خوب صورت لاہور
ہر بڑے قدیم‘ تاریخی اور تہذیبی شہر کے حوالے سے ایک جملہ (الفاظ اور زبانوں کے فرق سے قطع نظر) اس...
PESHAWAR:
ہر بڑے قدیم' تاریخی اور تہذیبی شہر کے حوالے سے ایک جملہ (الفاظ اور زبانوں کے فرق سے قطع نظر) اس مفہوم کا ضرور ملتا ہے کہ جس نے ...نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ لاہور شہر کا شمار بھی اسی منتخب فہرست میں ہوتا ہے اس شہر کی آنکھوں کے عروج و زوال کے جتنے منظر دیکھے ہیں اس میدان میں دنیا کے بہت کم شہر اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں، ہر شہر کی طرح لاہور شہر کے بھی دو روپ ہیں ایک کا تعلق اس کے سنگ و خشت اور درو دیوار سے ہے اور دوسرے کا اس کے مکینوں اور ان کی زندگیوں سے۔ کہتے ہیں کہ ہر سوچنے اور خواب دیکھنے والا انسان بیک وقت دو شہروں میں زندگی گزارتا ہے ایک اس شہر میں' جس میں اس کا جسم رہتا ہے اور دوسرا وہ جس میں وہ رہنا چاہتا ہے یعنی اس حقیقی شہر کا ایک تصوراتی روپ۔
چند ماہ قبل لاہور کے سابق ڈی سی او نور الامین مینگل نے مجھے اس کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی جو لاہور کو خوبصورت اور دلکش بنانے کے لیے مختلف منصوبوں پر غور و فکر اور عمل کر رہی ہے۔ میں نے حامی بھرلی کہ اس شہر کی محبت کے مجھ پر بھی بہت سے قرض واجب ہیں لیکن پھر دوسری طرف سے چپ سی چھا گئی۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ نور الامین مینگل کی ٹرانسفر ہو گئی ہے اور یوں ساری بات ہی آئی گئی ہو گئی لیکن اس سے قبل کہ یہ مستقل طور پر طاق نسیاں کا حصہ بن جاتی چند دن قبل موجودہ ڈی سی او لاہور نسیم صادق صاحب کا فون آیا کہ وہ متعلقہ اور موعودہ میٹنگ 21نومبر شام 5 بجے ٹائون ہال لاہور میں منعقد ہو رہی ہے اور چونکہ میرا نور الامین صاحب سے کیا ہوا وعدہ آن ریکارڈ ہے لہٰذا... جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا!
یہ تو تھا پس منظر اس ساری کہانی کا جس کے تسلسل میں خوب صورت لاہور کے حوالے سے اس کالم کی بنیاد پڑی لیکن میں مزید بات کرنے سے پہلے یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کو مشہور فلسطینی شاعر عبدالوہاب ابسیاتی کی ایک نظم سے متعارف کرائوں جس کا میں نے کوئی چالیس برس قبل '' ایک شہر ناپید کا مرثیہ'' کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا، گنجائش کی تنگی کے باعث میں کچھ لائنوں کو حذف کر رہا ہوں۔ ابسیاتی کہتا ہے
''مکھیوں اور لوگوں کی کثرت سے آٹھوں پہر گونجتا یہ مرا شہر ہے
یہیں میں نے سیکھے محبت کے معنی
یہیں پر نفس کے پس و پیش کا فرق جانا
یہیں میں نے دیکھا کہ کیسے گھروں سے بچھڑنے کا غم
آدمی کو زمین کی تہوں میں چھپے عالموں کی طرح روندتا ہے
اسی شہر میں مجھ کو والد نے چیزوں کی پہچان دی
یہ بتایا مجھے
کس طرح صبر کرتے ہیں' کیسے بزرگوں کی پاکیزہ روحوں
سے ملتا ہے فیضان' اس روشنی کا
بہاروں کی نکھری ہوئی تازگی کا
جو اب تک نگاہوں میں اتری نہیں
مرے باپ نے مجھ کو دن رات کے
انتظار مسلسل سے واقف کیا
اور دنیا کے نقشے پہ اس شہر کو ڈھونڈنے کی لگن
دل کو دعا... وہ طلسمات کا شہر ناپید جو
ہو بہو میرے اس شہر کا عکس ہے
اس کی آنکھوں کا رنگ اور پھیکی ہنسی بھی اسی شہر سی ہے
جو نہ ان چیتھڑا پوش آوارہ گردوں کی وحشت سرا ہے
نہ گرمی کے موسم میں ڈستی ہوئی مکھیوں
اور لوگوں کی کثرت سے آٹھوں پہر گونجتا ہے۔
ایک ہی شہر میں بار بار دہرائی جانے والی یہ Tale of two Cities منظر نامے کی جزوی تبدیلی سے قطع نظر آج کے لاہور کی کہانی ہے جس کی ظاہری وضع کے ساتھ ساتھ اس کا تہذیبی مزاج بھی اپنے ماضی کی ایک دھندلی سی پرچھائیں بن کر رہ گیا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت تقریباً چار لاکھ کی آبادی کا یہ شہر اب ایک کروڑ کی حد کو چھو رہا ہے۔ قدیم شہر جو شاہی قلعے کے دامن میں چند دروازوں کے اندر واقع تھا اور جس کی وسعت انگریزوں کے زمانے میں بھی (ماڈل ٹائون کو نکال کر کہ وہ ایک خود کفیل نئی آبادی تھی) ٹائون ہال کے گردا گرد پانچ میل کے دائرے میں سمٹ جاتی تھی اب پانچ گنا سے بھی زیادہ پھیل چکا ہے یعنی نئے شہر کے مقابلے میں اب پرانا شہر ہر اعتبارسے بالکل محدود ہو کر رہ گیا ہے اور چونکہ اس کے پھیلائو میں کسی قسم کی پلاننگ کا خیال نہیںرکھا گیا اس لیے اس کی عمارات' بودو باش کی انفرادیت اورشہروں کا تہذیبی مزاج سب کچھ چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گیا ہے۔
اصولاً تو ''دلکش لاہور''کمیٹی جیسا کوئی ادارہ پچاس کی دہائی میں بھی قائم ہو جانا چاہیے تھا تاکہ اس کی ٹائون پلاننگ کے ساتھ ساتھ تاریخی اور تہذیبی ورثے کی بھی معقول طریقے سے حفاظت کی جا سکتی اور ایک شہرکے اندر دو بلکہ کئی شہر نماآبادیاں اس بے ہنگم طریقے سے فروغ نہ پا سکتیں کہ ان میں چلتے ہوئے یہ شعر ذہنوں میں گونجنے لگتا کہ
گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا
مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے' مکاں' کیا کیا
اس ساری غبار آلود تصویر کا سب سے روشن پہلو یہی ہے کہ دیر سے ہی سہی اہل شہر اور شہر کی انتظامیہ کو ''زیاں'' کا احساس تو ہوا اس میں شک نہیں کہ ایئر پورٹ سے مال روڈ تک اور چند نئی آبادیاں جس لاہور شہر کا منظر پیش کرتی ہیں اسے بڑے اعتماد کے ساتھ اگر دنیا کے نہیں تو کم از کم ایشیا کے بہت سے ترقی یافتہ اور خوب صورت شہروں کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن یہ علاقے لاہور کی اس تہذیب کے نمائندہ نہیں ہیں جن کی وجہ سے لاہورلاہور ہے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کی ترجیحات اسی پرانے لاہور کی خوب صورتی کو بحال کرنے سے رشتہ آرا ہیں اور یوں ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ہمارا لاہور اپنے کھوئے ہوئے حسن کو کسی نہ کسی حد تک دوبارہ حاصل کر سکے گا۔
ہر بڑے قدیم' تاریخی اور تہذیبی شہر کے حوالے سے ایک جملہ (الفاظ اور زبانوں کے فرق سے قطع نظر) اس مفہوم کا ضرور ملتا ہے کہ جس نے ...نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ لاہور شہر کا شمار بھی اسی منتخب فہرست میں ہوتا ہے اس شہر کی آنکھوں کے عروج و زوال کے جتنے منظر دیکھے ہیں اس میدان میں دنیا کے بہت کم شہر اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں، ہر شہر کی طرح لاہور شہر کے بھی دو روپ ہیں ایک کا تعلق اس کے سنگ و خشت اور درو دیوار سے ہے اور دوسرے کا اس کے مکینوں اور ان کی زندگیوں سے۔ کہتے ہیں کہ ہر سوچنے اور خواب دیکھنے والا انسان بیک وقت دو شہروں میں زندگی گزارتا ہے ایک اس شہر میں' جس میں اس کا جسم رہتا ہے اور دوسرا وہ جس میں وہ رہنا چاہتا ہے یعنی اس حقیقی شہر کا ایک تصوراتی روپ۔
چند ماہ قبل لاہور کے سابق ڈی سی او نور الامین مینگل نے مجھے اس کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی جو لاہور کو خوبصورت اور دلکش بنانے کے لیے مختلف منصوبوں پر غور و فکر اور عمل کر رہی ہے۔ میں نے حامی بھرلی کہ اس شہر کی محبت کے مجھ پر بھی بہت سے قرض واجب ہیں لیکن پھر دوسری طرف سے چپ سی چھا گئی۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ نور الامین مینگل کی ٹرانسفر ہو گئی ہے اور یوں ساری بات ہی آئی گئی ہو گئی لیکن اس سے قبل کہ یہ مستقل طور پر طاق نسیاں کا حصہ بن جاتی چند دن قبل موجودہ ڈی سی او لاہور نسیم صادق صاحب کا فون آیا کہ وہ متعلقہ اور موعودہ میٹنگ 21نومبر شام 5 بجے ٹائون ہال لاہور میں منعقد ہو رہی ہے اور چونکہ میرا نور الامین صاحب سے کیا ہوا وعدہ آن ریکارڈ ہے لہٰذا... جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا!
یہ تو تھا پس منظر اس ساری کہانی کا جس کے تسلسل میں خوب صورت لاہور کے حوالے سے اس کالم کی بنیاد پڑی لیکن میں مزید بات کرنے سے پہلے یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کو مشہور فلسطینی شاعر عبدالوہاب ابسیاتی کی ایک نظم سے متعارف کرائوں جس کا میں نے کوئی چالیس برس قبل '' ایک شہر ناپید کا مرثیہ'' کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا، گنجائش کی تنگی کے باعث میں کچھ لائنوں کو حذف کر رہا ہوں۔ ابسیاتی کہتا ہے
''مکھیوں اور لوگوں کی کثرت سے آٹھوں پہر گونجتا یہ مرا شہر ہے
یہیں میں نے سیکھے محبت کے معنی
یہیں پر نفس کے پس و پیش کا فرق جانا
یہیں میں نے دیکھا کہ کیسے گھروں سے بچھڑنے کا غم
آدمی کو زمین کی تہوں میں چھپے عالموں کی طرح روندتا ہے
اسی شہر میں مجھ کو والد نے چیزوں کی پہچان دی
یہ بتایا مجھے
کس طرح صبر کرتے ہیں' کیسے بزرگوں کی پاکیزہ روحوں
سے ملتا ہے فیضان' اس روشنی کا
بہاروں کی نکھری ہوئی تازگی کا
جو اب تک نگاہوں میں اتری نہیں
مرے باپ نے مجھ کو دن رات کے
انتظار مسلسل سے واقف کیا
اور دنیا کے نقشے پہ اس شہر کو ڈھونڈنے کی لگن
دل کو دعا... وہ طلسمات کا شہر ناپید جو
ہو بہو میرے اس شہر کا عکس ہے
اس کی آنکھوں کا رنگ اور پھیکی ہنسی بھی اسی شہر سی ہے
جو نہ ان چیتھڑا پوش آوارہ گردوں کی وحشت سرا ہے
نہ گرمی کے موسم میں ڈستی ہوئی مکھیوں
اور لوگوں کی کثرت سے آٹھوں پہر گونجتا ہے۔
ایک ہی شہر میں بار بار دہرائی جانے والی یہ Tale of two Cities منظر نامے کی جزوی تبدیلی سے قطع نظر آج کے لاہور کی کہانی ہے جس کی ظاہری وضع کے ساتھ ساتھ اس کا تہذیبی مزاج بھی اپنے ماضی کی ایک دھندلی سی پرچھائیں بن کر رہ گیا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت تقریباً چار لاکھ کی آبادی کا یہ شہر اب ایک کروڑ کی حد کو چھو رہا ہے۔ قدیم شہر جو شاہی قلعے کے دامن میں چند دروازوں کے اندر واقع تھا اور جس کی وسعت انگریزوں کے زمانے میں بھی (ماڈل ٹائون کو نکال کر کہ وہ ایک خود کفیل نئی آبادی تھی) ٹائون ہال کے گردا گرد پانچ میل کے دائرے میں سمٹ جاتی تھی اب پانچ گنا سے بھی زیادہ پھیل چکا ہے یعنی نئے شہر کے مقابلے میں اب پرانا شہر ہر اعتبارسے بالکل محدود ہو کر رہ گیا ہے اور چونکہ اس کے پھیلائو میں کسی قسم کی پلاننگ کا خیال نہیںرکھا گیا اس لیے اس کی عمارات' بودو باش کی انفرادیت اورشہروں کا تہذیبی مزاج سب کچھ چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گیا ہے۔
اصولاً تو ''دلکش لاہور''کمیٹی جیسا کوئی ادارہ پچاس کی دہائی میں بھی قائم ہو جانا چاہیے تھا تاکہ اس کی ٹائون پلاننگ کے ساتھ ساتھ تاریخی اور تہذیبی ورثے کی بھی معقول طریقے سے حفاظت کی جا سکتی اور ایک شہرکے اندر دو بلکہ کئی شہر نماآبادیاں اس بے ہنگم طریقے سے فروغ نہ پا سکتیں کہ ان میں چلتے ہوئے یہ شعر ذہنوں میں گونجنے لگتا کہ
گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا
مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے' مکاں' کیا کیا
اس ساری غبار آلود تصویر کا سب سے روشن پہلو یہی ہے کہ دیر سے ہی سہی اہل شہر اور شہر کی انتظامیہ کو ''زیاں'' کا احساس تو ہوا اس میں شک نہیں کہ ایئر پورٹ سے مال روڈ تک اور چند نئی آبادیاں جس لاہور شہر کا منظر پیش کرتی ہیں اسے بڑے اعتماد کے ساتھ اگر دنیا کے نہیں تو کم از کم ایشیا کے بہت سے ترقی یافتہ اور خوب صورت شہروں کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن یہ علاقے لاہور کی اس تہذیب کے نمائندہ نہیں ہیں جن کی وجہ سے لاہورلاہور ہے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کی ترجیحات اسی پرانے لاہور کی خوب صورتی کو بحال کرنے سے رشتہ آرا ہیں اور یوں ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ہمارا لاہور اپنے کھوئے ہوئے حسن کو کسی نہ کسی حد تک دوبارہ حاصل کر سکے گا۔