اپ ڈاؤن یا شٹ ڈاؤن
1860 میں انگریزوں نے کراچی تا کوٹری پہلا ریلوے ٹریک تعمیرکیا۔
NORTH SOUND:
1860 میں انگریزوں نے کراچی تا کوٹری پہلا ریلوے ٹریک تعمیرکیا، سطح سمندر سے باہر، بلندی اور اوپر جانے والے راستے کو Up اپ یعنی اوپر کی طرف کا نام دیا گیا اور ڈاؤن نشیب کی طرف یا سمندر کی طرف آنے والے راستے کو ڈاؤن (Down) کے نام سے پکارا گیا۔ انگریز حکومت کو یہ معلوم تھا کہ آمدورفت اور بہتر ٹرانسپورٹ کے بغیر حکومت کو منافع بخش اورکم وقت میں زیادہ مال و اسباب کا لے جانا ممکن نہ ہوگا، چھوٹے چھوٹے کارگو سسٹم (System) نرخ میں زیادتی اور وقت کا زیاں ہوگا اس لیے حکومت کرنے والے کو عوام کو سکھ پہنچائے بغیر طویل تر حکومت کرنا آسان نہ ہوگا اس طرح برطانوی حکومت کا چراغ وہاں بھی جلایا گیا جو حصہ فی الوقت پاکستان کے پاس ہے۔
رہ گیا برطانیہ کی حکومت کا سورج ڈوبنا محض سیاسی جدوجہد کا کام نہ تھا آخری دنوں میں ورلڈ وار دویم کے خاتمے کے بعد جہاں سیاسی محاذ پر کانگریس کی جدوجہد سیاسی محاذ پر تھی تو دوسرے محاذ پر ان کو بحری، بری اور فضائی محاذ پر اندولن کا سامنا تھا مختلف جگہوں پر نیوی میں بغاوت، فوج میں بغاوت اور ہوائی فوج کے دستوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا مگر اس کے باوجود برطانوی نو آبادیاتی نظام بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے چلتا رہا اور مغربی پاکستان جو اب نیا پاکستان ہے یہاں بھی ریلوے کا نیٹ ورک جاری رہا سندھ میں لوپ لائن بچھائی گئی جن میں چھوٹے علاقوں میں لوپ لائن بچھانے کا کام زور و شور سے جاری رہا تقریباً 30 برسوں میں برصغیر کو ریلوے نیٹ ورک سے مالا مال کردیا گیا۔ سندھ کے دیہی علاقوں تک اس طرح برق رفتاری سے ریلوے ٹریک بچھایا گیا کہ تمام علاقے مربوط ہوگئے۔ میرپورخاص سے ڈھورو نارو، نوابشاہ، حیدرآباد سے بدین، کراچی سے میرپورخاص، ایک وقت ایسا تھا کہ کراچی سے میرپورخاص 14 ٹرینیں جاتی تھیں جو براستہ کوٹری سفر طے کرتی تھیں مگر اب اندرون سندھ کی لوپ لائن ٹرینیں تو بندش کا شکار ہوچکی ہیں اور ٹرانسپورٹ مافیا نے یہ تمام کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے سامان کی ترسیل ہو یا لوگوں کا سفر سب پر حکومت کی زبوں حالی اور عدم دلچسپی کی عکاسی عیاں ہوتی ہے۔ ریلوے ٹریک کی لوپ لائن مٹی میں دھنس گئی یا چوری ہوچکی ہیں۔
کراچی سے میرپورخاص اب کوئی ٹرین نہیں ہے بس ایک ٹرین کراچی سے کھوکھرا پار جمعے کی رات کو جاتی ہے جس کو تھر ایکسپریس کہتے ہیں شدید دباؤ کا شکار کراچی سے بھارت جانے والے مسافر اسی ٹرین سے جاتے ہیں جیسے اس میں مسافر نہیں غیرملکی ایجنٹ جارہے ہیں ، جانے والوں سے الوداع کہنے والوں کو ملنے کی اجازت نہیں ہوتی، پاک بھارت تعلقات کی ستم ظریفی کا یہ چلتا پھرتا نمونہ ہے۔ 1965 میں ریل کا یہ رابطہ ختم ہوا تو پرویز مشرف دور میں 2004 میں بحال ہوا گویا 40 برس بعد بھی اس کی بحالی مکمل طور پر بحال نہ ہوسکی یہی وہ بدبخت ٹرین تھی جس کے مسافر بھارتی انتہا پسندوں کی بھینٹ ایک بار چڑھ چکے ہیں سندھ بارڈر کے مقابلے میں واہگہ بارڈر سے تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں اور ٹرین اور بس سروس جاری ہے اسی لیے سندھ کے قوم پرست اس کو سندھ دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ٹرین کی آمدورفت سے مقامی دکاندار اور دیگر لوگوں کو کاروباری فوائد حاصل ہوتے تھے مگر کب حالات بہتر ہوں گے جو بھی حکومت میں آتا ہے ہرکہ آمد عمارت نومی ساخت کی مثل کو زندہ کرتا ہے کب پاک بھارت تعلقات بہتر ہوں گے اور کب معیشت کا چکا گھومے گا یہ مسئلہ دونوں ممالک کے انتہا پسند لیڈروں کے ہاتھ چلا گیا ہے بھارت چونکہ ایک بڑا ملک ہے اور اندرونی خلفشار نسبتاً کم ہے وہ 6 تا 7 فیصد ترقی کی رفتار سے چل رہا ہے جب کہ پاکستان منفی یا یوں کہیں یہ ترقی معکوس پر گامزن ہے جس کا موازنہ دونوں ممالک کے سکے کی قیمت سے کیا جاسکتا ہے۔
ریلوے کو ہر آنے والی حکومت نے نقصان پہنچایا ہے خصوصاً جمہوری حکومتوں نے ریلوے کو نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ جانے نہ دیا پہلے یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی نئی آبادی بسائی جاتی تھی تو ریلوے کو اس سے ملایا جاتا تھا انگریز کی حکومت سے ایوب خان تک یہ سلسلہ جاری رہا جب کورنگی اور لانڈھی بسایا گیا تو جنرل اعظم خان نے لانڈھی اور کورنگی کو ریلوے سے منسلک کرنے کے لیے اسٹیشن بنائے۔ 1967 تک 56 ٹرینیں چلتی رہیں جس میں 28 اپ یعنی جانے والی اور 28 آنے والی ٹرینیں تھیں جن کو ڈاؤن ٹرین کہا جاتا تھا۔ کراچی کے لاکھوں مسافر ان کے ذریعے سفر کرتے تھے پہلے ان کا کرایہ 0.25 پیسے تھا اور بند ہونے سے قبل 7 روپے تھا۔ آج کل کے حالات میں یہ کرایہ 15 روپے کے قریب ہوسکتا ہے۔ 1999 میں سرکلر ریلوے بند کردی گئی اور کراچی پر ٹرانسپورٹ مافیا کا قبضہ ہوگیا مسافروں کا مال و اسباب کی طرح چھت پر اور کھڑے ہوکر سفر کرنا ان کی مجبوری تھی، رکشہ اور ٹیکسی پر میٹر نام کی کوئی چیز نہ رہی من مانے کرائے پر عوام سفر کرتے رہے اور اب صورت احوال یہ ہے کہ مسافروں کو مجبوراً موٹر بائیک اور گاڑیاں خریدنے پر مجبور ہونا پڑا اور جو بالکل ہی بے بس تھے وہ بس میں سفر پر مجبور ہوئے اس سفر کی مجبوری کا حال یہ ہوا کہ شہر کی گلی کوچوں میں بسوں کا اژدھام ہوگیا۔
حادثات میں زیادتی اور ٹریفک جام ہونا، کراچی شہر جو دنیا کی آبادی والے بڑے شہروں، بعض صوبوں یہاں تک کہ بعض ممالک سے زیادہ آبادی والا شہر ہے خودرو درخت کی مانند بڑھتا رہا اس پر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ ہر روز بلڈرز کے اشتہار فلاں ٹاؤن، دس دس منزلہ بلڈنگیں نہ نکاسی آب اور نہ پینے کا پانی، نہ بجلی نہ گیس اور نہ لفٹ کی سہولتیں آپ کو حیرت ہوگی کہ پنجاب کالونی اور دہلی کالونی جو کنٹونمنٹ بورڈ کے دائرہ اختیار میں ہے وہاں 60 گز کے مکان پر 7 منزلہ عمارتیں ذرا اس کی بنیاد کا دائرہ دیکھیے گلیاں دیکھیے 20 فٹ چوڑی بھی نہیں مگر مکان بنتے جارہے ہیں کسی حادثے کی شکل میں فائر بریگیڈ ان گلیوں میں داخل نہیں ہوسکتی غرض آبادی کا سیل رواں ہے مگر ٹرانسپورٹ جو اس کا اصل نتیجہ ہے اس پر کوئی غور نہیں بے ربط، بے نظم و ضبط کراچی بڑھ رہا ہے جب کہ ممبئی کو دیکھیے سمندر پر پل بن رہے ہیں اور نیا ممبئی نئی زندگی کی بہاریں لیے ٹرین کے سفر سے مزین کیا جارہا ہے اگر دور نہیں تو قریب ہی دیکھ کر سوچنے کا مقام ہے۔ جب کہ سرکلر ریلوے کی زمینات اور اس کے ٹریک پر قبضہ مافیا نے پلاٹ بنائے ہیں ایک طرف تو یہ غفلت کہ سرکلر ریلوے نہیں چلے گی۔
دوسری طرف اس کے ٹریک کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے اور جب ان لوگوں کو بے دخل کیا جائے گا تو پھر ایک مسئلہ پیدا ہوگا اکثر جگہوں پر ریلوے لائن بلاسٹ فرنس Blast Furnace کی نذر ہوچکی ہے غرض عوام کو بے توقیر رکھنا حکمرانوں کا زیور ہے اس طرح وہ خود کو مزید معاشی طور پر مضبوط کرتے رہتے ہیں۔ 1999 میں سرکلر ریلوے پر پرویز مشرف کے دور میں تالا لگادیا گیا جاوید اشرف قاضی جو ریلوے کے چیئرمین مقرر ہوئے بعدازاں وزیر موصوف نے اول کام ریلوے کی زمینات خریدنی شروع کردیں، اتفاق فاؤنڈری نے بھی ریلوے کے اسکریپ خریدے پھر انھوں نے لنڈی کوتل سے لے کر کیماڑی تک کی زمینیں فروخت کیں کس کس کو روئیے۔۔۔افسوس کا مقام ہے لگتا ہے اگر موازنہ کیا جائے تو برطانیہ کا نظام ریلوے اس قدر عمدہ تھا کہ اگر اس کو ہی جاری رکھا جاتا تو ریلوے کو خسارہ نہ ہوتا، دوسری جنگ عظیم میں صرف مغل پورہ لاہور میں 42000 افراد یہاں کام کرتے تھے جس میں ہوائی جہاز کے پرزے بھی انگریزوں کی زیر نگرانی بنائے جاتے تھے آخر اس عظیم ورکشاپ کو بھی حکمرانوں نے برباد کردیا ریلوے کو سب سے زیادہ نقصان (ANP) کے دور میں پہنچا جب کہ زیادہ نقصان (KPK) سے وابستہ لوگوں کو اٹھانا پڑا یہ وہی ریل ہے جس کا سفر تفریح، آرام اور تخیل کی بلند پروازی کا باعث ہوتا ہے جس کو مجاز لکھنوی نے یوں بیان کیا ہے:
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیر لب گاتی ہوئی
گنگناتی جھومتی سیٹی بجاتی کھیلتی
وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی
رہ گیا معاملہ کراچی کا تو سرکلر ریلوے کو جلد بحال نہ کیا گیا تو آیندہ صرف 2 برسوں میں آج جو ٹریفک ایک گھنٹے کے بجائے 2 گھنٹوں پر منزل پر پہنچتا ہے اس میں 4 گھنٹے لگیں گے اور پورا معاشی اور سماجی نظام درہم برہم ہوجائے گا نہ انڈر پاس کام آئیں گے اور نہ فلائی اوور، پارکنگ کی جگہ نایاب ہوجائے گی لہٰذا ریلوے کا اپ ڈاؤن بحال نہ ہوا تو کراچی کا شٹ ڈاؤن یقینی ہے۔ آخر میں جناب رضی صاحب کا شکریہ بھی ادا کرتا چلوں جو ریلوے ورکرز یونین کے صدر ہیں جنہوں نے اعداد و شمار میں مدد فرمائی گوکہ تنگی داماں کے سبب تشنگی باقی ہے۔
1860 میں انگریزوں نے کراچی تا کوٹری پہلا ریلوے ٹریک تعمیرکیا، سطح سمندر سے باہر، بلندی اور اوپر جانے والے راستے کو Up اپ یعنی اوپر کی طرف کا نام دیا گیا اور ڈاؤن نشیب کی طرف یا سمندر کی طرف آنے والے راستے کو ڈاؤن (Down) کے نام سے پکارا گیا۔ انگریز حکومت کو یہ معلوم تھا کہ آمدورفت اور بہتر ٹرانسپورٹ کے بغیر حکومت کو منافع بخش اورکم وقت میں زیادہ مال و اسباب کا لے جانا ممکن نہ ہوگا، چھوٹے چھوٹے کارگو سسٹم (System) نرخ میں زیادتی اور وقت کا زیاں ہوگا اس لیے حکومت کرنے والے کو عوام کو سکھ پہنچائے بغیر طویل تر حکومت کرنا آسان نہ ہوگا اس طرح برطانوی حکومت کا چراغ وہاں بھی جلایا گیا جو حصہ فی الوقت پاکستان کے پاس ہے۔
رہ گیا برطانیہ کی حکومت کا سورج ڈوبنا محض سیاسی جدوجہد کا کام نہ تھا آخری دنوں میں ورلڈ وار دویم کے خاتمے کے بعد جہاں سیاسی محاذ پر کانگریس کی جدوجہد سیاسی محاذ پر تھی تو دوسرے محاذ پر ان کو بحری، بری اور فضائی محاذ پر اندولن کا سامنا تھا مختلف جگہوں پر نیوی میں بغاوت، فوج میں بغاوت اور ہوائی فوج کے دستوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا مگر اس کے باوجود برطانوی نو آبادیاتی نظام بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے چلتا رہا اور مغربی پاکستان جو اب نیا پاکستان ہے یہاں بھی ریلوے کا نیٹ ورک جاری رہا سندھ میں لوپ لائن بچھائی گئی جن میں چھوٹے علاقوں میں لوپ لائن بچھانے کا کام زور و شور سے جاری رہا تقریباً 30 برسوں میں برصغیر کو ریلوے نیٹ ورک سے مالا مال کردیا گیا۔ سندھ کے دیہی علاقوں تک اس طرح برق رفتاری سے ریلوے ٹریک بچھایا گیا کہ تمام علاقے مربوط ہوگئے۔ میرپورخاص سے ڈھورو نارو، نوابشاہ، حیدرآباد سے بدین، کراچی سے میرپورخاص، ایک وقت ایسا تھا کہ کراچی سے میرپورخاص 14 ٹرینیں جاتی تھیں جو براستہ کوٹری سفر طے کرتی تھیں مگر اب اندرون سندھ کی لوپ لائن ٹرینیں تو بندش کا شکار ہوچکی ہیں اور ٹرانسپورٹ مافیا نے یہ تمام کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے سامان کی ترسیل ہو یا لوگوں کا سفر سب پر حکومت کی زبوں حالی اور عدم دلچسپی کی عکاسی عیاں ہوتی ہے۔ ریلوے ٹریک کی لوپ لائن مٹی میں دھنس گئی یا چوری ہوچکی ہیں۔
کراچی سے میرپورخاص اب کوئی ٹرین نہیں ہے بس ایک ٹرین کراچی سے کھوکھرا پار جمعے کی رات کو جاتی ہے جس کو تھر ایکسپریس کہتے ہیں شدید دباؤ کا شکار کراچی سے بھارت جانے والے مسافر اسی ٹرین سے جاتے ہیں جیسے اس میں مسافر نہیں غیرملکی ایجنٹ جارہے ہیں ، جانے والوں سے الوداع کہنے والوں کو ملنے کی اجازت نہیں ہوتی، پاک بھارت تعلقات کی ستم ظریفی کا یہ چلتا پھرتا نمونہ ہے۔ 1965 میں ریل کا یہ رابطہ ختم ہوا تو پرویز مشرف دور میں 2004 میں بحال ہوا گویا 40 برس بعد بھی اس کی بحالی مکمل طور پر بحال نہ ہوسکی یہی وہ بدبخت ٹرین تھی جس کے مسافر بھارتی انتہا پسندوں کی بھینٹ ایک بار چڑھ چکے ہیں سندھ بارڈر کے مقابلے میں واہگہ بارڈر سے تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں اور ٹرین اور بس سروس جاری ہے اسی لیے سندھ کے قوم پرست اس کو سندھ دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ٹرین کی آمدورفت سے مقامی دکاندار اور دیگر لوگوں کو کاروباری فوائد حاصل ہوتے تھے مگر کب حالات بہتر ہوں گے جو بھی حکومت میں آتا ہے ہرکہ آمد عمارت نومی ساخت کی مثل کو زندہ کرتا ہے کب پاک بھارت تعلقات بہتر ہوں گے اور کب معیشت کا چکا گھومے گا یہ مسئلہ دونوں ممالک کے انتہا پسند لیڈروں کے ہاتھ چلا گیا ہے بھارت چونکہ ایک بڑا ملک ہے اور اندرونی خلفشار نسبتاً کم ہے وہ 6 تا 7 فیصد ترقی کی رفتار سے چل رہا ہے جب کہ پاکستان منفی یا یوں کہیں یہ ترقی معکوس پر گامزن ہے جس کا موازنہ دونوں ممالک کے سکے کی قیمت سے کیا جاسکتا ہے۔
ریلوے کو ہر آنے والی حکومت نے نقصان پہنچایا ہے خصوصاً جمہوری حکومتوں نے ریلوے کو نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ جانے نہ دیا پہلے یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی نئی آبادی بسائی جاتی تھی تو ریلوے کو اس سے ملایا جاتا تھا انگریز کی حکومت سے ایوب خان تک یہ سلسلہ جاری رہا جب کورنگی اور لانڈھی بسایا گیا تو جنرل اعظم خان نے لانڈھی اور کورنگی کو ریلوے سے منسلک کرنے کے لیے اسٹیشن بنائے۔ 1967 تک 56 ٹرینیں چلتی رہیں جس میں 28 اپ یعنی جانے والی اور 28 آنے والی ٹرینیں تھیں جن کو ڈاؤن ٹرین کہا جاتا تھا۔ کراچی کے لاکھوں مسافر ان کے ذریعے سفر کرتے تھے پہلے ان کا کرایہ 0.25 پیسے تھا اور بند ہونے سے قبل 7 روپے تھا۔ آج کل کے حالات میں یہ کرایہ 15 روپے کے قریب ہوسکتا ہے۔ 1999 میں سرکلر ریلوے بند کردی گئی اور کراچی پر ٹرانسپورٹ مافیا کا قبضہ ہوگیا مسافروں کا مال و اسباب کی طرح چھت پر اور کھڑے ہوکر سفر کرنا ان کی مجبوری تھی، رکشہ اور ٹیکسی پر میٹر نام کی کوئی چیز نہ رہی من مانے کرائے پر عوام سفر کرتے رہے اور اب صورت احوال یہ ہے کہ مسافروں کو مجبوراً موٹر بائیک اور گاڑیاں خریدنے پر مجبور ہونا پڑا اور جو بالکل ہی بے بس تھے وہ بس میں سفر پر مجبور ہوئے اس سفر کی مجبوری کا حال یہ ہوا کہ شہر کی گلی کوچوں میں بسوں کا اژدھام ہوگیا۔
حادثات میں زیادتی اور ٹریفک جام ہونا، کراچی شہر جو دنیا کی آبادی والے بڑے شہروں، بعض صوبوں یہاں تک کہ بعض ممالک سے زیادہ آبادی والا شہر ہے خودرو درخت کی مانند بڑھتا رہا اس پر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ ہر روز بلڈرز کے اشتہار فلاں ٹاؤن، دس دس منزلہ بلڈنگیں نہ نکاسی آب اور نہ پینے کا پانی، نہ بجلی نہ گیس اور نہ لفٹ کی سہولتیں آپ کو حیرت ہوگی کہ پنجاب کالونی اور دہلی کالونی جو کنٹونمنٹ بورڈ کے دائرہ اختیار میں ہے وہاں 60 گز کے مکان پر 7 منزلہ عمارتیں ذرا اس کی بنیاد کا دائرہ دیکھیے گلیاں دیکھیے 20 فٹ چوڑی بھی نہیں مگر مکان بنتے جارہے ہیں کسی حادثے کی شکل میں فائر بریگیڈ ان گلیوں میں داخل نہیں ہوسکتی غرض آبادی کا سیل رواں ہے مگر ٹرانسپورٹ جو اس کا اصل نتیجہ ہے اس پر کوئی غور نہیں بے ربط، بے نظم و ضبط کراچی بڑھ رہا ہے جب کہ ممبئی کو دیکھیے سمندر پر پل بن رہے ہیں اور نیا ممبئی نئی زندگی کی بہاریں لیے ٹرین کے سفر سے مزین کیا جارہا ہے اگر دور نہیں تو قریب ہی دیکھ کر سوچنے کا مقام ہے۔ جب کہ سرکلر ریلوے کی زمینات اور اس کے ٹریک پر قبضہ مافیا نے پلاٹ بنائے ہیں ایک طرف تو یہ غفلت کہ سرکلر ریلوے نہیں چلے گی۔
دوسری طرف اس کے ٹریک کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے اور جب ان لوگوں کو بے دخل کیا جائے گا تو پھر ایک مسئلہ پیدا ہوگا اکثر جگہوں پر ریلوے لائن بلاسٹ فرنس Blast Furnace کی نذر ہوچکی ہے غرض عوام کو بے توقیر رکھنا حکمرانوں کا زیور ہے اس طرح وہ خود کو مزید معاشی طور پر مضبوط کرتے رہتے ہیں۔ 1999 میں سرکلر ریلوے پر پرویز مشرف کے دور میں تالا لگادیا گیا جاوید اشرف قاضی جو ریلوے کے چیئرمین مقرر ہوئے بعدازاں وزیر موصوف نے اول کام ریلوے کی زمینات خریدنی شروع کردیں، اتفاق فاؤنڈری نے بھی ریلوے کے اسکریپ خریدے پھر انھوں نے لنڈی کوتل سے لے کر کیماڑی تک کی زمینیں فروخت کیں کس کس کو روئیے۔۔۔افسوس کا مقام ہے لگتا ہے اگر موازنہ کیا جائے تو برطانیہ کا نظام ریلوے اس قدر عمدہ تھا کہ اگر اس کو ہی جاری رکھا جاتا تو ریلوے کو خسارہ نہ ہوتا، دوسری جنگ عظیم میں صرف مغل پورہ لاہور میں 42000 افراد یہاں کام کرتے تھے جس میں ہوائی جہاز کے پرزے بھی انگریزوں کی زیر نگرانی بنائے جاتے تھے آخر اس عظیم ورکشاپ کو بھی حکمرانوں نے برباد کردیا ریلوے کو سب سے زیادہ نقصان (ANP) کے دور میں پہنچا جب کہ زیادہ نقصان (KPK) سے وابستہ لوگوں کو اٹھانا پڑا یہ وہی ریل ہے جس کا سفر تفریح، آرام اور تخیل کی بلند پروازی کا باعث ہوتا ہے جس کو مجاز لکھنوی نے یوں بیان کیا ہے:
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیر لب گاتی ہوئی
گنگناتی جھومتی سیٹی بجاتی کھیلتی
وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی
رہ گیا معاملہ کراچی کا تو سرکلر ریلوے کو جلد بحال نہ کیا گیا تو آیندہ صرف 2 برسوں میں آج جو ٹریفک ایک گھنٹے کے بجائے 2 گھنٹوں پر منزل پر پہنچتا ہے اس میں 4 گھنٹے لگیں گے اور پورا معاشی اور سماجی نظام درہم برہم ہوجائے گا نہ انڈر پاس کام آئیں گے اور نہ فلائی اوور، پارکنگ کی جگہ نایاب ہوجائے گی لہٰذا ریلوے کا اپ ڈاؤن بحال نہ ہوا تو کراچی کا شٹ ڈاؤن یقینی ہے۔ آخر میں جناب رضی صاحب کا شکریہ بھی ادا کرتا چلوں جو ریلوے ورکرز یونین کے صدر ہیں جنہوں نے اعداد و شمار میں مدد فرمائی گوکہ تنگی داماں کے سبب تشنگی باقی ہے۔