دماغی سوزش بھارت میں سیلاب کے بعد بچوں میں پھیلنے والی بیماری

بھارتی ریاست اتر پردیش میں بچوں میں پھیلنے والی اس بیماری نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔

200 سے زاید بچے اسی دماغی سوزش کا شکار ہو کر اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ فوٹو : فائل

دماغی سوزش کا مسئلہ بچوں اور بڑوں کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کی وجوہات الگ ہوتی ہیں۔

پچھلے دنوں بھارتی ریاست اتر پردیش میں بچوں میں پھیلنے والی اس بیماری نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی اور درجن سے زاید بچے موت کا شکار ہو گئے۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق عموماً مون سون کے موسم میں پھیلنے والی اس بیماری سے چند دنوں میں پندرہ بچے جاںبحق ہوچکے ہیں، جب کہ 200 سے زاید بچے اسی دماغی سوزش کا شکار ہو کر اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

سرکاری اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ ہے اور بچوں کو طبی امداد دی جارہی ہے۔ ذرایع ابلاغ کے مطابق رواں سال اب تک 358 بچے اس مہلک بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ اس بیماری سے حالیہ دنوں میں ریاست اتر پردیش کے علاقے گورکھ پور اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں نیپالی سرحد سے متصل تحصلیوں کو سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ اس بیماری کی ایک اہم وجہ سیلاب کے بعد جمع ہونے والا پانی بتایا جارہا ہے، جس میں اس بیماری کے وائرس کو منتقل کرنے والے مچھروں کی افزائش ہو رہی ہے۔ بھارتی محکمۂ صحت کے مطابق اس وائرس نے دس سے بارہ تحصیلوں کے دیہاتیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہ غریب لوگ اپنے بچوں کا منہگا اور فوری علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے اور سرکاری اسپتالوں تک جانے میں بھی انہیں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔




یاد رہے کہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی اس بیماری (Encephalitis) کو 1978 میں دریافت کیا گیا تھا اور تک اس خطے میں دماغی سوزش کی یہ بیماری کم از کم 6 ہزار 5 سو بچوں کو موت سے ہم کنار کرچکی ہے۔ تاہم پچھلے سات سال کے دوران دماغی سوزش کی ایک نئی قسم بچوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہے۔ اس کا شکار ہونے والے بچے کو سر درد محسوس ہونے کے ساتھ الٹیاں ہونے لگتی ہیں۔ مریض کا دماغ اپنے افعال صحیح طریقے سے انجام دینا چھوڑ دیتا ہے اور وہ کومے کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ اسی وائرس سے دل، جگر اور گردے بھی متاثر ہوتے ہیں اور اپنا کام درست طور پر انجام نہیں دے پاتے، جس سے انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق یہ وائرس زیادہ تر 6 ماہ سے15سال کی عمر تک کے بچوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے صحت یاب ہونے والا ہر پانچواں بچہ دماغی کم زوری کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور مکمل طور پر معذور بھی ہو سکتا ہے۔ اس بیماری کی روک تھام کے ضمن میں بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دماغی سوزش سے بچاؤ کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے میں بچوں کو اس مہلک وائرس سے بچانے کے لیے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

گذشتہ دنوں ہی بھارتی سائنس دانوں نےEncephalitis کے خلاف ایک ویکسین متعارف کروائی ہے، جو حکومتی کوششوںکا ایک حصہ ہے۔ ویکسین کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں وزیر صحت نے میڈیا کو بتایا کہ {Encephalitis وائرس اب 19ریاستوں اور 171 تحصیلوں تک میں پھیل چکا ہے۔ 2005 میں دماغی سوزش کے اس وائرس کی وجہ سے گورکھ پور میں ایک ہزار اموات ہوئی تھیں، جن میں اکثریت بچوں کی تھی اور 1978 کے بعد پھیلنے والی یہ سب سے خطرناک وبا تھی۔

بین الاقوامی سطح پر صحت عامہ سے متعلق سرگرم ادارے سے وابستہ ڈاکٹر جولین جیکب سن کا کہنا ہے کہ یہ وائرس مچھروں کے کاٹنے سے جانوروں اور انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ بھارت میں اس کا شکار زیادہ تر بچے بنے ہیں، جنہیں بچانے کا واحد طریقہ اس وائرس کے خلاف کام کرنے والی ویکسین ہے۔ تاہم دور دراز علاقوں میں رہنے والے افراد اپنے بچوں کو اسپتالوں تک لانے میں دیر کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے اموات کی شرح بڑھی ہے۔
Load Next Story