کتوں کا قصہ
اس دنیا میں طبقاتی تقسیم انسانوں کے علاوہ کتوں میں بھی کر دی گئی ہے۔ اس موقعے پرکمیونسٹ نظریات حامل...
اس دنیا میں طبقاتی تقسیم انسانوں کے علاوہ کتوں میں بھی کر دی گئی ہے۔ اس موقعے پرکمیونسٹ نظریات حامل انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ کی نظم کے چند اشعار یاد آتے ہیں:
آرام شب کو نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو ایک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
یہ کتے دھتکارے ہوئے، آوارہ اور بھوکے غریب ملکوں کے کتے ہوتے ہیں جن پر فیض صاحب نے لکھا تھا اور وہ کتے جن پر اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں یہ زیادہ تر امریکا، یورپ، آسٹریلیا وغیرہ میں ملتے ہیں مگر پسماندہ ملکوں میں بھی پائے جاتے ہیں مگر کم۔ 2012ء کے دوران 61 ارب ڈالر پالتو جانوروں پر خرچ کیے گئے جس میں 53 ارب ڈالر صرف کتوں کی دیکھ بھال پر خرچ کیے گئے۔ امریکا میں ایک کتا پالنے پر اوسطاً 2000 ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔ ہر کتے پر سالانہ 356 ڈالر تو صرف حفظان صحت کی مد میں خرچ ہوتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ مہنگائی اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو؟ جب دنیا کے 2000 کھرب پتیوں کے پاس 138 کھرب ڈالر ہوں اور اسی دنیا میں ہر ماہ بھوک سے 18 لاکھ انسان لقمہ اجل بنتے ہوں وہاں کتوں کی تعداد میں کمی تو کرنا ہی ہے۔۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس ملک میں 10 فیصد لوگ خیراتی کھانوں پر پلتے ہوں، تین کروڑ بے روزگار ہوں (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) وہاں اربوں ڈالر کتوں پر خرچ کرنا کتنی بے حسی، بے ہودگی اور انسان دشمنی ہے۔
ویتنام میں جب امریکا بمباری کر رہا تھا اور لاکھوں انسان مر رہے تھے تو واشنگٹن اور نیویارک میں لاکھوں انسان جنگ مخالف مظاہرے کر رہے تھے مگر اس کے باوجود امریکا ویتنام پر بمباری جاری رکھے ہوئے تھا۔ امریکی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق امریکا اب تک 88 ملکوں میں مداخلت کر چکا ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسان مارے گئے اور دوسری جانب جانوروں سے اتنا پیار۔ یہ کتنا بڑا تضاد ہے اور کتنی سنگین منافقت۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں روزانہ بھوک سے مرنے والوں کی تعداد 75 ہزار ہے جن میں 90 فیصد پسماندہ ملکوں کے لوگ ہیں۔ جب کہ دوسری جانب 9 ممالک (امریکا، روس، چین، پاکستان، اسرائیل، برطانیہ، شمالی کوریا اور بھارت) کے پاس ہزاروں ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں۔ اگر ان کا خاتمہ کر دیا جائے تو دنیا سے چار بار غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ایوبی آمریت میں جب فیضؔ پر انقلابی نظمیں لکھنے کا الزام تھا (حکمرانوں کے مطابق عوام کو اکسانے والی تحریر لکھنا جرم تھا) تو اس وقت مزدوروں پر علامتی نظم ''کتے'' انھوں نے لکھی تھی۔
اور یہ بات کتنی سچ لگتی ہے کہ آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ڈائریکٹروں کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں بے روزگاری، بھوک، افلاس، غربت اور ناخواندگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے تو صرف مزدور طبقہ اور بائیں بازو کے دانشور یہ بات کیا کرتے تھے مگر اب تو بورژوازی (مراعات یافتہ طبقہ) بھی کہنے پر مجبور ہے۔ سوشلسٹ بلاک کے انہدام کے بعد فوکوہاما نے (End of History) تاریخ کا خاتمہ نامی کتاب لکھنے کے فوراً بعد 1997ء اور پھر 2008ء میں عالمی معاشی انہدام ہونے پر (Begining of History) تاریخ کی شروعات لکھی جا چکی۔ بیروزگاری سے تنگ آ کر محنت کشوں نے وال اسٹریٹ قبضہ تحریک شروع کی۔ یورپی انقلاب، عرب انقلاب اور اب عوام عالمی انقلاب کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ حال ہی میں شام میں سامراجی مداخلت کی دھمکی کے بعد مسلسل امریکا، برطانیہ، فرانس، ترکی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اسپین، اٹلی، جرمنی اور دنیا بھر میں جوش و خروش سے جنگ مخالف قوتوں کمیونسٹوں اور انارکسٹوں نے مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔
اب تو اقوام متحدہ کی رپورٹ بھی آ چکی ہے کہ ''شام میں بیرون ممالک سے جنگجو پہنچے ہیں اور مخالفین کو اکسا اور بھڑکا رہے ہیں، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس سے امریکی سامراج حواس باختہ ہو کر اخوان المسلمون، سلفی، النصرۃ، جہاد الاسلام، حماس اور طالبان سے پھر ایک بار کھلم کھلا مصافحہ کر لیا ہے۔ امریکی سی آئی اے نے انھیں اردن، ترکی اور سعودی عرب میں دفاتر کھلوا کر دیے ہیں۔ قطر میں طالبان کا دفتر سعودی عرب کے اختلاف کی وجہ سے نہیں کھلا مگر قطری بادشاہوں سے امریکی سامراج کے قریبی سمجھوتے ہیں عرب لیگ نے امریکی سامراج کے ساتھ مل کر شام پر حملے کے لیے قرارداد پاس کر کے دنیا کے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ شام پر حملے کے بارے میں امریکا، عرب لیگ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہے۔ ہمیں کتوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ کتے تو وفادار ہوتے ہیں جب کہ سامراجی غدار اور عوام دشمن ہوتے ہیں۔ اس لیے کتے کالے ہوں یا سفید صرف کتے ہوتے ہیں۔ محنت کش بھی کالا ہو یا گورا محنت کش ہی ہوتا ہے۔
عرب بادشاہتیں یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں کے ازلی دشمن قرار دیتے آ رہے ہیں۔ لیکن آج شام پر امریکی حملے کے لیے امریکا اور اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں جب کہ سوشلسٹ ممالک، وینزویلا، بولیویا، ایکواڈور، پیراگوا، کیوبا، نکاراگوئے اور مالائے گو، شمالی کوریا نے جو کوئی مسلم ممالک نہیں ہیں، شام پر امریکی جارحیت کی مذمت کی ہے۔ جامع ازہر قاہرہ نے شام پر امریکی مبینہ حملے کی مخالفت اور مذمت کی ہے۔ بقول شیخ سعدی انقلابی دانشور اور شاعر نے درست کہا ہے کہ ''تنگ آمد بجنگ آمد'' تنگ آ کر انھیں انسانوں نے انقلابات برپا کیے۔ غلامی اور جاگیرداری کا خاتمہ کیا اور اب یہی انسان سرمایہ داری کا بھی قلعہ قمع کر کے ایک غیر طبقاتی معاشرہ قائم کریں گے۔ اس وقت دنیا کے درجنوں ملکوں مثال کے طور پر ترکی، انڈونیشیا، جنوبی افریقا، بلغاریہ، ہندوستان، فلپائن، برازیل، اسپین، فرانس اور پرتگال سمیت انقلابی لپیٹ میں برسر پیکار ہیں اور محنت کشوں کے عالمی انقلاب کی جانب رواں دواں ہیں۔