مسلم اُمہ کے تمام مسائل کا حل اسوئہ رسولﷺ کی پیروی میں ہے

  ’’حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں عالم اسلام کو درپیش چیلنجزکا حل‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


  ’’حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں عالم اسلام کو درپیش چیلنجزکا حل‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

ربیع الاول بابرکت مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ دنیا میں تشریف لائے جن کے طفیل آج تک دنیا میں رحمتیں اور برکتیں نازل ہورہی ہیں۔

آپﷺ امید کی کرن بن کر آئے ، آپؐ نے لوگوں کو امن و محبت کا پیغام دیا اور جینے کا ڈھنگ سکھایا۔ نبی پاکؐ کی حدیث مبارکہ ہے کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جب تک تم ان کو تھامے رہو گے گمراہ نہیں ہو گے، یہ دو چیزیں اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے۔

افسوس ہے کہ آج ہم آپؐ کی تعلیمات سے دور ہیں جس کے باعث مسلم امہ مسائل کا شکار ہے۔ فلسطین، کشمیر، شام، عراق و دیگر اسلامی ممالک جل رہے ہیں جبکہ مسلمان ممالک آپس میں بھی انتشار کا شکار ہیں۔ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ''حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کا حل'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولانا طاہر محمود اشرفی
(مرکزی چیئرمین پاکستان علماء کونسل )

ربیع الاول مقدس مہینہ ہے کیونکہ اس میں رسول اکرمﷺ دنیا میں تشریف لائے۔ یہ رحمت اللعالمین ﷺ کا مہینہ ہے اور ہمارے لیے رحمت و برکت کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جسم کے کسی بھی حصے میں تکلیف ہو تو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔بدقسمتی سے آج مسلمان دوسرے مسلمان کے ظلم کا شکار ہے اور کلمہ گو ہی کلمہ گو کے ہاتھوں مر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو چھوڑ دیا۔اس وقت مسلم امہ کے مسائل کا واحد حل وحدت ، اتحاد اور رسول اکرمﷺ کی سیرت پر عمل کرنا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں حکم دیاہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے لہٰذا ہمیں کسی اور کی پیروی نہیں کرنی بلکہ صرف رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کرنا ہے ۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ آپﷺ کی سیرت پر چل کر ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اگر آپﷺ کے بندے مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو ان کو بتا دیں کہ آپؐ کی اطاعت کریں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بغیر معاشرے فلاح نہیں پاسکتے کیونکہ آپؐ خاتم النبین ہیں۔ یہ آخری امت ہے جس کے پاس آخری کتاب ہے جبکہ راستہ بالکل واضح ہے اور وہ راستہ خوف خدا اور رسول اللہﷺ کی اطاعت ہے۔

جب رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی بات کرتے ہیں تو پھر اس میں ساری انسانیت کی بھلائی شامل ہوجاتی ہے۔آپﷺ نے تو اپنے دشمن کو بھی بد دعا نہیں دی۔ آپﷺ نے اپنے اوپر پتھر مارنے والوں کیلئے بھی کہا کہ اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے دے، یہ جانتے نہیں ہیں۔ مسلم امہ جب تک قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرے گی تب تک اس کی بقاء و سلامتی ممکن نہیں ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی دعا کے نتیجے میں پوری امت کی تباہی نہیں آئے گی مگر جہاں ظلم و جبر زیادہ ہوگا، حق تلفی ہوگی وہاں زلزلوں و قدرتی آفات کی صورت میں عذاب آتے رہیں گے۔ ہمیں اس امت کی بقاء کیلئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ اصحاب رسول ﷺ، اہل بیتؓ اور خلفائے راشدینؓ نے اپنی زندگی آپؐ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں گزاری۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو انؐ کے ساتھی ہیں وہ آپس میں رحمدل ہیں اور کافروں پر سخت ہیں۔ ہمیں رحمدلی، اخوت، پیار اپنانا ہے اور یہی امت کی بقاء، وحدت اور سلامتی کا راستہ ہے۔ اللہ کے بنیﷺ کی حدیث ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جس وقت مسلمان بہت اکثریت میں ہوں گے لیکن مال و زر کی محبت اور اسلام سے دوری کے نتیجے میں وہن ان پر مسلط ہوجائے گا۔ پھر وہ بے جا حب مال میں ذلیل و رسوا ہوں گے۔ آج امت کا جو زوال ہے اس کی بنیادی وجہ فرقہ واریت، فرقہ وارانہ تضادات، دین سے دوری، قرآن و سنت سے دوری، فتنوں کا ابھرنا، حق و سچ کی بات میں مصلحت کا شکار ہونا شامل ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل آپﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کرنے میں ہے۔

قاری زوار بہادر
(مرکزی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان)

اللہ تعالیٰ نے ہمیں 12 ربیع الاول کی صورت میں برکت والا دن عطاء فرمایا ہے اور ساری کائنات اسی دن کے طفیل معرض وجود میں آئی ہے۔ آخری امت کو رسول پاکﷺ عطا فرما کر اللہ نے فرمایا: مومنو! اللہ نے تم پر بڑا احسان فرمایا ہے کہ تم میں ایک عظم الشان رسولؐ مبعوث فرما دیا ہے۔ اللہ کے اس احسان پر خوش ہونا اور شکرا ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں نبیﷺ کی امت میں پیدا فرمایا ہے اور وہ امت جسے سب سے بہترین قرار دیا گیا ہے۔

دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین امت بنا دے۔ آج جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں کیوں خیر امت کہا۔ بہترین امت سے مخاطب صحابہ کرامؓ، اہل بیتؓ، شہداء اور اس امت کے وہ حضرات ہیں جو واقعی قابل فخر ہیں۔ جتنی برائیاں ساری امتوں میں تھیں وہ سب ہم میں موجود ہیں۔ جو امت کسی ایک گناہ پر پکڑی گئی وہ سب ہم میں جمع ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ وہ رحمۃ اللعالمینﷺ کے صدقے ہماری پردہ پوشی کیے ہوئے ہے۔ ایک بار کفار نے آپﷺ سے کہا کہ آسمان سے پتھر کیوں نہیں برستے، آپﷺ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہیں وہ کیوں نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ محبوبؐ! ان سے فرمادیں کہ عذاب تو ہم بھیج دیں مگر تمہارے درمیان میرا محبوب ؐجلوہ گر ہے۔ محبوبﷺ کی آمد پر جتنی خوشی کریں وہ کم ہے مگر اس کے اظہار کیلئے جائز طریقہ اختیار کیا جائے ۔

میلاد النبیؐ پر خرچ کریں مگر اس خوشی میں غرباء، یتیموں، بیواؤں اور پسے ہوئے طبقے کو ضرور شامل کریں۔ 10 لاکھ روپے نعت خوان پر لٹا دیے جاتے ہیں، اگر اس رقم سے کسی بیوہ کی خاموشی سے مدد کردی جائے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ ہزار درجہ خوش ہوجائیں گے۔ اللہ کو نمائش کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کے محبوبﷺ ہمارے ذکر کے محتاج نہیں ہیں، ان کا ذکر تو اللہ خود کرتا ہے۔ اللہ نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! آپ ؐ کو معلوم ہے کہ ہم نے آپؐ کا ذکر کیسے بلندکیا ہے؟ عرض کیا: اللہ ہی جانتا ہے۔ فرمایا: محبوبﷺ! ہم نے آپؐ کا ذکر اس طرح بلند کیا کہ جہاں میرا ذکر ہوگا وہاں تیراؐ ذکر ہوگا۔ اذان، اقامت، خطبہ، نماز، نکاح، نماز جنازہ ، سب جگہ اللہ نے اپنے ساتھ اپنے محبوبﷺ کا ذکر رکھا ہے ۔

حضرت آدمؑ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ نام (محمدؐ)ہمیشہ پیش نظر رکھنا، یہ بہت بڑا وسیلہ ہے۔ پوچھا: ابا جان! آپ ؑنے یہ کہاں سے لیا؟ فرمایا: جب میرے جسم میں اللہ نے روح پھونکی تو میں نے عرش الٰہی پر اللہ کے نام کے ساتھ یہ نام لکھا دیکھا۔ کلمہ کی ترتیب دیکھیں تو اللہ اور محمدؐ کے نام میں کوئی دوسرا حرف نہیں ہے۔ ادھر اللہ آخر پر آیا اور ادھر محمدؐ شروع میں ۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ۔ اللہ نے محبوبﷺ کو اتنی عظمتیں عطا فرمائی ہیں کہ وہ ہماری ریاکاری، دکھاوے، کے محتاج نہیں۔ انؐ سے سچی محبت ہونی چاہیے۔

عشاء کی نماز کے بعد سے فجر تک محفل نعت ہوتی ہے اور فجر کی نماز پڑھے بغیر لوگ گھر چلے جاتے ہیں۔ اس سے ساری رات کا عمل ضائع ہوگیا کہ نماز جیسے فرض کو چھوڑ دیے۔مولانا شاہ احمد رضاؒ نے لکھا ہے کہ اگرکوئی شخص فرض ادا نہ کرے تو اس کا کوئی نفل قبول نہیں۔ زکوٰۃ نہیں دیتا تو کوئی میلاد، صدقہ قبول نہیں۔ زکوٰۃ نہیں دیتے مگر محفل پر لاکھوں خرچ کرتے ہیں، وہ یہ خرچ کرکے فرض سے بزی الذمہ نہیں ہوسکتے۔ یہ نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمیں ان چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ بے شمار امیر لوگ ہر سال ہی حج پر چلے جاتے ہیں، اگروہ ان پیسوں سے کسی کی خاموشی سے مدد کردیں تو حضورﷺ خوش ہوں گے۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے کسی غریب، یتیم کی مدد کی تو انہیں آپﷺ کی زیارت بھی نصیب ہوئی اورانہیں آپﷺ نے شاباش بھی دی۔

میلاد النبیﷺ ہمیں ا س طرف متوجہ کرتا ہے۔ فرمایا: میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا ایسے جنت میں داخل ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاںآپس میں ملی ہوئی ہیں۔آپﷺ کا ذکر ان کا خدا کر رہا ہے۔ اللہ کا ذکر ہر جگہ ہے۔ فرمایا: کائنات کی کوئی شے ایسی نہیں جو اس کی تسبیح بیان نہ کر رہی ہو۔ سرکارﷺ کا ذکر عرش پر، آسمانوں پر سب جگہ ہے۔میلاد کے نام پر غلط رسم و رواج بارگاہ رسالتﷺ میں مقبول نہیں اور ایسا کرنے والے دین کی خدمت نہیں کر رہے۔ آج میلاد کے نام پر بازاروں میں انڈین گانے بج رہے ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے سے بہتر میلاد یورپ کے مسلمان منا رہے ہیں اور وہ انگریزوں کو آپﷺ کے بارے میں لٹریچر دے رہے ہیں۔ اقبالؒ نے فرمایا:

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

ساقی تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش ہے آمادہ اسی نام سے ہے

رحمت عالمﷺ کی برکت سے ہم جی رہے ہیں، انہیؐ کی وجہ سے ہم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہورہی ہیں۔ ہمیں اصل کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جسم واحد کی طرح ایک امت بننے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔

عشق کو اے سکندر نہ بدنام کر

دل کو پابند آئین اسلام کر

جس سے راضی ہوں محبوب وہ کام کر

شرط اول ہے یہی عاشقی کیلئے

علامہ زبیر احمد ظہیر
(امیر مرکزی جماعت اہلحدیث پاکستان)

حکم خداوندی اور وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہر قسم کی صورتحال میں ہم حضرت محمدﷺ کی سیرت طیبہ سے رہنمائی حاصل کریں۔ مسلمان قوم بڑی خوش قسمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی شکل میں جامع اور مکمل آئین و قانون عطا فرمایا ہے اور سرور کائنات محمد رسول اللہﷺ جیسا کامل و اکمل ترین رہبر اور رہنما عطا فرمایا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں قرآن ان میں بہترین رہنمائی کرتا ہے اور رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ نمونہ ہے۔

جو ہر لحاظ سے موزوں ہے زندگی کیلئے

حضورﷺ ایسا نمونہ ہیں آدمی کیلئے

موجودہ حالات میں پوری مسلم امہ تکالیف اور امتحانوں میں مبتلا ہے۔ ہمیں ان حالات میں یہ دیکھنا چاہیے کہ آپﷺ کی سیرت طیبہ کیا رہنمائی کرتی ہے لہٰذا ہمیں رسول اللہﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حضورﷺ سارے جہانوں اور ان میں موجود ساری مخلوقات کیلئے رحمت ہی رحمت تھے۔خاص طور پر مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سرکار دوعالمﷺ کو دوسروں کی بھلائی بالخصوص اہل ایمان کی بھلائی، اپنی جان سے بھی زیادہ عزیزہے ۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، لوگوں کو مصیبتوں سے نکالنا، مشکلات کا خاتمہ کرنا، حضورﷺ کی رحمت اللعالمینی کا خاص پہلو ہے۔ مولانا حالی کا کلام ہے :

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

ہمارے نبی ﷺ غیروں کے کام آتے تھے مگر ہم ہیں کہ ہمارے بھائی مر رہے ہیں، مشکلات کا شکار ہیں لیکن ہم اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بقول شاعر:

دریا کو اپنی موج کی تغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

آج روئے زمین کی مسلمان حکومتیں کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر لاپرواہی، غفلت، بے حسی اور بے اعتناعی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ بقول شاعر:

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

افسوس ہے کہ ہمارے دل پتھر ہوچکے ہیں۔ ہمارے دلوں سے اخوت اسلامی، ہمدردی اور خیر خواہی ختم ہوچکی ہے۔ ہم خود غرضی اور مفاد پرستی کا شکار ہیں، لالچ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کسی کو دوسرے کا خیال نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ فرقہ واریت کسی کے مفاد میں نہیں ہے مگر ہم اس میں پڑے ہوئے ہیں۔ فرقہ واریت سے ہمارے دشمن کو فائدہ ہوتا ہے مگر جب قوموں کی عقل پر پردہ پڑ جائے تو صدیاں بیت جاتی ہیں اور وہ زوال کا ہی شکار رہتی ہیں۔ قرآن میں ہے: ہم اس طرح تمہیں عذاب دیں گے تمہیں شعور بھی نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک ہمارا انتشار، اختلاف بلا وجہ ہے۔کیا ہمارا دشمن دیکھے گا کہ یہ بریلوی ہے، دیوبندی ہے، اہل حدیث ہے یا اہل تشیع؟ کیا کشمیر، فلسطین، عراق و دیگر ممالک میں کسی نے دیکھا؟ وہ تو صرف مسلمان کے دشمن ہیں۔ بقول اقبالؒ:

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہو ںمیں

ہم ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور کافر ہم سب کو مسلمان کہتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اکٹھا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے دوست، دشمن، نفع، نقصان، زندگی اور موت سب ایک ہیں۔ جو ایک کے دشمن ہیں وہ ہم سب کے دشمن ہیں۔مسلمان ، مسلمان کا دشمن نہیں ہوسکتا مگر آج کل بنے ہوئے ہیں اور یہی ہماری تباہی کی وجہ ہے۔ ہمیں سرکار دوعالمﷺ کی سیرت طیبہ سے رہنمائی لینی چاہیے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ جتنا کوئی مخلوق سے محبت کرے گا اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کو محبوب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نعمتیں دینے میں فرق نہیں کرتا۔ اس کا سورج سب پرچمکتا ہے، اس کی زمین پر سب رہتے ہیں،سب کو پانی و نعمتیں مل رہی ہیں مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم تقسیم ہیں۔

حضورﷺ کا حکم ہے: اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپناؤ۔ یعنی اپے اندر وسعت، ہمہ گیری، کشادگی پیدا کرو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ سب کو برداشت کر رہا ہے، تم بھی برداشت کرو۔ جس طرح وہ سب کو اپنی نعمتیں دے رہا ہے تم بھی بلا امتیاز خیر و بھلائی کرو۔ خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓمجسمہ ایثار و قربانی تھے، وہ دوسروں کی ہمدردی اور خیرخواہی کے پیکر تھے اور یہ سبق انہوں نے سرکار دوعالم ﷺ سے سیکھا۔ حضرت بلالؓ فرماتے ہیں کہ ابھی نماز کا وقت نہیں ہوا تھا کہ قافلہ آیا جن کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، چہروں پر نکاہت تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کئی دنوں سے بھوکے ہیں۔

جیسے ہی وہ لوگ مسجد کے صحن میں آکر رکے، آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ بلالؓ اٹھو اوراذان دو۔ وقت سے پہلے ہی لوگوں کو نماز کیلئے بلایا ۔ حضرت بلالؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے انتہائی مختصر ترین نماز پڑھائی۔ نماز پڑھاتے ہی سرور کائناتﷺ کھڑے ہوگئے اور فرمایاکہ یہ لوگ مصیبت زدہ اور پریشان ہیں، تمام لوگ ان کی مدد کے لیے کچھ لائیں ، انہیں خوشی دیں اور دل و دماغ میں مسرت پیدا کریں۔ آپﷺ نے فرض نماز کا وقت بدل دیا اور ان کی پریشانی دور کرنے کیلئے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔

آپﷺ کے پاس مال غنیمت آیا، حضورﷺ لوگوں کی خدمت کیلئے انہیں لونڈیاں اور غلام دے رہے ہیں ۔ پیارے رسولﷺ کی پیاری بیٹی، خاتون جنت، رسول پاکﷺ کی لخت جگر، حسین کریمینؓ کی اماں جان اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی زوجہ محترمہ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ تشریف لاتی ہیں اور فرماتی ہیں یا رسول اللہﷺ چکی پیس پیس کر میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں، آپﷺ سب کو دے رہے ہیں ایک لونڈی، غلام مجھے بھی عطا فرمائی جائے۔

سرور کائنات ؐ نے فرمایا، فاطمہؓ تمہاری تکلیف میں گوارہ کر سکتا ہوں لیکن بدر و احد کے یتیموں کی تکلیفیں میں برداشت نہیں کر سکتا۔ تم میرے لیے تکلیف برداشت کر لو، اللہ کے ہاں مجھے ایسا جواب نہ دینا پڑے کہ میں نے اپنوں کو نوازہ ہے اور دوسروں کا خیال نہیں رکھا۔ فاطمۃ الزہرہؓ کی سیرت مبارکہ سے ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں: تین دن فاقے سے گزر گئے اور کسی نے ایک روٹی ہدیہ کے طور پر پیش کردی۔ ابھی وہ روٹی آئی ہی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ ایک مسکین ترین مسافر ہے، کئی دن سے فاقے سے ہے، اگر اس کیلئے کوئی چیز ہو تو دے دی جائے۔ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ نے فرمایا: یہ ایک روٹی اسے دو اور یہ میری چادر ہے، اسے فلاں یہودی کے پاس بیچ کر اس کے پیسے بھی اسے دے دو تاکہ اس کا گزارہ ہوجائے ، ہماری خیر ہے۔

قرآن نے فرمایا: یہ وہ لوگ تھے جو دوسروں کیلئے اپنا حق ، اپنی زندگی کے تمام معاملات کی قربانی دیتے تھے۔

کاش!آج روئے زمین کے مسلمانوں، حکمرانوں، علماء، سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں، عوام اور پوری امت کو اللہ تعالیٰ مظلوم، محکوم اور دکھی انسانیت کے لیے کچھ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ جس دن ہم نے اسوئہ حسنہﷺ اپنا لی، اس دن ہم میں کامیاب ہوجائیں گے۔

بقول اقبالؒ :

کی محمدﷺ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

علامہ مشتاق حسین جعفری
(چیئرمین عالمی امن اتحاد کونسل پاکستان)

حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات اقدس کائنات کے ہر ذرے اور پوری انسانیت کے لیے باعث رحمت ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: اے حبیبﷺ! ہم نے تجھے تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ سرکار دوعالم ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں حدیث قدسی ہے کہ اے میرے حبیب ! اگر میں تجھے خلق نہ کرتا تو کائنات کی کوئی چیز خلق نہ کرتا۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے، جو نعمتیں اور سعادتیں ہیں یہ حضور ﷺکے صدقے ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری سے پہلے عالم میں جو اندھیرا اور لاقانونیت تھی، آپﷺ کی آمد سے وہ سب ختم ہوگئی، اندھیرے دور ہوگئے، اجالا ہوگیا، رحمتیں نازل ہوئیں اور بہارآئی۔ حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس کی وجہ سے ہر ایک کو عظمت و مقام حاصل ہوا ہے۔ حضرت محمد مصطفیﷺ کی وجہ سے ہی صحابہ کرام ؓ، ازواج مطہراتؓ ، اہل بیتؓ کا مقام ہے۔

دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ

میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفی ؐ کے بعد

آپ ﷺ کو سید الرسل، سید الانبیاء کہا گیا ہے۔ آپﷺ انبیاء ؑ میں سب سے آخر پر تشریف لائے مگر اللہ نے آپﷺ کو سب سے پہلے خلق کیا۔ ہمارے زوال کی وجہ یہ ہے کہ ہم سیرت النبیؐ سے دور ہوچکے ہیں۔ عالم اسلام اس وقت جن مشکلات و چیلنجز سے دوچار ہے، ان سے نجات کا واحد راستہ آپﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل ہے۔ ایسا کرنے سے مقام و بلندی حاصل ہوسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے آپﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنایا جائے اور آپؐ کے نقش قدم پر چلا جائے۔ آپﷺ کی ذات اقدس پوری انسانیت کے لیے رحمت اور نجات دہندہ ہے۔ آپﷺ نے 40 سال کی عمر میں اعلان نبوت کیا۔

میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اللہ نے کہا اے میرے حبیبﷺ! 40 سالہ زندگی میں ان کو قرآن بن کر دکھا دے اور 23 سالہ زندگی میں قرآن پڑھ کر سکھا دے۔ حضرت محمد مصطفیﷺ نے اپنی سیرت، کردار اور عمل سے دنیا کو انسانیت، اخلاقیات اور علم کا درس دیا ہے۔ آپﷺ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے قرآن کریم فرماتا ہے کہ تمہارے لیے بہترین اسوئہ حسنہ حضور ﷺکی ذات ہے۔ ہمیں چاہیے کہ حضورﷺ کی سیرت پر چلتے ہوئے پوری انسانیت کی رہنمائی کریں۔ افسوس ہے کہ وہ امت جسے قرآن مجید امت واحدہ قرار دیتا ہے ،بکھری ہوئی ہے۔ مسلمان ملک دوسرے مسلمان ملک کا دشمن نظر آتا ہے۔

مسلمان، مسلمان کے دست و گریبان ہے۔ قرآن فرماتا ہے، آپس میں اختلافات کو چھوڑ دو، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ افسوس ہے کہ امت ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہے حالانکہ ہمارا قرآن ایک ہے، ہمارا نبیﷺ ایک ہے۔ عالم کفر ایک ہوچکا ہے اور جسے امت واحدہ کہا گیا وہ آپس میں دست و گریبان ہے۔ اگر آپﷺ کی تعلیمات اور سیرت پر عمل کیا جائے تو ہم سب ایک ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں