لفظ کھیل اور معنویت…

ہر سال اکتوبر میں لیاقت علی خان کی برسی پر دھواں دھار تقاریر ہوتی ہیں۔

GRINDELWALD:
ہر سال اکتوبر میں لیاقت علی خان کی برسی پر دھواں دھار تقاریر ہوتی ہیں۔ مضامین لکھے جاتے ہیں اور آخر میں ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان کے قاتل کون تھے؟ یا قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا قیاس آرائیاں ہوتی ہیں۔ اندازے لگائے جاتے ہیں مختلف رپورٹس پر غور کیا جاتا ہے اور سوال ہنوز اپنی جگہ پر موجود ہے۔ بر وقت فیصلے، تفتیش اور فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے سماجی برائیوں کو معاشرے میں جڑ پکڑنے کا موقع مل رہا ہے۔ شہادتوں اور قتل کے سلسلے جاری ہیں طاقتور قاتل خون بہا کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ درپردہ حقائق درپردہ ہی رہتے ہیں۔ جہاں تک فائدہ اٹھانے کی بات ہے تو پوری قوم ہی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ جسے جہاں موقع مل رہا ہے۔

ایک دن ہمارے ضمیر کو ہمیں کچھ زیادہ ہی شرمندہ کرنے کا موقع مل گیا اور ہم غور و فکر میں مشغول ہو گئے کہ ہم کیا سے کیا ہو گئے ہیں کہ اماں کی کڑکڑاتی آواز آئی۔ ہم نے ایسے ہی مذاق میں اماں سے کہہ دیا کہ اماں! بڑھاپا آ گیا۔ ایک عمر زمانہ بیت گیا آواز میں فرق نہ آیا۔ اماں پھر ہماری اماں۔ غصے سے بولیں ''کم عقل۔۔۔کہیں کوئی تبدیلی نظر آ رہی ہے جو مجھ میں تبدیلی آئے گی؟'' ہم نے سوچا کہ ہم نے تو پڑھ لکھ کر گنوایا اور اماں اپنے تجربے کی بنیاد پر کتنی گہری بات کہہ جاتی ہیں۔ واقعی تبدیلی تو چاروں طرف کہیں نظر نہیں آئی۔ ہاں اماں کی آواز مزید کڑک ہو گئی۔ چلو ایک عام سی عورت کے پاس کسی چیز کا تو اضافہ ہوا۔ ورنہ ہر طرف تو گراف گرتا ہوا ہی نظر آتا ہے۔ ہر چیز کی (کمی) اور خسارہ میرے ضمیر نے آنکھیں دکھائیں اور میں چونک گئی۔ شاید کہیں مبالغہ ہو گیا۔

مسائل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ دماغ کمزور ہو گیا ہے۔ ہم تو بھول ہی گئے۔ زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا ہو یا نہیں، بجلی کے بل اور گیس کے بل میں اضافہ مسلسل ہو رہا ہے۔ بے چاری بجلی اور گیس تو مفت میں بدنام ہیں۔ یہاں تر جرائم میں بھی اضافہ بلکہ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور تنخواہ میں اضافہ ۔۔۔۔۔ ابا کہتے ہیں ''آٹے میں نمک''۔ اب ابا کو کیا پتہ نمک کتنا اہم ہوتا ہے۔ نمک کے بغیر ہر چیز بدمزہ۔ گویا نمک ضروری ہے۔ پہلے زمانے میں تو نمک کی بڑی قدر تھی، ایک مرتبہ نمک چکھ لیا تو گویا غضب ہو گیا۔ گویا نمک کھا کر عمر بھر کے غلام ہو گئے، نمک حرامی کا تو تصور ہی نہ تھا مگر اب یہ تصور عام ہوتا جا رہا ہے۔ کھانے پر یاد آیا ویسے تو ہم غریب قوم ہیں لیکن کھانے پینے کے معاملے میں کافی امیر ہیں اور اب یہ کھانے کی عادت بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مہلک بیماری غریب سے امیر سب کو لگتی جا رہی ہے۔ بغیر کھائے تو فائل ہی نہیں کھسکتی۔ اور کھانے کے بعد تو اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ گویا فائل کو پہیہ لگ گیا۔ وقت و زمانے کا پہیہ بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اور سمٹتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ لوگ بھی جلدی جلدی سمٹنے میں مصروف ہیں۔ شاید پھر موقع نہ ملے۔ موقع ملے اور گنوا دو تو سمجھو کہ ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔


عقل مند لوگ موقع نہیں گنواتے بلکہ موقع کا انتظار کرتے ہیں۔ نہ گنوائو ناوک نیم کش... بعض لوگوں کو تو سمیٹنے کا موقع بار بار ملتا ہے۔ اپنی اپنی قسمت جس طرح امیر کی قسمت میں مزید غریب ہونا لکھا ہے۔ رہی بات موقع گنوانے کی تو اب تو ہم اتنا کچھ کھو چکے ہیں کہ خیر سے احساس زیاں بھی جاتا رہا۔ ہاں جانے سے یاد آیا کہ کچھ لوگ جب جانے لگتے ہیں تو ہم انھیں بڑے اعزاز کے ساتھ رخصت کرتے ہیں کہ چلو چلے گئے ویسے بھی مہمانوں کو عزت کے ساتھ رخصت کرنا چاہیے۔ مگر اب تو رخصت کر کے پھر لوٹ آتے ہیں جیسے لڑکی سسرال سے دوبارہ میکے آ جائے۔ بڑا غور کیا پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ دیس کی محبت واپس لاتی ہو مگر اگر دیس کی مٹی سے اتنا ہی پیار ہو تو بندہ جائے ہی کیوں۔۔۔؟ پھر دماغ پر زور دیا کہ اچھا یہ سوچ کر آتے ہوں گے کہ شاید کچھ لے جانے سے رہ تو نہیں گیا؟ بھائی بندہ بشر ہے غلطی سے بھول بھی سکتا ہے۔ اتنا کچھ باہر لے جانے میں کچھ نہ لے جانے کی گنجائش تو رہ سکتی ہے۔

قارئین! آپ زیادہ خوش نہ ہوں صرف نیم مردہ جسم بچا ہے۔ جو مشکل سے سانس لے رہا ہے۔ اور گدھ اسی کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہائے! کسی کم بخت میں اتنی انسانیت نہیں کہ آکسیجن کا انتظام کر دے۔ ویسے گدھ سے یاد آیا پہلے گدھ مردہ جسم کھاتے تھے لیکن اب گدھ عجلت پسند ہو گئے ہیں۔ مرنے کا انتظار کون کرے؟ زندہ بندے کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ گدھوں نے بھی اب مختلف شکلیں اختیار کر لی ہیں۔ اسی لیے پہچاننے میں وقت لگتا ہے۔ اب دیکھیں ناں! گِدھوں کا زیر پڑھنے کے بجائے لوگ زبر لگا کر گدھوں پڑھ رہے ہیں۔ اس میں ہمارا کیا قصور؟ گدھوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ہر طرف گدھے ہی گدھے نظر آتے ہیں۔ ویسے گدھے بھی مہنگے ہو گئے ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سستی کیا چیز ہے؟ تو انسانی خون بہانے میں سستا اور خریدنے میں مہنگا۔ ہاں! خون سے یاد آیا۔۔۔۔بقر عید میں گلی کوچوں میں خون کی بو (مہک) رچ بس گئی تھی۔ میں نے تو گھبرا کر بھیا کے فلیٹ میں جانے کا ارادہ کر لیا۔ بلندی پر شاید مہک کم ہو۔

اماں نے صاف انکار کر دیا کہ اگر لوڈشیڈنگ ہو گئی اور ہم لفٹ میں پھنس گئے تو کیا ہو گا؟ خیر۔۔۔اماں! میں تو جا رہی ہوں حالانکہ مجھے فلیٹ کی زندگی سخت ناپسند ہے۔ نہ چھت اپنی اور نہ ہی زمین۔۔۔۔جیسے کبوتر کابک میں بند ہوں۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور اکائی خود مختار خاندان کا خمیازہ تو بھگتنا پڑے گا، ہائے! آنگن کا تصور تو جیسے ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ پیپل کا درخت، نیم کی چھاؤں۔ صحن میں جھولتے بچوں کے کھیل کود کا شور گویا خواب ہوئے۔ ہاں! پرانے ناولوں اور داستانوں میں محفوظ ہیں۔ اب تو بچے سڑک پر کھیلتے ہیں۔ بڑے بڑے روشن بلب اور سڑک پر کرکٹ۔ تیز رفتار گاڑیاں اور گیند کے پیچھے دوڑتے بچے حادثے کو دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اب قوم کو حادثوں کی مطلق پرواہ نہیں۔ عادی ہو گئی ہے۔ بریکنگ نیوز تو روز کا معمول بن گئی ہیں۔ ابا نے اچھا کیا کہ خبریں سننا بند کر دیں۔ بلڈ پریشر چند دنوں سے کنٹرول میں ہے۔

لیجیے۔۔۔! ہم نے آپ کو بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کا نسخہ مفت میں بتا دیا۔ ورنہ نسخہ لکھنے اور بتانے کے دام بڑھ گئے ہیں۔ دام ادا کریں ورنہ آپ جئیں یا مریں۔ معالج کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ صحت کی جگہ تو بیماریوں نے لے لی ہے۔ کچھ جسمانی بیماریاں اور کچھ اخلاقی بیماریاں۔ کچھ یا بہت کچھ۔۔۔۔۔! جو جوں دوا کی مرض بڑھتا ہی گیا۔ عشق کے لیے سنا تھا کہ یہ مرض جان کے ساتھ ہی جاتا ہے۔ مگر اب تو سارے مرض ہی جان سے چمٹ کر رہ گئے ہیں۔ دواؤں میں اثر ہی نہیں رہا۔ دوائیں بھی تو دو نمبر کی آنے لگی ہیں۔ ہر چیز دو نمبر کی ہوتی جا رہی ہے اصل اور نقل میں فرق ہی نہیں رہا۔ ہائے! ہم اپنا اصل کھوتے جا رہے ہیں۔ اپنی تہذیب، اپنی زبان، اپنی ثقافت۔۔۔۔ سب کچھ ۔۔۔۔صرف نقل ہی باقی رہ گئی ہے۔ اماں اکثر کہتی ہیں ''دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا'' بڑوں کے محاورے بھی خوب ہوتے ہیں بر وقت کام آ جاتے ہیں۔ ''سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے'' ہم بھی لفظوں کے کھیل میں لاٹھی کو بچانے اور سانپ کو مارنے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں۔ کاش! ہم لفظوں کی معنویت کو بچا سکیں اور ان کے بھرم کو قائم رکھ سکیں۔۔۔۔ورنہ ''سانپ گزر جائے گا اور ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔''
Load Next Story