دلوں کا فاتح جنید جمشید
کبھی عرش پرکبھی فرش پر ،کبھی ان کے درکبھی دربدر
قدرت اللہ شہاب کی ایک تحریر سے ایک جملہ مستعار لینے کی جرات وجسارت کرتے ہوئے میں بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب مجھے جنید جمشید مرحوم سے محبت اور عقیدت ہوئی تو اسے دنیا سے گئے ہوئے کئی دن گزر چکے تھے۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے دنیا اور آخرت کے تقابل میں تمام انسانوں کو چار ترتیبوں پر پیدا کیا ہے اول درجے کے لوگ وہ ہیں جن کی دنیا تواضطرارات نہیں اختیارات مسکینوں جیسی لیکن آخرت شہنشاہوں جیسی ہوتی ہے۔
دوسرے درجے کے لوگ وہ ہیں جن کی دنیا بھی بادشاہوں جیسی اور آخرت بھی بادشاہوں جیسی ہوتی ہے، تیسرے درجے کے لوگ وہ ہیں جن کی دنیا بادشاہوں جیسی لیکن آخرت فقیروں اور تباہ حالوں جیسی ہوتی ہے اور چوتھے درجے کے لوگ وہ ہیں جن کی دنیا بھی فقیروں مسکینوں جیسی ہوتی ہے اور آخرت بھی برباد اور تباہ حالوں جیسی ہوتی ہے۔ ہم جنید جمشید کو بلا ججھک دوسرے درجے کے کامیاب تر لوگوں میں شمار کرسکتے ہیں۔
کیا آدمی تھا وہ ! سن اسی کی دہائی میں وائٹل سائنز نامی ایک بینڈ کے تحت لیڈ سنگرکی حیثیت سے شعیب منصور جیسے تخلیقی جینئس کے زیرہدایت ہمارے ممدوح نے ایک ایسا نغمہ دل دل پاکستان گایا جسے اب پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق اسے پچھلے سو سال میں ساری دنیا میں سب سے زیادہ سنے جانے والے نغموں میں تیسرا نمبر دیا گیا۔
وائٹل سائنز کے عروج کے سال اور پاکستان میں پوپ سنگنگ کے عروج کا وائٹل سائنز سے آغاز، گروپ ٹوٹنے پر سولو پرفارمنسز اور اس میں بھی وہی عروج حاصل۔ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سن بانوے میں انگلینڈ کے ویمبلے اسٹیڈیم میں ایشیائی فنکاروں کے ایک کنسرٹ میں درمیان میں سب سے بڑے اسٹارکا خیمہ لگایا گیا جوکہ اس کنسرٹ کی روایات میں شامل ہے کہ مرکزی اور سب سے بڑے اسٹارکا خیمہ درمیان میں لگایا جاتا تھا تو اس سال مرکزی خیمہ امیتابھ بچن کو دیا گیا تھا۔ جب بطور پاکستانی شریک فنکار جنید بھائی امیتابھ بچن سے ملے تو واپسی پر یہ سوچ رہے تھے کہ کیا کبھی ایسا ہوگا کہ میرا نام بھی مرکزی خیمے کی نیم پلیٹ پر درج ہو اور خدا کی شان کہ آٹھ برس بعد اسی ویمبلے کے اسی سالانہ ایشیائی فنکاروں کے کنسرٹ میں جنید جمشید کے نام کا مرکزی خیمہ لگا ہوا تھا۔
جیند جمشید خود بیان کرتے ہیں کہ وہ بطور سنگر میرے پروفیشنل کیریئر کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا اور جب یہ ویمبلے والا واقعہ پیش آیا اور میری خواہش پوری ہوئی تو میں نے خود سے سوال کیا کہ جنید ، اب تو تم خوش ہو؟ توکہتے ہیں کہ میں نے جب اپنے اندرجھانکا تو ہر دنیاوی نعمت، عزت ، دولت، شہرت ، نام و مقام کے باوجود میں اندر سے بے چین تھا۔ اندرکی اسی بے سکونی کو دورکرنے کے لیے وہ مذہب کی جانب متوجہ ہوئے اور پھر ایک بالکل نئی شخصیت میں ڈھلتے چلے گئے۔ علماء، بزرگان دین ، مبلغین کی صحبتیں اختیارکیں اور تبلیغی جماعت کے رگڑے لگنے شروع ہوئے۔کبھی یہ مسجد کبھی وہ مسجد ،کبھی ایک تبلیغی سفرکبھی دوسرا سفر،کبھی اس شہرکبھی اس شہر، بقول شاعر:
کبھی عرش پرکبھی فرش پر ،کبھی ان کے درکبھی دربدر
غم عاشقی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کوئی آدمی اور وہ بھی دنیاوی اعتبار سے ایک بڑا آدمی اور پھر ایک ایسے شعبے سے وابستہ جسے محتاط ترین الفاظ میں ہم دینی مزاج کے بالکل برعکس شعبہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا ، جب اپنی شہرت اور دنیاوی مقام کو ترک کرکے دین کی طرف آتا ہے تو یہ سنت الہی ہے کہ اس پر آزمائش آیا ہی کرتی ہے، تو بالکل ایسا ہی جنید جمشید کے ساتھ ہوا۔
خود بتاتے تھے اور یہ سب باتیں ان کے بے شمار ویڈیو بیانات اور انٹرویوز میں موجود ہیں کہ جب انھوں نے اپنی شہرت کے بام عروج پر اور اس حالت میں میوزک کی دنیا کو چھوڑا کہ جب ان کی قدروقیمت آمدنی کے اعتبار سے لاکھوں کروڑوں روپوں میں پہنچ چکی تھی اور وہ اپنے شعبے کے بے تاج بادشاہ بن گئے تھے توکہتے ہیں کہ '' مجھے میوزک کے سوا توکچھ آتا ہی نہیں تھا اور اسے میں نے اللہ کے دین کے لیے ترک کر دیا تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گھر اورگاڑیاں بک گئیں ، بینک بیلنس ختم ہوگیا، گھر کی بجلی بل نہ دینے کے سبب کٹ گئی اور یہاں تک کہ روزمرہ کے اخراجات کے پیسے بھی ختم ہوگئے ،کیونکہ ان کا نام اور مقام اور سحر انگیز آواز ان کے ساتھ تھے۔
اس لیے میوزک ورلڈ سے ایک سے بڑھ کر ایک پر کشش پیشکش ابھی بھی ان کے قدموں میں پڑی تھی اور پھر سب سے بڑا امتحان اس اعتبار سے تب آیا جب ان کے ایک طرح سے استاد ، ابتدائی رہنما اورگاڈ فادر شعیب منصور نے ایک فلم ''خدا کے لیے'' جنید جنشید کو ذہن میں رکھ کر لکھی اور ان سے اس فلم میں کام کرنے کے لیے ضد کی حد تک اصرار کیا جب کہ جنید بھائی یہ مصنوعی رنگوں اور روشنیوں کی دنیا کو چھوڑ چکے تھے۔ اس لیے وہ نہ مانے اور اپنی توبہ پر جمے رہے یہاں تک کہ شعیب منصور ان سے ناراض بھی ہوگئے۔
جنید جمشید کو اللہ پاک کے وعدوں پر یقین تھا اور پھر ان کے اس جمے رہنے اور استقامت دکھانے پر مالی بد حالی کے اس مختصر ترین امتحانی دورکا اختتام ہوا اور وہ جو محاوروں کہتے ہیں نا کہ اللہ نے کسی کا ہاتھ پکڑ لیا یا چھپر پھاڑکر دے دیا تو بالکل یہی معاملہ جنید جمشید کے ساتھ ہوا اور اللہ پاک نے انھیں اس سے بہت زیادہ دے دیا جتنا وہ اپنے موسیقی کے دور میں کمایا کرتے تھے۔ ان کی وہ سحر انگیز آواز جوکبھی گل وبلبل کے نغمے گایا کرتی تھی ، اب تلاوت اور حمد ونعت جیسے عالی مرتبت کاموں کے لیے مخصوص ہوگئی اور وہ سنگر جنید جمشید کی جگہ نعت خواں جنید جمشید کہلانے لگے۔
خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا سب سے یادگار لمحہ کونسا تھا تو انھوں نے کہا کہ جب ہم نے دل دل پاکستان گایا تھا تو میں ایک جگہ کھڑا تھا اور دو لڑکے آپس میں کہہ رہے تھے کہ یہ دیکھو یہ وہ ہے جس نے پاکستان پاکستان گایا ہے۔
میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ مجھ جیسے گمنام سے لڑکے کی پہچان پاکستان پاکستان ہوگئی اور پھر بعینہ یہی واقعہ آٹھ دس برس بعد دہرایا گیا۔ کہتے ہیں کہ میں مدینے شریف کی گلیوں میں کسی کام سے پھر رہا تھا اور میرے پیچھے دو نوجوان کہہ رہے تھے کہ ''ارے یہ دیکھو یہ تو وہی ہے جس نے مدینہ مدینہ پڑھا ہے تو پاکستان پاکستان سے مدینہ مدینہ تک کے سفر کا سوچ کرمیں دھاڑیں مار مار کر رونے جیسا ہوگیا تھا۔
تو جنید ! ہنگامِ زندگی میں محض ایک دو دفعہ آپ کی ماہیت قلبی اورکایا پلٹ کے بعد سرسری طور پر مختلف اجتماعات اور مواقعے پر آپ کودیکھنے کی حد تک ملاقات رہی اگر اسے ملاقات کہا جاسکے تو، چھ دسمبر دو ہزار سولہ کو اے ٹی آر کے حادثے میں دیگر مسافروں کے ساتھ آپ کی شہادت کی اطلاع جیسے ایک بجلی بن کر لاکھوں افراد کی طرح مجھ پر بھی گری لیکن جلد ہی غم دنیا میں پھنس کر اور دکھوں کی طرح یہ المیہ بھی وقتی طور پر فراموش ہوگیا لیکن پھر ایسا ہوا کہ آہستہ آہستہ آپ کی خصوصیات عوام و خواص سے میرے علم میں آنا شروع ہوئیں اور مجھے آپ سے عقیدت اور محبت کاتعلق پیدا ہوتا چلاگیا۔ دسمبرکا مہینہ آپ کی شہادت کا مہینہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک سچے پاکستانی اور بہترین مسلمان اور بہت اچھے انسان اور اپنے ہر دو ادوار میں دلوں کے فاتح تھے۔
دوسرے درجے کے لوگ وہ ہیں جن کی دنیا بھی بادشاہوں جیسی اور آخرت بھی بادشاہوں جیسی ہوتی ہے، تیسرے درجے کے لوگ وہ ہیں جن کی دنیا بادشاہوں جیسی لیکن آخرت فقیروں اور تباہ حالوں جیسی ہوتی ہے اور چوتھے درجے کے لوگ وہ ہیں جن کی دنیا بھی فقیروں مسکینوں جیسی ہوتی ہے اور آخرت بھی برباد اور تباہ حالوں جیسی ہوتی ہے۔ ہم جنید جمشید کو بلا ججھک دوسرے درجے کے کامیاب تر لوگوں میں شمار کرسکتے ہیں۔
کیا آدمی تھا وہ ! سن اسی کی دہائی میں وائٹل سائنز نامی ایک بینڈ کے تحت لیڈ سنگرکی حیثیت سے شعیب منصور جیسے تخلیقی جینئس کے زیرہدایت ہمارے ممدوح نے ایک ایسا نغمہ دل دل پاکستان گایا جسے اب پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق اسے پچھلے سو سال میں ساری دنیا میں سب سے زیادہ سنے جانے والے نغموں میں تیسرا نمبر دیا گیا۔
وائٹل سائنز کے عروج کے سال اور پاکستان میں پوپ سنگنگ کے عروج کا وائٹل سائنز سے آغاز، گروپ ٹوٹنے پر سولو پرفارمنسز اور اس میں بھی وہی عروج حاصل۔ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سن بانوے میں انگلینڈ کے ویمبلے اسٹیڈیم میں ایشیائی فنکاروں کے ایک کنسرٹ میں درمیان میں سب سے بڑے اسٹارکا خیمہ لگایا گیا جوکہ اس کنسرٹ کی روایات میں شامل ہے کہ مرکزی اور سب سے بڑے اسٹارکا خیمہ درمیان میں لگایا جاتا تھا تو اس سال مرکزی خیمہ امیتابھ بچن کو دیا گیا تھا۔ جب بطور پاکستانی شریک فنکار جنید بھائی امیتابھ بچن سے ملے تو واپسی پر یہ سوچ رہے تھے کہ کیا کبھی ایسا ہوگا کہ میرا نام بھی مرکزی خیمے کی نیم پلیٹ پر درج ہو اور خدا کی شان کہ آٹھ برس بعد اسی ویمبلے کے اسی سالانہ ایشیائی فنکاروں کے کنسرٹ میں جنید جمشید کے نام کا مرکزی خیمہ لگا ہوا تھا۔
جیند جمشید خود بیان کرتے ہیں کہ وہ بطور سنگر میرے پروفیشنل کیریئر کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا اور جب یہ ویمبلے والا واقعہ پیش آیا اور میری خواہش پوری ہوئی تو میں نے خود سے سوال کیا کہ جنید ، اب تو تم خوش ہو؟ توکہتے ہیں کہ میں نے جب اپنے اندرجھانکا تو ہر دنیاوی نعمت، عزت ، دولت، شہرت ، نام و مقام کے باوجود میں اندر سے بے چین تھا۔ اندرکی اسی بے سکونی کو دورکرنے کے لیے وہ مذہب کی جانب متوجہ ہوئے اور پھر ایک بالکل نئی شخصیت میں ڈھلتے چلے گئے۔ علماء، بزرگان دین ، مبلغین کی صحبتیں اختیارکیں اور تبلیغی جماعت کے رگڑے لگنے شروع ہوئے۔کبھی یہ مسجد کبھی وہ مسجد ،کبھی ایک تبلیغی سفرکبھی دوسرا سفر،کبھی اس شہرکبھی اس شہر، بقول شاعر:
کبھی عرش پرکبھی فرش پر ،کبھی ان کے درکبھی دربدر
غم عاشقی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کوئی آدمی اور وہ بھی دنیاوی اعتبار سے ایک بڑا آدمی اور پھر ایک ایسے شعبے سے وابستہ جسے محتاط ترین الفاظ میں ہم دینی مزاج کے بالکل برعکس شعبہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا ، جب اپنی شہرت اور دنیاوی مقام کو ترک کرکے دین کی طرف آتا ہے تو یہ سنت الہی ہے کہ اس پر آزمائش آیا ہی کرتی ہے، تو بالکل ایسا ہی جنید جمشید کے ساتھ ہوا۔
خود بتاتے تھے اور یہ سب باتیں ان کے بے شمار ویڈیو بیانات اور انٹرویوز میں موجود ہیں کہ جب انھوں نے اپنی شہرت کے بام عروج پر اور اس حالت میں میوزک کی دنیا کو چھوڑا کہ جب ان کی قدروقیمت آمدنی کے اعتبار سے لاکھوں کروڑوں روپوں میں پہنچ چکی تھی اور وہ اپنے شعبے کے بے تاج بادشاہ بن گئے تھے توکہتے ہیں کہ '' مجھے میوزک کے سوا توکچھ آتا ہی نہیں تھا اور اسے میں نے اللہ کے دین کے لیے ترک کر دیا تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گھر اورگاڑیاں بک گئیں ، بینک بیلنس ختم ہوگیا، گھر کی بجلی بل نہ دینے کے سبب کٹ گئی اور یہاں تک کہ روزمرہ کے اخراجات کے پیسے بھی ختم ہوگئے ،کیونکہ ان کا نام اور مقام اور سحر انگیز آواز ان کے ساتھ تھے۔
اس لیے میوزک ورلڈ سے ایک سے بڑھ کر ایک پر کشش پیشکش ابھی بھی ان کے قدموں میں پڑی تھی اور پھر سب سے بڑا امتحان اس اعتبار سے تب آیا جب ان کے ایک طرح سے استاد ، ابتدائی رہنما اورگاڈ فادر شعیب منصور نے ایک فلم ''خدا کے لیے'' جنید جنشید کو ذہن میں رکھ کر لکھی اور ان سے اس فلم میں کام کرنے کے لیے ضد کی حد تک اصرار کیا جب کہ جنید بھائی یہ مصنوعی رنگوں اور روشنیوں کی دنیا کو چھوڑ چکے تھے۔ اس لیے وہ نہ مانے اور اپنی توبہ پر جمے رہے یہاں تک کہ شعیب منصور ان سے ناراض بھی ہوگئے۔
جنید جمشید کو اللہ پاک کے وعدوں پر یقین تھا اور پھر ان کے اس جمے رہنے اور استقامت دکھانے پر مالی بد حالی کے اس مختصر ترین امتحانی دورکا اختتام ہوا اور وہ جو محاوروں کہتے ہیں نا کہ اللہ نے کسی کا ہاتھ پکڑ لیا یا چھپر پھاڑکر دے دیا تو بالکل یہی معاملہ جنید جمشید کے ساتھ ہوا اور اللہ پاک نے انھیں اس سے بہت زیادہ دے دیا جتنا وہ اپنے موسیقی کے دور میں کمایا کرتے تھے۔ ان کی وہ سحر انگیز آواز جوکبھی گل وبلبل کے نغمے گایا کرتی تھی ، اب تلاوت اور حمد ونعت جیسے عالی مرتبت کاموں کے لیے مخصوص ہوگئی اور وہ سنگر جنید جمشید کی جگہ نعت خواں جنید جمشید کہلانے لگے۔
خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا سب سے یادگار لمحہ کونسا تھا تو انھوں نے کہا کہ جب ہم نے دل دل پاکستان گایا تھا تو میں ایک جگہ کھڑا تھا اور دو لڑکے آپس میں کہہ رہے تھے کہ یہ دیکھو یہ وہ ہے جس نے پاکستان پاکستان گایا ہے۔
میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ مجھ جیسے گمنام سے لڑکے کی پہچان پاکستان پاکستان ہوگئی اور پھر بعینہ یہی واقعہ آٹھ دس برس بعد دہرایا گیا۔ کہتے ہیں کہ میں مدینے شریف کی گلیوں میں کسی کام سے پھر رہا تھا اور میرے پیچھے دو نوجوان کہہ رہے تھے کہ ''ارے یہ دیکھو یہ تو وہی ہے جس نے مدینہ مدینہ پڑھا ہے تو پاکستان پاکستان سے مدینہ مدینہ تک کے سفر کا سوچ کرمیں دھاڑیں مار مار کر رونے جیسا ہوگیا تھا۔
تو جنید ! ہنگامِ زندگی میں محض ایک دو دفعہ آپ کی ماہیت قلبی اورکایا پلٹ کے بعد سرسری طور پر مختلف اجتماعات اور مواقعے پر آپ کودیکھنے کی حد تک ملاقات رہی اگر اسے ملاقات کہا جاسکے تو، چھ دسمبر دو ہزار سولہ کو اے ٹی آر کے حادثے میں دیگر مسافروں کے ساتھ آپ کی شہادت کی اطلاع جیسے ایک بجلی بن کر لاکھوں افراد کی طرح مجھ پر بھی گری لیکن جلد ہی غم دنیا میں پھنس کر اور دکھوں کی طرح یہ المیہ بھی وقتی طور پر فراموش ہوگیا لیکن پھر ایسا ہوا کہ آہستہ آہستہ آپ کی خصوصیات عوام و خواص سے میرے علم میں آنا شروع ہوئیں اور مجھے آپ سے عقیدت اور محبت کاتعلق پیدا ہوتا چلاگیا۔ دسمبرکا مہینہ آپ کی شہادت کا مہینہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک سچے پاکستانی اور بہترین مسلمان اور بہت اچھے انسان اور اپنے ہر دو ادوار میں دلوں کے فاتح تھے۔