قدرتی اور حکومتی آفات…
نومبر 2005ء کے ابتدائی دن تھے صوبہ سرحد کے شہر زلزلے سے تباہی کا شکار ہوئے تھے۔
وہ نومبر 2005ء کے ابتدائی دن تھے صوبہ سرحد کے شہر زلزلے سے تباہی کا شکار ہوئے تھے۔ بالاکوٹ دریائے کہسار کے دونوں کناروں پر آباد شہر شدید تباہی کا شکار ہوا تھا۔ وہاں کے رہنے والے لوگ خود دار تھے۔ عید کے دوسرے دن انھوں نے اپنے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنتے دیکھا۔ ساتھ موت کو اپنی تمام تر ہیبت کے ساتھ اپنے کام میں مصروف دیکھا۔
نومبر 2005ء کے زلزلے میں ستر ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، سترہ ہزار بچے اپنے اسکول کی عمارتوں کے نیچے دب کر ہلاک ہوئے، بیس ہزار بچ جانے والے ایسے زخمی ہوئے جو معذور ہو گئے۔ زلزلہ آنے کے وقت اسکولوں میں بچے اپنی تعلیم حاصل کرنے جمع ہو چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ متاثر ہونے والوں میں بچوں کی بڑی تعداد تھی۔
اس وقت کے مناظر اب بھی یاد آنے پر دلوں کو دہلاتے ہیں۔ پوری پوری کلاس ملبے تلے دبی پڑی تھی لیکن انھیں نکالنے کے لیے کسی قسم کی کرین یا مشنری موجود نہیں تھی۔ لوگ پتھروں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا اٹھا کر پھینک رہے تھے۔ پانی کے لیے آوازیں دلوں کو چیر رہی تھیں۔ مدد کے لیے پکار پر کلیجے پھٹ رہے تھے لیکن ملبے کو ہٹانے کا انتظام نہیں تھا اور نہ ہو سکا کہ آخر موت نے انھیں اچک لیا۔ لوگوں نے اپنے پیاروں کو اذیت کے ساتھ مرتے ہوئے محسوس کیا۔
زلزلے کے ملبے کو اٹھانے کے لیے خاص آلات چاہیے ہوتے ہیں۔ وسائل اور تربیت درکار ہوتی ہے جو موجود نہیں تھی علاقے کے لوگ ہتھوڑوں اور چھینیوں سے عمارتیں توڑ رہے تھے۔ کئی کئی دن بعد صرف راستہ بنایا جا سکا کہ مظفر آباد جایا جا سکے، امداد کے لیے فوج کے جوان تو پہنچا دیے گئے لیکن مشنری کیسے پہنچائی یہ مسئلہ ہنوز موجود رہا۔
موت کا راج تھا۔ لوگ ملبہ ہاتھوں سے اٹھانے میں ناکام تھے، دبے ہوئے لوگوں کی پکار کو سرگوشیوں میں بدلتے سن رہے تھے۔ ملبے سے لوگوں کو نکالنے میں ہفتہ لگ گیا اور اس کے بعد تو وہ لاشوں میں بدل گئے۔
ملبے کے نیچے بہت سے لوگ زندہ تھے لیکن انھیں کیسے نکالیں اس سوال کا حل کسی کے پاس نہ تھا، کوئی طریقہ نہیں تھا۔ پچھلے ماہ ستمبر میں بلوچستان میں زلزلہ آیا تو پھر پتہ چلا کہ ہمارے پاس اب بھی اس طرح کی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے آلات نہیں ہیں۔ اگر آلات اور مشنری کچھ موجود ہے تو اس کو متاثرہ مقامات تک پہنچانے کے ذرایع نہیں۔ بلوچستان تو اس معاملے میں انتہائی محروم صوبہ ہے۔ نہ سڑکیں ہیں نہ بجلی ہے اور نہ ہی کوئی اور بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔ انتہائی پسماندگی ہے۔ سو کلومیٹر کا راستہ طے کرنے میں چھ چھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ صاف پانی تو پہلے ہی کم تھا۔ ذرایع کنوئیں تھے جو زلزلے کے بعد ناقابل استعمال ہیں۔
آواران، مشکے وغیرہ میں متاثرین کی تعداد حکومتی ذرایع سوا دو لاکھ بتاتے ہیں تو غیر سرکاری ذرایع پونے دو لاکھ۔ متاثرین میں اعداد و شمار کے فرق کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو اہم بات تو یہ ہے کہ ان میں زخمی کتنی بڑی تعداد میں ہوں گے۔ زخمیوں کے علاج کے لیے کوئی طبی سہولت موجود نہیں پورے آواران میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے جب کہ ایکسرے تک کا کوئی انتظام نہیں جب کہ زلزلہ ایک ایسی قدرتی آفت ہے جس کے اثرات انسانی صحت پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ یوں ایک طرف فوری موت اور دوسری طرف شدید زخمی حالت میں مریض مدد کے منتظر۔ لیکن کسی آس اور امید کے بغیر۔۔۔۔پھر سیکیورٹی کے مسائل علیحدہ ہیں۔ مسلح تنظیموں کا کہنا ہے کہ فورسز امداد کی آڑ میں ان علاقوں کی طرف پیش قدمی کر نا چاہتی ہیں جو ان کے مضبوط گڑھ ہیں۔ وہ متاثرین کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ بی ایل ایف کے ترجمان بی بی سی کو بیان دیتے ہیں کہ وہ پاکستانی فوج کے بجائے بین الاقوامی اداروں کا خیر مقدم کریں گے۔ متاثرین کو دھمکیاں دینے کے ساتھ ان سے اظہار ہمدردی بھی کرتے ہیں امید ظاہر کرتے ہیں کہ وہ صبر اور تحمل سے مشکلات اور نقصانات کا مقابلہ کریں گے۔
یہ کیسے قوم پرست ہیں؟ مشکل میں مدد دینے کے بجائے روکنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ امداد کی فراہمی میں روڑے اٹکا رہے ہیں، تباہ حال گھر، بیمار اور زخمی امداد کے منتظر ہیں۔ لیکن مسلح تنظیمیں صبر اور قناعت کا سبق پڑھا رہی ہیں۔ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی ذمے دار حکومت تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ بلوچ رہنما اور سیاستدان بھی ہیں۔ سردار، نواب کابینہ اور اسمبلیوں میں بیٹھ کر ایک طرف حکومتی عہدے اور سہولیات حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے عوام کو بجائے آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے پریشان کرتے ہیں۔ 2012ء میں میر ظفر اللہ زہری نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ کئی وزراء اغواء برائے تاوان اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔
موجودہ صوبائی حکومت اس سلسلے میں بہتر ہے کہ ٹارگٹ کلنگ اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ رکا ہے۔ اس معاملے میں بلوچستان اور کراچی میں حالات اور واقعات میں مماثلت ہے۔ حکومتی جماعتوں کی بلیک میلنگ پر انھیں نوازنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پچھلی حکومتوں میں بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین میں سے 45 وزیر بنا دیے گئے تھے۔ لیکن بلوچستان کے عام آدمی کے مقدر پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ امداد کے بڑے بڑے پیکیج دیے گئے لیکن نہ جانے وہ کس کے ہاتھ میں گئے؟ اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد 14 وزراء کی پابندی تھی لیکن اس نے اتنے اختلاف پیدا کیے کہ کابینہ کی توسیع میں چار ماہ لگ گئے۔
ہوس مال و زر اور حکومت و اختیار حالات کو بگاڑتے ہیں۔ پھر حکومت کے وزراء ہوں یا کوئی اور ادارہ کرپشن کی راہ پر لگ جاتے ہیں۔ ''ایرا'' پر بھی یہ الزام لگا کہ وہ متاثرین کے بجائے اپنے تعیشات، تنخواہوں، گاڑیوں اور ہیلی کاپٹر کے استعمال پر پیسہ ضایع کر رہی ہے۔ معاملات انتہائی دیانت داری سے توجہ طلب ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وسائل اہلیت اور قابلیت میں اضافہ لازم ہے اور دوسری طرف محروم اور پس ماندہ ترین بلوچ قوم کو ان کا حق دینا حکومت کی ذمے داری ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی۔۔۔۔۔۔ دو تین سو کلومیٹر سے صدیوں کا فرق نظر آنا بلوچ سرداروں، نوابوں، کابینہ اور اسمبلی کے اراکین کے لیے ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب انھیں دینا چاہیے۔ دوسری طرف تمام تر غربت اور افلاس کے باوجود بلوچ عوام کی خودداری اور حمیت قابل رشک ہے۔ انتہائی محرومی کے باوجود امدادی کارکنان کہتے ہیں کہ وہاں کوئی چھینا جھپٹی نہیں۔۔۔۔کاش! بلوچ رہنما اپنے عوام سے ہی سبق سیکھ لیں۔