا ہے اب بزنس مین سرمایے کے ساتھ ساتھ اپنی انڈسٹری بھی دیگر ممالک میں منتقل کررہے ہیں۔ خطے کے پسماندہ اور کم وسائل رکھنے والے ممالک کی ایکسپورٹ ہم سے زیادہ ہے، کل تک جس مارکیٹ پر پاکستانی مصنوعات کا راج تھا آج وہ ہم سے چھین لی گئی ہیں۔
حکومت بھتہ خوری کے خاتمے کیلئے بزنس کمیونٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ٹاسک فورس بنائیں ایسے تمام شعبوں کا ٹیکس سے استثنیٰ ختم کیا جائے جو کاروبار کررہے ہیں اور منافع کما رہے ہیں۔ پراپرٹی مافیا کی مانیٹرنگ کی جائے اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ امریکہ نے ہمیں دہشتگردی کی جنگ میںدھکیلا ہے اور ہم نے اس میں ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے ہیں۔ اب ہماری قوم اور یہ ملک مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اس لیے امریکہ سے جان چھڑا لی جائے۔سسٹم کو بہتر بنایا جائے میرٹ پر لوگوں کو ذمہ داریاں دی جائیں دوسری صورت میں اگر سسٹم فیل ہوا تو سیاستدانوں کا بوریا بستر بھی گول ہوجائے گا۔
نسیب احمد سیفی
(چیئرمین آل پاکستان حلال میٹ پروسیسرزاینڈ ایکسپورٹرزایسوسی ایشن)
ہمیں معاشی ایمرجنسی کا سامنا ہے ایسے میںہم ایکسپورٹ بڑھا کر ملکی معیشت کو مضبوط بناتے ہوئے اسے ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں منیوفیکچرنگ بڑھانا ہوگی اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ برآمدات بڑھانے کیلئے حکومت ایکسپورٹ انڈسٹری کو مراعات فراہم کرے اور ٹیکس سے استثنٰی دے۔کیونکہ جب ایکسپورٹ بڑھے گی تو ملک میں زرمبادلہ آئے گا اورڈالرکے مقابلے میں روپے کی قیمت مستحکم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک روپے کی گرتی ہوئی قدر کورولنے کیلئے اقدامات کرے ۔
روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے انڈسٹریلائزیشن کو فروغ دیا جائے ۔ درجنوں ٹیکسوں کی بجائے سنگل ٹیکس لگایا جائے اور ٹیکس سٹم کوآسان بنایا جائے۔ انڈسٹڑی چلنے سے روزگار ملے گا، بیروزگاری ختم ہونے سے جرائم کی شرح بھی کم ہوجائے گی۔ بجلی،گیس کی قیمتوں میں اضافے سے انڈسٹری کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے ۔
18روپے فی یونٹ بجلی خرید کر انڈسٹری چلانا ناممکن ہے ایسے میں ایکسپورٹ سے وابستہ صنعتیں ہی ملکی معیشت کو تباہی سے بچا سکتی ہیں۔ مینو فیکچرنگ سیکٹرملازمتیں پیدا کر کے بیروزگاری کی شرح میں کمی کر سکتا ہے ۔
حکومت کو ا س کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ پاکستان کو قدرت نے تمام وسائل سے نوازا ہے لیکن ضرورت صرف اور صرف بہتر منصوبہ بندی کرنے کی ہے۔ ہماری ایکسپورٹ انڈسٹری میں ترقی کی بہت گنجائش ہے۔ ہمیں عالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کی رسائی کا دائرہ بڑھانے کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ حلال فوڈ کی کھربوں ڈالر کی مارکیٹ میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ہمارے ہاں بہترین لائیو سٹاک ہے جس سے ہم بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اگر حکومت حلال میٹ کی ایکسپورٹ سے وابستہ افراد کو مراعات دے تو سالانہ اربوں ڈالر کی ایکسپورٹ سے بھاری زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کیلئے بیوروکریسی کی بجائے سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر منصوبہ بندی کی جائے۔
مصطفٰی اشرف
(چیف کمشنرلارج ٹیکس پیئر یونٹ)
ایف بی آر نے سیلز ٹیکس مسلط نہیں کیا بلکہ بجٹ سے پہلے ہی ہماری اس حوالے سے سٹیک ہولڈرز سے مشاور ت جاری تھی۔ سیلز ٹیکس کی جوترامیم 13جون کو نافذالعمل ہوئیں ان پر دومہینے سے میٹنگز چل رہی تھیں۔ پہلے یہ ہول سیل پر تھا پھر ایف بی آر نے اسے ریٹیل کی سطح پر اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ منیوفیکچررز کو ریٹیل کی سطح پر سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کے حوالے سے مکمل اعتماد میں لیا گیا۔ ایف بی آر کے نقطہ نظر کے مطابق سیلز ٹیکس میں اضافے کے اطلاق سے ٹیکس سسٹم تبدیل ہوا ہے ٹیکس میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس طرح مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا۔
ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے ایف بی آر اہم اقدامات کر رہا ہے۔ ٹیکس کے اطلاق کا مقصد ملکی ریونیومیں اضافہ کرنا ہے اور پالیسی سازوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ عام آدمی پر اس کا بوجھ کم سے کم پڑے ۔کیونکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کاروبار ہوگا تو حکومت کو ریونیو ملے گا اس لیے ایف بی آر کی پالیسیاں بھی کاروبار دوست ہیں۔
جنرل سیلزٹیکس میں اچانک اضافہ نہیں کیا گیا اس کے لئے کئی ماہ مختلف سٹیک ہولڈزرسے بات چیت جاری تھی ۔ انہیں اعتماد میں لے کر ہی جی ایس ٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں جی ایس ٹی16فیصد سے بڑھاکر 17فیصد کیا گیا اس طرح تکنیکی طور پر جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا ہے۔ پہلے یہ ہول سیلر پر تھا پھر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور ان کی آسانی کیلئے اسے ریٹیل پر لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کا مقصد تھا کہ مصنوعات پر ریٹیل قیمت لکھی جائے۔ مینوفیکچررزنے اس سے مکمل اتفاق کیا ۔ ایف بی آر کی یہ کوشش ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیے بغیر ٹیکس نیٹ میں اضافہ کے ذریعے ریونیو بڑھایا جائے۔
محمد حنیف گورائیہ
(صدرکنزیومررائٹس فورم پاکستان)
جو بھی ٹیکس لگایا جاتا ہے آخر کار وہ صارف کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے ٹیکس پر ٹیکس لگائے جارہی ہے جس سے عام آدمی کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ آٹے کی قیمت 16سو روپے فی من ہے عام آدمی کیلئے روٹی کھانا بھی مشکل ہے۔ آئے روز کی مہنگائی سے بھوک اور صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بڑے زمینداروں پر ٹیکس لگائے۔ جب بھی کوئی ٹیکس لگتا ہے تو صارف ہی اسے ادا کرتا ہے کبھی مینو فیکچرر پر اس کا بوجھ نہیں پڑا، اس وقت جو ٹیکسز لگائے گئے ہیں ان سے عام آدمی کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔
ہمارے ہاں اپنے عالمی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں عوام کا بالکل خیال نہیں کیا جاتا۔ توانائی بحران اور دہشت گردی کے باعث 100ارب ڈالر نقصان ہوچکا ہے مگر امریکا نے صرف 10ارب ڈالر کولیشن سپورٹ کے نا م پر پاکستان کو دیئے ہیں اس کے بعد کچھ اور دینے تھے مگر ابھی تک نہیں دیئے۔ اس وقت آٹا ایک من 16سو روپے میں مل رہا ہے ، بجلی پہلے 2سو یونٹ تک 8روپے فی یونٹ سے زیادہ پڑ رہی ہے، 2سو سے 3سو یونٹ تک 12روپے اس سے اوپر 18روپے فی یونٹ تک پڑ رہی ہے، اس کے بعد اس پر سیلز ٹیکس لگایا جاتا ہے جس سے یہ قیمت بڑھ کر 20روپے فی یونٹ سے بھی زیاد ہوجاتی ہے، اس کے نتیجے میںغربت بڑھ گئی اور بھوک بڑھ رہی ہے اور بھوک کے ساتھ صحت کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
حکومت سے گزارش ہے کہ کچن میں استعمال ہونے والے کم ازکم 12فوڈ آئٹمز کی قیمتیں فکس کردی جائیں، حکومت ان کے مینو فیکچررز کو بلائے اور ان سے بات کرے کہ یہ قیمتیں فکس کرنی ہیں تاکہ عوام آئے روز کی مہنگائی میں روٹی تو کھا سکیں۔ بھارت میں راشن کارڈ کا سسٹم ہے جس کے ذریعے انہیں آٹا 2روپے کلو ملتا ہے یہ راشن کارڈ گھر سربراہ عورت کو دیتے ہیں ، سابق حکومت بھی یہ سوچ رہی تھی اس نے کچھ نہیں کیا اور اب موجودہ حکومت بھی کچھ نہیں کر رہی۔ ہماری معیشت کو آئی ایم ایف کنٹرول کر رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ آئی ایم ایف کو کہتی کہ پچھلے 5سال میں بد انتظامی کے باعث ہم قرض اتارنے کے قابل نہیں اور ان سے مزید قر ض نہ لیتے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا مگر نیپرا کے ذریعے پھر سے قیمتیں بڑھا دی گئیں۔
ٹیکس میں اضافہ کرنے کیلئے 50ایکڑ سے زیادہ اراضی والے زمینداروں سے ٹیکس لیا جائے کیونکہ زراعت کاجی ڈٰ پی میں 2 فیصد حصہ ہے، جنرل سیلز ٹیکس کو 5 فیصد تک لایا جائے۔ سٹاک ایکسچینج کو ٹیکس نیٹ میںلایا جائے جو صارف پہلے ہی گیس میٹر لگوانے کیلئے سکیورٹی دے چکے ہیں ان سے اب مزید سکیورٹی لی جا رہی ہے اس کو ختم کیا جائے۔100ارب روپے کی بجلی چوری اورلائن لاسز کو ختم کیا جائے تو تبھی ہم ٹیکس سے بچ سکیں گے۔ بدانتظامی کی وجہ سے جو لائن لاسز ہیں ان کو ختم کرنے کے لئے قابل لوگوں کو تعینات کیا جائے تاکہ لائن لاسز پورا کرنے کیلئے صارف پر بوجھ پڑنے سے بچا جا سکے۔