ریاست مدینہ کے دعویدار بھی پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن وسیرت اسٹیڈیز فعال نہ کرسکے
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن وسیرت اسٹیڈیز چند ملازمین کی تنخواہوں کی وصولی تک ہی محدود
ISLAMABAD:
پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کی دعویدارحکومت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بنائے گئے ملک کے پہلے ادارے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن وسیرت اسٹیڈیز کو چارسال کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجودفعال نہیں کرسکی ہے۔
اپرمال لاہور کے علاقے میں 75 کروڑ روپے کی خطیررقم سے تیارہونیوالی سٹیٹ آف دی آرٹ عمارت کابڑاحصہ ویران پڑا ہے، 2006 میں اربوں روپے مالیت کی 54کنال اراضی پر قرآن کمپلیکس و سیرت اکیڈمی کے منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا اور اسکے لئے 55کروڑ روپے مختص کئے گئے ، شیڈو ل کے مطابق یہ منصوبہ 2009 ءمیں مکمل ہونا تھا ، جس میں سیرت طیبہ پر پی ایچ ڈی ،ایم اے عربی و اسلامیات کی تعلیم شامل تھی جبکہ سیرت لائبریری کے قیام ، سینٹر آف ایکسیلنس اور قرآن میوزیم اورتمام مسالک کو اعتماد میں لیکر قرآن پاک کا ترجمہ کیا جانا تھا ، ا س مقصدکے لئے سٹیٹ آف دی آرٹ عمارت تعمیرہوچکی ہے لیکن اس ادارے کو عملی طورپرفعال نہیں کیا جاسکا ہے۔
پنجاب اسمبلی نے 17 دسمبر2014 کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت اسٹیڈیز ایکٹ کی منظوری دی تھی جب کہ 13 جنوری 2015 کو گورنر پنجاب کی منظوری کے بعد نوٹی فکیشن جاری ہوا اور بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دیا گیا۔ جس میں وزیراعلی پنجاب کو بورڈ آف ڈائریکٹرزکا چیئرپرسن، صوبائی وزیر اوقاف ومذہبی امور کو سینئر وائس چیئرپرسن تعینات کیا گیا۔
اس ادارے کے قیام کے وقت یہ دعوی کیا گیا تھا کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت اسٹڈیز کو ایسا منفرد ادارہ بنایا جائے گا جس کا اسلامی تعلیمات کے فروغ اور ترویج میں کوئی ثانی نہ ہو، ادارے کو صحیح معنوں میں علم و دانش کا گہوارہ ہونا چاہیے۔ ادارے کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے گا جو علم و فراست میں اپنی مثال آپ ہوں، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت اسٹڈیز کا قیام سیرت النبیؐ اور قرآن پاک کی تعلیمات کے فروغ میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادارہ نبی ؐ پاک ﷺ کے اسوہ حسنہ اور قرآن کی تعلیم و تحقیق کے حوالے سے بین الاقوامی سہولتوں کا حامل ہوگا۔ ادارے میں تحقیق اور پبلیکیشن پربھر پور توجہ دی جائے گی۔ادارے کو ڈیجیٹل نظام کے تحت چلایا جائے گاجو سو فیصد آئی ٹی بیسڈ ہوگا لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چاربرس میں یہ خواب حقیقت نہیں بن سکا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ اوقاف ومذہبی امورپنجاب ڈاکٹرطاہررضابخاری نے بتایا کہ ان کے محکمے پاس اس منصوبے کے لئے فنڈز ہی نہیں ہیں۔ ادارہ اس وقت فعال ہوگا جب فنٖڈز ہوں گے، ادارے کو چلانے کے افراد بھرتی کرنا ہوں گے، اس وقت صرف چند ملازم ہیں جو یہاں دیکھ بھال کررہے ہیں۔ اس وقت اس عمارت کی دیکھ بھال بھی قرآن بورڈ اور متحدہ علما بورڈ والوں کی معاونت سے کی جارہی ہے کیونکہ ان دونوں شعبوں نے اپنے دفاتر وہاں قائم کررکھے ہیں۔ جبکہ یہاں اسلامی لائبریری بھی بنائی گئی ہے جہاں ابتدائی طور پر 3 ہزار سے زائد مختلف موضوعات پر کتابیں رکھی گئی ہیں۔
اوقاف ذرائع کے مطابق گزشتہ 4 برسوں کے دوران مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کو ملنے والی گرانٹ محکمہ خزانہ پنجاب کو واپس چلی جاتی رہی ہے، انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ ان چاروں برسوں میں اپنا اکاؤنٹ تک نہیں بنا سکی جبکہ اس وقت محکمہ اوقاف پنجاب سے قرض لے کر انسٹی ٹیوٹ کے معاملات کو چلایا جارہا ہے جو صرف چند ملازمین کی تنخواہوں کی وصولی تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈسیرت سٹیڈیزکی اس عمارت میں وزیراعظم عمران خان کی خواہش پرصوفی یونیورسٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیاگیا تھا تاکہ صوفی کلچر کا فروغ ہو اور صوفیائے کرام ؒ کی تعلیمات کا پرچارممکن بنایا جاسکے تاہم اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔ذرائع کے مطابق اس ادارے کے فعال نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کا سنگ بنیاد موجودہ سپیکرپنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے اپنے وزارت اعلی کے دورمیں رکھا تھا۔
بعدازاں مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے بعداس ادارے پرکوئی توجہ نہ دی گئی ۔البتہ 2015 میں پنجاب اسمبلی نے ایکٹ کی منظوری دی تواس وقت کے وزیراعلی شہبازشریف نے اس ادارے کوفعال بنانے کا اعلان کیاتھا مگر اس پرعمل درآمدنہ ہوسکا۔ صوبائی وزیر اوقاف پنجاب پیر سید سعیدالحسن شاہ نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق ہم پنجاب میں اداروں کو فعال بنانے میں لگے ہیں۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈسیرت اسٹیڈیز کو بھی جلد فعال کیا جائے گا یہ ادارہ جس عظیم مقصد کے لئے بنایاگیا تھا اسے پوراکریں گے،انہوں نے بتایا کہ اس وقت حکومت کو وسائل کی کمی کاسامنا ہے جس کی وجہ سے کئی کام رکے ہوئے ہیں ۔ ہم وسائل کوضائع نہیں ہونے دیں گے اوراس ادارے کوفعال کریں گے۔
پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کی دعویدارحکومت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بنائے گئے ملک کے پہلے ادارے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن وسیرت اسٹیڈیز کو چارسال کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجودفعال نہیں کرسکی ہے۔
اپرمال لاہور کے علاقے میں 75 کروڑ روپے کی خطیررقم سے تیارہونیوالی سٹیٹ آف دی آرٹ عمارت کابڑاحصہ ویران پڑا ہے، 2006 میں اربوں روپے مالیت کی 54کنال اراضی پر قرآن کمپلیکس و سیرت اکیڈمی کے منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا اور اسکے لئے 55کروڑ روپے مختص کئے گئے ، شیڈو ل کے مطابق یہ منصوبہ 2009 ءمیں مکمل ہونا تھا ، جس میں سیرت طیبہ پر پی ایچ ڈی ،ایم اے عربی و اسلامیات کی تعلیم شامل تھی جبکہ سیرت لائبریری کے قیام ، سینٹر آف ایکسیلنس اور قرآن میوزیم اورتمام مسالک کو اعتماد میں لیکر قرآن پاک کا ترجمہ کیا جانا تھا ، ا س مقصدکے لئے سٹیٹ آف دی آرٹ عمارت تعمیرہوچکی ہے لیکن اس ادارے کو عملی طورپرفعال نہیں کیا جاسکا ہے۔
پنجاب اسمبلی نے 17 دسمبر2014 کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت اسٹیڈیز ایکٹ کی منظوری دی تھی جب کہ 13 جنوری 2015 کو گورنر پنجاب کی منظوری کے بعد نوٹی فکیشن جاری ہوا اور بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دیا گیا۔ جس میں وزیراعلی پنجاب کو بورڈ آف ڈائریکٹرزکا چیئرپرسن، صوبائی وزیر اوقاف ومذہبی امور کو سینئر وائس چیئرپرسن تعینات کیا گیا۔
اس ادارے کے قیام کے وقت یہ دعوی کیا گیا تھا کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت اسٹڈیز کو ایسا منفرد ادارہ بنایا جائے گا جس کا اسلامی تعلیمات کے فروغ اور ترویج میں کوئی ثانی نہ ہو، ادارے کو صحیح معنوں میں علم و دانش کا گہوارہ ہونا چاہیے۔ ادارے کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے گا جو علم و فراست میں اپنی مثال آپ ہوں، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت اسٹڈیز کا قیام سیرت النبیؐ اور قرآن پاک کی تعلیمات کے فروغ میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادارہ نبی ؐ پاک ﷺ کے اسوہ حسنہ اور قرآن کی تعلیم و تحقیق کے حوالے سے بین الاقوامی سہولتوں کا حامل ہوگا۔ ادارے میں تحقیق اور پبلیکیشن پربھر پور توجہ دی جائے گی۔ادارے کو ڈیجیٹل نظام کے تحت چلایا جائے گاجو سو فیصد آئی ٹی بیسڈ ہوگا لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چاربرس میں یہ خواب حقیقت نہیں بن سکا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ اوقاف ومذہبی امورپنجاب ڈاکٹرطاہررضابخاری نے بتایا کہ ان کے محکمے پاس اس منصوبے کے لئے فنڈز ہی نہیں ہیں۔ ادارہ اس وقت فعال ہوگا جب فنٖڈز ہوں گے، ادارے کو چلانے کے افراد بھرتی کرنا ہوں گے، اس وقت صرف چند ملازم ہیں جو یہاں دیکھ بھال کررہے ہیں۔ اس وقت اس عمارت کی دیکھ بھال بھی قرآن بورڈ اور متحدہ علما بورڈ والوں کی معاونت سے کی جارہی ہے کیونکہ ان دونوں شعبوں نے اپنے دفاتر وہاں قائم کررکھے ہیں۔ جبکہ یہاں اسلامی لائبریری بھی بنائی گئی ہے جہاں ابتدائی طور پر 3 ہزار سے زائد مختلف موضوعات پر کتابیں رکھی گئی ہیں۔
اوقاف ذرائع کے مطابق گزشتہ 4 برسوں کے دوران مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کو ملنے والی گرانٹ محکمہ خزانہ پنجاب کو واپس چلی جاتی رہی ہے، انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ ان چاروں برسوں میں اپنا اکاؤنٹ تک نہیں بنا سکی جبکہ اس وقت محکمہ اوقاف پنجاب سے قرض لے کر انسٹی ٹیوٹ کے معاملات کو چلایا جارہا ہے جو صرف چند ملازمین کی تنخواہوں کی وصولی تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈسیرت سٹیڈیزکی اس عمارت میں وزیراعظم عمران خان کی خواہش پرصوفی یونیورسٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیاگیا تھا تاکہ صوفی کلچر کا فروغ ہو اور صوفیائے کرام ؒ کی تعلیمات کا پرچارممکن بنایا جاسکے تاہم اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔ذرائع کے مطابق اس ادارے کے فعال نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کا سنگ بنیاد موجودہ سپیکرپنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے اپنے وزارت اعلی کے دورمیں رکھا تھا۔
بعدازاں مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے بعداس ادارے پرکوئی توجہ نہ دی گئی ۔البتہ 2015 میں پنجاب اسمبلی نے ایکٹ کی منظوری دی تواس وقت کے وزیراعلی شہبازشریف نے اس ادارے کوفعال بنانے کا اعلان کیاتھا مگر اس پرعمل درآمدنہ ہوسکا۔ صوبائی وزیر اوقاف پنجاب پیر سید سعیدالحسن شاہ نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق ہم پنجاب میں اداروں کو فعال بنانے میں لگے ہیں۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈسیرت اسٹیڈیز کو بھی جلد فعال کیا جائے گا یہ ادارہ جس عظیم مقصد کے لئے بنایاگیا تھا اسے پوراکریں گے،انہوں نے بتایا کہ اس وقت حکومت کو وسائل کی کمی کاسامنا ہے جس کی وجہ سے کئی کام رکے ہوئے ہیں ۔ ہم وسائل کوضائع نہیں ہونے دیں گے اوراس ادارے کوفعال کریں گے۔