پاکستانی زندگی کے ساڑھے پانچ برس ٹی وی دیکھنے پرصرف کرتے ہیں
ٹی وی کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تحریر
ــ'' ٹیلی ویژن کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس کے سامنے بیٹھ کر اپنی آنکھیں اس کی اسکرین پر جمائے رکھنا پڑتی ہیں۔ ایک عام امریکی خاندان کے پاس ایسا کرنے کے لیے وقت نہیں ۔اس وجہ سے اگر کوئی اور نہ ہو تو ٹیلی ویژن کبھی بھی ریڈیو کا سنجیدہ حریف نہیں بن سکتا''۔
یہ تبصرہ نیویارک ٹائمز نے 1939 میں نیویارک میں ہونے والے عالمی میلے میں امریکی عوام کے ٹیلی ویژن سے متعارف ہونے کے بعد کیا۔ لیکن وقت نے اخبار کے اس تبصرے کو غلط ثابت کردیا۔ کیونکہ آ ج وہی امریکی عوام جن کے بارے میں نیو یارک ٹائمز کا یہ کہنا تھا۔ کہ اُن کے پاس ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے وقت نہیںاُنھوں نے 2019 کی پہلی سہ ماہی میں روزانہ اوسطً 4 گھنٹے 27 منٹ ٹی وی دیکھا۔ جبکہ اس وقت12 کروڑ 6 لاکھ امریکی گھروں میں ٹی وی سیٹ موجود ہے۔ یعنی 30 کروڑ73 لاکھ امریکیوں کو اپنے گھروں میں یہ سہولت دستیاب ہے۔
ایسی صورتحال صرف اکیلے امریکہ ہی کی نہیں بلکہ پوری دنیا اس وقت ٹی وی کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے۔ یوروڈیٹا ٹی وی ورلڈ وائڈ (Eurodata TV Worldwide ) کے مطابق 2018 میں دنیا کے94 ممالک (جن کا مطالعہ کیا گیا) میں اوسطً 2 گھنٹے 55 منٹ ٹی وی دیکھا گیا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک مہینے میں ساڑھے تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت ٹی وی دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ 2017 میں دنیا کے1.63 ارب گھروں جو کہ عالمی سطح پر 80 فیصد گھر بنتے ہیں اُن میں ٹی وی سیٹ موجود تھا۔
ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً تمام گھروں میں اور ترقی پذیر ممالک کے 69 فیصد گھر یہ سہولت رکھتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں ٹی وی نشریات کے سگنلز پہنچ رہے ہیں۔ اپنی اس قدر رسائی کی وجہ سے ٹیلی ویژن نے دنیا کے ہر معاشرے میں گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عمل دخل ہر سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی میں بہت بڑھ گیا ہے جس کے اعتراف کے طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 21 نومبر کو ٹیلی ویژن کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان 17 دسمبر1996 کو کیا کیونکہ لوگوں کو مطلع کرنے، عوامی آرا کو متاثر کرنے اور اُس کی تشکیل میں ٹیلی ویژن کو ایک اہم ذریعہ کے طور پر دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا ہے۔
پاکستان بھی ٹی وی کے طلسم کے حصار میں آنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ جہاںاپریل 2018 میں گیلپ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق ملک میں فی ناظر روزانہ اوسطً تقریباً دو گھنٹے (117 منٹ( ٹی وی دیکھتا ہے۔
اگر ہم پاکستان میں ٹی وی دیکھنے کے اوسط دورانیہ کا عالمی سطح پر موازنہ کریں تو لندن کے ادارےZenith کی رپورٹ ''میڈیا کنزمشن فورکاسٹ2016 '' (Media Consumption Forecasts 2016) میں موجود اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ٹائم ٹی وی دیکھنے پر سعودی عرب میں صرف کیا جاتا ہے۔ جہاں 2016 میں اوسطاً 404.7 منٹ روزانہ فی ناظر نے ٹی وی دیکھا۔ دوسرے نمبر پر بو سنیا ہرزگوینیا تھا جہاں یہ دورانیہ 333.2 منٹ روزانہ تھاجبکہ رومانیہ میں یہ طوالت 322.5 منٹ روزانہ تھی یوں وہ تیسرے نمبر پر تھا۔ پاکستان کا اس عالمی درجہ بندی میں 47 واں نمبر تھا۔ سب سے زیادہ انفرادی اوسط طوالت پر مبنی ٹی وی دیکھنے والے پہلے دس ممالک میں سے تین کا تعلق اسلامی دنیا سے تھا۔ جن میں سعودی عرب پہلے، کویت 7 ویں اور متحدہ عرب امارات نویں نمبر پر تھا ۔
گیلپ پاکستان کے 2017 ء میں ہونے والے میڈیا سروے کے مطابق67 فیصد پاکستانیوں نے ٹی وی دیکھنے کا اقرار کیا۔ جن میں سے 74 فیصد با قاعدہ ناظر تھے اور 21 فیصد کبھی کبھار اور5 فیصد شاذو نادر ٹی وی دیکھتے تھے۔ اسی طرح 2017-18 میں ملک میں ہونے والے پاکستان ڈیمو گرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق ملک میں 15 سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین (ever-married women ) کا 50.6 فیصد اور اس ایج گروپ کے شادی شدہ مردوں (ever-married men) کا 55.4 فیصد ہفتہ میں کم از کم ایک بار ٹی وی دیکھتے ہیں ۔ دیہی علاقوں کی خواتین میں یہ تناسب 38.9 اور شہری علاقوں میں 70.7 فیصد ہے۔
اسی طرح شہروں میں رہنے والے مردوں میں ہفتہ میں کم از کم ایک بار ٹی وی دیکھنے کی شرح 68.3 فیصد اور دیہات میں 46.8 فیصد ہے۔ خواتین میں سب سے زیادہ ٹی وی دیکھنے کی شرح کا تعلق اسلام آباد سے ہے جو 77.5 فیصد ہے۔ جبکہ سب سے کم خیبر پختونخوا میں 26.9 فیصد ہے۔ اسی طرح مرد ناظرین کا سب سے زیادہ تناسب 81.8 فیصد بھی اسلام آباد سے ہی ہے اور سب سے کم 34.1 فیصد بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے۔ ملک میں ٹی وی سیٹس کے حوالے سے صورتحال پی ڈی ایچ سروے کے مطابق یہ ہے کہ سال2017-18 کے دوران ملک کے 62.8 فیصد گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ موجود ہے۔ شہروں کے 86.4 فیصد اور دیہات کے48.1 فیصدگھروں میں یہ سہولت دستیاب ہے۔
ٹی وی اپنے ناظرین کے لیے اطلاعات، معلومات اور تفریح کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایڈورٹائزرز کے لیے اپنے کاروبار یا پروڈکٹ کی تشہیر اور اپنی آرگنائزیشن کے لیے آمدن کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر یہ صنعت کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ٹی وی کی معاشی اہمیت کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بخوبی ہوتا ہے کہ2016 میں عالمی سطح پر ٹی وی انڈسٹری کا ریونیو366 ارب بر طانوی پاؤنڈ سے زیادہ تھا اورگزشتہ سال عالمی سطح پر ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات کی مجموعی مالیت 200 ارب ڈالر تھی۔
پاکستان میں 2017-18 کے دوران ٹی وی پر 38 ارب روپے کے اشتہارات نشر ہوئے جو اشتہارات کی کل مالیت کا 46 فیصد تھے۔ ملک میں ٹی وی پر پیش ہونے والے اشتہارات کا بجٹ 2002 میں محض 2.66 ارب روپے تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں پرائیویٹ سیٹلائیٹ چینلز کے لئے ٹی وی انڈسٹری کے دروازے کھولے گئے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگو لیڑی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور 2003 میں پیمرا نے نجی شعبہ میں 4 سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری کئے جس سے مذکورہ سال ٹی وی اشتہارات کی مالیت 3.28 ارب روپے ہوگئی اور 2016-17 تک یہ اپنی بلند ترین سطح 42 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی۔
پیمرا کے آنے کے بعد گزشتہ15 سالوں کے دوران ملک کے الیکٹرانک میڈیا کے منظر نامے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ شعبہ پاکستان کے بڑے شہروں میں براڈکاسٹنگ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور آلات کی تنصیب کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں کیریئر کے حصول کے خواہشمند نوجوانوں کے لیے روزگارکے بڑے مواقع پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2018-19 کے مطابق اس وقت پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری میں 3.5 ارب ڈالرکی مجموعی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ شعبہ 2 لاکھ سے زائد لوگوں کو صحافت، مینجمنٹ اور تکنیکی شعبوں میں روزگار فراہم کر رہا ہے۔
ملک میں اس وقت 88 سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کے لائسنسز کا اجرا ہو چکا ہے۔ جن میں سے 26 نیوز اور حالاتِ حاضرہ کے ، تفریح (انٹرٹینمنٹ) کے 37 ، علاقائی زبانوں کے18 ، اسپیشلائزڈ سبجیکٹ کے04 ، صحت کا ایک، کھیل کا ایک اور زراعت کا بھی ایک لائسنس جاری کیا گیا ہے۔جبکہ کیبل ٹی وی کے4007 لائسنسز اور انٹرنیٹ پروٹوکول ٹی وی کے 05 لائسنسز کا اجرا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ وطن عزیز میں 31 مارچ2019 تک رجسٹرڈ ٹی وی سیٹس کی تعداد ایک کروڑ 91 لاکھ38 ہزار 6 سو 93 ہے۔ یعنی ہمارے دیس میں اوسطً گیارہ افراد کے لیے ایک ٹی وی سیٹ موجود ہے۔ جبکہ ٹی وی ناظرین کی تعداد پاکستان کے سالانہ منصوبہ 2017-18 کے مطابق 13 کروڑ 50 لاکھ ہے یعنی ملک کی65 فیصد آبادی جس میں سے 7 کروڑ 40 لاکھ کیبل اور سٹیلائٹ کے ویورز ہیں جبکہ روایتی ٹی وی اینٹینا کے ذریعے ٹی وی دیکھنے والوں (Terrestrial viewership) کی تعداد 6 کروڑ 10 لاکھ ہے۔
تکنیکی منظر نامہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے باوجود ٹی وی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں روزمرہ زندگی کی ایک اہم ضرورت بنا ہوا ہے۔ کیونکہ نئی ٹی وی ٹیکنالوجیز تیزی سے متعارف ہو رہی ہیں اور پچھلی دو دہائیوں کے دوران متعدد ٹیکناجیز مارکیٹ میں داخل ہوئیں اور اس کے بعد نئی سے نئی اپنی جگہ لے رہی ہیں۔ اینا لاگ ٹریسٹیریل ٹی وی (Analog terrestrial TV ) نے 2000 کی دہائی میں کے اوائل میں مارکیٹ پر غلبہ حاصل کیا۔ لیکن جلد ہی 2010 کی دہائی کے وسط میں ڈیجیٹل کیبل ٹی وی نے جگہ لے لی۔ جسے ڈائریکٹ ٹو ہوم DTH اور ڈیجیٹل ٹریسٹوریل ٹیلی ویژن DTT اور دیگر بہت سی ٹیکنالوجیز کے ذریعہ چیلنج کیا جارہا ہے۔ اور2021 تک توقع کی جارہی ہے کہ ڈیجیٹل ٹیلویژن دنیا کے 98 فیصد گھروں میں ہوگا۔ اسی طرح صرف نشریاتی ٹیکنالوجی ہی ترقی پذیر نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن ہارڈ وئیر میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ کیونکہ ٹیلویژن کی اصل تعریف تیزی سے بدل رہی ہے۔ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی تیز رفتار نشوونما نے ٹی وی کا روایتی تصور تبدیل کر دیا ہے۔ 2018 میں دنیا میں فروخت ہونے والے 70 فیصد ٹی وی سیٹس سمارٹ ٹیکنالوجی کے حامل تھے۔
لیکن اس تمام تر پیش رفت کے باوجود موبائل ڈیوائسز (سمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور لپ ٹاپس) ٹی وی سیٹس اوران سیٹس پر نشریات کی viewershipکے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔کیونکہ Zenith لندن کے مطابق دنیا میںاس وقت روزانہ اوسطً ایک سو 30 منٹ موبائل انٹر نیٹ ڈیٹا استعمال کیا جا رہا ہے جو2015 میں 80 منٹ تھا۔ موبائل انٹرنیٹ اور براڈبینڈ انٹرنیٹ سے منسلک موبائل ڈیوائسزکی مدد سے دنیا بھر میں اوسطً روزانہ 136 منٹس سوشل میڈیا پر ٹائم صرف کیا جا رہا ہے جو 2012 میں 90 منٹ تھا۔ یوں اب موبائل ڈیوائسز کے استعمال پر صرف ہونے والا زیادہ سے زیادہ وقت دیگر ابلاغی ذرائع(اخبارات، میگزین، ریڈیو، سینما،ٹی وی) پر خرچ ہونے والے وقت کو کھا رہا ہے اور ٹی وی اس کا زیادہ شکارہو رہا ہے۔ Zenith کی رپورٹ Media Consumption Forecasts 2016 کے مطابق 2010 میں دنیا میں اوسطً190.1 منٹ ٹی وی دیکھا جاتا تھا جس کے2018 تک کم ہوکر 170.1 منٹ روزانہ کی پیش گوئی رپورٹ میںکی گئی ہے۔اسی طرح اخبارات 20.1 منٹ سے کم ہوکر11.9 منٹ، میگزین 11.7 سے 5.2 منٹ، ریڈیو 60 منٹ سے کم ہوکر52.2 منٹ اور سنیما 1.7 منٹ سے کم ہوکر1.2 منٹ اوسطً روازنہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
پاکستان بھی اس رجحان کے زیر اثر ہے کیونکہ ملک میں اس وقت 93.9 فیصد گھروں میں موبائل فون موجود ہے۔ شہروں کے97.5 فیصد اور دیہہ کے 91.6 فیصد گھروں میں موبائل فون کا وجود ہے جبکہ ملک کے موبائل فون صارفین کا 72 فیصد سمارٹ فون استعمال کرتا ہے۔ بہت سی دیگر ٹیکنالوجیز کے برعکس ٹیلویژن دنیا بھر کا رجحان ہے اور اسے ہر شعبہ ہائے زندگی اور دنیا کے ہر گوشے سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگیوں میں جگہ ملی ہے۔ لیکن اس کے باوجود موبائل ڈیوائسز کی مدد سے سوشل میڈیا پر لوگوں کی بڑھتی ہوئی توجہ اور مصروفیت ٹی وی کی صنعت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
ٹیلی ویژن کی ایجاد
وہ آئیڈیا جسے ہم آج ٹیلی ویژن کے طور پر جانتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس پر بحث کا آغاز تب سے ہی شروع ہوگیا تھا جب امریکی عوام کے لئے 1870 کے وسط میں ٹیلی فون متعارف ہوا۔ دراصل ٹیلی ویژن کے ابتدائی تصورات یہ تھے کہ کوئی ایسا طریقہ ہو جس کی بدولت ٹیلی فون پر بات کرنے والے کی صورت دیکھی جا سکے۔ جارج کیری (George Carey ) نے1876 کے اوائل میں ایک ایسے عمل کے بارے میں سوچا جس کے ذریعے کسی تصویراور اُس سے وابستہ آواز کو الیکٹرانک سگنلز میں تبدیل کیا جائے پھر ان الیکٹرانک سگنلزکو ماخذ سے وصول کنندہ کو بھیجا جائے اور برقی اشاروں کو دوبارہ تصویر اور آوازوں میں تبدیل کیا جا سکے ۔ اُنھوں نے 1879 اور1880 میں سائنٹفک امریکن میں "seeing by electricity" کے عنوان سے اس بارے میں لکھا۔25 اگست1900 کو پیرس میں ہونے والی نمائش میں انٹرنیشنل الیکٹرک سٹی کانگریس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کنسٹینٹین پارسکی (Constantin Perskyi) نے ایک مقالہ پیش کیا جس کا عنوانـ ''ٹیلی ویژن'' تھا ۔
07 ستمبر1927 کو سان فرانسسکو امریکہ میں پہلی بار الیکٹرانک ٹیلی ویژن کا کامیابی کے ساتھ مظاہرہ کیا گیا۔ یہ نظام 21 سالہ موجد فیلو ٹیلر فارنس ورتھ (Philo Taylor Farnsworth) نے تیار کیا تھا۔جو 14 سال کی عمر تک بجلی کے بغیر مکان میں رہائش پذیررہا تھا۔ فارنس ورتھ ابھی ہائی اسکول میں ہی تھا تو اُس نے ایک ایسے نظام کا تصور کرنا شروع کیا جو حرکت پذیراشکال(images) کو ایسی صورت میں گرفت میں لے سکے کہ اِنھیں ریڈیو لہروں کی صورت میں ڈھالا جا سکے اور پھر اسکرین پر ایک تصویر کی صورت میں دوبارہ تبدیل کیا جا سکے۔
روس میں بورس روسننگ (Boris Rosing)نے فارنس ورتھ کی پہلی کامیابی سے 16 سال قبل تصویری ترسیل کے بارے میں کچھ خام تجربات کیے تھے۔اس کے علاوہ ایک میکینکل ٹیلیویژن سسٹم جس میں گھومنے والی ڈسک میں سوراخ کرکے ان سوراخوں پر اشکال چسپاں کی گئی تھیں۔اس ڈسک کو تیزی سے گھمانے سے سوراخ میں لگی scanned images حرکت کرتی ہوئی محسوس ہوتیں۔اس کا مظاہرہ انگلینڈ میں جان لوگی بیرڈ (John Logie Baird) اور امریکہ میں چارلس فرانسس جینکنز(Charles Francis Jenkins) نے سن 1920 کی دہائی میں کیا ۔ تاہم فارنس ورتھ کی ایجاد جس میں اشکال (images)الیکٹرانز کی ایک بیم کی صورت میں scan ہوتیںکوجدید ٹیلی ویژن کا براہ راست جد امجد قرار دیا جاتا ہے۔
ایک پاکستانی ٹی وی ناظر اپنی زندگی میں کتنا ٹی وی دیکھتا ہے؟
اعدادوشمار کے مطابق ایک پاکستانی ٹی وی ناظر دن میں اوسطً 2 گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 730 گھنٹے ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال ہے۔ یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطاً 48910 گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک ٹی وی ناظر اپنی زندگی میںساڑھے پانچ سال طوالت پر مشتمل عرصہ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔
پاکستان میں ٹی وی کی تاریخ
پاکستان دنیا کا 52 واں ملک تھا جو ٹی وی نشریات کے نقشہ پر ابھرا۔ 05 اکتوبر1960 کو وفاقی کابینہ نے ملک میں تعلیمی مقاصد کے لیے ٹی وی کے قیام کی منظوری دی۔ فروری 1961 میں صدر ایوب خان نے جاپان کا دورہ کیا وہ جاپان میں ٹیلیویژن کی ترقی سے بہت متاثر ہوئے۔ اُسی سال دسمبر میں حکومت پاکستان کی دعوت پر کولمبو پلان کے تین جاپانی ماہرین پاکستان آئے اُس وفد نے ملک میں ٹیلی ویژن کے قیام کا تفصیلی جائزہ لیا۔1962 کے اوائل میں اُنھوں نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں ٹی وی صرف تعلیم تک محدود کرنے کی بجائے عام مقاصد کے لیے متعارف کرایا جائے۔ اپریل1964 میں ٹیلی ویژن پلاننگ سیل قائم کیا گیا جو ڈائریکٹر جنرل آف ریڈیو پاکستان کا ایک جزو تھا۔ یکم مئی1964 کو(Nipon Electric Company (NEC) of Japan )نے اسلم اظہر کا تقرر پروگرام ڈائریکٹر کی حیثیت سے کیا۔ اسلم اظہر ریڈیو اور تھیٹر کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ لاہور کا مشہور ثقافتی مرکز الحمرا جہاں کبھی لاہور آرٹس کونسل کی عمارت تھی۔ یہاں اگست1964 میں کرائے پر ایک شیڈ حاصل کر کے ٹی وی کا دفتر قائم کیا گیا۔
ریڈیو پاکستان لاہور کی موجودہ عمارت کے پچھلے حصے میں اسٹوڈیوکی تعمیر شروع کر دی گئی۔ بعد میں اسلم اظہر اور اُن کے ساتھی بھی آرٹس کونسل سے یہاں ایک ٹینٹ میں منتقل ہوگئے۔ 26 نومبر1964 ملک میں ٹیلیویژن کی پہلی صبح تھی۔ سہ پہر ساڑھے تین بجے افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ صدر ایوب خان نے ٹیلیویژن کا افتتاح کیا۔ قاری علی حسین صدیقی کی تلاوت سے نشریات کا آغاز ہوا۔ ذکا درانی نے پاکستان میں ٹیلیویژن کی ابتداء سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ یہ وہ پہلا چہرہ تھا جو ٹی وی پر نمودار ہوا۔ اس کے بعد طارق عزیز نے اناؤنسمنٹ کی اور پہلی خبریں بھی اُنھوں نے ہی پڑھیں۔ پہلی خاتون اناؤنسمنٹ کنول نصیر تھیں۔ ابتداء میں نشریات کا دورانیہ تین گھنٹے تھا اور پیر کے روز چھٹی ہوتی تھی۔ ریکارڈنگ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے تمام پروگرام براہ راست نشر کیے جاتے تھے۔
مآخذ: دستاویزی پروگرام '' پی ٹی وی کا سفر'' پروڈیوسر: ناظم الدین۔ تحریر: ضیاء الرحمان ضیا
٭ایک اور حوالے کے مطابق پاکستان میں ٹیلیویژن اصل میں نجی شعبہ کاپراجیکٹ تھا 1961 میں ممتاز صنعتکارسید واجد علی نے جاپان کی نیپون الیکٹرک کمپنی (این ای سی) کے ساتھ مشترکہ منصوبے پر دستخط کیے تھے۔ معروف پاکستانی انجینئر عبید الرحمن کو سیدواجد علی نے ٹیلی ویژن منصوبے کی سربراہی کے لئے مقرر کیا ۔ 1962 تک کئی ایک پائلٹ ٹرانسمیشن ٹیسٹوں کے سلسلے کے بعد 963 1میں ایوب خان حکومت نے ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں اس منصوبے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
٭ 1988 میں اُس وقت کی حکومت نے ''پیپلز ٹیلیویژن نیٹ ورک ''(پی ٹی این) کے نام سے ملک کا پہلا نیم سرکاری ٹی وی نیٹ ورک شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کی چھتری تلے شروع کیا۔ بعد ازاں پی ٹی این کا نام بدل کر اسے ''شالیمار ٹیلیویژن نیٹ ورک'' (ایس ٹی این)کر دیا گیا۔ ایس ٹی این کا آغاز پہلے اسلام آباد پھر کراچی اور بعد ازاں لاہور سے ہوا ۔1990 کی دہائی کے وسط تک اس نیٹ ورک نے پورے ملک میں وسعت اختیار کر لی ۔ ایس ٹی این نے پہلی بار پاکستان میں عام انٹینا پر سی این این انٹرنیشنل کی نشریات پیش کرنے کا آغاز کیا۔ یہ ایس ٹی این کا پہلا منصوبہ تھا ۔ 1990 میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ معاہدے کے تحت ایس ٹی این نے پاکستان کا پہلا نجی ٹی وی چینل ''نیٹ ورک ٹیلیویژن مارکیٹنگ ''(این ٹی ایم) شروع کیا۔ یوں این ٹی ایم اور سی این این کی نشریات پیش کی جانے لگیں جو 1999 تک کامیابی سے جاری رہیں۔
مآخذ: ورلڈ ہیرٹیج انسائیکلوپیڈیا
ایک ٹی وی پروفیشنل
فرحان مشتاق گزشتہ 15 سال سے پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ بطور پروڈیوسر منسلک ہیں۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں اْنھیں ابلاغ عامہ کے تینوں میڈیم اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں کام کرنے کا عملی تجربہ ہے۔ پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ ملک میں ٹی وی انڈسٹری کو درپیش چیلنجز کا علمی اور عملی پہلوؤں سے تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں '' پاکستان میں ٹی وی انڈسٹری کو درپیش چیلنجز میں سے سب سے اہم چیلنج ٹی وی چیلنجز کی زیادہ تعداد ہے۔ ملک میں سرکاری ٹی وی کے علاوہ اس وقت 80 سے زائد نجی سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں اور مزید نئے آرہے ہیں۔ ان سب کو اپنے استحکام اور ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ معاشی وسائل کی ضرورت ہے۔
سرکاری ٹی وی کو چونکہ حکومت ،فیس اور اشتہارات کی مد میں کافی وسائل مہیا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نجی شعبہ کا مکمل انحصار اشتہارات پر ہے۔ جس کی ایک محدود مالیت ہے۔ اگرچہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کے اشتہارات کی مارکیٹ کا 46 فیصد ٹی وی انڈسٹری کو ملا لیکن یہ 38 ارب روپے ہماری انڈسٹری کے لیے نا کافی ہیں۔ کیونکہ اس مالیت میں سے ایک قابلِ ذکر حصہ دو تین بڑے چینلز لے جاتے ہیں۔ ٹی وی پروڈکشن چاہے وہ نیوز ہو یا تفریحی پروگرامز ایک مہنگا کام ہے جس کے لیے وافر معاشی وسائل کی تسلسل کے ساتھ ضرورت رہتی ہے۔ لیکن جب ایک کھیت پر انحصار کرنے والے بڑھ جائیں تو پھر پیٹ کسی کا نہیں بھرتا ۔
کہنا یہ ہے کہ جب آپ کے اشتھارات کی مارکیٹ محدود مالیت کی ہے تو پھر اتنے زیادہ ٹی وی لائسنسز جاری نہیں کرنے چاہیئے تھے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی اور نئے چینلز مارکیٹ میں آر ہے ہیں۔اب ایسی صورت حال میں اندسٹری پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔آمدن / معاشی وسائل میں کمی کا براہ راست پہلا اثر چینلز سے وابستہ افرادی قوت کے معاوضوں کی تاخیر سے ادائیگی پھر کمی اورآخر میں عدم ادائیگی کے بعد روزگار سے چھٹی پر منتج ہوتا ہے۔اور یہ وہ بحرانی کیفیت ہے جس سے ہمارے نجی ٹی وی چینلز اس وقت گزر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چند چینلز نے بعض افراد کو خطیر معاوضوں کی ادائیگی کا جو ٹرینڈ متعارف کرایا وہ آج خود اْن کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔اس روایت نے دیگر ٹی وی ملازمین کو احساس کمتری کا شکار کیا ہے اورخاص کر اخبار ی کارکنوں کو بھی۔ دوسری جانب ٹی وی چینلز کے پاس اگر مالی وسائل کی کمی ہوگی تو اِس کابالآخر اثر اس کے مندرجات پر بھی پڑے گااوروہ غیر معیاری سب اسٹینڈرڈ مندرجات پیش کرنے لگے گا۔
اگر نیوز چینل ہے تو وہ ڈیسک اسٹوریز تک محدود ہو کر صرف خبر یں پیش کرنے والا چینل بن جائے گا نہ کے خبر حاصل کرنے اور بنانے والا۔ اسی طرح اگر تفریحی چینل ہے تو وہ نشرر مکرر اور سستے غیر ملکی مواد کو پیش کرنا شروع کر دے گا۔ یا پھر وہ ایسے مندرجات بنانے کی کوشش کرے گا جو اشتہاری کمپنیوں کی ڈیمانڈ ہو ۔یوں اس تمام صورتحال کا براہ راست اثر ناظرین پر پڑتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے ہاں بعض بڑے چینلز کے مابین پیشہ ورانہ مسابقت کی بجائے کاروباری مسابقت کی روش بھی موجود ہے۔ جس میں ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کو اپنے چینلز پر اجاگر کر کے ایک دوسرے کی ویور شپ اور ساکھ کو متاثر کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں ٹی وی انڈسٹری کو مالی وسائل اشتہارات سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور یہ اشتہارات زیادہ تر چینلز کی ویور شپ اور پروگراموں کی ریٹنگ کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ کوئی چینل کتنا دیکھا جاتا ہے اْس کے پروگراموں کی کیا ریٹنگ ہے اس تمام تر کا انحصار ٹی وی نشریات کے ناظرین تک زیادہ سے زیادہ پہنچ پر منحصرہے۔ ہمارے شہروں میں اگرچہ عام ٹی وی انٹینا اور ڈش انٹینا کے ذریعے بھی ٹی وی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر کیبل کے ذریعے ٹی وی کی نشریات ناظرین تک پہنچتی ہے جس کا تناسب 96 فیصد ہے۔ جبکہ دیہات جہاں ابھی بھی ہماری آبادی کا آدھے سے زائد حصہ رہائش پذیر ہے وہاں ٹی وی کی نشریات کیبل سسٹم کے علاوہ عام انٹینا اور ڈش انٹینا کے ذریعے بھی دیکھی جاتی ہیں۔دیہی علاقوں میں ناظرین کا 39 فیصد عام انٹینا کے ذریعے 15 فیصد ڈش انٹینا اور 45 فیصدکیبل کے ذریعے ٹی وی دیکھتا ہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیہات کے آدھے سے زائد ناظرین کو کیبل سسٹم کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے تمام نجی چینلز کو دیہی ناظرین کی ایک بڑی تعداد تک رسائی حاصل نہیں تو غلط نہ ہوگا۔ دوسری جانب ملک میں موجود کیبل سسٹم جس کے شروع کے چینلز کی کوالٹی تو شاندار ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے جاتے ہیں نشریاتی کوالٹی میں تنزلی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا کیبل نیٹ ورک ہو جس کے پہلے نمبر پر نشر ہونے والے چینلز کی نشریاتی کوالٹی اور آخری نمبرز پر آنے والے چینل کی کوالٹی یکساں ہو۔ اس طرح کی صورتحال کی موجودگی اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیبل آپریٹر کسی چینل کی ویور شپ کو کم یا زیادہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جب ایک چینل کو کیبل کے ایسے نمبر پر رکھا جائے جہاں اْس کی نشریاتی کوالٹی اچھی ہو اور ناظرین کو فوراً وہ چینل مل جائے تو ایسی صورت میں چینل کی ویور شپ بڑھتی ہے۔ بانسبت کسی چینل کو ایسے نمبر پر رکھا جائے یا منتقل کر دیا جائے جہاں نشریاتی کوالٹی بھی کمزور ہو اور لوگ اْس نمبر تک جاتے ہی نا ہوں یا کم جاتے ہیں تو ویور شپ کیسے بڑھے گی اور اگر چینل کو اوپر کے نمبرز سے نیچے کی طرف شفٹ کیا گیا ہے تو اُس کی موجودہ ویور شپ بھی گئی۔ پھر ایسی صورتحال میں اشتہار کون دے گا؟
یعنی ٹی وی انڈسٹری کو ایک بڑا چیلنج ویور شپ کے حوالے سے بھی ہے۔ اگرچہ لوگ آج بھی ٹی وی بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ناظرین جتنا وقت پہلے ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتے تھے اب اس میں کمی آرہی ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداوشمار سے با خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ 2008 میں پاکستان میں ایک ناظر اوسطً 162 منٹ روزانہ ٹی وی دیکھتا تھا جو اب کم ہوکر117 منٹ ہو چکا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو ہمارے تفریحی چینلز کے پروگراموں میں نئے آئیڈیا ز، موضوعات اور مندرجات میں تنوع کی کمی ہے۔ تو دوسری جانب اکثر نیوز چینلز کا کسی ایک خاص طرف جھکاؤ اور عوامی مسائل کی بجائے سیاسی موضوعات،شخصی اور پارٹی پروپگینڈے کا آلہ کار بننا ہے۔
دوسری بڑی وجہ موبائل ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے ٹی وی ویور شپ کے معنی بدل کر رکھ دیئے ہیں۔آج پروگرام آن ڈیمانڈ کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ ان سب نے لائیو ٹی وی ویور شپ کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ علاوہ ازیں موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال ٹی وی ویور شپ کے لیے مستقبل میں سب سے بڑا چیلنج بن جائے گا۔ اوراس نے اپنے اثرات دکھانا بھی شروع کر دیئے ہیں۔ ماہرین اب اس بارے میں مختلف پیش گوئیاں کر رہے ہیںکہ مستقبل میں ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھنے کے لیے شاید لوگوں کے پاس وقت نہ رہے''۔
ایک میڈیا اکیڈمک پروفیشنل
ڈاکٹر زاہد بلال میڈیا اسٹڈیز کے ایک معتبر نام ہیں۔ اوکاڑہ یو نیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے قیام کا اعزاز انھیں حاصل ہے۔ آپ شعبہ ہذا کے بانی چیئرمین ہیں۔ براڈکاسٹ میڈیا اُن کی specialty ہے۔ ملک کی دو جامعات ( پنجاب یونیورسٹی اور گجرات یو نیورسٹی) میں ریڈیو اسٹیشنز بنانے اور چلانے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ کی University of Oklahoma اور گجرات یونیورسٹی کے سینٹر فارمیڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز کے فیکلٹی اینڈ اسٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام کے کوآرڈینیٹر رہ چکے ہیںاس پروگرام کے تحت جامعہ گجرات میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹی وی اسٹوڈیو بھی قائم ہوا۔ ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے مندرجات ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا بنیادی موضوع ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ '' نجی ٹی وی چینلز کی مش روم گروتھ سے قبل سرکاری ٹی وی کو کسی قسم کا مقابلہ درپیش نہیں تھا۔ اس پر نشر ہونیوالے خبر نامے اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کو ایک بہت سخت مرکزیت کے حامل مختلف سطحوں کے نظام سے گزرنا پڑتا تھا۔ جسکی وجہ سے یہ جمود کا شکار تھے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے آنے سے صحت مندانہ مقابلے کی فضا پیدا ہوئی۔ اور کسی حد تک خبری نظام کا ڈھانچہ جمود کی حدود کو پھلانگنے میں کامیاب ہوا ۔ ناظرین کو متنوع اور متحرک خبرمانہ اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام دیکھنے کو ملے۔ شروع شروع میں تو یہ تحرک ناظرین کو بہت بھایا اور راس بھی آیا۔ کیونکہ اس نے معلومات تک رسائی کو ممکن بنایا مگر ڈیڑھ عشرے کی آزادی کے بعد یہ رجحان بھی جمود کا شکار ہوگیا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خبروں کے مندرجات صرف سیاسی مسائل کی ایک خاص سمت ہی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ جبکہ سیاسی مسائل بھی صرف سطحی طور پر پارٹی رہنماؤں کی سرگرمیوں تک محدود رہتے ہیں۔ معاشرتی مسائل کے مندرجات کی رپورٹنگ بہت کم ہوتی ہے۔ چینلز کی اس یک رخی کوریج کی وجہ سے ناظرین بوریت کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب خبروں کا رجحان صرف چند بڑے شہروں اور اشرفیہ کی طرف زیادہ رہتا ہے۔ جبکہ مضافات اور علاقائی خبروں کی چینلز میں یا تو بالکل ہی کوریج نہیں دی جاتی اور اگر کچھ ٹی وی چینلزایسا کرتے ہیں تو اس کا تناسب ناقابلِ ذکر حد تک کم ہوتا ہے۔ چینلز علاقائی صحافت کو ترقی دینے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔ مضافات میں موجود رپورٹرز کو تنخواہیں نہیں دی جاتیں جسکی وجہ سے معیاری کوریج نہیں ہو پاتی۔
خبروں کی پیشکش کے انداز میں بھی چینلز ایک خاص روائتی انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ ٹی وی بنیادی طور پر بصری میڈیم ہے جس پر جاندار اور متحرک ویڈیوز پر زیادہ فوکس ہونا چاہیئے۔ جبکہ ہمارے ہاں اسکرپٹ کی طوالت بہت زیادہ ہوتی ہے اور reading effect جابجا خبروں ، رپورٹس اور پیکیجز میں محسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے چینلز اخبارات اور ریڈیو کے میڈیم کا اطلاق ٹی وی پر کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے چینلز کم الفاظ اور زیادہ بصری مواد کو پیش نظر رکھیں تو ویڈیو شوٹ اور ویڈیو گرافی کے انداز اور فریمنگ کی مختلف جہتیں اسے متحرک خبر نامہ بنا سکتی ہیں۔
خبروں کے مندرجات میں کاپی ایڈیٹر، رپورٹر اور ویڈیو ایڈیٹرز کی محنت کم نظر آتی ہے ۔ اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف خبروں کا پیٹ بھرنے کے لیے معمول کے فارمولے پر خبر نامہ تیار کروایا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز filters کی مختلف layers بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ اس کے لیے ایک بڑی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دنوں چینلز میں بہت سی شفٹیں ختم کی جارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند لوگ جب سارے کام سر انجام دیں گے تو تنوع مفقود ہو جائے گا۔ ٹاک شوز میں اینکر پرسن لگے بندھے انداز میں موضوع کی تیاری کئے بغیر پروگرام کرتے ہیں۔ جسکی وجہ سے ناظرین ان سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارامیڈیا لوگوں کے معیار کو آہستہ آہستہ بڑھانے کی بجائے خود عام لوگوں کی سطح پر آگیا ہے۔ ایک خاص انداز میں ایک ہی موضوع کو باربار رگیدا جائے تو ناظرین کی دلچسپی کیونکر برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ہمارے ہاں ترقیاتی صحافت کو بھی بالکل نظر انداز کیا جارہا ہے۔
اگر ہمارے چینلز اس پر توجہ کریں تو ناظرین کی دلچسپی بڑھائی جا سکتی ہے''۔ ٹی وی چینلز کے تفریحی مندرجات کے حوالے سے ڈاکٹر زاہد بلال کا کہنا ہے۔ '' ہمارے ٹی وی چینلز کے تفریحی پروگرام خبروں سے کافی حد تک بہتر قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ تاہم اس میں بھی ہمارے ڈرامے اور مارننگ شوزایک خاص موضوع اور فارمیٹ تک محدود ہو گئے ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ ناظرین کی ضرورتوں کو وہ صرف جزوی طور پر ہی پورا کر رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں جب پاکستانی ڈرامہ متنوع موضوعات، اچھے اسکرپٹ ، بہترین کہانی اور جدید پروڈکشن کے ساتھ سامنے آیا تو وہ انڈین چینلز کے سحر کو توڑنے میں کامیاب ہوا۔ لیکن اب اکثرموضوعات محبت، رقابت اور extra marital affairs کے گرد گھومتے ہیں ۔ان ڈراموں میں اکثر ایسے سینز یا زبان استعمال کی جاتی ہے جو اس قابل نہیں ہوتے کہ آپ اپنی فیملی کے ہمراہ اُنھیں دیکھ سکیں۔
اس حوالے سے دسمبر2017 میں ہونے والاگیلپ پاکستان کا ایک ملک گیر سروے یہ بتاتا ہے کہ 67 فیصد پاکستانیوں نے یہ بات محسوس کرنے کا اظہار کیا کہ ٹی وی کا کوئی مخصوص پروگرام/ ڈرامہ اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔اگرچہ مارننگ شوز خواتین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوئے ہیں مگر معیار کی بات کی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی روایتی فارمولا کے تحت سطحیت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اسکرپٹ اور فارمیٹ پر محنت کی جائے تو یہ بہت کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرامہ اور مارننگ شوز صرف 20 سے50 سال تک کی آڈیینس کے لیے ہوتے ہیں۔ بزرگوں اور بچوں کے لیے اچھے تفریحی پروگرام کی ٹی وی چینلز پر شدید کمی ہے۔ بچوں کے لیے کوئی قابلِ ذکر پروگرام ھمارے چینلز پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں''۔
ٹی وی چینلز کے ضابطہ اخلاق پر عملدارآمد کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ '' ماضی کی نسبت خبروں میں ضابطہ اخلاق پر بہتر طور پر عمل ہورہا ہے۔ چینلز نے ممنوعہ ویڈیوز کو دھندلا نا شروع کر دیا ہے۔ بریکنگ نیوز کا ٹرینڈ بھی کم ہوا ہے۔ ٹاک شوز اور تفریحی پروگراموں کی بات کی جائے تو ضابطہ اخلاق کا اطلاق بہت ڈھیلا محسوس ہوتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے چینلز رضاکارانہ طور پر خود کے ضابطہ اخلاق کو کسی حد تک تو استعمال میں لاتے ہیں مگر ہمارے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کروانے والے اداروں کی غیر سنجیدگی سے اسکے اطلاق میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں دیکھی گئی''۔ ہمارے ٹی وی چینلز اپنے مندرجات میں سماجی ذمہ داری کا کتنا خیال رکھتے ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر زاہد بلال کا کہنا ہے کہ '' سماجی ذمہ داری کا خیال رکھنے کے لیے ایک مضبوط ادارتی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ گیٹ کیپنگ کے ذریعے filters کو استعمال کرسکے۔ یہ بہت سنجیدہ اور محنت طلب کام ہے جس کے لیے بہت تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے چینلز ایسی تجربہ کار ٹیم پرInvest کرنا مناسب خیال نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ہمارے چینلز اپنی سماجی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ نہیں ہو پارہیـ''۔ ٹی وی چینلز کو درپیش چلنجز اور ان کے حل کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ '' آئی ٹی ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی نفوذ پزیری کی وجہ سے ٹی وی چینلز کی حرکیات کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔
اس پوسٹ ماڈرن اور پوسٹ ٹرتھ دور نے ٹی وی کے genere اور فارمیٹ کی حدود ہی کو دھندلا کر دیا ہے۔ یورپ اور امریکہ ان ادوار کی ضروریات کے پیش نظر ان پابندیوں سے آزاد ہو کر ناظرین کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ امریکی طرز پر جب ہمارے چینلز نے پولیٹیکل کامیڈی کے پروگرام شروع کیئے تو اس جدت اور اختراع کوبہت پزیرائی ملی۔ ٹی وی چینلز کو بہت سرعت اور تسلسل کے ساتھ نئے فارمیٹ کو آزمانا چاہئیے تا کہ ورچوئل ریئیلٹی اور cloud کی دنیا سے واقفیت حاصل کرچکی سمارٹ آڈیئنس کو اپنی طرف راغب کیا جا سکے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بہت ہی انفرادی سطح پر جا کر اپنے یوزرز کو معلومات اور تفریح مہیا کرتے ہیں۔ ٹی وی کے لیے آڈیئینس کی تہہ بہ تہہ درجہ بندی بہت بڑا چیلنج ہے۔
اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے چینلز کو مجموعی طور پر اپنا اسپیشلائیزڈ فوکس ڈھونڈنا چاہئے جو کہ اسکی پہچان بن جائے۔ چینلز اپنی نشریات کے مندرجات کی بہت اچھی segmentation کر کہ بھی لوگوں کو مشغول کر سکتے ہیں۔اب لوگوں کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتں اور جمالیاتی ذوق globalized ہو چکا ہے۔ ایک ہی سین اور فوٹیج بار بار نہیں چلائی جا سکتی۔ ہر لحظہ ایک جاندار ، متحرک، اور انسانی ذہن کی فریکوئنسی سے ہم آہنگ بصری مواد کو تمام تر جدید تکنیکی اختراعوں سے لیس ہونا چاہئیے۔ پھر کہیں جاکر وہ ٹی وی ویورشپ کو اعتماد میں لے سکتا ہے۔ بچوں اور teenagers کے لیے پروگرامنگ ٹی وی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔اس سلسلے میںہمارے میڈیا مینجرز کو افریقی اور ترکی ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت جنکے ڈرامے،کارٹونز اور دوسرے پروگرام بچوں اور نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہے ہیں''۔
یہ تبصرہ نیویارک ٹائمز نے 1939 میں نیویارک میں ہونے والے عالمی میلے میں امریکی عوام کے ٹیلی ویژن سے متعارف ہونے کے بعد کیا۔ لیکن وقت نے اخبار کے اس تبصرے کو غلط ثابت کردیا۔ کیونکہ آ ج وہی امریکی عوام جن کے بارے میں نیو یارک ٹائمز کا یہ کہنا تھا۔ کہ اُن کے پاس ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے وقت نہیںاُنھوں نے 2019 کی پہلی سہ ماہی میں روزانہ اوسطً 4 گھنٹے 27 منٹ ٹی وی دیکھا۔ جبکہ اس وقت12 کروڑ 6 لاکھ امریکی گھروں میں ٹی وی سیٹ موجود ہے۔ یعنی 30 کروڑ73 لاکھ امریکیوں کو اپنے گھروں میں یہ سہولت دستیاب ہے۔
ایسی صورتحال صرف اکیلے امریکہ ہی کی نہیں بلکہ پوری دنیا اس وقت ٹی وی کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے۔ یوروڈیٹا ٹی وی ورلڈ وائڈ (Eurodata TV Worldwide ) کے مطابق 2018 میں دنیا کے94 ممالک (جن کا مطالعہ کیا گیا) میں اوسطً 2 گھنٹے 55 منٹ ٹی وی دیکھا گیا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک مہینے میں ساڑھے تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت ٹی وی دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ 2017 میں دنیا کے1.63 ارب گھروں جو کہ عالمی سطح پر 80 فیصد گھر بنتے ہیں اُن میں ٹی وی سیٹ موجود تھا۔
ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً تمام گھروں میں اور ترقی پذیر ممالک کے 69 فیصد گھر یہ سہولت رکھتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں ٹی وی نشریات کے سگنلز پہنچ رہے ہیں۔ اپنی اس قدر رسائی کی وجہ سے ٹیلی ویژن نے دنیا کے ہر معاشرے میں گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عمل دخل ہر سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی میں بہت بڑھ گیا ہے جس کے اعتراف کے طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 21 نومبر کو ٹیلی ویژن کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان 17 دسمبر1996 کو کیا کیونکہ لوگوں کو مطلع کرنے، عوامی آرا کو متاثر کرنے اور اُس کی تشکیل میں ٹیلی ویژن کو ایک اہم ذریعہ کے طور پر دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا ہے۔
پاکستان بھی ٹی وی کے طلسم کے حصار میں آنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ جہاںاپریل 2018 میں گیلپ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق ملک میں فی ناظر روزانہ اوسطً تقریباً دو گھنٹے (117 منٹ( ٹی وی دیکھتا ہے۔
اگر ہم پاکستان میں ٹی وی دیکھنے کے اوسط دورانیہ کا عالمی سطح پر موازنہ کریں تو لندن کے ادارےZenith کی رپورٹ ''میڈیا کنزمشن فورکاسٹ2016 '' (Media Consumption Forecasts 2016) میں موجود اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ٹائم ٹی وی دیکھنے پر سعودی عرب میں صرف کیا جاتا ہے۔ جہاں 2016 میں اوسطاً 404.7 منٹ روزانہ فی ناظر نے ٹی وی دیکھا۔ دوسرے نمبر پر بو سنیا ہرزگوینیا تھا جہاں یہ دورانیہ 333.2 منٹ روزانہ تھاجبکہ رومانیہ میں یہ طوالت 322.5 منٹ روزانہ تھی یوں وہ تیسرے نمبر پر تھا۔ پاکستان کا اس عالمی درجہ بندی میں 47 واں نمبر تھا۔ سب سے زیادہ انفرادی اوسط طوالت پر مبنی ٹی وی دیکھنے والے پہلے دس ممالک میں سے تین کا تعلق اسلامی دنیا سے تھا۔ جن میں سعودی عرب پہلے، کویت 7 ویں اور متحدہ عرب امارات نویں نمبر پر تھا ۔
گیلپ پاکستان کے 2017 ء میں ہونے والے میڈیا سروے کے مطابق67 فیصد پاکستانیوں نے ٹی وی دیکھنے کا اقرار کیا۔ جن میں سے 74 فیصد با قاعدہ ناظر تھے اور 21 فیصد کبھی کبھار اور5 فیصد شاذو نادر ٹی وی دیکھتے تھے۔ اسی طرح 2017-18 میں ملک میں ہونے والے پاکستان ڈیمو گرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق ملک میں 15 سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین (ever-married women ) کا 50.6 فیصد اور اس ایج گروپ کے شادی شدہ مردوں (ever-married men) کا 55.4 فیصد ہفتہ میں کم از کم ایک بار ٹی وی دیکھتے ہیں ۔ دیہی علاقوں کی خواتین میں یہ تناسب 38.9 اور شہری علاقوں میں 70.7 فیصد ہے۔
اسی طرح شہروں میں رہنے والے مردوں میں ہفتہ میں کم از کم ایک بار ٹی وی دیکھنے کی شرح 68.3 فیصد اور دیہات میں 46.8 فیصد ہے۔ خواتین میں سب سے زیادہ ٹی وی دیکھنے کی شرح کا تعلق اسلام آباد سے ہے جو 77.5 فیصد ہے۔ جبکہ سب سے کم خیبر پختونخوا میں 26.9 فیصد ہے۔ اسی طرح مرد ناظرین کا سب سے زیادہ تناسب 81.8 فیصد بھی اسلام آباد سے ہی ہے اور سب سے کم 34.1 فیصد بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے۔ ملک میں ٹی وی سیٹس کے حوالے سے صورتحال پی ڈی ایچ سروے کے مطابق یہ ہے کہ سال2017-18 کے دوران ملک کے 62.8 فیصد گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ موجود ہے۔ شہروں کے 86.4 فیصد اور دیہات کے48.1 فیصدگھروں میں یہ سہولت دستیاب ہے۔
ٹی وی اپنے ناظرین کے لیے اطلاعات، معلومات اور تفریح کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایڈورٹائزرز کے لیے اپنے کاروبار یا پروڈکٹ کی تشہیر اور اپنی آرگنائزیشن کے لیے آمدن کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر یہ صنعت کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ٹی وی کی معاشی اہمیت کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بخوبی ہوتا ہے کہ2016 میں عالمی سطح پر ٹی وی انڈسٹری کا ریونیو366 ارب بر طانوی پاؤنڈ سے زیادہ تھا اورگزشتہ سال عالمی سطح پر ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات کی مجموعی مالیت 200 ارب ڈالر تھی۔
پاکستان میں 2017-18 کے دوران ٹی وی پر 38 ارب روپے کے اشتہارات نشر ہوئے جو اشتہارات کی کل مالیت کا 46 فیصد تھے۔ ملک میں ٹی وی پر پیش ہونے والے اشتہارات کا بجٹ 2002 میں محض 2.66 ارب روپے تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں پرائیویٹ سیٹلائیٹ چینلز کے لئے ٹی وی انڈسٹری کے دروازے کھولے گئے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگو لیڑی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور 2003 میں پیمرا نے نجی شعبہ میں 4 سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری کئے جس سے مذکورہ سال ٹی وی اشتہارات کی مالیت 3.28 ارب روپے ہوگئی اور 2016-17 تک یہ اپنی بلند ترین سطح 42 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی۔
پیمرا کے آنے کے بعد گزشتہ15 سالوں کے دوران ملک کے الیکٹرانک میڈیا کے منظر نامے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ شعبہ پاکستان کے بڑے شہروں میں براڈکاسٹنگ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور آلات کی تنصیب کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں کیریئر کے حصول کے خواہشمند نوجوانوں کے لیے روزگارکے بڑے مواقع پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2018-19 کے مطابق اس وقت پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری میں 3.5 ارب ڈالرکی مجموعی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ شعبہ 2 لاکھ سے زائد لوگوں کو صحافت، مینجمنٹ اور تکنیکی شعبوں میں روزگار فراہم کر رہا ہے۔
ملک میں اس وقت 88 سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کے لائسنسز کا اجرا ہو چکا ہے۔ جن میں سے 26 نیوز اور حالاتِ حاضرہ کے ، تفریح (انٹرٹینمنٹ) کے 37 ، علاقائی زبانوں کے18 ، اسپیشلائزڈ سبجیکٹ کے04 ، صحت کا ایک، کھیل کا ایک اور زراعت کا بھی ایک لائسنس جاری کیا گیا ہے۔جبکہ کیبل ٹی وی کے4007 لائسنسز اور انٹرنیٹ پروٹوکول ٹی وی کے 05 لائسنسز کا اجرا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ وطن عزیز میں 31 مارچ2019 تک رجسٹرڈ ٹی وی سیٹس کی تعداد ایک کروڑ 91 لاکھ38 ہزار 6 سو 93 ہے۔ یعنی ہمارے دیس میں اوسطً گیارہ افراد کے لیے ایک ٹی وی سیٹ موجود ہے۔ جبکہ ٹی وی ناظرین کی تعداد پاکستان کے سالانہ منصوبہ 2017-18 کے مطابق 13 کروڑ 50 لاکھ ہے یعنی ملک کی65 فیصد آبادی جس میں سے 7 کروڑ 40 لاکھ کیبل اور سٹیلائٹ کے ویورز ہیں جبکہ روایتی ٹی وی اینٹینا کے ذریعے ٹی وی دیکھنے والوں (Terrestrial viewership) کی تعداد 6 کروڑ 10 لاکھ ہے۔
تکنیکی منظر نامہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے باوجود ٹی وی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں روزمرہ زندگی کی ایک اہم ضرورت بنا ہوا ہے۔ کیونکہ نئی ٹی وی ٹیکنالوجیز تیزی سے متعارف ہو رہی ہیں اور پچھلی دو دہائیوں کے دوران متعدد ٹیکناجیز مارکیٹ میں داخل ہوئیں اور اس کے بعد نئی سے نئی اپنی جگہ لے رہی ہیں۔ اینا لاگ ٹریسٹیریل ٹی وی (Analog terrestrial TV ) نے 2000 کی دہائی میں کے اوائل میں مارکیٹ پر غلبہ حاصل کیا۔ لیکن جلد ہی 2010 کی دہائی کے وسط میں ڈیجیٹل کیبل ٹی وی نے جگہ لے لی۔ جسے ڈائریکٹ ٹو ہوم DTH اور ڈیجیٹل ٹریسٹوریل ٹیلی ویژن DTT اور دیگر بہت سی ٹیکنالوجیز کے ذریعہ چیلنج کیا جارہا ہے۔ اور2021 تک توقع کی جارہی ہے کہ ڈیجیٹل ٹیلویژن دنیا کے 98 فیصد گھروں میں ہوگا۔ اسی طرح صرف نشریاتی ٹیکنالوجی ہی ترقی پذیر نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن ہارڈ وئیر میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ کیونکہ ٹیلویژن کی اصل تعریف تیزی سے بدل رہی ہے۔ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی تیز رفتار نشوونما نے ٹی وی کا روایتی تصور تبدیل کر دیا ہے۔ 2018 میں دنیا میں فروخت ہونے والے 70 فیصد ٹی وی سیٹس سمارٹ ٹیکنالوجی کے حامل تھے۔
لیکن اس تمام تر پیش رفت کے باوجود موبائل ڈیوائسز (سمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور لپ ٹاپس) ٹی وی سیٹس اوران سیٹس پر نشریات کی viewershipکے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔کیونکہ Zenith لندن کے مطابق دنیا میںاس وقت روزانہ اوسطً ایک سو 30 منٹ موبائل انٹر نیٹ ڈیٹا استعمال کیا جا رہا ہے جو2015 میں 80 منٹ تھا۔ موبائل انٹرنیٹ اور براڈبینڈ انٹرنیٹ سے منسلک موبائل ڈیوائسزکی مدد سے دنیا بھر میں اوسطً روزانہ 136 منٹس سوشل میڈیا پر ٹائم صرف کیا جا رہا ہے جو 2012 میں 90 منٹ تھا۔ یوں اب موبائل ڈیوائسز کے استعمال پر صرف ہونے والا زیادہ سے زیادہ وقت دیگر ابلاغی ذرائع(اخبارات، میگزین، ریڈیو، سینما،ٹی وی) پر خرچ ہونے والے وقت کو کھا رہا ہے اور ٹی وی اس کا زیادہ شکارہو رہا ہے۔ Zenith کی رپورٹ Media Consumption Forecasts 2016 کے مطابق 2010 میں دنیا میں اوسطً190.1 منٹ ٹی وی دیکھا جاتا تھا جس کے2018 تک کم ہوکر 170.1 منٹ روزانہ کی پیش گوئی رپورٹ میںکی گئی ہے۔اسی طرح اخبارات 20.1 منٹ سے کم ہوکر11.9 منٹ، میگزین 11.7 سے 5.2 منٹ، ریڈیو 60 منٹ سے کم ہوکر52.2 منٹ اور سنیما 1.7 منٹ سے کم ہوکر1.2 منٹ اوسطً روازنہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
پاکستان بھی اس رجحان کے زیر اثر ہے کیونکہ ملک میں اس وقت 93.9 فیصد گھروں میں موبائل فون موجود ہے۔ شہروں کے97.5 فیصد اور دیہہ کے 91.6 فیصد گھروں میں موبائل فون کا وجود ہے جبکہ ملک کے موبائل فون صارفین کا 72 فیصد سمارٹ فون استعمال کرتا ہے۔ بہت سی دیگر ٹیکنالوجیز کے برعکس ٹیلویژن دنیا بھر کا رجحان ہے اور اسے ہر شعبہ ہائے زندگی اور دنیا کے ہر گوشے سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگیوں میں جگہ ملی ہے۔ لیکن اس کے باوجود موبائل ڈیوائسز کی مدد سے سوشل میڈیا پر لوگوں کی بڑھتی ہوئی توجہ اور مصروفیت ٹی وی کی صنعت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
ٹیلی ویژن کی ایجاد
وہ آئیڈیا جسے ہم آج ٹیلی ویژن کے طور پر جانتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس پر بحث کا آغاز تب سے ہی شروع ہوگیا تھا جب امریکی عوام کے لئے 1870 کے وسط میں ٹیلی فون متعارف ہوا۔ دراصل ٹیلی ویژن کے ابتدائی تصورات یہ تھے کہ کوئی ایسا طریقہ ہو جس کی بدولت ٹیلی فون پر بات کرنے والے کی صورت دیکھی جا سکے۔ جارج کیری (George Carey ) نے1876 کے اوائل میں ایک ایسے عمل کے بارے میں سوچا جس کے ذریعے کسی تصویراور اُس سے وابستہ آواز کو الیکٹرانک سگنلز میں تبدیل کیا جائے پھر ان الیکٹرانک سگنلزکو ماخذ سے وصول کنندہ کو بھیجا جائے اور برقی اشاروں کو دوبارہ تصویر اور آوازوں میں تبدیل کیا جا سکے ۔ اُنھوں نے 1879 اور1880 میں سائنٹفک امریکن میں "seeing by electricity" کے عنوان سے اس بارے میں لکھا۔25 اگست1900 کو پیرس میں ہونے والی نمائش میں انٹرنیشنل الیکٹرک سٹی کانگریس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کنسٹینٹین پارسکی (Constantin Perskyi) نے ایک مقالہ پیش کیا جس کا عنوانـ ''ٹیلی ویژن'' تھا ۔
07 ستمبر1927 کو سان فرانسسکو امریکہ میں پہلی بار الیکٹرانک ٹیلی ویژن کا کامیابی کے ساتھ مظاہرہ کیا گیا۔ یہ نظام 21 سالہ موجد فیلو ٹیلر فارنس ورتھ (Philo Taylor Farnsworth) نے تیار کیا تھا۔جو 14 سال کی عمر تک بجلی کے بغیر مکان میں رہائش پذیررہا تھا۔ فارنس ورتھ ابھی ہائی اسکول میں ہی تھا تو اُس نے ایک ایسے نظام کا تصور کرنا شروع کیا جو حرکت پذیراشکال(images) کو ایسی صورت میں گرفت میں لے سکے کہ اِنھیں ریڈیو لہروں کی صورت میں ڈھالا جا سکے اور پھر اسکرین پر ایک تصویر کی صورت میں دوبارہ تبدیل کیا جا سکے۔
روس میں بورس روسننگ (Boris Rosing)نے فارنس ورتھ کی پہلی کامیابی سے 16 سال قبل تصویری ترسیل کے بارے میں کچھ خام تجربات کیے تھے۔اس کے علاوہ ایک میکینکل ٹیلیویژن سسٹم جس میں گھومنے والی ڈسک میں سوراخ کرکے ان سوراخوں پر اشکال چسپاں کی گئی تھیں۔اس ڈسک کو تیزی سے گھمانے سے سوراخ میں لگی scanned images حرکت کرتی ہوئی محسوس ہوتیں۔اس کا مظاہرہ انگلینڈ میں جان لوگی بیرڈ (John Logie Baird) اور امریکہ میں چارلس فرانسس جینکنز(Charles Francis Jenkins) نے سن 1920 کی دہائی میں کیا ۔ تاہم فارنس ورتھ کی ایجاد جس میں اشکال (images)الیکٹرانز کی ایک بیم کی صورت میں scan ہوتیںکوجدید ٹیلی ویژن کا براہ راست جد امجد قرار دیا جاتا ہے۔
ایک پاکستانی ٹی وی ناظر اپنی زندگی میں کتنا ٹی وی دیکھتا ہے؟
اعدادوشمار کے مطابق ایک پاکستانی ٹی وی ناظر دن میں اوسطً 2 گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 730 گھنٹے ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال ہے۔ یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطاً 48910 گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک ٹی وی ناظر اپنی زندگی میںساڑھے پانچ سال طوالت پر مشتمل عرصہ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔
پاکستان میں ٹی وی کی تاریخ
پاکستان دنیا کا 52 واں ملک تھا جو ٹی وی نشریات کے نقشہ پر ابھرا۔ 05 اکتوبر1960 کو وفاقی کابینہ نے ملک میں تعلیمی مقاصد کے لیے ٹی وی کے قیام کی منظوری دی۔ فروری 1961 میں صدر ایوب خان نے جاپان کا دورہ کیا وہ جاپان میں ٹیلیویژن کی ترقی سے بہت متاثر ہوئے۔ اُسی سال دسمبر میں حکومت پاکستان کی دعوت پر کولمبو پلان کے تین جاپانی ماہرین پاکستان آئے اُس وفد نے ملک میں ٹیلی ویژن کے قیام کا تفصیلی جائزہ لیا۔1962 کے اوائل میں اُنھوں نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں ٹی وی صرف تعلیم تک محدود کرنے کی بجائے عام مقاصد کے لیے متعارف کرایا جائے۔ اپریل1964 میں ٹیلی ویژن پلاننگ سیل قائم کیا گیا جو ڈائریکٹر جنرل آف ریڈیو پاکستان کا ایک جزو تھا۔ یکم مئی1964 کو(Nipon Electric Company (NEC) of Japan )نے اسلم اظہر کا تقرر پروگرام ڈائریکٹر کی حیثیت سے کیا۔ اسلم اظہر ریڈیو اور تھیٹر کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ لاہور کا مشہور ثقافتی مرکز الحمرا جہاں کبھی لاہور آرٹس کونسل کی عمارت تھی۔ یہاں اگست1964 میں کرائے پر ایک شیڈ حاصل کر کے ٹی وی کا دفتر قائم کیا گیا۔
ریڈیو پاکستان لاہور کی موجودہ عمارت کے پچھلے حصے میں اسٹوڈیوکی تعمیر شروع کر دی گئی۔ بعد میں اسلم اظہر اور اُن کے ساتھی بھی آرٹس کونسل سے یہاں ایک ٹینٹ میں منتقل ہوگئے۔ 26 نومبر1964 ملک میں ٹیلیویژن کی پہلی صبح تھی۔ سہ پہر ساڑھے تین بجے افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ صدر ایوب خان نے ٹیلیویژن کا افتتاح کیا۔ قاری علی حسین صدیقی کی تلاوت سے نشریات کا آغاز ہوا۔ ذکا درانی نے پاکستان میں ٹیلیویژن کی ابتداء سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ یہ وہ پہلا چہرہ تھا جو ٹی وی پر نمودار ہوا۔ اس کے بعد طارق عزیز نے اناؤنسمنٹ کی اور پہلی خبریں بھی اُنھوں نے ہی پڑھیں۔ پہلی خاتون اناؤنسمنٹ کنول نصیر تھیں۔ ابتداء میں نشریات کا دورانیہ تین گھنٹے تھا اور پیر کے روز چھٹی ہوتی تھی۔ ریکارڈنگ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے تمام پروگرام براہ راست نشر کیے جاتے تھے۔
مآخذ: دستاویزی پروگرام '' پی ٹی وی کا سفر'' پروڈیوسر: ناظم الدین۔ تحریر: ضیاء الرحمان ضیا
٭ایک اور حوالے کے مطابق پاکستان میں ٹیلیویژن اصل میں نجی شعبہ کاپراجیکٹ تھا 1961 میں ممتاز صنعتکارسید واجد علی نے جاپان کی نیپون الیکٹرک کمپنی (این ای سی) کے ساتھ مشترکہ منصوبے پر دستخط کیے تھے۔ معروف پاکستانی انجینئر عبید الرحمن کو سیدواجد علی نے ٹیلی ویژن منصوبے کی سربراہی کے لئے مقرر کیا ۔ 1962 تک کئی ایک پائلٹ ٹرانسمیشن ٹیسٹوں کے سلسلے کے بعد 963 1میں ایوب خان حکومت نے ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں اس منصوبے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
٭ 1988 میں اُس وقت کی حکومت نے ''پیپلز ٹیلیویژن نیٹ ورک ''(پی ٹی این) کے نام سے ملک کا پہلا نیم سرکاری ٹی وی نیٹ ورک شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کی چھتری تلے شروع کیا۔ بعد ازاں پی ٹی این کا نام بدل کر اسے ''شالیمار ٹیلیویژن نیٹ ورک'' (ایس ٹی این)کر دیا گیا۔ ایس ٹی این کا آغاز پہلے اسلام آباد پھر کراچی اور بعد ازاں لاہور سے ہوا ۔1990 کی دہائی کے وسط تک اس نیٹ ورک نے پورے ملک میں وسعت اختیار کر لی ۔ ایس ٹی این نے پہلی بار پاکستان میں عام انٹینا پر سی این این انٹرنیشنل کی نشریات پیش کرنے کا آغاز کیا۔ یہ ایس ٹی این کا پہلا منصوبہ تھا ۔ 1990 میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ معاہدے کے تحت ایس ٹی این نے پاکستان کا پہلا نجی ٹی وی چینل ''نیٹ ورک ٹیلیویژن مارکیٹنگ ''(این ٹی ایم) شروع کیا۔ یوں این ٹی ایم اور سی این این کی نشریات پیش کی جانے لگیں جو 1999 تک کامیابی سے جاری رہیں۔
مآخذ: ورلڈ ہیرٹیج انسائیکلوپیڈیا
ایک ٹی وی پروفیشنل
فرحان مشتاق گزشتہ 15 سال سے پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ بطور پروڈیوسر منسلک ہیں۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں اْنھیں ابلاغ عامہ کے تینوں میڈیم اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں کام کرنے کا عملی تجربہ ہے۔ پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ ملک میں ٹی وی انڈسٹری کو درپیش چیلنجز کا علمی اور عملی پہلوؤں سے تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں '' پاکستان میں ٹی وی انڈسٹری کو درپیش چیلنجز میں سے سب سے اہم چیلنج ٹی وی چیلنجز کی زیادہ تعداد ہے۔ ملک میں سرکاری ٹی وی کے علاوہ اس وقت 80 سے زائد نجی سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں اور مزید نئے آرہے ہیں۔ ان سب کو اپنے استحکام اور ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ معاشی وسائل کی ضرورت ہے۔
سرکاری ٹی وی کو چونکہ حکومت ،فیس اور اشتہارات کی مد میں کافی وسائل مہیا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نجی شعبہ کا مکمل انحصار اشتہارات پر ہے۔ جس کی ایک محدود مالیت ہے۔ اگرچہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کے اشتہارات کی مارکیٹ کا 46 فیصد ٹی وی انڈسٹری کو ملا لیکن یہ 38 ارب روپے ہماری انڈسٹری کے لیے نا کافی ہیں۔ کیونکہ اس مالیت میں سے ایک قابلِ ذکر حصہ دو تین بڑے چینلز لے جاتے ہیں۔ ٹی وی پروڈکشن چاہے وہ نیوز ہو یا تفریحی پروگرامز ایک مہنگا کام ہے جس کے لیے وافر معاشی وسائل کی تسلسل کے ساتھ ضرورت رہتی ہے۔ لیکن جب ایک کھیت پر انحصار کرنے والے بڑھ جائیں تو پھر پیٹ کسی کا نہیں بھرتا ۔
کہنا یہ ہے کہ جب آپ کے اشتھارات کی مارکیٹ محدود مالیت کی ہے تو پھر اتنے زیادہ ٹی وی لائسنسز جاری نہیں کرنے چاہیئے تھے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی اور نئے چینلز مارکیٹ میں آر ہے ہیں۔اب ایسی صورت حال میں اندسٹری پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔آمدن / معاشی وسائل میں کمی کا براہ راست پہلا اثر چینلز سے وابستہ افرادی قوت کے معاوضوں کی تاخیر سے ادائیگی پھر کمی اورآخر میں عدم ادائیگی کے بعد روزگار سے چھٹی پر منتج ہوتا ہے۔اور یہ وہ بحرانی کیفیت ہے جس سے ہمارے نجی ٹی وی چینلز اس وقت گزر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چند چینلز نے بعض افراد کو خطیر معاوضوں کی ادائیگی کا جو ٹرینڈ متعارف کرایا وہ آج خود اْن کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔اس روایت نے دیگر ٹی وی ملازمین کو احساس کمتری کا شکار کیا ہے اورخاص کر اخبار ی کارکنوں کو بھی۔ دوسری جانب ٹی وی چینلز کے پاس اگر مالی وسائل کی کمی ہوگی تو اِس کابالآخر اثر اس کے مندرجات پر بھی پڑے گااوروہ غیر معیاری سب اسٹینڈرڈ مندرجات پیش کرنے لگے گا۔
اگر نیوز چینل ہے تو وہ ڈیسک اسٹوریز تک محدود ہو کر صرف خبر یں پیش کرنے والا چینل بن جائے گا نہ کے خبر حاصل کرنے اور بنانے والا۔ اسی طرح اگر تفریحی چینل ہے تو وہ نشرر مکرر اور سستے غیر ملکی مواد کو پیش کرنا شروع کر دے گا۔ یا پھر وہ ایسے مندرجات بنانے کی کوشش کرے گا جو اشتہاری کمپنیوں کی ڈیمانڈ ہو ۔یوں اس تمام صورتحال کا براہ راست اثر ناظرین پر پڑتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے ہاں بعض بڑے چینلز کے مابین پیشہ ورانہ مسابقت کی بجائے کاروباری مسابقت کی روش بھی موجود ہے۔ جس میں ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کو اپنے چینلز پر اجاگر کر کے ایک دوسرے کی ویور شپ اور ساکھ کو متاثر کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں ٹی وی انڈسٹری کو مالی وسائل اشتہارات سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور یہ اشتہارات زیادہ تر چینلز کی ویور شپ اور پروگراموں کی ریٹنگ کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ کوئی چینل کتنا دیکھا جاتا ہے اْس کے پروگراموں کی کیا ریٹنگ ہے اس تمام تر کا انحصار ٹی وی نشریات کے ناظرین تک زیادہ سے زیادہ پہنچ پر منحصرہے۔ ہمارے شہروں میں اگرچہ عام ٹی وی انٹینا اور ڈش انٹینا کے ذریعے بھی ٹی وی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر کیبل کے ذریعے ٹی وی کی نشریات ناظرین تک پہنچتی ہے جس کا تناسب 96 فیصد ہے۔ جبکہ دیہات جہاں ابھی بھی ہماری آبادی کا آدھے سے زائد حصہ رہائش پذیر ہے وہاں ٹی وی کی نشریات کیبل سسٹم کے علاوہ عام انٹینا اور ڈش انٹینا کے ذریعے بھی دیکھی جاتی ہیں۔دیہی علاقوں میں ناظرین کا 39 فیصد عام انٹینا کے ذریعے 15 فیصد ڈش انٹینا اور 45 فیصدکیبل کے ذریعے ٹی وی دیکھتا ہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیہات کے آدھے سے زائد ناظرین کو کیبل سسٹم کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے تمام نجی چینلز کو دیہی ناظرین کی ایک بڑی تعداد تک رسائی حاصل نہیں تو غلط نہ ہوگا۔ دوسری جانب ملک میں موجود کیبل سسٹم جس کے شروع کے چینلز کی کوالٹی تو شاندار ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے جاتے ہیں نشریاتی کوالٹی میں تنزلی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا کیبل نیٹ ورک ہو جس کے پہلے نمبر پر نشر ہونے والے چینلز کی نشریاتی کوالٹی اور آخری نمبرز پر آنے والے چینل کی کوالٹی یکساں ہو۔ اس طرح کی صورتحال کی موجودگی اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیبل آپریٹر کسی چینل کی ویور شپ کو کم یا زیادہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جب ایک چینل کو کیبل کے ایسے نمبر پر رکھا جائے جہاں اْس کی نشریاتی کوالٹی اچھی ہو اور ناظرین کو فوراً وہ چینل مل جائے تو ایسی صورت میں چینل کی ویور شپ بڑھتی ہے۔ بانسبت کسی چینل کو ایسے نمبر پر رکھا جائے یا منتقل کر دیا جائے جہاں نشریاتی کوالٹی بھی کمزور ہو اور لوگ اْس نمبر تک جاتے ہی نا ہوں یا کم جاتے ہیں تو ویور شپ کیسے بڑھے گی اور اگر چینل کو اوپر کے نمبرز سے نیچے کی طرف شفٹ کیا گیا ہے تو اُس کی موجودہ ویور شپ بھی گئی۔ پھر ایسی صورتحال میں اشتہار کون دے گا؟
یعنی ٹی وی انڈسٹری کو ایک بڑا چیلنج ویور شپ کے حوالے سے بھی ہے۔ اگرچہ لوگ آج بھی ٹی وی بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ناظرین جتنا وقت پہلے ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتے تھے اب اس میں کمی آرہی ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداوشمار سے با خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ 2008 میں پاکستان میں ایک ناظر اوسطً 162 منٹ روزانہ ٹی وی دیکھتا تھا جو اب کم ہوکر117 منٹ ہو چکا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو ہمارے تفریحی چینلز کے پروگراموں میں نئے آئیڈیا ز، موضوعات اور مندرجات میں تنوع کی کمی ہے۔ تو دوسری جانب اکثر نیوز چینلز کا کسی ایک خاص طرف جھکاؤ اور عوامی مسائل کی بجائے سیاسی موضوعات،شخصی اور پارٹی پروپگینڈے کا آلہ کار بننا ہے۔
دوسری بڑی وجہ موبائل ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے ٹی وی ویور شپ کے معنی بدل کر رکھ دیئے ہیں۔آج پروگرام آن ڈیمانڈ کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ ان سب نے لائیو ٹی وی ویور شپ کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ علاوہ ازیں موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال ٹی وی ویور شپ کے لیے مستقبل میں سب سے بڑا چیلنج بن جائے گا۔ اوراس نے اپنے اثرات دکھانا بھی شروع کر دیئے ہیں۔ ماہرین اب اس بارے میں مختلف پیش گوئیاں کر رہے ہیںکہ مستقبل میں ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھنے کے لیے شاید لوگوں کے پاس وقت نہ رہے''۔
ایک میڈیا اکیڈمک پروفیشنل
ڈاکٹر زاہد بلال میڈیا اسٹڈیز کے ایک معتبر نام ہیں۔ اوکاڑہ یو نیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے قیام کا اعزاز انھیں حاصل ہے۔ آپ شعبہ ہذا کے بانی چیئرمین ہیں۔ براڈکاسٹ میڈیا اُن کی specialty ہے۔ ملک کی دو جامعات ( پنجاب یونیورسٹی اور گجرات یو نیورسٹی) میں ریڈیو اسٹیشنز بنانے اور چلانے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ کی University of Oklahoma اور گجرات یونیورسٹی کے سینٹر فارمیڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز کے فیکلٹی اینڈ اسٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام کے کوآرڈینیٹر رہ چکے ہیںاس پروگرام کے تحت جامعہ گجرات میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹی وی اسٹوڈیو بھی قائم ہوا۔ ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے مندرجات ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا بنیادی موضوع ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ '' نجی ٹی وی چینلز کی مش روم گروتھ سے قبل سرکاری ٹی وی کو کسی قسم کا مقابلہ درپیش نہیں تھا۔ اس پر نشر ہونیوالے خبر نامے اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کو ایک بہت سخت مرکزیت کے حامل مختلف سطحوں کے نظام سے گزرنا پڑتا تھا۔ جسکی وجہ سے یہ جمود کا شکار تھے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے آنے سے صحت مندانہ مقابلے کی فضا پیدا ہوئی۔ اور کسی حد تک خبری نظام کا ڈھانچہ جمود کی حدود کو پھلانگنے میں کامیاب ہوا ۔ ناظرین کو متنوع اور متحرک خبرمانہ اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام دیکھنے کو ملے۔ شروع شروع میں تو یہ تحرک ناظرین کو بہت بھایا اور راس بھی آیا۔ کیونکہ اس نے معلومات تک رسائی کو ممکن بنایا مگر ڈیڑھ عشرے کی آزادی کے بعد یہ رجحان بھی جمود کا شکار ہوگیا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خبروں کے مندرجات صرف سیاسی مسائل کی ایک خاص سمت ہی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ جبکہ سیاسی مسائل بھی صرف سطحی طور پر پارٹی رہنماؤں کی سرگرمیوں تک محدود رہتے ہیں۔ معاشرتی مسائل کے مندرجات کی رپورٹنگ بہت کم ہوتی ہے۔ چینلز کی اس یک رخی کوریج کی وجہ سے ناظرین بوریت کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب خبروں کا رجحان صرف چند بڑے شہروں اور اشرفیہ کی طرف زیادہ رہتا ہے۔ جبکہ مضافات اور علاقائی خبروں کی چینلز میں یا تو بالکل ہی کوریج نہیں دی جاتی اور اگر کچھ ٹی وی چینلزایسا کرتے ہیں تو اس کا تناسب ناقابلِ ذکر حد تک کم ہوتا ہے۔ چینلز علاقائی صحافت کو ترقی دینے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔ مضافات میں موجود رپورٹرز کو تنخواہیں نہیں دی جاتیں جسکی وجہ سے معیاری کوریج نہیں ہو پاتی۔
خبروں کی پیشکش کے انداز میں بھی چینلز ایک خاص روائتی انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ ٹی وی بنیادی طور پر بصری میڈیم ہے جس پر جاندار اور متحرک ویڈیوز پر زیادہ فوکس ہونا چاہیئے۔ جبکہ ہمارے ہاں اسکرپٹ کی طوالت بہت زیادہ ہوتی ہے اور reading effect جابجا خبروں ، رپورٹس اور پیکیجز میں محسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے چینلز اخبارات اور ریڈیو کے میڈیم کا اطلاق ٹی وی پر کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے چینلز کم الفاظ اور زیادہ بصری مواد کو پیش نظر رکھیں تو ویڈیو شوٹ اور ویڈیو گرافی کے انداز اور فریمنگ کی مختلف جہتیں اسے متحرک خبر نامہ بنا سکتی ہیں۔
خبروں کے مندرجات میں کاپی ایڈیٹر، رپورٹر اور ویڈیو ایڈیٹرز کی محنت کم نظر آتی ہے ۔ اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف خبروں کا پیٹ بھرنے کے لیے معمول کے فارمولے پر خبر نامہ تیار کروایا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز filters کی مختلف layers بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ اس کے لیے ایک بڑی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دنوں چینلز میں بہت سی شفٹیں ختم کی جارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند لوگ جب سارے کام سر انجام دیں گے تو تنوع مفقود ہو جائے گا۔ ٹاک شوز میں اینکر پرسن لگے بندھے انداز میں موضوع کی تیاری کئے بغیر پروگرام کرتے ہیں۔ جسکی وجہ سے ناظرین ان سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارامیڈیا لوگوں کے معیار کو آہستہ آہستہ بڑھانے کی بجائے خود عام لوگوں کی سطح پر آگیا ہے۔ ایک خاص انداز میں ایک ہی موضوع کو باربار رگیدا جائے تو ناظرین کی دلچسپی کیونکر برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ہمارے ہاں ترقیاتی صحافت کو بھی بالکل نظر انداز کیا جارہا ہے۔
اگر ہمارے چینلز اس پر توجہ کریں تو ناظرین کی دلچسپی بڑھائی جا سکتی ہے''۔ ٹی وی چینلز کے تفریحی مندرجات کے حوالے سے ڈاکٹر زاہد بلال کا کہنا ہے۔ '' ہمارے ٹی وی چینلز کے تفریحی پروگرام خبروں سے کافی حد تک بہتر قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ تاہم اس میں بھی ہمارے ڈرامے اور مارننگ شوزایک خاص موضوع اور فارمیٹ تک محدود ہو گئے ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ ناظرین کی ضرورتوں کو وہ صرف جزوی طور پر ہی پورا کر رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں جب پاکستانی ڈرامہ متنوع موضوعات، اچھے اسکرپٹ ، بہترین کہانی اور جدید پروڈکشن کے ساتھ سامنے آیا تو وہ انڈین چینلز کے سحر کو توڑنے میں کامیاب ہوا۔ لیکن اب اکثرموضوعات محبت، رقابت اور extra marital affairs کے گرد گھومتے ہیں ۔ان ڈراموں میں اکثر ایسے سینز یا زبان استعمال کی جاتی ہے جو اس قابل نہیں ہوتے کہ آپ اپنی فیملی کے ہمراہ اُنھیں دیکھ سکیں۔
اس حوالے سے دسمبر2017 میں ہونے والاگیلپ پاکستان کا ایک ملک گیر سروے یہ بتاتا ہے کہ 67 فیصد پاکستانیوں نے یہ بات محسوس کرنے کا اظہار کیا کہ ٹی وی کا کوئی مخصوص پروگرام/ ڈرامہ اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔اگرچہ مارننگ شوز خواتین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوئے ہیں مگر معیار کی بات کی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی روایتی فارمولا کے تحت سطحیت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اسکرپٹ اور فارمیٹ پر محنت کی جائے تو یہ بہت کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرامہ اور مارننگ شوز صرف 20 سے50 سال تک کی آڈیینس کے لیے ہوتے ہیں۔ بزرگوں اور بچوں کے لیے اچھے تفریحی پروگرام کی ٹی وی چینلز پر شدید کمی ہے۔ بچوں کے لیے کوئی قابلِ ذکر پروگرام ھمارے چینلز پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں''۔
ٹی وی چینلز کے ضابطہ اخلاق پر عملدارآمد کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ '' ماضی کی نسبت خبروں میں ضابطہ اخلاق پر بہتر طور پر عمل ہورہا ہے۔ چینلز نے ممنوعہ ویڈیوز کو دھندلا نا شروع کر دیا ہے۔ بریکنگ نیوز کا ٹرینڈ بھی کم ہوا ہے۔ ٹاک شوز اور تفریحی پروگراموں کی بات کی جائے تو ضابطہ اخلاق کا اطلاق بہت ڈھیلا محسوس ہوتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے چینلز رضاکارانہ طور پر خود کے ضابطہ اخلاق کو کسی حد تک تو استعمال میں لاتے ہیں مگر ہمارے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کروانے والے اداروں کی غیر سنجیدگی سے اسکے اطلاق میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں دیکھی گئی''۔ ہمارے ٹی وی چینلز اپنے مندرجات میں سماجی ذمہ داری کا کتنا خیال رکھتے ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر زاہد بلال کا کہنا ہے کہ '' سماجی ذمہ داری کا خیال رکھنے کے لیے ایک مضبوط ادارتی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ گیٹ کیپنگ کے ذریعے filters کو استعمال کرسکے۔ یہ بہت سنجیدہ اور محنت طلب کام ہے جس کے لیے بہت تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے چینلز ایسی تجربہ کار ٹیم پرInvest کرنا مناسب خیال نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ہمارے چینلز اپنی سماجی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ نہیں ہو پارہیـ''۔ ٹی وی چینلز کو درپیش چلنجز اور ان کے حل کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ '' آئی ٹی ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی نفوذ پزیری کی وجہ سے ٹی وی چینلز کی حرکیات کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔
اس پوسٹ ماڈرن اور پوسٹ ٹرتھ دور نے ٹی وی کے genere اور فارمیٹ کی حدود ہی کو دھندلا کر دیا ہے۔ یورپ اور امریکہ ان ادوار کی ضروریات کے پیش نظر ان پابندیوں سے آزاد ہو کر ناظرین کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ امریکی طرز پر جب ہمارے چینلز نے پولیٹیکل کامیڈی کے پروگرام شروع کیئے تو اس جدت اور اختراع کوبہت پزیرائی ملی۔ ٹی وی چینلز کو بہت سرعت اور تسلسل کے ساتھ نئے فارمیٹ کو آزمانا چاہئیے تا کہ ورچوئل ریئیلٹی اور cloud کی دنیا سے واقفیت حاصل کرچکی سمارٹ آڈیئنس کو اپنی طرف راغب کیا جا سکے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بہت ہی انفرادی سطح پر جا کر اپنے یوزرز کو معلومات اور تفریح مہیا کرتے ہیں۔ ٹی وی کے لیے آڈیئینس کی تہہ بہ تہہ درجہ بندی بہت بڑا چیلنج ہے۔
اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے چینلز کو مجموعی طور پر اپنا اسپیشلائیزڈ فوکس ڈھونڈنا چاہئے جو کہ اسکی پہچان بن جائے۔ چینلز اپنی نشریات کے مندرجات کی بہت اچھی segmentation کر کہ بھی لوگوں کو مشغول کر سکتے ہیں۔اب لوگوں کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتں اور جمالیاتی ذوق globalized ہو چکا ہے۔ ایک ہی سین اور فوٹیج بار بار نہیں چلائی جا سکتی۔ ہر لحظہ ایک جاندار ، متحرک، اور انسانی ذہن کی فریکوئنسی سے ہم آہنگ بصری مواد کو تمام تر جدید تکنیکی اختراعوں سے لیس ہونا چاہئیے۔ پھر کہیں جاکر وہ ٹی وی ویورشپ کو اعتماد میں لے سکتا ہے۔ بچوں اور teenagers کے لیے پروگرامنگ ٹی وی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔اس سلسلے میںہمارے میڈیا مینجرز کو افریقی اور ترکی ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت جنکے ڈرامے،کارٹونز اور دوسرے پروگرام بچوں اور نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہے ہیں''۔