’’مشاعرے میں تشدد کی خبر شایع کرنے پر جون ایلیا شکریہ ادا کرنے دفتر آئے‘‘ اطہر ہاشمی
سوچا تھا کوئی ڈھنگ کی ملازمت ڈھونڈوں گا مگر سُستی کی وجہ سے ’اخبار‘ میں ہی رہ گیا
ملک کے بڑے بڑے تجارتی اداروں کی فلک بوس عمارتوں کو اپنی بانہوں میں لی ہوئی اس شاہ راہ کو 'آئی آئی چندریگر روڈ' کہا جاتا ہے۔۔۔
قدیم کراچی کی اس نگری پر اب اگرچہ جدید شہر کا رنگ خاصا غالب ہے، لیکن اس کے بغلی راستوں اور کونے کھدروں میں گزریے، تو دیکھیے گا کہ گئے وقتوں کی باس اب بھی باقی ہے۔۔۔ بالخصوص جب سورج ڈھل جائے اور آکاش سے رات اترنے لگے۔۔۔ اور یہاں کی جدید عمارتوں کے اکثر مکین جا چکے ہوں، تب پرانی وضع کی کچھ عمارتیں ماحول میں عجیب سنسنی سی دوڑا دیتی ہیں۔۔۔ کیوں کہ یہاں اس وقت بھی بہت سے ہوٹل، پرنٹنگ پریس اور اخبارات وغیرہ کی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں، ہمیں بھی شام ڈھلنے کے بعد دسیوں مرتبہ یہاں آنے کا موقع ملا۔۔۔ جب زمانۂ کالج کے شروع شروع میں 'صحافت' کے معنی پتا چلے تھے۔۔۔ تو گویا کسی بنجارے کو منزل کا سراغ ملا تھا۔۔۔ تب سے نہ جانے کتنی بار اس سڑک کی خاک چھانی۔۔۔ کبھی بن بلائے اور کبھی پکارے جانے پر۔۔۔
کبھی یہ عمارت، کبھی وہ دفتر، کبھی فلاں منزل، فلاں چیمبر اور فلاں ہاؤس۔۔۔ اندھیری گلیوں میں سے نکلتے ہوئے یہ سارے آسیب زدہ سے بغلی راستے درحقیقت مجھے اپنی ایسی راہ معلوم ہوتے تھے کہ جس کا بہت دور تک کوئی انت نہ ہو، کیوں کہ یہاں میں اپنے 'کوائف' ہاتھ میں تھامے مختلف اخبار، رسالے اور خبری ایجینسیوں کے در کھٹکھٹا چکا تھا، مگر کبھی کامران نہ ہو سکا، حالت یہ ہو چکی تھی کہ پھر میں جب بھی اِس مقصد کے لیے 'آئی آئی چندریگر' کا پھیرا لگاتا، تو بلند وبالا بینکوں اور مختلف اداروں کی کی بلندیوں سے تشہیری علامتوں اور نشانوں نیچے اگُلتی ہوئی روشنی میں نیم روشن فٹ پاتھوں پر پیر پٹختا چلتا اور بہ آواز بلند اِس 'سڑک' سے شکوہ کرتا کہ پتا نہیں کتنی بار بلا بلا کر مایوس کرے گی، نہ جانے کب مجھے 'صحافت' شروع کرنے کا موقع ملے گا۔۔۔ میری یہ صدا فراٹے بھرتی گاڑیوں کے شور میں کہیں گھل کر رہ جاتی۔۔۔ ایسے ہی کسی زمانے میں ہم ایک دن 'جسارت' اخبار کے دفتر بھی پہنچے تھے۔۔۔ اور اپنا مدعا لے کر ایک شگفتہ مزاج ہلکی سفید داڑھی والے مدیر کے روبرو تھے۔۔۔
مدیر نے اِس بے روزگار طالب علم سے 'کوائف' وصولنے کے بعد اس کی آنکھوں میں بغور جھانکا تھا، پھر اِس کوائف کو دیکھ کر سوال جواب کیے اور اپنے قلم سے تصحیح کی تھی۔۔۔ ساتھ ساتھ اُن کے پُرمزاح جملوں نے اُس تھکے ماندے نوجوان کو 'ناں' کہنے کے باوجود چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ رخصت کیا تھا۔۔۔ جو دفتر کی سیڑھیاں اترنے کے بعد بس میں سوار ہونے تک بار بار خیال میں آتے رہے۔۔۔ اور پھر شاید بہت دیر تک کے لیے ذہن کے کسی گوشے میں جا کر ٹھیر گئے۔۔۔
یہ روزنامہ 'جسارت' کے مدیر اطہر ہاشمی ہیں، اُن کا دفتر اب 'اکبر روڈ' کے علاقے میں منتقل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کچھ اپنی پرانی یادیں یوں تازہ کیں، بولے کہ میں نے 'نیوز ایڈیٹر' آفتاب سید جیسا ماہر نہیں دیکھا، جو ایک نظر دیکھی ہوئی انگریزی خبروں کے ترجمے کی کمی بیشی بھی بتا دیتا کہ یوں نہیں یوں تھا۔۔۔' جب وہ 'جسارت' آنے والے تھے، تو کشش صدیقی نے کہا کہ وہ بہت سخت آدمی ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ آپ شعبۂ 'میگزین' میں چلے جائیں، چناں چہ اطہر ہاشمی کچھ عرصے وہاں رہے، جب 'نیوز ڈیسک' پر لوٹے، تو آفتاب سید کو بہت نفیس آدمی پایا، پوچھا، تو ایک پرانے ساتھی بولے کہ ان کے سارے کانٹے تو ہم نکال چکے۔
اطہر ہاشمی کے بقول ان کی زندگی کی پہلی ملازمت روزنامہ 'جسارت' میں ہوئی، انہوں نے سوچا تھا کہ یہاں بیٹھ کر کوئی ڈھنگ کی ملازمت تلاش کریں گے، صحافت کی طرف آنے میں کوئی دل چسپی نہ تھی، شعبۂ تاریخ، جامعہ کراچی کے پروفیسر وہاں تدریس کے لیے کہتے، لیکن ہم جہاں بیٹھ گئے، وہاں بیٹھ گئے، یہ سستی اور کاہلی تھی۔ پھر 1994ء میں 'جسارت' کی 'نیوز ایڈیٹری' چھوڑ کر سعودی عرب گئے، وہاں 'عرب نیوز' کے اخبار 'اردو نیوز' (جدہ) کی ادارت کی، پھر 2000ء میں کراچی واپس آکر ایک سال روزنامہ 'امت' سے منسلک رہے۔ اب 2001ء سے 'جسارت' میں مدیر کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
روئے سخن 'جسارت' کی عائد کردہ پابندیوں کی جانب ہوا کہ یہ 'جماعت اسلامی' کا ترجمان ہے، جس پر اطہر ہاشمی نے دعویٰ کیا کہ 'جسارت' میں 'جماعت' کی طرف سے کوئی قدغن نہیں اور یہ آزادی صرف یہاں حاصل ہے، کیوں کہ اس کا کوئی مالک نہیں، یہ خوبی بھی ہے اور خامی بھی، خامی اِن معنوں میں کہ مالک کو نفع نقصان کی پروا ہوتی ہے، جب کہ یہاں جیسے چل رہا ہے، چل رہا ہے۔ ہماری پالیسی یہ ہے کہ کوئی چیز اسلام، پاکستان اور 'جماعت اسلامی' کے خلاف نہ ہو۔۔۔ ویسے ہم 'جماعت' کے خلاف آنے والے بیانات بھی لگا دیتے ہیں۔'' 'جماعت' کی طرف سے اعتراض کے ذکر پر بولے کہ انہیں صرف اپنی خبروں کی اشاعت میں کسی کمی بیشی پر ہو جاتا ہے۔
'انتظامی پابندیوں' سے گفتگو پھر کچھ سوا ہوگئی، وہ بتانے لگے کہ 'ایک مرتبہ 'سن ڈے میگزین' کے سرورق پر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی امریکی حکام کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوئے تصویر لگا دی تھی، جس پر 'آئی بی' وغیرہ کی طرف سے دو کرنل آگئے، میں نے کہا 'بس یہ بتا دو کہ وہاں سگریٹ ملے گا یا نہیں، تو وہ ہنس پڑے، میں نے کہا ''بھئی اگر ملے گا، تو پھر لے چلو مجھے۔'
جنرل پرویز مشرف کی بات چلی تو اطہر ہاشمی مُصر رہے کہ 'اُن کے دور میں مجھ پر تو کوئی دباؤ نہیں آیا!' ہم نے انہیں یاد دلایا کہ اُس عرصے میں جن اخبار وجرائد پر عتاب آیا ان میں 'جسارت' بھی تھا، تو وہ بولے کہ ''مجھے غریب ادمی سمجھ کر چھوڑ دیا ہوگا۔ پھر ہر 'جانور' کی قربانی بھی جائز نہیں ہے، تمہیں پتا ہے نا۔۔۔! یہی سمجھا ہوگا کہ کہ یہ 'کن کٹے' ہیں ان کی کیا قربانی کرنا، بس چھوڑ دیا۔''
ہم نے 'ایم کیو ایم' کی طرف سے دباؤ کا استفسار کیا تو وہ بولے کہ 'بہت دباؤ آتا رہا ہے، دھمکیاں بھی ملیں۔۔۔ کہ تمہارا گھر جانتے ہیں، تمہارے بیوی بچوں کا پتا ہے۔' ہم نے پوچھا کون دھمکاتا تھا، تو انہوں نے کہا کہ 'سلیم شہزاد اور حاجی جلال ہوتے تھے، ہم نے پوچھا کہ 'کبھی کوئی نقصان بھی پہنچایا؟' تو وہ بولے کہ بس فون پر ہی دھمکیاں دیتے تھے کہ یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے، بیوی بیوہ ہو جائے گی! ہم تو رہتے بھی 'فیڈرل بی ایریا' میں تھے۔
رات کو گھر لوٹتے تو 'ٹھاہ، ٹھاہ' کے نعرے لگتے۔۔۔ 'کراچی آپریشن' کے زمانے میں ایک مرتبہ محلے میں داخل ہوا، تونکڑ پر 'ایم کیو ایم' کے لڑکے تاش کھیل رہے تھے، اتنے میں کہیں فائرنگ وغیرہ ہوئی، تو فوجی آگئے، میں لاہور میں رہا، تو پنجابی آتی تھی، میں نے اُن سے پنجابی میں کہا کہ یہاں تو کوئی نہیں، انہوں نے کہا یہ اپنا ہی بھائی ہے اور وہ چلے گئے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ پھر کبھی کسی نے 'جماعتی ٹھاہ' کی آواز کَسی، تو دوسرے نے یاد دلایا کہ 'مت کہو، اس نے ہی کل جان بچائی تھی۔۔۔!'
اطہر ہاشمی بتاتے ہیںکہ 'نصیر ہاشمی جب 'جنگ' میں ہوتے تھے، وہ 'ایم کیو ایم' کے خلاف نہیں لکھ سکتے تھے، اس لیے وہ ایسی خبریں ہمیں دے دیتے تھے۔ یہ خبر بھی انہوں نے ہی ہمیں دی کہ مشاعرے میں جب 'ایم کیو ایم' کے چیئرمین عظیم احمد طارق آئے، تو جون ایلیا نے کہہ دیا کہ یہ آگئے میرے بھائی (رئیس امروہوی) کے قاتل۔۔۔! جس پر قادری نام کے کسی رکن اسمبلی نے ان پر تشدد کیا، ان کے فریکچر ہوا، پھر ان کے پلاستر چڑھا ہوا تھا اور وہ یہ خبر چھاپنے پر ہمارا شکریہ ادا کرنے دفتر آئے۔ اسی طرح اجمل سراج کو بھی مشاعرے سے ہی اٹھا کر کریم آباد پر ان کی کوئی جگہ تھی، وہاں رکھا تھا۔ بہ مشکل چھڑا کر لایا گیا۔'
ایک برس 'امت' اخبار کی نذر کرنے والے اطہر ہاشمی سے ہم نے وہاں کے طور طریقوں کا باب چھیڑا، تو وہ سوچتے ہوئے بولے کہ کوئی پابندی نہیں تھی، رفیق افغان ہر چیز دیکھا کرتے تھے، اب اغلاط دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔' ہمیں جواب نہیں ملا تو ہم نے ذرا تفصیل سے اپنی بات دُہرائی کہ 'امت' کی 'خبر' کا زاویہ الگ ہوتا ہے یا بہت واضح طور پر لگتا ہے کہ 'خبر' نہیں، بلکہ تجزیہ یا پروپیگنڈا ہے، وہ کہنے لگے کہ ''بنیادی بات یہ ہے کہ ایک اخبار کے مدیر ہوتے ہوئے کسی دوسرے اخبار کے بارے میں بات کرنا مناسب نہیں ہے۔'' پھر 'ریکارڈر' کی طرف اشارہ کر کے بولے ''یہ بند کر دیجیے، پھر کرلیجیے اس پر بات!''
لکھنے لکھانے کے حوالے سے اطہر ہاشمی بتاتے ہیں کہ زمانۂ طالب علمی میں رسالہ 'آداب عرض ہے' سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ 1979ء میں ایک مزاحیہ ٹکڑا لکھا، جس پر صلاح الدین نے 'کالم' لکھنے کی تحریک دلائی، یوں ہفتے میں تین دن میں اور تین دن ڈاکٹر طاہر مسعود 'کالم' لکھنے لگے، 10 روپے فی 'کالم' معاوضے میں عیش ہو جاتے تھے، پھر طاہر مسعود نے درخواست لکھ کر معاوضہ 15 روپے کرالیا۔ میں نے اپنے کالموں کا انداز ہمیشہ شگفتہ رکھا۔ تقریباً 14 سال مستقل 'جسارت' میں، پھر چھے برس سعودی عرب میں لکھا، پھر 'تکبیر' اور اب 'جسارت' کے ہفت روزہ 'فرائیڈے اسپیشل' میں مستقلاً اور 'جسارت' میں کبھی کبھار لکھ رہا ہوں۔'
تحریروں کی کتابی صورت دینے کے سوال پر ہزاروں کالم لکھنے والے اطہر ہاشمی بولے کہ اپنے کالموں کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں رکھا۔ ایک ویب سائٹ نے تحریریں بطور 'بلاگ' لگانے کی اجازت لی ہوئی ہے۔ ایک صاحب، کتاب چھاپنے کی اجازت بھی لے کر گئے، لیکن کوئی صورت نہیں بنی۔'
اطہر ہاشمی بتاتے ہیں کہ 'عرب نیوز' میں 'آدھی بات' پورا آدمی کے عنوان سے 'کالم' لکھنے پر اعتراض ہوا کہ خود کو کامل کہہ کر خدانخواستہ توہین رسالت' کر رہا ہوں، جس پر سمجھایا کہ پورے سے مراد پورا کمرا، پورا گھر وغیرہ والے 'پورے' سے ہے۔ کہتے ہیں کہ وہاں ہندوستانی چاہتے تھے کہ 'اردو نیوز' سے پاکستانی نکلیں، تاکہ وہ آجائیں۔ ہم نے کہا یعنی اسلامی 'بھائی چارہ' نہیں؟، تو بولے کہ جب سعودیوں میں نہیں ہے، ہم نے کہا ہندوستانی تو ہمارے ہی خطے کے ہیں؟ جس پر وہ بولے کہ 'بھائی چارہ' وہاں زیادہ ہونا چاہیے، جہاں سے اسلام نکلا، کسی نے کہا تھا نا کہ وہاں سے نکلا ضرور ہے، لیکن واپس نہیں آیا!'
آج کل کی کالم نگاری کے حوالے سے اطہر ہاشمی کہتے ہیں کہ 'کالم' ہلکا پھلکا ہوتا ہے، سنجیدہ نہیں۔ اب عطاالحق قاسمی کے سوا کسی کی بھی تحریر 'کالم' پر پورا نہیں اترتی۔ یہ ٹھیک کہا جاتا ہے کہ آج کل کے 'کالم نگار' مضمون نگار اور مقالہ نگار بن گئے ہیں۔
اطہر ہاشمی کہتے ہیں کہ 'اخباروں میں پڑھ رہا ہوں کہ 'آزادی صحافت' کا مسئلہ ہے، کچھ پابندیاں لگیں، لیکن سب اپنی مرضی سے لکھ اور بول رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ کوئی پابندی ہے۔' ہم نے کچھ شکنجوں کا ذکر کیا تو وہ بولے کہ 'وہ تو ہمیشہ سے رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے تو ٹی وی چینل ہی بند کر دیے تھے۔' ہم نے پوچھا کہ آپ نے 1977ء سے اب تک زیادہ سختیاں کس زمانے میں دیکھیں، تو اپنے روایتی انداز میں بولے کہ ''میرے تو گھر میں ہی سختی ہوتی رہی، باہر تو کوئی نہیں ہوئی۔۔۔''
اُن کے 'جماعت اسلامی' سے تعلق کا پوچھا تو نفی کرتے ہوئے 'الحمدللہ' کہا۔ ہم نے کہا 'الحمدللہ۔۔۔؟ تو بولے 'ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے نا۔ صلاح الدین نے بھی شمولیت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پھر میں پابند ہو جاؤں گا۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کو پیش کش نہیں ہوئی، تو بے ساختہ بولے کہ ''تم کو بتایا تو ہے، ہر جانور کی قربانی نہیں دی جاتی۔''
صحافت مشن یا کاروبار والے نظریے سے متعلق پوچھا کہ کیا کہتے ہیں، تو بولے کہ ''کچھ بھی نہیں کہتے خاموش رہتے ہیں۔ مجید نظامی نے کہا یہ تو صنعت ہے، مشن سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے خلاف پاکستان کے خلاف نہ ہو، باقی نفع نقصان کا تعلق تو انتظامیہ کا ہے۔''
...
میری 'کَھٹ پَٹ' کی اطلاع ملتی تو صلاح الدین کا فون آجاتا
سابق مدیر 'جسارت' صلاح الدین کے حوالے سے اطہر ہاشمی کہتے ہیں کہ وہ بہت بڑے صحافی اور دوسروں کو آگے بڑھانے والے تھے، کوئی سرخی لکھتے تو ہمیں ضرور دکھاتے، میں کہتا ٹھیک ہے، تو اصرار کرتے کہ نہیں غور سے دیکھیں، اگر کچھ بدل دو تو کہتے 'اب ہوئی نا ںبات۔۔۔'' انہوں نے 'تکبیر' کی ڈمی یہیں بنانا شروع کردی تھی، بعد میں جھگڑا جو ہوا وہ تو انہیں جانے کا موقع مل گیا، یہ بعد کی بات ہے کہ اس میں کس کا قصور تھا کس کا نہیں، لیکن 'تکبیر' کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔
'جسارت' چھوڑ کر 'تکبیر' کا اجرا کیا، تو جو لوگ یہاں ان کے مخالف تھے، انہیں بھی 'تکبیر' میں جگہ دی۔ یہاں میری کھٹ پٹ کی اطلاع ملتی، تو وہ فون کرتے کہ آجائیے، آپ کا کمرا تیار ہے۔ میں اگر وہاں چلا جاتا، تو شاید مجھے بھی ثروت جمال اصمعی کی طرح نکلنا پڑتا، 2001ء میں مجھے وہاں سے جسارت آتے ہوئے بہت روکا گیا، لیکن جماعت اسلامی کے کراچی کے امیر گھر پر آگئے تھے، اس لیے 'جسارت' واپس آگیا۔
...
علاؤالدین خلجی پر ایم فل ادھورا رہ گیا
اطہر ہاشمی 18 اگست 1947ء کو بہاول پور میں پیدا ہوئے، آٹھ بھائی اور ایک بہن میں دوسرے نمبر پر تھے۔ والد کاتعلق سہارن پور (یو پی) سے تھا اور وہ 'وزارت صنعت' سے وابستہ تھے۔ والدہ کا انتقال بچپن میں ہوگیا، پھر خالہ کے ہاں تعلیم وتربیت پائی، کہتے ہیں کہ خالو علی گڑھ کے تعلیم یافتہ اور بہاول پور میں ایس ٹی کالج کے پروفیسر تھے انہیں بہاول پور کا سرسید بھی لکھا گیا۔ خالہ کے گھر میں بہت اچھی لائبریری تھی، لیکن غیر نصابی کتابوں کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہ تھی، مگر چھپ چھپا کر نسیم حجازی سے عصمت چغتائی تک بے شمار کتابیں پڑھ لیں، کہتے ہیں کہ افسانے پڑھتے ہوئے ایک کے بعد دوسرا افسانہ پڑھتا چلا جاتا اور سوچتا کہ پچھلے کردار کہاں چلے گئے؟ پانچویں جماعت میں لاہور آگئے اور پھر گریجویشن تک لاہور میں پڑھے۔ تاریخ میں 'ایم اے' کا مرحلہ جامعہ کراچی میں طے ہوا اس کے بعد قائداعظم یونیورسٹی سے 'علاؤ الدین خلجی کے معاشی نظام' پر ایم فل کر رہے تھے، جو بوجوہ ادھورا رہ گیا۔
اس حوالے سے بتاتے ہیںکہ '1977ء میں بھٹو صاحب کے آخری زمانے میں جامعہ بند ہوئی، تو کراچی چلے آئے، یہاں ایک ساتھی 'جسارت' لے آئے۔ ایک سینئر نے کہا بھی تھا کہ خبر بنانا آتی نہیں، پتا نہیں کہاں سے اٹھ کر آجاتے ہیں، بات ان کی غلط نہیں تھی، میں نے کبھی کسی اخبار کے دفتر میں قدم نہیں رکھا تھا، زاہد بخاری نے ترجمے کا ایک ٹیسٹ لیا، پھر ڈیسک پر بٹھا دیا، تین مہینے کا پروبیشن پیریڈ گزارا، جس میں 450 روپے ملے۔
آہستہ آہستہ سارا کام سیکھا اور ترقی کرتے ہوئے 1984ء میں صلاح الدین صاحب کے زمانے میں ہی شفٹ انچارج بن گئے، پھر 'نیوز ایڈیٹر' اور 'میگزین ایڈیٹر' بھی رہے، اب 'ایڈیٹر' کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ شادی کے سوال پر اطہر ہاشمی بولے کہ 'سانحہ' ایسا ہے کہ یاد کرنا پڑے گا، پھر بتایا کہ 1977ء میں شادی ہوئی، تین بیٹے ہیں، جس میں صرف بڑے صاحب زادے کوچۂ صحافت کے راہی ہوئے، ایک نجی چینل سے منسلک رہے، چھوٹے صاحب زادے غیر شادی شدہ ہیں، ابھی پڑھ رہے ہیں۔
اب 'جماعت اسلامی' کوئی اعانت نہیں کرتی!
اطہر ہاشمی نے انکشاف کیا کہ اب 'جماعت اسلامی' جسارت کی کوئی اعانت نہیں کرتی، کہتے ہیں کہ غالباً پہلے تین لاکھ روپے مہینا دیا جاتا تھا، لیکن اب 'جسارت' کا انحصار اپنے وسائل پر ہے۔ بہت سے اخبارات میں چھے، چھے مہینے سے تنخواہ نہیں مل رہی، ہمارے ہاں یہ مسئلہ بس ایک ماہ پہلے ہی آیا۔ 'جماعت' نے اخبار کو بالکل خودمختار کیا ہوا ہے، بس ان کا ایک نمائندہ 'چیف ایگزیکٹو' کے طور پر یہاں بیٹھتا ہے، دیگر اخبارات اور 'جسارت' میں کوئی فرق نہیں، سوائے اس کے کہ ہم سراج الحق کی خبر تین کالمی لگاتے ہیں، دوسرے شاید دو کالم یا ایک کالم لگاتے ہیں۔'
ہم نے کہا 'یعنی اب جماعت نہ کچھ دیتی ہے اور نہ لیتی ہیِ؟' جس پر وہ بے ساختہ بولے 'لینے کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنا اخبار نہیں لیتے۔۔۔ اخبار ہی لے لیں، تو یہ کہیں سے کہیں چلا جائے۔ اصل میں جنرل ضیا کے زمانے میں 'جنگ' اور 'ڈان' وغیرہ سمیت تمام اخبارات کو زمین ملی تھی، ہم نے وہاں 'الخدمت' کے تعاون سے ایک عمارت تعمیر کرالی، وہ 'جسارت' کی ملکیت ہے، اس کا کرایہ آجاتا ہے، جس میں سے آدھا 'الخدمت' کو جاتا ہے۔ اس لیے ہمارا گزارا ہو رہا ہے، لیکن ہمیں تو اس سے غرض نہں، بس ہماری تنخواہ وقت پر مل جائے۔'
سعودی عرب میں بارش کی خبر بھی خود سے نہیں لگا سکتے!
اطہر ہاشمی بتاتے ہیں کہ سعودی عرب میں انہیں ایک نئے ماحول کا تجربہ ہوا، 'اردو نیوز' دراصل 'عرب نیوز' کا اخبار تھا، جو گزشتہ برس بند ہوا، لیکن اس کا 'ملیالم' زبان کا اخبار ابھی جاری ہے۔ وہاں پابندیوں میں لکھنا امتحان سے کم نہ تھا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اس وقت گورنر ریاض تھے، وہ اس کے بورڈ آف گورنرز میں تھے، وہاں حکومت کے خلاف تو درکنار، کسی انتظامی معاملات پر بھی نہیں لکھ سکتے تھے، پاکستانی کہتے کہ یہاں چھوٹے سے حادثے کی خبر تو لگا دیتے ہیں، لیکن وہاں کے بڑے حادثے کی کوئی خبر نہیں دیتے۔ حد تو یہ تھی کہ ہم بارش کی خبر بھی خود سے نہیں دے سکتے تھے، تاوقتے کہ سرکاری خبر ایجینسی یہ خبر جاری نہ کر دے۔ میں نے وزیراعظم بے نظیر کے سعودیہ آنے کی خبر دی، تو وہ بھی روک لی گئی کہ جب تک ہم نہ دیں، آپ نہیں دے سکتے۔' ہم نے کہا 'پھر تو صحافی نہ ہوا کلرک ہوگیا؟' وہ بولے کہ 'بالکل، اب اسی کلرکی میں جتنا کام کر سکتے ہیں کرلیجیے، پھر ہم ادھر والوں اور وہاں کے اردو پڑھنے والوں کے لیے تو لکھ سکتے ہیں ناں۔ یہ پابندی صرف سعودی عرب کے حوالے سے ہے۔
اخبارات کے لیے 'نہ پڑھنے' کا رجحان بڑا مسئلہ ہے!
آج دیگر جدید ذرایع اطلاعات کا اخبار پر اثر پوچھا تو وہ بولے 'اصل مسئلہ تو نہ پڑھنے کے رجحان سے پیدا ہو رہا ہے، ہمارے گھر میں چار اخبار آتے ہیں، مگر کوئی بچہ ہاتھ نہیں لگاتا۔ اخبار میں قاری سہولت سے ایک دفعہ میں تفصیلی خبر جان سکتا ہے، ٹی وی پر خبر آکر گزر جاتی ہے اور زیادہ تفصیلی خبر نہیں ہوتی۔' ہم نے کہا کہ 'اب تو بہ ذریعہ انٹرنیٹ موبائل میں ہی خبروں کی یہ تفصیل بھی مہیا کر دی جاتی ہیں۔' جس پر وہ کہتے ہیں کہ ابھی ہر ہاتھ میں جدید موبائل نہیں۔
مستقبل میں یہ مسابقت تو ہوگی، لیکن موبائل سے نگاہ پر بھی اثر پڑے گا، مجھے دیکھیں، اب بھی عینک نہیں لگی۔' وہ کہتے ہیںکہ 'اخبار میں خبروں کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں، جو قارئین پڑھنا چاہتے ہیں۔' ہم نے پوچھا کیا اخبار کی طباعت واشاعت اور تقسیم اتنی سستی ہے کہ 'اخبار' چاہے کہ اس کی اشاعت اور گردش بڑھے؟ وہ بولے کہ اخبار کی آمدنی کا انحصار اشتہار پر ہے، سرکولیشن کی بھی اہمیت ہے، ہر اخبار چاہتا ہے کہ وہ سارے لوگوں تک پہنچے، لیکن تیکنیکی طور پر یہ بات درست ہے، مجھے سب سے پہلے یہ بات ایک 'ڈائجسٹ' کے بارے میں پتا چلی کہ وہ اپنے آمدن کے لحاظ سے اتنا ہی 'پرچا' چھاپ سکتے ہیں، تب مجھے حیرت ہوئی تھی، مگر یہ حقیقت ہے۔
قدیم کراچی کی اس نگری پر اب اگرچہ جدید شہر کا رنگ خاصا غالب ہے، لیکن اس کے بغلی راستوں اور کونے کھدروں میں گزریے، تو دیکھیے گا کہ گئے وقتوں کی باس اب بھی باقی ہے۔۔۔ بالخصوص جب سورج ڈھل جائے اور آکاش سے رات اترنے لگے۔۔۔ اور یہاں کی جدید عمارتوں کے اکثر مکین جا چکے ہوں، تب پرانی وضع کی کچھ عمارتیں ماحول میں عجیب سنسنی سی دوڑا دیتی ہیں۔۔۔ کیوں کہ یہاں اس وقت بھی بہت سے ہوٹل، پرنٹنگ پریس اور اخبارات وغیرہ کی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں، ہمیں بھی شام ڈھلنے کے بعد دسیوں مرتبہ یہاں آنے کا موقع ملا۔۔۔ جب زمانۂ کالج کے شروع شروع میں 'صحافت' کے معنی پتا چلے تھے۔۔۔ تو گویا کسی بنجارے کو منزل کا سراغ ملا تھا۔۔۔ تب سے نہ جانے کتنی بار اس سڑک کی خاک چھانی۔۔۔ کبھی بن بلائے اور کبھی پکارے جانے پر۔۔۔
کبھی یہ عمارت، کبھی وہ دفتر، کبھی فلاں منزل، فلاں چیمبر اور فلاں ہاؤس۔۔۔ اندھیری گلیوں میں سے نکلتے ہوئے یہ سارے آسیب زدہ سے بغلی راستے درحقیقت مجھے اپنی ایسی راہ معلوم ہوتے تھے کہ جس کا بہت دور تک کوئی انت نہ ہو، کیوں کہ یہاں میں اپنے 'کوائف' ہاتھ میں تھامے مختلف اخبار، رسالے اور خبری ایجینسیوں کے در کھٹکھٹا چکا تھا، مگر کبھی کامران نہ ہو سکا، حالت یہ ہو چکی تھی کہ پھر میں جب بھی اِس مقصد کے لیے 'آئی آئی چندریگر' کا پھیرا لگاتا، تو بلند وبالا بینکوں اور مختلف اداروں کی کی بلندیوں سے تشہیری علامتوں اور نشانوں نیچے اگُلتی ہوئی روشنی میں نیم روشن فٹ پاتھوں پر پیر پٹختا چلتا اور بہ آواز بلند اِس 'سڑک' سے شکوہ کرتا کہ پتا نہیں کتنی بار بلا بلا کر مایوس کرے گی، نہ جانے کب مجھے 'صحافت' شروع کرنے کا موقع ملے گا۔۔۔ میری یہ صدا فراٹے بھرتی گاڑیوں کے شور میں کہیں گھل کر رہ جاتی۔۔۔ ایسے ہی کسی زمانے میں ہم ایک دن 'جسارت' اخبار کے دفتر بھی پہنچے تھے۔۔۔ اور اپنا مدعا لے کر ایک شگفتہ مزاج ہلکی سفید داڑھی والے مدیر کے روبرو تھے۔۔۔
مدیر نے اِس بے روزگار طالب علم سے 'کوائف' وصولنے کے بعد اس کی آنکھوں میں بغور جھانکا تھا، پھر اِس کوائف کو دیکھ کر سوال جواب کیے اور اپنے قلم سے تصحیح کی تھی۔۔۔ ساتھ ساتھ اُن کے پُرمزاح جملوں نے اُس تھکے ماندے نوجوان کو 'ناں' کہنے کے باوجود چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ رخصت کیا تھا۔۔۔ جو دفتر کی سیڑھیاں اترنے کے بعد بس میں سوار ہونے تک بار بار خیال میں آتے رہے۔۔۔ اور پھر شاید بہت دیر تک کے لیے ذہن کے کسی گوشے میں جا کر ٹھیر گئے۔۔۔
یہ روزنامہ 'جسارت' کے مدیر اطہر ہاشمی ہیں، اُن کا دفتر اب 'اکبر روڈ' کے علاقے میں منتقل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کچھ اپنی پرانی یادیں یوں تازہ کیں، بولے کہ میں نے 'نیوز ایڈیٹر' آفتاب سید جیسا ماہر نہیں دیکھا، جو ایک نظر دیکھی ہوئی انگریزی خبروں کے ترجمے کی کمی بیشی بھی بتا دیتا کہ یوں نہیں یوں تھا۔۔۔' جب وہ 'جسارت' آنے والے تھے، تو کشش صدیقی نے کہا کہ وہ بہت سخت آدمی ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ آپ شعبۂ 'میگزین' میں چلے جائیں، چناں چہ اطہر ہاشمی کچھ عرصے وہاں رہے، جب 'نیوز ڈیسک' پر لوٹے، تو آفتاب سید کو بہت نفیس آدمی پایا، پوچھا، تو ایک پرانے ساتھی بولے کہ ان کے سارے کانٹے تو ہم نکال چکے۔
اطہر ہاشمی کے بقول ان کی زندگی کی پہلی ملازمت روزنامہ 'جسارت' میں ہوئی، انہوں نے سوچا تھا کہ یہاں بیٹھ کر کوئی ڈھنگ کی ملازمت تلاش کریں گے، صحافت کی طرف آنے میں کوئی دل چسپی نہ تھی، شعبۂ تاریخ، جامعہ کراچی کے پروفیسر وہاں تدریس کے لیے کہتے، لیکن ہم جہاں بیٹھ گئے، وہاں بیٹھ گئے، یہ سستی اور کاہلی تھی۔ پھر 1994ء میں 'جسارت' کی 'نیوز ایڈیٹری' چھوڑ کر سعودی عرب گئے، وہاں 'عرب نیوز' کے اخبار 'اردو نیوز' (جدہ) کی ادارت کی، پھر 2000ء میں کراچی واپس آکر ایک سال روزنامہ 'امت' سے منسلک رہے۔ اب 2001ء سے 'جسارت' میں مدیر کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
روئے سخن 'جسارت' کی عائد کردہ پابندیوں کی جانب ہوا کہ یہ 'جماعت اسلامی' کا ترجمان ہے، جس پر اطہر ہاشمی نے دعویٰ کیا کہ 'جسارت' میں 'جماعت' کی طرف سے کوئی قدغن نہیں اور یہ آزادی صرف یہاں حاصل ہے، کیوں کہ اس کا کوئی مالک نہیں، یہ خوبی بھی ہے اور خامی بھی، خامی اِن معنوں میں کہ مالک کو نفع نقصان کی پروا ہوتی ہے، جب کہ یہاں جیسے چل رہا ہے، چل رہا ہے۔ ہماری پالیسی یہ ہے کہ کوئی چیز اسلام، پاکستان اور 'جماعت اسلامی' کے خلاف نہ ہو۔۔۔ ویسے ہم 'جماعت' کے خلاف آنے والے بیانات بھی لگا دیتے ہیں۔'' 'جماعت' کی طرف سے اعتراض کے ذکر پر بولے کہ انہیں صرف اپنی خبروں کی اشاعت میں کسی کمی بیشی پر ہو جاتا ہے۔
'انتظامی پابندیوں' سے گفتگو پھر کچھ سوا ہوگئی، وہ بتانے لگے کہ 'ایک مرتبہ 'سن ڈے میگزین' کے سرورق پر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی امریکی حکام کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوئے تصویر لگا دی تھی، جس پر 'آئی بی' وغیرہ کی طرف سے دو کرنل آگئے، میں نے کہا 'بس یہ بتا دو کہ وہاں سگریٹ ملے گا یا نہیں، تو وہ ہنس پڑے، میں نے کہا ''بھئی اگر ملے گا، تو پھر لے چلو مجھے۔'
جنرل پرویز مشرف کی بات چلی تو اطہر ہاشمی مُصر رہے کہ 'اُن کے دور میں مجھ پر تو کوئی دباؤ نہیں آیا!' ہم نے انہیں یاد دلایا کہ اُس عرصے میں جن اخبار وجرائد پر عتاب آیا ان میں 'جسارت' بھی تھا، تو وہ بولے کہ ''مجھے غریب ادمی سمجھ کر چھوڑ دیا ہوگا۔ پھر ہر 'جانور' کی قربانی بھی جائز نہیں ہے، تمہیں پتا ہے نا۔۔۔! یہی سمجھا ہوگا کہ کہ یہ 'کن کٹے' ہیں ان کی کیا قربانی کرنا، بس چھوڑ دیا۔''
ہم نے 'ایم کیو ایم' کی طرف سے دباؤ کا استفسار کیا تو وہ بولے کہ 'بہت دباؤ آتا رہا ہے، دھمکیاں بھی ملیں۔۔۔ کہ تمہارا گھر جانتے ہیں، تمہارے بیوی بچوں کا پتا ہے۔' ہم نے پوچھا کون دھمکاتا تھا، تو انہوں نے کہا کہ 'سلیم شہزاد اور حاجی جلال ہوتے تھے، ہم نے پوچھا کہ 'کبھی کوئی نقصان بھی پہنچایا؟' تو وہ بولے کہ بس فون پر ہی دھمکیاں دیتے تھے کہ یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے، بیوی بیوہ ہو جائے گی! ہم تو رہتے بھی 'فیڈرل بی ایریا' میں تھے۔
رات کو گھر لوٹتے تو 'ٹھاہ، ٹھاہ' کے نعرے لگتے۔۔۔ 'کراچی آپریشن' کے زمانے میں ایک مرتبہ محلے میں داخل ہوا، تونکڑ پر 'ایم کیو ایم' کے لڑکے تاش کھیل رہے تھے، اتنے میں کہیں فائرنگ وغیرہ ہوئی، تو فوجی آگئے، میں لاہور میں رہا، تو پنجابی آتی تھی، میں نے اُن سے پنجابی میں کہا کہ یہاں تو کوئی نہیں، انہوں نے کہا یہ اپنا ہی بھائی ہے اور وہ چلے گئے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ پھر کبھی کسی نے 'جماعتی ٹھاہ' کی آواز کَسی، تو دوسرے نے یاد دلایا کہ 'مت کہو، اس نے ہی کل جان بچائی تھی۔۔۔!'
اطہر ہاشمی بتاتے ہیںکہ 'نصیر ہاشمی جب 'جنگ' میں ہوتے تھے، وہ 'ایم کیو ایم' کے خلاف نہیں لکھ سکتے تھے، اس لیے وہ ایسی خبریں ہمیں دے دیتے تھے۔ یہ خبر بھی انہوں نے ہی ہمیں دی کہ مشاعرے میں جب 'ایم کیو ایم' کے چیئرمین عظیم احمد طارق آئے، تو جون ایلیا نے کہہ دیا کہ یہ آگئے میرے بھائی (رئیس امروہوی) کے قاتل۔۔۔! جس پر قادری نام کے کسی رکن اسمبلی نے ان پر تشدد کیا، ان کے فریکچر ہوا، پھر ان کے پلاستر چڑھا ہوا تھا اور وہ یہ خبر چھاپنے پر ہمارا شکریہ ادا کرنے دفتر آئے۔ اسی طرح اجمل سراج کو بھی مشاعرے سے ہی اٹھا کر کریم آباد پر ان کی کوئی جگہ تھی، وہاں رکھا تھا۔ بہ مشکل چھڑا کر لایا گیا۔'
ایک برس 'امت' اخبار کی نذر کرنے والے اطہر ہاشمی سے ہم نے وہاں کے طور طریقوں کا باب چھیڑا، تو وہ سوچتے ہوئے بولے کہ کوئی پابندی نہیں تھی، رفیق افغان ہر چیز دیکھا کرتے تھے، اب اغلاط دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔' ہمیں جواب نہیں ملا تو ہم نے ذرا تفصیل سے اپنی بات دُہرائی کہ 'امت' کی 'خبر' کا زاویہ الگ ہوتا ہے یا بہت واضح طور پر لگتا ہے کہ 'خبر' نہیں، بلکہ تجزیہ یا پروپیگنڈا ہے، وہ کہنے لگے کہ ''بنیادی بات یہ ہے کہ ایک اخبار کے مدیر ہوتے ہوئے کسی دوسرے اخبار کے بارے میں بات کرنا مناسب نہیں ہے۔'' پھر 'ریکارڈر' کی طرف اشارہ کر کے بولے ''یہ بند کر دیجیے، پھر کرلیجیے اس پر بات!''
لکھنے لکھانے کے حوالے سے اطہر ہاشمی بتاتے ہیں کہ زمانۂ طالب علمی میں رسالہ 'آداب عرض ہے' سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ 1979ء میں ایک مزاحیہ ٹکڑا لکھا، جس پر صلاح الدین نے 'کالم' لکھنے کی تحریک دلائی، یوں ہفتے میں تین دن میں اور تین دن ڈاکٹر طاہر مسعود 'کالم' لکھنے لگے، 10 روپے فی 'کالم' معاوضے میں عیش ہو جاتے تھے، پھر طاہر مسعود نے درخواست لکھ کر معاوضہ 15 روپے کرالیا۔ میں نے اپنے کالموں کا انداز ہمیشہ شگفتہ رکھا۔ تقریباً 14 سال مستقل 'جسارت' میں، پھر چھے برس سعودی عرب میں لکھا، پھر 'تکبیر' اور اب 'جسارت' کے ہفت روزہ 'فرائیڈے اسپیشل' میں مستقلاً اور 'جسارت' میں کبھی کبھار لکھ رہا ہوں۔'
تحریروں کی کتابی صورت دینے کے سوال پر ہزاروں کالم لکھنے والے اطہر ہاشمی بولے کہ اپنے کالموں کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں رکھا۔ ایک ویب سائٹ نے تحریریں بطور 'بلاگ' لگانے کی اجازت لی ہوئی ہے۔ ایک صاحب، کتاب چھاپنے کی اجازت بھی لے کر گئے، لیکن کوئی صورت نہیں بنی۔'
اطہر ہاشمی بتاتے ہیں کہ 'عرب نیوز' میں 'آدھی بات' پورا آدمی کے عنوان سے 'کالم' لکھنے پر اعتراض ہوا کہ خود کو کامل کہہ کر خدانخواستہ توہین رسالت' کر رہا ہوں، جس پر سمجھایا کہ پورے سے مراد پورا کمرا، پورا گھر وغیرہ والے 'پورے' سے ہے۔ کہتے ہیں کہ وہاں ہندوستانی چاہتے تھے کہ 'اردو نیوز' سے پاکستانی نکلیں، تاکہ وہ آجائیں۔ ہم نے کہا یعنی اسلامی 'بھائی چارہ' نہیں؟، تو بولے کہ جب سعودیوں میں نہیں ہے، ہم نے کہا ہندوستانی تو ہمارے ہی خطے کے ہیں؟ جس پر وہ بولے کہ 'بھائی چارہ' وہاں زیادہ ہونا چاہیے، جہاں سے اسلام نکلا، کسی نے کہا تھا نا کہ وہاں سے نکلا ضرور ہے، لیکن واپس نہیں آیا!'
آج کل کی کالم نگاری کے حوالے سے اطہر ہاشمی کہتے ہیں کہ 'کالم' ہلکا پھلکا ہوتا ہے، سنجیدہ نہیں۔ اب عطاالحق قاسمی کے سوا کسی کی بھی تحریر 'کالم' پر پورا نہیں اترتی۔ یہ ٹھیک کہا جاتا ہے کہ آج کل کے 'کالم نگار' مضمون نگار اور مقالہ نگار بن گئے ہیں۔
اطہر ہاشمی کہتے ہیں کہ 'اخباروں میں پڑھ رہا ہوں کہ 'آزادی صحافت' کا مسئلہ ہے، کچھ پابندیاں لگیں، لیکن سب اپنی مرضی سے لکھ اور بول رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ کوئی پابندی ہے۔' ہم نے کچھ شکنجوں کا ذکر کیا تو وہ بولے کہ 'وہ تو ہمیشہ سے رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے تو ٹی وی چینل ہی بند کر دیے تھے۔' ہم نے پوچھا کہ آپ نے 1977ء سے اب تک زیادہ سختیاں کس زمانے میں دیکھیں، تو اپنے روایتی انداز میں بولے کہ ''میرے تو گھر میں ہی سختی ہوتی رہی، باہر تو کوئی نہیں ہوئی۔۔۔''
اُن کے 'جماعت اسلامی' سے تعلق کا پوچھا تو نفی کرتے ہوئے 'الحمدللہ' کہا۔ ہم نے کہا 'الحمدللہ۔۔۔؟ تو بولے 'ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے نا۔ صلاح الدین نے بھی شمولیت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پھر میں پابند ہو جاؤں گا۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کو پیش کش نہیں ہوئی، تو بے ساختہ بولے کہ ''تم کو بتایا تو ہے، ہر جانور کی قربانی نہیں دی جاتی۔''
صحافت مشن یا کاروبار والے نظریے سے متعلق پوچھا کہ کیا کہتے ہیں، تو بولے کہ ''کچھ بھی نہیں کہتے خاموش رہتے ہیں۔ مجید نظامی نے کہا یہ تو صنعت ہے، مشن سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے خلاف پاکستان کے خلاف نہ ہو، باقی نفع نقصان کا تعلق تو انتظامیہ کا ہے۔''
...
میری 'کَھٹ پَٹ' کی اطلاع ملتی تو صلاح الدین کا فون آجاتا
سابق مدیر 'جسارت' صلاح الدین کے حوالے سے اطہر ہاشمی کہتے ہیں کہ وہ بہت بڑے صحافی اور دوسروں کو آگے بڑھانے والے تھے، کوئی سرخی لکھتے تو ہمیں ضرور دکھاتے، میں کہتا ٹھیک ہے، تو اصرار کرتے کہ نہیں غور سے دیکھیں، اگر کچھ بدل دو تو کہتے 'اب ہوئی نا ںبات۔۔۔'' انہوں نے 'تکبیر' کی ڈمی یہیں بنانا شروع کردی تھی، بعد میں جھگڑا جو ہوا وہ تو انہیں جانے کا موقع مل گیا، یہ بعد کی بات ہے کہ اس میں کس کا قصور تھا کس کا نہیں، لیکن 'تکبیر' کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔
'جسارت' چھوڑ کر 'تکبیر' کا اجرا کیا، تو جو لوگ یہاں ان کے مخالف تھے، انہیں بھی 'تکبیر' میں جگہ دی۔ یہاں میری کھٹ پٹ کی اطلاع ملتی، تو وہ فون کرتے کہ آجائیے، آپ کا کمرا تیار ہے۔ میں اگر وہاں چلا جاتا، تو شاید مجھے بھی ثروت جمال اصمعی کی طرح نکلنا پڑتا، 2001ء میں مجھے وہاں سے جسارت آتے ہوئے بہت روکا گیا، لیکن جماعت اسلامی کے کراچی کے امیر گھر پر آگئے تھے، اس لیے 'جسارت' واپس آگیا۔
...
علاؤالدین خلجی پر ایم فل ادھورا رہ گیا
اطہر ہاشمی 18 اگست 1947ء کو بہاول پور میں پیدا ہوئے، آٹھ بھائی اور ایک بہن میں دوسرے نمبر پر تھے۔ والد کاتعلق سہارن پور (یو پی) سے تھا اور وہ 'وزارت صنعت' سے وابستہ تھے۔ والدہ کا انتقال بچپن میں ہوگیا، پھر خالہ کے ہاں تعلیم وتربیت پائی، کہتے ہیں کہ خالو علی گڑھ کے تعلیم یافتہ اور بہاول پور میں ایس ٹی کالج کے پروفیسر تھے انہیں بہاول پور کا سرسید بھی لکھا گیا۔ خالہ کے گھر میں بہت اچھی لائبریری تھی، لیکن غیر نصابی کتابوں کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہ تھی، مگر چھپ چھپا کر نسیم حجازی سے عصمت چغتائی تک بے شمار کتابیں پڑھ لیں، کہتے ہیں کہ افسانے پڑھتے ہوئے ایک کے بعد دوسرا افسانہ پڑھتا چلا جاتا اور سوچتا کہ پچھلے کردار کہاں چلے گئے؟ پانچویں جماعت میں لاہور آگئے اور پھر گریجویشن تک لاہور میں پڑھے۔ تاریخ میں 'ایم اے' کا مرحلہ جامعہ کراچی میں طے ہوا اس کے بعد قائداعظم یونیورسٹی سے 'علاؤ الدین خلجی کے معاشی نظام' پر ایم فل کر رہے تھے، جو بوجوہ ادھورا رہ گیا۔
اس حوالے سے بتاتے ہیںکہ '1977ء میں بھٹو صاحب کے آخری زمانے میں جامعہ بند ہوئی، تو کراچی چلے آئے، یہاں ایک ساتھی 'جسارت' لے آئے۔ ایک سینئر نے کہا بھی تھا کہ خبر بنانا آتی نہیں، پتا نہیں کہاں سے اٹھ کر آجاتے ہیں، بات ان کی غلط نہیں تھی، میں نے کبھی کسی اخبار کے دفتر میں قدم نہیں رکھا تھا، زاہد بخاری نے ترجمے کا ایک ٹیسٹ لیا، پھر ڈیسک پر بٹھا دیا، تین مہینے کا پروبیشن پیریڈ گزارا، جس میں 450 روپے ملے۔
آہستہ آہستہ سارا کام سیکھا اور ترقی کرتے ہوئے 1984ء میں صلاح الدین صاحب کے زمانے میں ہی شفٹ انچارج بن گئے، پھر 'نیوز ایڈیٹر' اور 'میگزین ایڈیٹر' بھی رہے، اب 'ایڈیٹر' کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ شادی کے سوال پر اطہر ہاشمی بولے کہ 'سانحہ' ایسا ہے کہ یاد کرنا پڑے گا، پھر بتایا کہ 1977ء میں شادی ہوئی، تین بیٹے ہیں، جس میں صرف بڑے صاحب زادے کوچۂ صحافت کے راہی ہوئے، ایک نجی چینل سے منسلک رہے، چھوٹے صاحب زادے غیر شادی شدہ ہیں، ابھی پڑھ رہے ہیں۔
اب 'جماعت اسلامی' کوئی اعانت نہیں کرتی!
اطہر ہاشمی نے انکشاف کیا کہ اب 'جماعت اسلامی' جسارت کی کوئی اعانت نہیں کرتی، کہتے ہیں کہ غالباً پہلے تین لاکھ روپے مہینا دیا جاتا تھا، لیکن اب 'جسارت' کا انحصار اپنے وسائل پر ہے۔ بہت سے اخبارات میں چھے، چھے مہینے سے تنخواہ نہیں مل رہی، ہمارے ہاں یہ مسئلہ بس ایک ماہ پہلے ہی آیا۔ 'جماعت' نے اخبار کو بالکل خودمختار کیا ہوا ہے، بس ان کا ایک نمائندہ 'چیف ایگزیکٹو' کے طور پر یہاں بیٹھتا ہے، دیگر اخبارات اور 'جسارت' میں کوئی فرق نہیں، سوائے اس کے کہ ہم سراج الحق کی خبر تین کالمی لگاتے ہیں، دوسرے شاید دو کالم یا ایک کالم لگاتے ہیں۔'
ہم نے کہا 'یعنی اب جماعت نہ کچھ دیتی ہے اور نہ لیتی ہیِ؟' جس پر وہ بے ساختہ بولے 'لینے کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنا اخبار نہیں لیتے۔۔۔ اخبار ہی لے لیں، تو یہ کہیں سے کہیں چلا جائے۔ اصل میں جنرل ضیا کے زمانے میں 'جنگ' اور 'ڈان' وغیرہ سمیت تمام اخبارات کو زمین ملی تھی، ہم نے وہاں 'الخدمت' کے تعاون سے ایک عمارت تعمیر کرالی، وہ 'جسارت' کی ملکیت ہے، اس کا کرایہ آجاتا ہے، جس میں سے آدھا 'الخدمت' کو جاتا ہے۔ اس لیے ہمارا گزارا ہو رہا ہے، لیکن ہمیں تو اس سے غرض نہں، بس ہماری تنخواہ وقت پر مل جائے۔'
سعودی عرب میں بارش کی خبر بھی خود سے نہیں لگا سکتے!
اطہر ہاشمی بتاتے ہیں کہ سعودی عرب میں انہیں ایک نئے ماحول کا تجربہ ہوا، 'اردو نیوز' دراصل 'عرب نیوز' کا اخبار تھا، جو گزشتہ برس بند ہوا، لیکن اس کا 'ملیالم' زبان کا اخبار ابھی جاری ہے۔ وہاں پابندیوں میں لکھنا امتحان سے کم نہ تھا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اس وقت گورنر ریاض تھے، وہ اس کے بورڈ آف گورنرز میں تھے، وہاں حکومت کے خلاف تو درکنار، کسی انتظامی معاملات پر بھی نہیں لکھ سکتے تھے، پاکستانی کہتے کہ یہاں چھوٹے سے حادثے کی خبر تو لگا دیتے ہیں، لیکن وہاں کے بڑے حادثے کی کوئی خبر نہیں دیتے۔ حد تو یہ تھی کہ ہم بارش کی خبر بھی خود سے نہیں دے سکتے تھے، تاوقتے کہ سرکاری خبر ایجینسی یہ خبر جاری نہ کر دے۔ میں نے وزیراعظم بے نظیر کے سعودیہ آنے کی خبر دی، تو وہ بھی روک لی گئی کہ جب تک ہم نہ دیں، آپ نہیں دے سکتے۔' ہم نے کہا 'پھر تو صحافی نہ ہوا کلرک ہوگیا؟' وہ بولے کہ 'بالکل، اب اسی کلرکی میں جتنا کام کر سکتے ہیں کرلیجیے، پھر ہم ادھر والوں اور وہاں کے اردو پڑھنے والوں کے لیے تو لکھ سکتے ہیں ناں۔ یہ پابندی صرف سعودی عرب کے حوالے سے ہے۔
اخبارات کے لیے 'نہ پڑھنے' کا رجحان بڑا مسئلہ ہے!
آج دیگر جدید ذرایع اطلاعات کا اخبار پر اثر پوچھا تو وہ بولے 'اصل مسئلہ تو نہ پڑھنے کے رجحان سے پیدا ہو رہا ہے، ہمارے گھر میں چار اخبار آتے ہیں، مگر کوئی بچہ ہاتھ نہیں لگاتا۔ اخبار میں قاری سہولت سے ایک دفعہ میں تفصیلی خبر جان سکتا ہے، ٹی وی پر خبر آکر گزر جاتی ہے اور زیادہ تفصیلی خبر نہیں ہوتی۔' ہم نے کہا کہ 'اب تو بہ ذریعہ انٹرنیٹ موبائل میں ہی خبروں کی یہ تفصیل بھی مہیا کر دی جاتی ہیں۔' جس پر وہ کہتے ہیں کہ ابھی ہر ہاتھ میں جدید موبائل نہیں۔
مستقبل میں یہ مسابقت تو ہوگی، لیکن موبائل سے نگاہ پر بھی اثر پڑے گا، مجھے دیکھیں، اب بھی عینک نہیں لگی۔' وہ کہتے ہیںکہ 'اخبار میں خبروں کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں، جو قارئین پڑھنا چاہتے ہیں۔' ہم نے پوچھا کیا اخبار کی طباعت واشاعت اور تقسیم اتنی سستی ہے کہ 'اخبار' چاہے کہ اس کی اشاعت اور گردش بڑھے؟ وہ بولے کہ اخبار کی آمدنی کا انحصار اشتہار پر ہے، سرکولیشن کی بھی اہمیت ہے، ہر اخبار چاہتا ہے کہ وہ سارے لوگوں تک پہنچے، لیکن تیکنیکی طور پر یہ بات درست ہے، مجھے سب سے پہلے یہ بات ایک 'ڈائجسٹ' کے بارے میں پتا چلی کہ وہ اپنے آمدن کے لحاظ سے اتنا ہی 'پرچا' چھاپ سکتے ہیں، تب مجھے حیرت ہوئی تھی، مگر یہ حقیقت ہے۔