پیپلز پارٹی کا مستقبل
بھٹو خاندان کے چشم و چراغ اور شہید بھٹو کی تیسری نسل کے نمائندہ ملک کی مقبول سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے...
بھٹو خاندان کے چشم و چراغ اور شہید بھٹو کی تیسری نسل کے نمائندہ ملک کی مقبول سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین نوجوان بلاول بھٹو زرداری نے سانحہ کارساز کے شہداء کی برسی کے موقعے پر خطاب کے دوران اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ بینظیر بھٹو کے جوش خطابت جیسا انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے مقابل سیاسی جماعتوں کو واضح پیغام دیا کہ آیندہ عام انتخابات میں ان کے والد آصف علی زرداری جیالوں کی کمان بنیں گے اور وہ خود تیر بن کر حریفوں کا مقابلہ کرینگے۔ بلاول بھٹو کی پر جوش و مدلل تقریر آیندہ کی ملکی سیاست میں ان کے امکانی عزائم کا اظہار ہے جس نے مخالف سیاسی قوتوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگار نوجوان بلاول بھٹو کے جوش خطاب و انداز تقریر پر مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں کوئی اسے کم سنی و ناپختگی کا جوش و ولولہ قرار دے رہا ہے تو کوئی زمینی حقائق سے بلاول کے نابلد ہونے کا طنز کر رہا ہے۔
تاہم ملکی سیاست اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے دانشور اور دور بین لوگ بلاول کے خطاب کو ملک کے سیاسی حالات کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہے تاریخ اس کا پسندیدہ موضوع ہے وہ ملکی سیاست کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہ اور عالمی و علاقائی سیاست کے بدلتے ہوئے رجحانات سے بھی واقف ہے۔ وہ اپنے نانا اور والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھٹو خاندان کی سیاسی روایات کا بھرم قائم رکھے گا اور ملکی سیاست میں ایک باوقار اور قابل احترام مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ بلاول کی قیادت میں پیپلز پارٹی اپنی ساکھ بحال اور عوامی مقبولیت حاصل کر لے گی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بھٹو خاندان کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ دنیا کا کوئی بھی مورخ جب پاکستان کی سیاسی تاریخ رقم کرے گا تو وہ بھٹو خاندان کی سیاسی خدمات اور جانی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کرشماتی شخصیت سے عوام کے دلوں پر راج کرنے، ملک و قوم کی خدمت کرنے اور جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا یہ اسی قربانی کا ثمر ہے کہ پیپلز پارٹی آج بھی ملکی سیاست میں پوری طرح فعال اور سرگرم ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو غریب عوام کی آواز تھے وہ ملک کے کروڑوں غریبوں، محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، طالبعلموں اور پسماندہ طبقے کی آواز تھے وہ ان کے دکھوں، مصائب اور آلام کو سمجھتے تھے اور آخر وقت تک ان کے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ پی پی پی کا عوام دوست منشور اور معروف عوامی نعرہ ''روٹی کپڑا اور مکان'' کل بھی لوگوں کے لیے پرکشش تھا اور آج بھی تروتازہ ہے۔ بھٹو نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا وہ پاکستان کو عالم اسلام کی پہچان اور عالمی برادری میں ایک باوقار مقام دلانے کے لیے کوشاں رہے لیکن سامراجی اور اسلام مخالف قوتوں کو بھٹو شہید کی ''سرگرمیاں'' ناقابل قبول تھیں نتیجتاً 5 جولائی 1977ء کو ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور بالآخر انھیں پھانسی دے کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔
بھٹو شہید اپنے پیچھے جو سیاسی ورثہ چھوڑ گئے اس کی حفاظت کا بیڑہ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اٹھایا۔ جیالے کارکنوں اور مخلص پارٹی رہنماؤں نے بھٹو خاندان کی دونوں خواتین کا بھرپور ساتھ دیا۔ بحالی جمہوریت کے لیے تاریخی جدوجہد کی صعوبتیں برداشت کیں، جیلیں کاٹیں، کوڑے اور لاٹھیاں کھائیں اور جلاوطنی کے دکھ جھیلے لیکن ضیا آمریت کے آگے سرنگوں نہیں کیا۔ مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو نے عوام کے حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد کی 23 اکتوبر کو ان کی برسی کے موقعے پر پارٹی رہنماؤں نے بیگم صاحبہ کی خدمات پر انھیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
بھٹو شہید کی بیٹی دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو نے حقیقی معنوں میں اپنے والد کی سیاسی وارث ہونے کا حق ادا کر دیا وہ عالمی سطح کی مقبول رہنما تھیں پوری دنیا میں انھیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ محترمہ نے اپنے شہید والد کے سیاسی مشن کو آگے بڑھایا۔ محترمہ کی سیاسی بصیرت اور مستقبل کے حوالے سے شہید بھٹو ہمیشہ پر امید رہے وہ کہا کرتے تھے کہ ''برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں بے نظیر ہی بن جائے گی'' اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ محترمہ نے کس طرح اپنے والد کے خواب کی تکمیل کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ وہ پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں انھیں دو مرتبہ وزیر اعظم بننے کا موقع ملا۔ لیکن بدقسمتی سے محلاتی سازشوں کے کرتا دھرتاؤں نے انھیں حکومتی مدت کی تکمیل سے قبل ہی اقتدار سے بے دخل کر دیا، پھر وہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگیں لیکن عوام سے مسلسل رابطہ رکھا مشرف آمریت کے خلاف اور بحالی جمہوریت کے لیے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں لیکن دہشت گردوں نے انھیں اپنا ہدف بنا رکھا تھا بالآخر 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں لیاقت باغ کے مقام پر انھیں شہید کر دیا گیا۔ بی بی کی شہادت کے بعد صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر آصف علی زرداری نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔
فروری 2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مفاہمت کی سیاست کی بنیاد رکھی اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات نے دہشت گرد عناصر کی پی پی پی کو دی گئی ''اوپن وارننگ'' کے باعث رہنما و قائدین بھرپور انتخابی مہم چلانے سے قاصر رہے نتیجتاً پیپلز پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بلاول بھٹو نے بالکل درست کہا کہ گزشتہ انتخابات میں کارکنوں کی زندگی بچانے کے لیے 100 نشستیں قربان کر دیں۔ بلاول بھٹو کے سامنے اب کھلا سیاسی میدان ہے۔ انھیں پارٹی کو منظم و متحد رکھنے، ناراض کارکنوں کو منانے اور عوام میں سیاسی ساکھ بحال کرنے جیسے چیلنج کا سامنا ہے۔ سیاسی حوالے سے مسلم لیگ (ن) ان کی سب سے بڑی حریف ہے حالیہ انتخابات میں پنجاب بھر میں (ن) لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی آیندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں فتح حاصل کرنے کے لیے بلاول بھٹو کو سخت محنت کرنا پڑے گی۔ ان کے پاس اپنے نانا اور والدہ کی جدوجہد کی مثالیں ہیں اور اپنے والد آصف علی زرداری کی سرپرستی بھی حاصل ہے جنھیں مفاہمتی سیاست میں ملکہ حاصل ہے۔ بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کا مستقبل ہے۔ پارٹی کے جیالے کارکنوں، رہنماؤں اور عوام کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں اب دیکھیے بلاول پی پی پی کا مستقبل سنوارنے میں کس قدر کامیاب ہوتے ہیں۔