کوٹلی مقبرہ حکومتی توجہ کا طلبگار نادر تعمیراتی شاہکار

مقامی لوگ جو نسل در نسل یہیں آباد ہیں وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ مقبرہ جنات نے تعمیر کیا


رانا فیصل جاوید November 23, 2019
کوٹلی مقبرہ تعمیراتی مہارت کا نادر ترین نمونہ ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

کوٹلی مقبرہ گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ مقبرہ تعمیراتی مہارت کا نادر ترین نمونہ ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کاریگروں کی مہارت کو دادِ تحسین پیش کرتا ہے۔ یہ ہشت پہلو مقبرہ مسحورکن خوبصورتی و انفرادی تاریخ کا حامل ہے اور اس میں مغل فنِ تعمیر کی حرارت بکثرت ہے۔ اس مقبرے میں دفن شخصیات اور مقبرہ کی تاریخ کے بارے میں بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں، تاہم اب تک دیے گئے بعض حوالہ جات کے مطابق یہ مقبرہ قاضی شیخ عبدالنبی کی یاد میں بنایا گیا۔ جو شہنشاہ اکبر کے اتالیق اور وقت کے بڑے قاضی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شہنشاہ اکبر نے خودساختہ دین الٰہی کو برِصغیر میں لاگو کیا تو قاضی شیخ عبدالنبی نے بغاوت کردی۔ ان کو ملک بدر کردیا گیا لیکن شہنشاہ اکبر کے دورِ زوال میں وہ واپس آگئے۔ شیخ عبدالنبی کی وفات کے بعد ان کے پیروکاروں اور چاہنے والوں نے یہ مقبرہ 17 ویں صدی میں بنایا۔ مقبرے کے تہہ خانے میں قاضی شیخ عبدالنبی، ان کے صاحبزادے اور مریدِ خاص دفن ہیں۔

اس مقبرے کے بارے میں مستند تاریخ خاموش ہے کہ کب بنا اور کس نے بنایا۔ مقامی لوگ جو نسل در نسل یہیں آباد ہیں وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ مقبرہ جنات نے تعمیر کیا۔ وہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قاضی شیخ عبدالنبی کے چاہنے والوں میں جنات بھی شامل تھے اور انہی جنات نے یہ مقبرہ ایک رات میں تعمیر کیا۔ اپنی اس دلیل کو ثابت کرنے کےلیے وہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ مزار کے قریب نہ کوئی آبادی تھی، نہ نہر، نہ پانی کا کوئی اور ذریعہ، نہ اینٹوں و گارے مٹی کا مناسب انتظام۔ لیکن پھر بھی یہ مقبرہ مقامی آبادی نے ایک رات بعد بنے ہوئے دیکھا۔ تاہم ماہر تعمیرات و آثار قدیمہ کے مطابق یہ انسانی ہاتھوں کی کاوش ہے۔



اس بحث کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے کہ یہ مقبرہ جنات نے تعمیر کیا یا انسانوں نے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تعمیراتی لحاظ سے یہ انمول ترین ہے۔ آج سے 50 سال پہلے اس مقبرے کا موازنہ تاج محل سے کیا جاتا تھا کہ اس پر ٹائلوں کا خوبصورت و دیدہ زیب کام آنکھوں کو خیرہ کردیتا تھا۔ اس مقبرے کی بدقسمتی رہی کہ متعلقہ محکموں نے اس پر توجہ نہ دی۔

گزرتے ماہ و سال اور موسمی سختیاں اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں، بگاڑا تو انسانوں نے بگاڑا۔ طویل عرصہ سے خزانے کی تلاش میں خوار ہوتے نقب زن ٹولوں نے اس مقبرے کے حصے بخیے کردیے ہیں۔ مقامی لوگوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کا نام لے کر کچھ عرصہ قبل ایک گروہ لاہور سے کوٹلی وارد ہوا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ حکومت کی طرف سے اس مقبرے کی مرمت کا کام کرانے آئے ہیں۔ اس کام کےلیے سیدھے سادے عوام سے چندہ بھی وصول کیا۔ یہ گروہ کسی خزانے کی تلاش میں تھا۔ مرمت کے نام پر انہوں نے مقبرے کو ادھیڑنا شروع کردیا۔ مرکزی گنبد کو بھی انہوں نے کافی نقصان پہنچایا۔ تہہ خانے میں بھی کھدائی کی گئی، حتیٰ کہ قبروں کی کھدائی کرکے بے حرمتی کی گئی، کیونکہ قبروں کے نیچے بھی تہہ خانہ تھا۔ قبریں پھر مقامی لوگوں نے دوبارہ بنائیں اور سب سے نچلے تہہ خانے کا راستہ مکمل طور پر بند کردیا گیا۔ اسی طرح مقبرے پر لگی قیمتی اور نایاب ٹائلیں بھی اتار لی گئیں۔ ایک چور کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے دروازہ چوری کیا، قدرت نے اسے سزا دی اور وہ اندھا ہوگیا۔



یہ دیدہ زیب مقبرہ انسانی سفاکیت اور بے حسی کے سامنے زمین بوس ہورہا ہے۔ ایک مینار گرگیا، باقی مینار بھی خستہ حالی کا شکار ہیں، لیکن اپنی آب و تاب کی نشاہدہی اب بھی کرتے ہیں۔ چار دیواری عرصہ گزر چکا معدوم کردی گئی۔ لوگوں نے چار دیواری کی اینٹیں چرا کر اپنے گھروں میں سجا لیں۔ اس مقبرے کی شان بڑھانے والی نفیس اور نایاب ہنر کی مظہر ٹائلوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ مقامی بزرگوں نے بتایا کہ جب روشنی مقبرہ کے پڑتی تو گنبد چمکتا تھا، چاندنی راتوں میں اس کی چمک اور زیادہ بڑھ جایا کرتی تھی۔ 80 کی دہائی میں اس مقبرے کے جاہ وجلال کو زمانے کی نظر کھا گئی۔



اس مقبرے کی خاص پہچان جنگلی کبوتروں کی ڈاریں تھیں جنہوں نے ایک طویل عرصہ تک مقبرہ کو اپنا بسیرہ بنائے رکھا۔ اس یادگار میں کبوتروں کی غٹرغوں کی آواز گونجا کرتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ یہ جنگلی کبوتر بھی انسان کی نہ مٹنے والی بھوک کا شکار ہوگئے۔ انسان نے شکار کرکے ان کبوتروں کی ڈاروں کو اجڑنے پر مجبور کردیا۔ یہ جنگلی کبوتر انسانوں سے ناراض ہوکر اپنا ٹھکانہ بدل گئے اور اس کے بعد سے مقبرے میں ایک اداس کردینے والی ویرانی سی ہے، جیسے اس مقبرے کے درو دیوار کبوتروں کو ستائے جانے پر خفا ہوں۔ اس ویرانی کو مختلف پنچھی اپنی چہکار سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور رونق لگائے رکھتے ہیں، تاہم شام ڈھلتے ہی مقبرہ میں ہُو کا عالم ہوتا کہ یہاں کے مستقل باشندے جنگلی کبوتر تو کب کے یہ در چھوڑ چکے۔

کوٹلی مقبرہ گوجرانوالہ شہر سے کافی دور ہے اور چار اضلاع سیالکوٹ، نارووال، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ کے سرحدی علاقوں کے قریب واقع ہے۔ اس جگہ سے کچھ ہی فاصلے پر نارنگ منڈی کے قریب بارڈر کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ کوٹلی مقبرہ کے مقامی لوگ اس یادگار سے عقیدت رکھتے ہیں۔ بیشتر لوگ کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں اور مقبرہ کے چاروں طرف دور تک پھیلی فصلیں مقبرہ کے حسن کو دوچند کرتی ہیں۔ دور سے ٹھہر کر دیکھا جائے تو فصلوں کے بیچ یہ مقبرہ بہت دلفریب دکھتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس تاریخی تعمیراتی شاہکار کو دیکھتے رہیں۔ غروبِ آفتاب کے وقت تو منظر کی تابناکی اور بڑھ جاتی ہے، جی چاہتا ہے کہ اس خوبصورت منظر کر آنکھ میں قید کرلیا جائے۔



لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس یادگار پر آتی رہتی ہے۔ اگر حکومت اس مقبرے کو اپنی تحویل میں لے کر اس کا مرمتی کام کرائے تو اس جگہ کو ایک حسین سیاحتی مرکز بنایا جاسکتا ہے۔ بطور مہذب شہری ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے تاریخی ورثہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور پوری کوشش کریں کہ ان تعمیراتی فن پاروں کے حسن کو گہنانے نہ دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں