خبردار ٹوٹکوں کے ہماری صحت پر منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں
بیماریوں کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ٹوٹکوں کا اندھا دھند استعمال اور خود معالجاتی طرزِ عمل ہے
ہم جدید سائنسی دور کے تیز ترین مراحل سے گزر رہے ہیں۔وقت کی رفتارکے ہاتھوں مجبور ہم زندگی کے ہر شعبے میں فوری نتائج کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔
علاج معالجے کے حوالے سے تو ہمیں اور بھی زیادہ جلدی ہوتے ہے کہ ہم فوری تن درست ہو کر اپنے معاملات سرانجام دینے کے قابل ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم فوری شفاء کی خواہش کے چکر میں سنے سنائے ٹوٹکوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے جسمانی مسائل میں مزید اضافہ کر لیتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک میں ٹوٹکے بازی اور خود معالجاتی طرزِ عمل عام پایا جاتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں بسنے والے افراد میں بیماریوں کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ٹوٹکوں کا اندھا دھند استعمال اور خود معالجاتی طرزِ عمل ہے۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی فرد کو کسی مفرد نبات(جڑی بوٹی) سے کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ تمام تر بدنی مسائل کا حل اسی مفرد نبات کو ہی خیال کرتے ہوئے سب کو اس کے استعمال کا مشورہ دینے لگتا ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ نباتات کے طبی فوائد و خواص کی پوری دنیا معترف ہے اور ان کی افادیت و اہمیت مسلمہ ہے مگر یاد رہے کہ ہر مفرد نبات ہر شخص پر یکساں اثرات کی حامل ہو یہ نظریہ سراسر غلط اور فطری اصولوں کے منافی ہے کیونکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام افراد کے مزاج،طبائع،کیفیات، بدنی ضروریات، شوق،پسند و نا پسند اور دلچسپیاں جدا جدا ہیں۔حتیٰ کہ ایک ہی والدین کی اولاد کے مزاج،طرزِ رہن و سہن،جسمانی ضروریات اور طبعی حاجات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔
جب انسانوں کے مزاج میں اختلاف ہے تو انسانی مزاج پر اثرات مرتب کرنے والی نباتات بھی مزاج ،خواص،طبائع،فوائد اور کیفیات کے لحاظ سے اپنی الگ اور منفرد پہچان رکھتی ہیں۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ امراض سے بچاؤ اور چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کو ایسی ادویات استعمال کرائی جائیں جو ان کے مزاج و کیفیات کے مطابق ہوں۔
یوں نہ صرف امراض سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل ہوگا بلکہ خاطر خواہ حد تک بیماریوں سے بچاؤ بھی ممکن ہوگا۔کسی بھی مرض کا علاج کرتے وقت ایک سمجھ دار معالج کے پیش نظر دو پہلو ہوتے ہیں،اول یہ کہ وہ ظاہری علامات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ادویات استعمال کرائی جائیں،یوں ہوسکتا ہے کہ علامات تو وقتی طور پر غائب ہوجائیں اور مریض افاقہ بھی محسوس کرے لیکن مرض جوں کا توں رہتا ہے(یاد رہے جدید طبی علاج بھی ظاہری علامات کو ہی پیش نظررکھتا ہے)جبکہ علاج کا دوسرا اور حقیقی پہلو یہ ہے کہ مرض کی علامات کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب کے خاتمے پر بھی توجہ دی جائے۔اگر چہ شفا یابی میں کچھ وقت بھی صرف ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔اس طرح مریض نہ صرف ظاہری علامات بلکہ مرض کے چنگل سے مستقل طور پر چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوگا۔
فطری اصولوںپر مبنی طریقہ علاج نیچرو پیتھی(طبِ قدیم)کا اصولِ علاج ہی امراض کے اسباب کا خاتمہ ہے۔عرفِ عام میں اسے علاج
با ا لضد بھی کہا جاتا ہے۔نیچروپیتھی میں مزاج اوراخلاط کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مرض کا ازالہ کیا جاتا ہے۔گرمی کو سردی سے اور سردی کو گرمی سے ،خشکی کو تری سے اور تری کو خشکی سے متوازن کیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں مریض کے مزاج،طبع اور کیفیت پر بھی پورا دھیان رکھنے کے بعد ہی اسے کوئی مفرد یا مرکب دوا یا غذا اثرات و خواص کو پیش ِ نطر رکھتے ہوئے مریض کی طبعی ضرور یات کے عین مطابق تجویز کی جاتی ہے۔ہم یہ کہنے میں ذرا بھر عار محسوس نہیں کرتے کہ فی زمانہ معالجین کی کثیر تعداد مریض کی علامات اوردوا کے فوائد کے پیش نظر ہی نسخہ تجویز کرتی ہے جو کہ نہ صرف سرا سر طبی اصولوںکے منافی ہے بلکہ انسانیت پر ایک ظلمِ عظیم بھی ہے۔
اگرچہ مریض کی بدنی ضروریات تجویز کردہ نسخہ سے الٹ ہوں۔شاید یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ نہ صرف امراض کی نت نئی اشکال سامنے آ رہی ہیں بلکہ مریضوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔راقم معالجین سے دست بستہ عرض گزار ہے کہ مریض کی طبعی ضروریات کے مطابق غذا اور طبی اصولوں کے مطابق ہی نسخہ تجویز کریں، ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ بیماریوں میں کمی بھی واقع ہوگی اور مریض بھی شفاء کلی سی مستفید ہوسکیں گے۔
چونکہ ہمارا اصل موضوع ٹوٹکے بازی اور خود معالجاتی طرزِ عمل ہے لہٰذا ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔گھریلو ٹوٹکے اکثر و بیشترطبع،مزاج،کیفیت اور جسمانی ضرورت کو سمجھے اور جانے بغیر استعمال کیے جاتے ہیں نتیجے کے طور پر استعمال کرنے والامزید کئی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔بسا اوقات بعض افراد کے لیے یہ ٹوٹکے بڑے مفید اور ذود اثر بھی ثابت ہوتے ہیں۔
جہاں مزاج اور طبیعت کی مطابقت ہوتی ہے وہاںاچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ہمارے ہاں بعض افراد نے تلخ غذائی اجزاء کو مٹھاس کی ضد خیال کرتے ہوئے شوگر کا باقاعدہ علاج سمجھ رکھا ہے جو کہ حقیقت کے با لکل منافی ہے۔ہاں البتہ کریلے وغیرہ میں کڑواہٹ کے ساتھ ساتھ ایسے غذائی عناصر بھی پائے جاتے ہیں جو انسولین سے جڑے عوارض میں مفید مانے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک دوست بتا رہے تھے کہ ان کے کسی عزیز کو کسی نے شوگر کے خاتمے کے لیے نیم کا پانی پینے کو بتایا۔ انہوں نے مزاج اور مقدار کا خیال کیے بغیر خوب اور کافی مقدار میں استعمال کر لیا۔انہیں پتہ تب چلا جب نیم کے مزاج میں شامل گرمی اور خشکی نے جگر کو سکیڑ کر ناکارہ کردیا۔ موصوف امریکہ تک علاج کروا آئے مگر مرض کا خاتمہ ملک الموت کی آمد سے ہی ہوا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ایسے تمام افراد جن کے مزاج میں سردی اور تری پائی جاتی ہے ،وہ اگر نیم کو مخصوص مدت تک مخصوص مقدار میں استعمال کریں تو انھیںکئی ایک جسمانی مسائل اور طبی عوارض سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔ یہاں چند توجہ طلب امور تحریر کیے جا رہے ہیں جنھیں اپنا کر ہم خاطر خواہ حد تک امراض اور جسمانی عوارض سے نہ صرف محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ کسی حد تک موجودہ دور کے خطرناک امراض کے منفی اثرات سے بھی بچ سکتے ہیں۔
1 )جس بدن کی خوبصورتی کے لیے ہم خوبصورت اور مہنگے لباس،سامانِ آرائش وزیبائش پر ایڑی چوٹی کا زور لگا تے ہیں ،اس کی درستگی اور صحت مندی کے لیے سنے سنائے ٹوٹکے آزما کر مزیدمسائل پیدا نہ کریں بلکہ کسی ماہر اور کوالیفائیڈ معالج سے مشورہ کیے بغیر کبھی کوئی دوا یا غذا ہر گز استعمال نہ کریں۔ اپنے معالج کے مشورہ کے مطابق ہی غذا ئی چارٹ تر تیب دیں۔
2 )بار بار معالج بدلنے کی روش بھی جسمانی مسائل میں اضافہ کرنے اور امراض کے پھیلاؤ کا باعث بنتی ہے،لہٰذا ہمیشہ ایک ہی معالج سے مشورہ کریں۔بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا فیملی معالج ضرور منتخب کریں۔
3)اپنی مقدار میں تین چیزیں حتی المقدور کم سے کم شامل کریں۔۔۔۔نمک،۔۔۔۔چینی۔۔۔اور سیر شدہ چکنائیاں
4)موسمی پھلوں،سبزیوں اور خالص دودھ کو روز مرہ خوراک کا لازمی حصہ بنایئں،ناشتے میں دہی ضرور شامل کریں لیکن یاد رہے کہ رات کے وقت دہی کا استعمال مفید کی بجائے مضر ہوسکتا ہے۔
5)قبض کے مرض سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں،تاہم اگر قبض کا مرض لاحق ہو جائے تو قبض کشا ادویات کا استعمال کم سے کم کریں۔تیز جلاب سے انتڑیوں میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریاز بھی براز کے ساتھ خارج ہوجاتے ہیں جو بعد ازاںکئی دیگر موذی عوارض کا سبب بھی بنتے ہیں۔
6 )بیکری مصنوعات،کولا مشروبات،چائے اور سگریٹ نوشی سے جس قدر ہوسکے بچیں ، اگر ان کا استعمال ناگزیر ہو تو کبھی کبھار یا بہت کم مقدار میں استعمال کریں ورنہ یہ میٹابولزم کو تباہ و برباد کر کے کئی جدید اور مہلک امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا غذائیں نہ صرف نظامِ انہظام کو خراب کرتی ہیں بلکہ انتڑیوں کی کارکردگی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔یاد رکھیں! بدنِ انسانی کی80 فیصد بہتر نشو ونما اور صحت مند ی کا دارومدار صحت مند انتڑیوں پر ہوتا ہے۔
7)بڑا گوشت،بیگن اور دال مسور میں پائے جانے والے بعض غذائی اجزا جگر کی خرابی کا باعث بنتے ہیں،لہٰذا ممکنہ حد تک انہیں اپنی خوراک میں کم سے کم شامل کریں تاکہ ہیپاٹائٹس جیسے عوارض سے بچ سکیں۔
8 )گوشت اور مچھلی کے ساتھ دودھ کے استعمال سے بچا جائے،ورنہ جلدی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔اسی طرح چاول اور مچھلی بھی ایک ساتھ کھانے سے پر ہیز کریں۔علاوہ ازیں روزانہ چاول کھانے کی روش بھی صحت کے لیے مضر ہے ،کیونکہ چاولوں میں شامل لیس دار مادہ نہ صرف قبض بلکہ کئی دیگر امراضِ امعا کا باعث بن سکتا ہے،ہاں البتہ ہفتے،عشرے میں ایک بار چاول کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
9)متواتر مرغن اور تیز مصالحہ جات والی غذاؤں کا استعمال بھی امراضِ قلب،جگر،گردے،ہائی بلڈ پریشر،ذیابیطس اور معدے و انتڑیوں کے السر کا سبب بن سکتا ہے۔کوشش کریں کہ متوازن مگر معتدل خوراک کھائیں تاکہ کسی بھی قسم کے بدنی عارضے سے بچا جاسکے۔
اسی طرح نام نہاد معالجین اور نیم حکیموں سے بھی دور رہنے میں عافیت ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا دھیان رکھ کر ہم کئی ایک بڑے بدنی مسائل اور خطرناک امراض سے بچ سکتے ہیں۔ نیز ہم اپنی روز مرہ غذاؤں کے جسم پر مرتب ہونے والے منفی یا مثبت اثرات کو نوٹ کرکے بھی کئی ایک پریشانیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ایک حقیقت طے شدہ ہے کہ جس قدر ہم خود اپنے مزاج اور جسمانی تقاضوں کو سمجھ سکتے ہیں شاید دنیا کی کوئی جدید مشین یا ماہر معالج کھبی سمجھ ہی نہیں سکتا ۔بس تھوڑی سی توجہ اور احتیاط کی ضرورت ہے۔
علاج معالجے کے حوالے سے تو ہمیں اور بھی زیادہ جلدی ہوتے ہے کہ ہم فوری تن درست ہو کر اپنے معاملات سرانجام دینے کے قابل ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم فوری شفاء کی خواہش کے چکر میں سنے سنائے ٹوٹکوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے جسمانی مسائل میں مزید اضافہ کر لیتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک میں ٹوٹکے بازی اور خود معالجاتی طرزِ عمل عام پایا جاتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں بسنے والے افراد میں بیماریوں کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ٹوٹکوں کا اندھا دھند استعمال اور خود معالجاتی طرزِ عمل ہے۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی فرد کو کسی مفرد نبات(جڑی بوٹی) سے کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ تمام تر بدنی مسائل کا حل اسی مفرد نبات کو ہی خیال کرتے ہوئے سب کو اس کے استعمال کا مشورہ دینے لگتا ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ نباتات کے طبی فوائد و خواص کی پوری دنیا معترف ہے اور ان کی افادیت و اہمیت مسلمہ ہے مگر یاد رہے کہ ہر مفرد نبات ہر شخص پر یکساں اثرات کی حامل ہو یہ نظریہ سراسر غلط اور فطری اصولوں کے منافی ہے کیونکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام افراد کے مزاج،طبائع،کیفیات، بدنی ضروریات، شوق،پسند و نا پسند اور دلچسپیاں جدا جدا ہیں۔حتیٰ کہ ایک ہی والدین کی اولاد کے مزاج،طرزِ رہن و سہن،جسمانی ضروریات اور طبعی حاجات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔
جب انسانوں کے مزاج میں اختلاف ہے تو انسانی مزاج پر اثرات مرتب کرنے والی نباتات بھی مزاج ،خواص،طبائع،فوائد اور کیفیات کے لحاظ سے اپنی الگ اور منفرد پہچان رکھتی ہیں۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ امراض سے بچاؤ اور چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کو ایسی ادویات استعمال کرائی جائیں جو ان کے مزاج و کیفیات کے مطابق ہوں۔
یوں نہ صرف امراض سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل ہوگا بلکہ خاطر خواہ حد تک بیماریوں سے بچاؤ بھی ممکن ہوگا۔کسی بھی مرض کا علاج کرتے وقت ایک سمجھ دار معالج کے پیش نظر دو پہلو ہوتے ہیں،اول یہ کہ وہ ظاہری علامات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ادویات استعمال کرائی جائیں،یوں ہوسکتا ہے کہ علامات تو وقتی طور پر غائب ہوجائیں اور مریض افاقہ بھی محسوس کرے لیکن مرض جوں کا توں رہتا ہے(یاد رہے جدید طبی علاج بھی ظاہری علامات کو ہی پیش نظررکھتا ہے)جبکہ علاج کا دوسرا اور حقیقی پہلو یہ ہے کہ مرض کی علامات کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب کے خاتمے پر بھی توجہ دی جائے۔اگر چہ شفا یابی میں کچھ وقت بھی صرف ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔اس طرح مریض نہ صرف ظاہری علامات بلکہ مرض کے چنگل سے مستقل طور پر چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوگا۔
فطری اصولوںپر مبنی طریقہ علاج نیچرو پیتھی(طبِ قدیم)کا اصولِ علاج ہی امراض کے اسباب کا خاتمہ ہے۔عرفِ عام میں اسے علاج
با ا لضد بھی کہا جاتا ہے۔نیچروپیتھی میں مزاج اوراخلاط کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مرض کا ازالہ کیا جاتا ہے۔گرمی کو سردی سے اور سردی کو گرمی سے ،خشکی کو تری سے اور تری کو خشکی سے متوازن کیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں مریض کے مزاج،طبع اور کیفیت پر بھی پورا دھیان رکھنے کے بعد ہی اسے کوئی مفرد یا مرکب دوا یا غذا اثرات و خواص کو پیش ِ نطر رکھتے ہوئے مریض کی طبعی ضرور یات کے عین مطابق تجویز کی جاتی ہے۔ہم یہ کہنے میں ذرا بھر عار محسوس نہیں کرتے کہ فی زمانہ معالجین کی کثیر تعداد مریض کی علامات اوردوا کے فوائد کے پیش نظر ہی نسخہ تجویز کرتی ہے جو کہ نہ صرف سرا سر طبی اصولوںکے منافی ہے بلکہ انسانیت پر ایک ظلمِ عظیم بھی ہے۔
اگرچہ مریض کی بدنی ضروریات تجویز کردہ نسخہ سے الٹ ہوں۔شاید یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ نہ صرف امراض کی نت نئی اشکال سامنے آ رہی ہیں بلکہ مریضوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔راقم معالجین سے دست بستہ عرض گزار ہے کہ مریض کی طبعی ضروریات کے مطابق غذا اور طبی اصولوں کے مطابق ہی نسخہ تجویز کریں، ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ بیماریوں میں کمی بھی واقع ہوگی اور مریض بھی شفاء کلی سی مستفید ہوسکیں گے۔
چونکہ ہمارا اصل موضوع ٹوٹکے بازی اور خود معالجاتی طرزِ عمل ہے لہٰذا ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔گھریلو ٹوٹکے اکثر و بیشترطبع،مزاج،کیفیت اور جسمانی ضرورت کو سمجھے اور جانے بغیر استعمال کیے جاتے ہیں نتیجے کے طور پر استعمال کرنے والامزید کئی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔بسا اوقات بعض افراد کے لیے یہ ٹوٹکے بڑے مفید اور ذود اثر بھی ثابت ہوتے ہیں۔
جہاں مزاج اور طبیعت کی مطابقت ہوتی ہے وہاںاچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ہمارے ہاں بعض افراد نے تلخ غذائی اجزاء کو مٹھاس کی ضد خیال کرتے ہوئے شوگر کا باقاعدہ علاج سمجھ رکھا ہے جو کہ حقیقت کے با لکل منافی ہے۔ہاں البتہ کریلے وغیرہ میں کڑواہٹ کے ساتھ ساتھ ایسے غذائی عناصر بھی پائے جاتے ہیں جو انسولین سے جڑے عوارض میں مفید مانے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک دوست بتا رہے تھے کہ ان کے کسی عزیز کو کسی نے شوگر کے خاتمے کے لیے نیم کا پانی پینے کو بتایا۔ انہوں نے مزاج اور مقدار کا خیال کیے بغیر خوب اور کافی مقدار میں استعمال کر لیا۔انہیں پتہ تب چلا جب نیم کے مزاج میں شامل گرمی اور خشکی نے جگر کو سکیڑ کر ناکارہ کردیا۔ موصوف امریکہ تک علاج کروا آئے مگر مرض کا خاتمہ ملک الموت کی آمد سے ہی ہوا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ایسے تمام افراد جن کے مزاج میں سردی اور تری پائی جاتی ہے ،وہ اگر نیم کو مخصوص مدت تک مخصوص مقدار میں استعمال کریں تو انھیںکئی ایک جسمانی مسائل اور طبی عوارض سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔ یہاں چند توجہ طلب امور تحریر کیے جا رہے ہیں جنھیں اپنا کر ہم خاطر خواہ حد تک امراض اور جسمانی عوارض سے نہ صرف محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ کسی حد تک موجودہ دور کے خطرناک امراض کے منفی اثرات سے بھی بچ سکتے ہیں۔
1 )جس بدن کی خوبصورتی کے لیے ہم خوبصورت اور مہنگے لباس،سامانِ آرائش وزیبائش پر ایڑی چوٹی کا زور لگا تے ہیں ،اس کی درستگی اور صحت مندی کے لیے سنے سنائے ٹوٹکے آزما کر مزیدمسائل پیدا نہ کریں بلکہ کسی ماہر اور کوالیفائیڈ معالج سے مشورہ کیے بغیر کبھی کوئی دوا یا غذا ہر گز استعمال نہ کریں۔ اپنے معالج کے مشورہ کے مطابق ہی غذا ئی چارٹ تر تیب دیں۔
2 )بار بار معالج بدلنے کی روش بھی جسمانی مسائل میں اضافہ کرنے اور امراض کے پھیلاؤ کا باعث بنتی ہے،لہٰذا ہمیشہ ایک ہی معالج سے مشورہ کریں۔بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا فیملی معالج ضرور منتخب کریں۔
3)اپنی مقدار میں تین چیزیں حتی المقدور کم سے کم شامل کریں۔۔۔۔نمک،۔۔۔۔چینی۔۔۔اور سیر شدہ چکنائیاں
4)موسمی پھلوں،سبزیوں اور خالص دودھ کو روز مرہ خوراک کا لازمی حصہ بنایئں،ناشتے میں دہی ضرور شامل کریں لیکن یاد رہے کہ رات کے وقت دہی کا استعمال مفید کی بجائے مضر ہوسکتا ہے۔
5)قبض کے مرض سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں،تاہم اگر قبض کا مرض لاحق ہو جائے تو قبض کشا ادویات کا استعمال کم سے کم کریں۔تیز جلاب سے انتڑیوں میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریاز بھی براز کے ساتھ خارج ہوجاتے ہیں جو بعد ازاںکئی دیگر موذی عوارض کا سبب بھی بنتے ہیں۔
6 )بیکری مصنوعات،کولا مشروبات،چائے اور سگریٹ نوشی سے جس قدر ہوسکے بچیں ، اگر ان کا استعمال ناگزیر ہو تو کبھی کبھار یا بہت کم مقدار میں استعمال کریں ورنہ یہ میٹابولزم کو تباہ و برباد کر کے کئی جدید اور مہلک امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا غذائیں نہ صرف نظامِ انہظام کو خراب کرتی ہیں بلکہ انتڑیوں کی کارکردگی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔یاد رکھیں! بدنِ انسانی کی80 فیصد بہتر نشو ونما اور صحت مند ی کا دارومدار صحت مند انتڑیوں پر ہوتا ہے۔
7)بڑا گوشت،بیگن اور دال مسور میں پائے جانے والے بعض غذائی اجزا جگر کی خرابی کا باعث بنتے ہیں،لہٰذا ممکنہ حد تک انہیں اپنی خوراک میں کم سے کم شامل کریں تاکہ ہیپاٹائٹس جیسے عوارض سے بچ سکیں۔
8 )گوشت اور مچھلی کے ساتھ دودھ کے استعمال سے بچا جائے،ورنہ جلدی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔اسی طرح چاول اور مچھلی بھی ایک ساتھ کھانے سے پر ہیز کریں۔علاوہ ازیں روزانہ چاول کھانے کی روش بھی صحت کے لیے مضر ہے ،کیونکہ چاولوں میں شامل لیس دار مادہ نہ صرف قبض بلکہ کئی دیگر امراضِ امعا کا باعث بن سکتا ہے،ہاں البتہ ہفتے،عشرے میں ایک بار چاول کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
9)متواتر مرغن اور تیز مصالحہ جات والی غذاؤں کا استعمال بھی امراضِ قلب،جگر،گردے،ہائی بلڈ پریشر،ذیابیطس اور معدے و انتڑیوں کے السر کا سبب بن سکتا ہے۔کوشش کریں کہ متوازن مگر معتدل خوراک کھائیں تاکہ کسی بھی قسم کے بدنی عارضے سے بچا جاسکے۔
اسی طرح نام نہاد معالجین اور نیم حکیموں سے بھی دور رہنے میں عافیت ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا دھیان رکھ کر ہم کئی ایک بڑے بدنی مسائل اور خطرناک امراض سے بچ سکتے ہیں۔ نیز ہم اپنی روز مرہ غذاؤں کے جسم پر مرتب ہونے والے منفی یا مثبت اثرات کو نوٹ کرکے بھی کئی ایک پریشانیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ایک حقیقت طے شدہ ہے کہ جس قدر ہم خود اپنے مزاج اور جسمانی تقاضوں کو سمجھ سکتے ہیں شاید دنیا کی کوئی جدید مشین یا ماہر معالج کھبی سمجھ ہی نہیں سکتا ۔بس تھوڑی سی توجہ اور احتیاط کی ضرورت ہے۔