موئنجو دڑو سے ہڑپہ تک
موئنجو دڑو اور ہڑپہ کی تباہی کے حوالے سے تحقیق کا سلسلہ بدستور جاری ہے
دنیا بھر میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا اس بات پر یقین اور ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں اللہ کے حکم سے خاک میں مل گئیں۔ اس حوالے سے قرآن کریم میں مختلف سورتوں میں مختلف اقوام جن میں قوم لوط، قوم ثمود، قوم عاد، بنی اسرائیل، قوم نوح کے علاوہ قارون اور فرعون کو بھی تباہ و برباد کرنے کا ذکر اور دنیا کےلیے عبرت کا نشان بنانے کے حوالے سے تو ذکر موجود ہے، مگر اس حوالے سے سندھ کی تہذیب موئنجودڑو اور ہڑپہ کی تباہی کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
اس حوالے سے بعض اسلامی اسکالرز اور محققین کا کہنا ہے کہ موئنجو دڑو اور ہڑپہ میں بسنے والے دراصل ''اصحاب الرس'' یعنی کے کنویں والی قوم کے لوگ تھے، جن کا تعلق قوم ثمود کے باقی ماندہ افراد میں سے تھا۔ ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ بعض اسلامی اسکالرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ دراصل اس قوم کو بھی صحیح راستے پر لانے کےلیے ایک نبی بھیجا گیا، لیکن انہوں نے ناصرف نافرمانی کی، بلکہ انھیں قتل کرکے کنویں میں پھینک دیا۔ جس کے بعد ان پر تباہی نازل ہوئی۔ لیکن محققین کی تحقیق اور اسلامی اسکالرز کی یہ باتیں اب تک محض باتیں ہیں اور اسے ثابت نہیں کیا جاسکا۔ جس کی بنیاد پر موئنجو دڑو اور ہڑپہ کی تباہی کے حوالے سے تحقیق کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
وادی سندھ کی ان تہذیبوں کی تباہی کے حوالے سے ماہرین آثار قدیمہ یہ بھی طے نہیں کرسکے ہیں کہ بالآخر یہ تباہی آتشی بارش کے ذریعے ہوئی یا پھر دریا کے کٹائو، زلزلے، قحط سالی یا پھر کسی اور وجہ سے ہوئی۔ موئنجو دڑو اور ہڑپہ کی دریافت نے دنیا کو اس بات پر ہلا کر رکھ دیا کہ 5000 سال پہلے لوگ اس حد تک ترقی یافتہ تھے کہ وہ پکی اینٹوں کے بنے ہوئے مکانات میں رہتے تھے۔ ان کے گھر اور گلیاں باقاعدہ ایک ماسٹر پلان کے تحت آباد تھے۔ پانی کی نکاسی کے حوالے سے انہوں نے زیر زمین ڈھکی ہوئی نالیاں بنا رکھی تھیں۔ اور پینے کے پانی کے ہر گھر کے اوپری اور نچلی منزل کےلیے ایک ہی سائز کے علیحدہ علیحدہ کنویں بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے زرعی اجناس اسٹاک کرنے کےلیے گودام بنانے کے ساتھ تجارتی بازار، جبکہ بچوں کی تعلیم و تربیت کےلیے اسکول اور کالجز بنا رکھے تھے۔
یہ سب سن اور پڑھ کر عجیب سا لگا، ان دونوں تہذیبوں، جو کہ دراصل ایک ہی تہذیب یعنی وادی سندھ کی تہذیب ہے، کو دیکھنے کےلیے دل مچلنے لگا۔ میں نے سب سے پہلے موئنجو دڑو کا رخ کیا۔ موئنجودڑو ریلوے اسٹیشن کے باوجود ٹرین وہاں نہیں رکی اور مجھے لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن پر اتارا۔ جہاں سے موئنجو دڑو کا فاصلہ لگ بھگ 27 کلومیٹر ہے۔ میں نے ایک پرائیویٹ گاڑی کے ذریعے دوبارہ سے موئنجودڑو کا رخ کیا اور کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد سندھ کی تہذیب موئنجودڑو پہنچا۔ سب سے پہلے میری نظر اس بدھسٹ اسٹوپا پر پڑی، جو سب سے زیادہ بلند و بالا تھا مگر کیونکہ قدامت کے اعتبار سے اب اس کے اندر وہ مضبوطی نہیں رہی تھی لہٰذا محکمہ آثار قدیمہ نے اسے بند کررکھا تھا۔ لہٰذا نیچے سے ہی بدھسٹ کی اس عبادت گاہ کو دیکھا اور پھر ایک گائیڈ کی مدد سے چاروں طرف نظر دوڑائی تو موئنجودڑو کا تباہ حال شہر، جو ماضی میں دنیا کا سب سے ترقی یافتہ شہر تھا، نظر آیا۔ جس کے ایک جانب غریبوں کی آبادی کے کھنڈرات تھے اور دوسری جانب امرا کی عمارتوں، کالج، مدرسے و دیگر عمارتوں کے کھنڈرات نظر آئے۔
موئنجودڑو میوزیم کو بھی کوئی جدید میوزیم نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ ایک عام سا میوزیم تھا۔ جس میں ایئرکنڈیشن کے ساتھ ہوا کی آمدورفت کےلیے کوئی کھڑکی، روشن دان نہ ہونے کے باعث پسینے میں نڈھال لوگ میوزیم دیکھنے میں مصروف تھے۔ میوزیم میں موئنجودڑو کی کھدائی کے دوران ملنے والے نوادرات، جن میں ڈانسنگ گرل، زیورات، زرعی آلات، پانی رکھنے کےلیے بڑے بڑے مٹی کے برتن، آتش دان، آئینہ، کشتی، شطرنج، کنگ پریسٹ کے مجسمے، مٹی کے برتن و دیگر نوادرات شامل تھے، دیکھ کر حیرت ہوئی۔ وہاں موجود گائیڈ نے رہنمائی کرتے ہوئے بتایا کہ موئنجودڑو کوئی عام شہر نہیں تھا، بلکہ ایک ترتیب سے بسایا جانے والا شہر تھا اور آج 21 ویں صدی میں اسی فارمولے کے تحت شہر آباد کیے جارہے ہیں۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ آج ملک بھر کے پوش علاقے 5000 سال قبل کے دریافت ہونے والے موئنجودڑو کی ترتیب سے بنائے جارہے ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ گائیڈ نے یہ بھی بتایا کہ آج جو لوگ یوگا کے ذریعے اپنے آپ کو اسمارٹ رکھنے کا جو طریقہ اختیار کررہے ہیں، وہ بھی اسی موئنجودڑو کا تحفہ ہے۔
موئنجودڑو کو خدا حافظ کہہ کر میں ایک بار پھر بذریعہ کار طویل مسافت کے بعد لاڑکانہ پہنچ گیا۔ جہاں ایک روزہ قیام کے بعد میں نے پنجاب کے شہر ساہیوال، جہاں ہڑپہ کا تباہ حال شہر موجود ہے، کا رخ کیا۔ اور وہاں بھی حیرت اسی بات پر ہوئی کہ انگریزوں کی جانب سے ہڑپہ ریلوے اسٹیشن تو ضرور بنایا گیا ہے مگر ٹرین اس اسٹیشن پر بھی نہیں رکتی۔ ٹرین نے مجھے ساہیوال شہر میں اتارا، جہاں سے ایک بار پھر پرائیویٹ کار کے ذریعے ہڑپہ کا سفر، جو کہ لگ بھگ 25کلومیٹر دور تھا، شروع ہوا۔
میں تباہ حال ہڑپہ شہر میں میں داخل ہوا تو عطا محمد نامی گائیڈ نے سب سے پہلے مجھے اس اجڑے شہر میں 4ایسے قدیم درخت دکھائے جو لگ بھگ ایک ہزار سال پرانے تھے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ ان درختوں میں سے ایک درخت اوکا کا ہے اور اوکاڑہ شہر کا نام اسی شہر پر رکھا گیا۔ اس کے علاوہ ان درختوں میں پیلو، کری، جنڈھ کے درخت ہیں، جو صرف اس بنجر اور تباہ حال علاقے میں ہی اگتے ہیں۔ اس کے بعد تھوڑے ہی فاصلے پر اس نے مجھے بلندی کی ایک جگہ سے ہڑپہ کے نچلے حصے کی ایک بستی دکھائی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس بستی میں جو کنواں موجود ہے یہ ایک ڈبل کنواں ہے، جس میں ایک کنویں کے اندر پانی جبکہ دوسرے کے اندر ریتی بجری ہوتی تھی، جس کے سبب پانی ٹھنڈا ہوتا تھا۔ اور آج اسی فارمولے کے تحت پانی کو ٹھنڈا رکھنے کےلیے واٹر کولر بنائے جارہے ہیں۔
ہڑپہ، جس کی اب تک صرف 2 فیصد کھدائی ہوئی ہے، کھدائی کے دوران کروڑوں کی تعداد میں مٹی کے گلاس دریافت ہوئے ہیں۔ جس کے حوالے سے ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا یہ ہے کہ اس شہر میں بسنے والے لوگ میڈیکل سائنس سے پوری طرح واقف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جس گلاس میں پانی پیتے تھے اسے توڑ دیا کرتے تھے تاکہ اسے کوئی دوسرا استعمال نہ کرسکے اور اس کے جراثیم کسی دوسرے کو منتقل نہ ہوسکیں۔
ہڑپہ کا میوزیم گو زیادہ بڑا تو نہیں مگر اس چھوٹے سے میوزیم میں ہڑپہ کی مکمل تاریخ محفوظ تھی۔ میوزیم کے اندر دریافت ہو نے والے 2 ڈھانچوں، جس میں ایک مرد اور ایک عورت کے پنجر تھے، کو دیکھ کر اس دور کے لوگوں کے قد و قامت کا اندازہ ہوا، جو کہ کسی طور 6 سے ساڑھے 6 فٹ سے کم نہیں تھے۔ جبکہ دیگر نوادرات میں موئنجودڑو کی طرح وہاں بھی مٹی کے بڑے بڑے برتن، زیوارات و دیگر نوادرات دیکھنے کو ملے۔ جس میں سب سے منفرد بچوں کے ملنے والے کھلونوں کےلیے بنایا گیا شوکیس تھا، جس میں مٹی کے مختلف اشکال کے کھلونے موجود تھے۔ اس شوکیس کے اندر ایک بہت ہی خوبصورت بچے کی تصویر بھی نمایاں تھی، جسے دیکھ کر میں حیران ہوا۔ گائیڈ نے بتایا کہ اس بچے کا ماضی کی اس تہذیب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ایک ماہر آثار قدیمہ، جو ہڑپہ پر تحقیق کررہے ہیں، نے اس بچے کو بانسری بجاتے دیکھ کر اس کی تصویر بنائی اور یہاں نمایاں کردی ہے۔ میوزیم کے شوکیسوں میں موئنجودڑو میوزیم کے نوادرات سے مماثلت رکھنے والے اور بھی نوادرات تھے۔ لیکن اس میں ایک خاتون کا مجسمہ جو آئینہ پکڑ کر میک اپ کررہی تھی، نمایاں تھا۔ جس کے حوالے سے گائیڈ نے بتایا کہ کھدائی کے دوران ناصرف عورتوں کے زیوارات ملے ہیں بلکہ خواتین کے بناؤ سنگھار کے سامان بھی ملے ہیں۔
ان سب نوادرات کو دیکھ کر مجھے انڈس ویلی سولائزیشن یعنی سندھ کی تہذیب جاننے کا موقع ملا اور اس بات پر فخر بھی ہوا کہ میں اس صوبے کا رہائشی ہوں، جہاں کے لوگ اس وقت، جب دنیا کے لوگ پتوں اور پھلوں کو کھاتے تھے اور اپنے جسم کو پتوں سے چھپانے کے ساتھ غاروں میں رہتے تھے، سندھ کے مہذب لوگ پختہ مکانوں میں رہتے تھے اور اتنے ترقی یافتہ تھے کہ آج 21 ویں صدی میں ان کی ٹاؤن پلاننگ کے تحت ناصرف شہر آباد ہورہے ہیں بلکہ مختلف نظاموں میں ان کے قدیم فارمولوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس حوالے سے بعض اسلامی اسکالرز اور محققین کا کہنا ہے کہ موئنجو دڑو اور ہڑپہ میں بسنے والے دراصل ''اصحاب الرس'' یعنی کے کنویں والی قوم کے لوگ تھے، جن کا تعلق قوم ثمود کے باقی ماندہ افراد میں سے تھا۔ ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ بعض اسلامی اسکالرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ دراصل اس قوم کو بھی صحیح راستے پر لانے کےلیے ایک نبی بھیجا گیا، لیکن انہوں نے ناصرف نافرمانی کی، بلکہ انھیں قتل کرکے کنویں میں پھینک دیا۔ جس کے بعد ان پر تباہی نازل ہوئی۔ لیکن محققین کی تحقیق اور اسلامی اسکالرز کی یہ باتیں اب تک محض باتیں ہیں اور اسے ثابت نہیں کیا جاسکا۔ جس کی بنیاد پر موئنجو دڑو اور ہڑپہ کی تباہی کے حوالے سے تحقیق کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
وادی سندھ کی ان تہذیبوں کی تباہی کے حوالے سے ماہرین آثار قدیمہ یہ بھی طے نہیں کرسکے ہیں کہ بالآخر یہ تباہی آتشی بارش کے ذریعے ہوئی یا پھر دریا کے کٹائو، زلزلے، قحط سالی یا پھر کسی اور وجہ سے ہوئی۔ موئنجو دڑو اور ہڑپہ کی دریافت نے دنیا کو اس بات پر ہلا کر رکھ دیا کہ 5000 سال پہلے لوگ اس حد تک ترقی یافتہ تھے کہ وہ پکی اینٹوں کے بنے ہوئے مکانات میں رہتے تھے۔ ان کے گھر اور گلیاں باقاعدہ ایک ماسٹر پلان کے تحت آباد تھے۔ پانی کی نکاسی کے حوالے سے انہوں نے زیر زمین ڈھکی ہوئی نالیاں بنا رکھی تھیں۔ اور پینے کے پانی کے ہر گھر کے اوپری اور نچلی منزل کےلیے ایک ہی سائز کے علیحدہ علیحدہ کنویں بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے زرعی اجناس اسٹاک کرنے کےلیے گودام بنانے کے ساتھ تجارتی بازار، جبکہ بچوں کی تعلیم و تربیت کےلیے اسکول اور کالجز بنا رکھے تھے۔
یہ سب سن اور پڑھ کر عجیب سا لگا، ان دونوں تہذیبوں، جو کہ دراصل ایک ہی تہذیب یعنی وادی سندھ کی تہذیب ہے، کو دیکھنے کےلیے دل مچلنے لگا۔ میں نے سب سے پہلے موئنجو دڑو کا رخ کیا۔ موئنجودڑو ریلوے اسٹیشن کے باوجود ٹرین وہاں نہیں رکی اور مجھے لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن پر اتارا۔ جہاں سے موئنجو دڑو کا فاصلہ لگ بھگ 27 کلومیٹر ہے۔ میں نے ایک پرائیویٹ گاڑی کے ذریعے دوبارہ سے موئنجودڑو کا رخ کیا اور کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد سندھ کی تہذیب موئنجودڑو پہنچا۔ سب سے پہلے میری نظر اس بدھسٹ اسٹوپا پر پڑی، جو سب سے زیادہ بلند و بالا تھا مگر کیونکہ قدامت کے اعتبار سے اب اس کے اندر وہ مضبوطی نہیں رہی تھی لہٰذا محکمہ آثار قدیمہ نے اسے بند کررکھا تھا۔ لہٰذا نیچے سے ہی بدھسٹ کی اس عبادت گاہ کو دیکھا اور پھر ایک گائیڈ کی مدد سے چاروں طرف نظر دوڑائی تو موئنجودڑو کا تباہ حال شہر، جو ماضی میں دنیا کا سب سے ترقی یافتہ شہر تھا، نظر آیا۔ جس کے ایک جانب غریبوں کی آبادی کے کھنڈرات تھے اور دوسری جانب امرا کی عمارتوں، کالج، مدرسے و دیگر عمارتوں کے کھنڈرات نظر آئے۔
موئنجودڑو میوزیم کو بھی کوئی جدید میوزیم نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ ایک عام سا میوزیم تھا۔ جس میں ایئرکنڈیشن کے ساتھ ہوا کی آمدورفت کےلیے کوئی کھڑکی، روشن دان نہ ہونے کے باعث پسینے میں نڈھال لوگ میوزیم دیکھنے میں مصروف تھے۔ میوزیم میں موئنجودڑو کی کھدائی کے دوران ملنے والے نوادرات، جن میں ڈانسنگ گرل، زیورات، زرعی آلات، پانی رکھنے کےلیے بڑے بڑے مٹی کے برتن، آتش دان، آئینہ، کشتی، شطرنج، کنگ پریسٹ کے مجسمے، مٹی کے برتن و دیگر نوادرات شامل تھے، دیکھ کر حیرت ہوئی۔ وہاں موجود گائیڈ نے رہنمائی کرتے ہوئے بتایا کہ موئنجودڑو کوئی عام شہر نہیں تھا، بلکہ ایک ترتیب سے بسایا جانے والا شہر تھا اور آج 21 ویں صدی میں اسی فارمولے کے تحت شہر آباد کیے جارہے ہیں۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ آج ملک بھر کے پوش علاقے 5000 سال قبل کے دریافت ہونے والے موئنجودڑو کی ترتیب سے بنائے جارہے ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ گائیڈ نے یہ بھی بتایا کہ آج جو لوگ یوگا کے ذریعے اپنے آپ کو اسمارٹ رکھنے کا جو طریقہ اختیار کررہے ہیں، وہ بھی اسی موئنجودڑو کا تحفہ ہے۔
موئنجودڑو کو خدا حافظ کہہ کر میں ایک بار پھر بذریعہ کار طویل مسافت کے بعد لاڑکانہ پہنچ گیا۔ جہاں ایک روزہ قیام کے بعد میں نے پنجاب کے شہر ساہیوال، جہاں ہڑپہ کا تباہ حال شہر موجود ہے، کا رخ کیا۔ اور وہاں بھی حیرت اسی بات پر ہوئی کہ انگریزوں کی جانب سے ہڑپہ ریلوے اسٹیشن تو ضرور بنایا گیا ہے مگر ٹرین اس اسٹیشن پر بھی نہیں رکتی۔ ٹرین نے مجھے ساہیوال شہر میں اتارا، جہاں سے ایک بار پھر پرائیویٹ کار کے ذریعے ہڑپہ کا سفر، جو کہ لگ بھگ 25کلومیٹر دور تھا، شروع ہوا۔
میں تباہ حال ہڑپہ شہر میں میں داخل ہوا تو عطا محمد نامی گائیڈ نے سب سے پہلے مجھے اس اجڑے شہر میں 4ایسے قدیم درخت دکھائے جو لگ بھگ ایک ہزار سال پرانے تھے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ ان درختوں میں سے ایک درخت اوکا کا ہے اور اوکاڑہ شہر کا نام اسی شہر پر رکھا گیا۔ اس کے علاوہ ان درختوں میں پیلو، کری، جنڈھ کے درخت ہیں، جو صرف اس بنجر اور تباہ حال علاقے میں ہی اگتے ہیں۔ اس کے بعد تھوڑے ہی فاصلے پر اس نے مجھے بلندی کی ایک جگہ سے ہڑپہ کے نچلے حصے کی ایک بستی دکھائی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس بستی میں جو کنواں موجود ہے یہ ایک ڈبل کنواں ہے، جس میں ایک کنویں کے اندر پانی جبکہ دوسرے کے اندر ریتی بجری ہوتی تھی، جس کے سبب پانی ٹھنڈا ہوتا تھا۔ اور آج اسی فارمولے کے تحت پانی کو ٹھنڈا رکھنے کےلیے واٹر کولر بنائے جارہے ہیں۔
ہڑپہ، جس کی اب تک صرف 2 فیصد کھدائی ہوئی ہے، کھدائی کے دوران کروڑوں کی تعداد میں مٹی کے گلاس دریافت ہوئے ہیں۔ جس کے حوالے سے ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا یہ ہے کہ اس شہر میں بسنے والے لوگ میڈیکل سائنس سے پوری طرح واقف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جس گلاس میں پانی پیتے تھے اسے توڑ دیا کرتے تھے تاکہ اسے کوئی دوسرا استعمال نہ کرسکے اور اس کے جراثیم کسی دوسرے کو منتقل نہ ہوسکیں۔
ہڑپہ کا میوزیم گو زیادہ بڑا تو نہیں مگر اس چھوٹے سے میوزیم میں ہڑپہ کی مکمل تاریخ محفوظ تھی۔ میوزیم کے اندر دریافت ہو نے والے 2 ڈھانچوں، جس میں ایک مرد اور ایک عورت کے پنجر تھے، کو دیکھ کر اس دور کے لوگوں کے قد و قامت کا اندازہ ہوا، جو کہ کسی طور 6 سے ساڑھے 6 فٹ سے کم نہیں تھے۔ جبکہ دیگر نوادرات میں موئنجودڑو کی طرح وہاں بھی مٹی کے بڑے بڑے برتن، زیوارات و دیگر نوادرات دیکھنے کو ملے۔ جس میں سب سے منفرد بچوں کے ملنے والے کھلونوں کےلیے بنایا گیا شوکیس تھا، جس میں مٹی کے مختلف اشکال کے کھلونے موجود تھے۔ اس شوکیس کے اندر ایک بہت ہی خوبصورت بچے کی تصویر بھی نمایاں تھی، جسے دیکھ کر میں حیران ہوا۔ گائیڈ نے بتایا کہ اس بچے کا ماضی کی اس تہذیب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ایک ماہر آثار قدیمہ، جو ہڑپہ پر تحقیق کررہے ہیں، نے اس بچے کو بانسری بجاتے دیکھ کر اس کی تصویر بنائی اور یہاں نمایاں کردی ہے۔ میوزیم کے شوکیسوں میں موئنجودڑو میوزیم کے نوادرات سے مماثلت رکھنے والے اور بھی نوادرات تھے۔ لیکن اس میں ایک خاتون کا مجسمہ جو آئینہ پکڑ کر میک اپ کررہی تھی، نمایاں تھا۔ جس کے حوالے سے گائیڈ نے بتایا کہ کھدائی کے دوران ناصرف عورتوں کے زیوارات ملے ہیں بلکہ خواتین کے بناؤ سنگھار کے سامان بھی ملے ہیں۔
ان سب نوادرات کو دیکھ کر مجھے انڈس ویلی سولائزیشن یعنی سندھ کی تہذیب جاننے کا موقع ملا اور اس بات پر فخر بھی ہوا کہ میں اس صوبے کا رہائشی ہوں، جہاں کے لوگ اس وقت، جب دنیا کے لوگ پتوں اور پھلوں کو کھاتے تھے اور اپنے جسم کو پتوں سے چھپانے کے ساتھ غاروں میں رہتے تھے، سندھ کے مہذب لوگ پختہ مکانوں میں رہتے تھے اور اتنے ترقی یافتہ تھے کہ آج 21 ویں صدی میں ان کی ٹاؤن پلاننگ کے تحت ناصرف شہر آباد ہورہے ہیں بلکہ مختلف نظاموں میں ان کے قدیم فارمولوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔