خوبصورت لوگ

ہمارے پاس برتری کا معیار اچھا گھر، گاڑی، موبائل فون، بہترین لباس، خوراک ہے جبکہ برتری کا معیار تو صرف تقویٰ ہی ہے

برتری اور فضیلت کا معیار صرف تقوٰی ہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج صبح موسم بڑا شدید سرد اور دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ حدِ نگاہ بہت کم تھی۔ ایسے موسم میں تو جی چاہتا ہے بستر میں دبکے رہیں، مگر نوکری پیشہ لوگوں کےلیے فکرِ روزگار اور علم کے قدر دانوں کےلیے تعلیم اس موسم کو انجوائے کرنے سے بھی زیادہ اہم ہے، سو سبھی بستر میں دبکے نہیں رہ سکتے۔ میں ابھی ناشتہ کررہا تھا کہ گلی میں ٹھوکا پیٹی کی آوازیں آنے لگیں۔ میں متجسس طبیعت کے باعث ٹک کر بیٹھ نہ سکا اور باہر جا نکلا۔ گلی میں دیکھا تو ایک جمعدار ہاتھ میں ایک لمبی لوہے کی سلاخ لیے مین ہول کا ڈھکن کھولنے میں مصروف تھا، پاس چند پلاسٹک کے لمبے لمبے پائپ پڑے ہوئے تھے۔

دراصل گلی کے مین ہول گزشتہ چند روز سے بند تھے اور گندا پانی گلی میں جمع ہوکر تعفن پھیلا رہا تھا، بلکہ اب تو واٹر سپلائی کے پانی میں سے بھی بدبو آنے لگی تھی، یعنی قابلِ استعمال نہ رہا تھا۔ شکایت تو میں نے تین چار روز سے درج کروا رکھی تھی لیکن عمل درآمد آج ہوا تھا۔ یہ بھی خوش قسمتی کہ آج تو ہوا۔ میں ایک نظر اُس کام کرتے جمعدار پر ڈال کر اندر چلا آیا۔ سردی کافی تھی۔ ناشتہ کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اُس جمعدار کو کم از کم چائے ہی پوچھ لوں، شدید سردی میں صبح سویرے کام کر رہا ہے۔ میں دوبارہ باہر گیا۔

وہ شخص مین ہول میں پائپ مار کر صفائی کر رہا تھا۔ میں نے کہا ''بھائی چائے لا دوں؟'' تو وہ گویا ہوا ''جی صاحب بڑی مہربانی۔'' میں اتنا سن کر واپس آیا اور ایک کپ میں چائے اور ساتھ بسکٹ رکھ کر ٹرے پکڑی اور باہر جاکر اُسے تھما دی۔

چائے بسکٹ دیکھ کر اُس نے نہایت تشکر آمیر نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ اس کی نگاہوں میں عاجزی اور مہربانی اتنی زیادہ محسوس ہوئی مجھے کہ میں شرمندہ سا ہوگیا۔ جیسے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دینے پر کسی کی پذیرائی ہوتی ہے۔ حالانکہ میں نے تو کوئی کمال نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جو رزق جس کے نصیب میں لکھا تھا، میں نے اس تک پہنچایا ہی تو تھا بس۔ میں نہ کرتا تو کوئی اور یہ کام کردیتا۔ ہو تو جانا ہی تھا۔ لیکن اس شخص کےلیے شائد یہ آؤٹ آف روٹین تھا۔ کیونکہ ہم ایسے لوگوں کو اپنے جیسا انسان سمجھتے ہی کب ہیں، جو اُن کے ساتھ ہمدردانہ سلوک روا رکھیں گے۔


ہمارے لیے ایسے محنت کش لوگ، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کبھی بھی عزت کے لائق نہیں ہوئے۔ وہ ہمارے گٹر صاف کرتے رہ جاتے ہیں، ہمارے جوتے سلائی کرتے ہیں، دروازوں پر کھڑے چوکیداری کرتے ہیں، گلیوں میں گھوم پھر کر پھل سبزی بیچتے یا ٹین ڈبہ، باسی ٹکڑے اکھٹے کرتے ہیں۔ یہ سب ہمارے ایسے لوگوں کےلیے معاشرے کا حقیر طبقہ ہی تو ہیں۔ انہیں عزت کے قابل سمجھنے سے کہیں ہم ان کے جیسے چھوٹے نہ ہوجائیں۔ مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری یہ سوچ ہمیں اپنے رب کے حضور کتنا چھوٹا بنا دیتی ہے۔

ہمارے پاس برتری کا معیار اچھا گھر، گاڑی، موبائل فون، بہترین لباس، خوراک ہے۔ مگر ہمارے نبی محترم غمخوارِ اُمّت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو واضح بتادیا تھا کہ برتری اور فضیلت کا معیار تو صرف تقویٰ ہی ہے۔ آج ہم ایکٹرز، سیاستدان، کامیڈین ایسے لوگوں کی تو بہت عزت کرتے ہیں، چاپلوسی کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ مگر معاشرے میں موجود چھوٹے چھوٹے پیشوں میں موجود بڑے بڑے لوگوں کو نفرت سے دھتکارتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی دنیاوی منصب رکھنے والا کھڑا ہو تو پھولے نہیں سماتے، لیکن کوئی سبزی والا، جمعدار، موچی پیشہ شخص اگر کبھی قریب آکر سلام بھی کرلے تو ہم یوں بدک کر دور ہوتے ہیں جیسے اُس سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو۔

مجھے یاد ہے میرے اسکول کا ایک چپڑاسی تھا صادق۔ بڑا محنتی اور تعاون کرنے والا۔ کچھ عرصہ پہلے کسی کام سے اپنے اسکول جانا ہوا تو وہی صادق اُسی محنت سے اپنے کام میں مصروف نظر آیا۔ سادہ سی شلوار قمیص پہنے، بس سر اور داڑھی کے بالوں میں سفیدی کی چمک اُبھر آئی تھی۔ میں نے اپنی بائک اسٹینڈ میں لگانا چاہی تو وہ جلدی سے قریب آکر بولا صاحب جی مہربانی کرکے اسکوٹر باہر والے اسٹینڈ پر لے جائیں، یہ جگہ صرف طلبا اور اساتذہ کےلیے مخصوص ہے۔ میں نے مسکرا کر اُس کا ہاتھ پکڑا اور بہت محبت سے کہا صادق، میں بھی کبھی یہاں طالبِ علم ہوا کرتا تھا۔ تم بھول گئے ہو؟ اتنا سننا تھا کہ بس، وہ بہت سے بھی زیادہ مہربانی سے پیش آیا اور شرمندہ ہوتے ہوئے بولا میں واقعی بھول گیا ہوں آپ کو۔ آپ یہاں بلاتکلف اسکوٹر کھڑی کرلیں۔

ایسے لوگ آپ سے کچھ نہیں مانگتے، سوائے محبت بھرے لہجے اور پیار کے چند بول کے۔ یہی لوگ درحقیقت اللہ پاک کے وہ بندے ہیں جو عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے ایسے ہرگز نہیں جو فخر، غرور و تکبر سے سر اکڑائے، ٹانگیں پھیلائے چلتے ہیں۔ اپنے سے بڑے منصب والوں کی چاپلوسیاں کرتے ہیں اور نچلے منصب والوں کو کیڑے مکوڑے گردانتے ہیں۔ ہم احساسِ تفاخر میں ساری عمر گزار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی جھٹکا ہمیں جھنجھوڑ کر ہماری آنکھیں کھولتا ہے۔ ہم اپنی آنکھیں ایسے کسی جھٹکے سے پیشتر خود ہی کھول لیں تو بہتر ہے۔ سب انسانوں کو انسان سمجھ لیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story