’’زندگی نشیب و فراز اور بحرانوں میں گزری‘‘ اجمل دہلوی

ایم کیو ایم کے قیام میں میرا کوئی کردار نہیں، بے نظیر کی شادی میں شریک اردو کا واحد صحافی تھا


بلاناغہ 12گھنٹے کام کرتا ہوں، سیاسی جماعتوں کی مفاد پرستی بڑا مسئلہ ہے، مدیر روزنامہ ’امن‘ کے حالات زیست

1990ء میں کراچی کی دیواریں ''جنگ سے نفرت، امن سے محبت'' کے نعروں سے رنگی تھیں، بظاہر ایک آفاقی پیغام بین السطور میں ایک اخبار کے مقاطعے اور دوسرے کی بڑھوتری کی مہم تھی۔۔۔ کہنے کو 'امن' اُس وقت بھی اپنی عمر کے دو عشرے مکمل کر چکا تھا، لیکن اب یہ اس کی ایک نئی کروٹ تھی۔

ایسا بدلاؤ کہ جو 'امن' کی پہچان ایم کیو ایم کو زیادہ جگہ دینے والے اخبار کی بنا گیا۔ سمے کو ذرا اس سے بھی پیچھے کی طرف لے جائیں، تو شہر قائد کے افق پر یہ دوسرا کثیرالاشاعت اخبار رہا، اشاعت ایک لاکھ سے متجاوز ہوئی، مگر مانگ اس قدر تھی کہ بلیک میں فروخت ہوتا، اس مقبولیت میں 'جمعہ خان' کے کالم کا بہت واضح حصہ تھا۔۔۔ جس کی ایک دنیا اسیر تھی۔۔۔ یہ جمعہ خان، اجمل دہلوی تھے، جو ''شخصیت'' کی بیٹھک میں ہمارے مہمان ہوئے۔ ان کا احوال زیست کا دل چسپ احوال آپ اگلی سطروں میں ملاحظہ کریں گے۔

اجمل دہلوی نے 14 اگست1936ء کو دلی میں آنکھ کھولی، چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ والد سفرحج سے دو روز قبل گردے کی تکلیف سے راہی ملک عدم ہوگئے۔ اُس وقت اُن کی عمر سات برس تھی، ہندوستان کے بٹوارے کے سمے آٹھویں جماعت میں تھے، دادا کے ساتھ ہوائی جہاز پر کراچی آئے۔

اسکول کے زمانے میں بچوں کے رسالے ''کلیم'' میں کہانیاں لکھیں، تو متاثر ہو کر مدیر نے بلایا، یوں روزانہ دو گھنٹے 'کلیم' میں کہانیوں کی نوک پلک سنوارنے لگے، اُس وقت میٹرک میں تھے۔ 'انجام' اخبار میں بھی بچوں کی کہانیوں کے مقابلے میں اول انعام ملا۔ سٹی کالج سے گریجویشن کیا۔ 1956ء میں پہلی ملازمت 'مسلمان' اخبار میں کی، پھر شام کے اخبار 'نوروز' سے جڑے، اس کے بعد 'انجام' میں 'سب ایڈیٹر' رہے، پھر 'جنگ' آگئے، جہاں 1972ء میں ہڑتال کی بنا پر برطرفیاں ہوئیں، تو اُن میں ابراہیم جلیس کے علاوہ اجمل دہلوی ودیگر بھی شامل تھے۔ ملازمت سے برخاستگی کے بعد کچھ وقت 'جسارت' کی نذر کیا، پھر تمام برطرف ملازمین نے 'امن' اخبار نکالا، تو اجمل دہلوی 'نیوز ایڈیٹر' بنے اور افضل صدیقی مدیر، جن کے انتقال کے بعد اجمل دہلوی نے ان کی جگہ لی۔

اجمل دہلوی تسلیم کرتے ہیں کہ اب اخبارات کی اشاعت گھٹ رہی ہے اور ٹی وی کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ ہم جو ٹی وی پر دیکھیں گے، مصروفیات میں لگ کر ایک، دو گھنٹے میں بھول جائیں گے، جب کہ پڑھی ہوئی چیز زیادہ دیر تک دماغ میں رہتی ہے۔ اخبار کا اثر یہ ہے کہ آنکھ نے دیکھا اور دماغ نے نوٹ کیا۔ اب لوگ پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے، ہر لمحہ ٹی وی سے استفادہ کرتے ہیں۔ ٹی وی کی رنگا رنگی دنیا بھر میں اپنا اثر بڑھا رہی ہے۔ میرا اپنا اندازہ ہے کہ شاید کچھ عرصے بعد جو کچھ اخباروں میں آئے گا اس کا عوام پر اثر نہیں ہو گا، جب کہ ٹی وی کی نشریات کا زیادہ اثر ہوگا۔

اخبار کو اس لیے اہم قرار دیتے ہیں کہ بار بار دیکھ سکتے ہیں، اخباری تراشوں کو بطور حوالہ بھی کارآمد کیا جا سکتا ہے۔ انہیں اخبارات کی گراں قیمت ہونے کا اعتراف ہے کہ پہلے جب اخبار دو آنے کے ہوتے تھے، تو لوگ بہ یک وقت کئی اخبار لیتے تھے، اب اخبارات منہگے ہیں اور قارئین کی استطاعت اتنی نہیں۔ اب قارئین صرف اپنی پسند کی چیزیں پڑھتے ہیں، جب کہ سب کا نقطۂ نظر جاننا ضروری ہے۔

اجمل دہلوی اخبارات کی بقا کے لیے سچ اور غیر جانب داری کے ساتھ اہم خبروں، قومی اور علاقائی خبروں پر توجہ کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ 'بہت سے اخبارات ان چیزوں سے غافل ہیں اور ان کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ اجمل دہلوی کے خیال میں کوئی بھی اخبار ایسا نہیں، جو اخراجات میں اضافے کے ڈر سے اپنی اشاعت بڑھنے سے روکے، اگر اخبار زیادہ چھپنے سے لاگت بڑھتی ہے، تو اشتہارات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اشتہاری ایجنسیاں چالاک ہیں، وہ اسٹالوں اور ایجنٹوں کے ذریعے اخبارات کی گردش پر کڑی نظر رکھتی ہیں، پھر اسی بنیاد پر اشتہارات جاری کرتی ہیں، تب ہی ایک اخبار کے پاس اس قدر اشتہار ہوتے ہیں کہ دوسرے کے پاس اس کا دس فی صد بھی نہیں ہوتے۔ اجمل دہلوی آج بھی اخبار کے اشتہارات کو ٹی وی سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں کہ 'بڑے کاروبار کرنے والوں کے لیے تو ٹی وی ٹھیک ہے، لیکن چھوٹے مشتہرین کے لیے نہیں۔'

اجمل دہلوی کہتے ہیں کہ 'امن' کبھی کسی جماعت کا ترجمان نہیں رہا، جو بھی زیر عتاب آیا، ہم نے اس کا ساتھ دیا۔ پیپلز پارٹی کے مشکل وقت میں ہم نے انہیں بھی جگہ دی، بے نظیر جب قائم علی شاہ کے ساتھ دفتر آئیں، تو انہوں نے اس کا اعتراف کیا۔ کہتے ہیں ''جتنا وقت میں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ گزارا ہے، اردو کے کسی صحافی نے نہیں گزارا۔ بے نظیر اور آصف زرداری سے مجھ سے زیادہ اردو کا کوئی صحافی قریب نہیں رہا۔ ان کی شادی میں شریک ہونے والا اردو کا واحد صحافی تھا۔ اس کے بعد بھی ان کے گھر بہت زیادہ آنا جانا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے موجودہ لوگوں سے زیادہ راہ و رسم نہیں۔''

'امن' میں ایم کیو ایم کو زیادہ کوریج دینے پر کہتے ہیں کہ انہیں کہیں جگہ نہ ملی، تو ہم نے انہیں چھاپنا شروع کیا۔ آج پھر اخبارات الطاف حسین کو نہیں چھاپتے، جب کہ 'امن' ان کے بیانات اور تصاویر لگاتا ہے۔ ان کے بیانات پر پابندی لاہور ہائی کورٹ کی ہے، جس کا اطلاق صرف پنجاب پر ہوتا ہے۔ متحدہ لندن کو آج کوئی اور شایع نہیں کر رہا، اس لیے ہم انہیں زیادہ جگہ دے رہے ہیں، یہ ایک سیاسی جماعت تو ہے، اس کا نقطہ نظر بھی سامنے آنا چاہیے۔

'ففٹی' پر الطاف حسین کے 'پریس ریلیز' لانے کے زمانے کو بازیافت کرتے ہوئے اجمل دہلوی بتاتے ہیں کہ انہوں نے آکر شکایت کی کہ آپ ہماری خبریں نہیں لگاتے۔ اجمل دہلوی نے مذاقاً کہا کہ آپ کے والدین ہجرت کر کے آئے، آپ کہاں سے مہاجر ہو گئے۔ انہوں نے بڑی ضد کی، مگر خبر نہیں چھپی، پھر ایک آدھ، خبر لگانا شروع کی، جب انہیں مقبولیت ملی، تب زیادہ جگہ دینا شروع کی کہ یہ مہاجروں کی نمائندہ جماعت ہے اور کوئی اور انہیں اہمیت نہیں دے رہا۔ 'امن' کے بعد ہی دوسرے اخبارات نے انہیں اہمیت دینا شروع کی۔

اجمل دہلوی نے ایم کیو ایم بنانے کے لیے اہم مشیر ہونے کی تردید کی اور کہا سینٹیر بننے کے بعد ہی ان کا ایم کیو ایم میں کردار شروع ہوا۔ اس حوالے سے وہ دس، پندرہ بار لندن بھی گئے، کہتے ہیں الطاف حسین مخالفت برداشت نہیں کرتے، لیکن خامیاں بتائیں، تو قائل بھی ہو جاتے۔ اجمل دہلوی کا خیال ہے کہ ایم کیوایم کو سیاست کی پوری طرح سمجھ نہیں آئی، ورنہ وہ بہت آگے جاتے۔ کوٹا سسٹم اور بہاریوں کی واپسی بڑے سیاسی مسائل ہیں، اس کے لیے درکار عقل اور سمجھ ان میں نہیں رہی۔ ایم کیو ایم اگر مسائل کی طرف دھیان دیتی، تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اجمل دہلوی قیادت کی جلاوطنی کو ایم کیو ایم کا بڑا نقصان سمجھتے ہیں، جس سے صلاح مشورے نہیں ہو پاتے۔

کبھی وہاں کے فیصلے یہاں والوں کو اور کبھی یہاں کے فیصلے وہاں والوں کو چاروناچار قبولنے پڑتے۔ اُن کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اور عہدے حاصل کرنے والوں نے ایم کیوایم کو نقصان پہنچایا۔ اجمل دہلوی کارکنان کی تربیتی نشست بھی کرتے، جس میں منتخب ارکان سوال جواب کرتے، اجمل دہلوی کو لگتا ہے کہ یہ تربیت اور باتیں انہوں نے اپنے پاس نہیں رکھیں، ورنہ جتنی کام یابی انہیں ملی، اس سے تو یہ بہت بڑی طاقت بن جاتے۔ اِن کے لڑکے مار دھاڑ، چھین جھپٹ اور شرارتوں میں زیادہ پھنس گئے، پھر اراکین اسمبلی اور بہت سے بلدیاتی نمائندوں نے رشوت ستانی کی۔ قیادت کے نام پر پیسے لیے، انہیں کوئی سکھانے والا نہ تھا۔ بانی متحدہ کے نام کی وجہ سے زندہ رہے، لیکن اب وہ بھی نہیں لیتے۔

'اردو گو' افراد کی نمائندگی تسلیم کروانا وہ ایم کیو ایم کا ثمر قرار دیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اب ایم کیو ایم ایک نہیں ہو سکتی، کیوں کہ اب خود الطاف حسین فعال نہیں۔ ان کے بیانات کم آرہے ہیں۔ ان کی جگہ ندیم نصرت بول رہے ہیں، جو کافی عرصے ایم کیوایم سے علیحدہ رہے، انہیں یہاں کے حالات وغیرہ کی خبر نہیں۔ کہتے ہیں کہ 'ایم کیوایم کو توڑنے والے کام یاب ہو گئے۔'' اس بنا پر اجمل دہلوی کا خیال ہے کہ بہت سے 'اردو گو' ووٹ ہی نہیں ڈالیں گے۔ پہلے تو ایک مقصد تھا، اب سب اپنے اپنے کھیل کھیل رہے ہیں کوئی انہیں متحد کرنے والا نہیں۔

اجمل دہلوی 'امن' میں 'اردو گو' طبقے کی ترجمانی کی کوشش کرتے ہیں، مگر خبریں سب کی لگاتے ہیں، لیکن 'حقیقی' اور 'پاک سرزمین پارٹی' کو جگہ نہیں دیتے، کہتے ہیں کہ یہ اپنی جماعت توڑ کر آئے، اگر عوام کا اعتماد حاصل کر لیتے ہیں، تو انہیں بھی شایع کریں گے۔ بانی سے علیحدگی کے باوجود فاروق ستار کی خبریں چھاپتے ہیں، کیوں کہ عوامی نمائندوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ اِن سے بات بھی ہوتی ہے اور ایم کیو ایم کے یوم تاسیس پر انہوں نے ہمیں دو صفحے کا خصوصی ضمیمہ بھی دیا، جب کہ لندن والے صرف بیانات تک محدود ہیں۔ پہلے الطاف حسین کا ہفتہ، دس دن میں فون آجاتا تھا، اب ندیم نصرت اور دیگر فون کرتے ہیں کہ فلاں خبر بھیجی ہے، ذرا دیکھ لیں۔ جب اُن سے یہ پوچھا کہ لندن والوں نے متحدہ پاکستان کو جگہ دینے پر کبھی شکایت کی، تو انہوں نے اس کی نفی کی۔

اجمل دہلوی روزانہ جمعہ خان کے قلمی نام سے کالم بھی لکھتے ہیں۔ چوں کہ نیوز ایڈیٹر کے طور پر نام شایع ہو رہا تھا اس لیے اصل نام ترک کیا۔ آج کے کالموں کو وہ 'پیسوں کا کھیل' قرار دیتے ہیں کہ 'بڑے کالم نویس مختلف موضوعات، حمایت یا مخالفت کے پیسے لیتے ہیں۔ یہ اپنے حامیوں کی غلطیاں چھپاتے ہیں یا ان کا دفاع کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ 'پہلے صحافی رشوت نہیں لیتے تھے۔ اب تو خبریں لگوانے سے رکوانے تک ہر چیز کے پیسے ہیں۔ مالک یا مدیر کو نہیں پتا، مگر یہ سلسلہ ہے۔'

اجمل دہلوی کا ماننا ہے کہ مجید لاہوری کے انداز کا کالم آج تک کسی نے نہیں لکھا۔ اُس وقت قارئین اخبار مستعار لے کر اُن کے پُرمزاح انداز سے محظوظ ہوتا۔ آج کے بہت سے کالموں کو کالم کہنا ہی غلط ہے۔ ایک ہی اخبار میں چار، چار پانچ، پانچ کالم چھپتے ہیں، ہر کالم نگار کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ چھوٹے اخبار کے اچھے کالم کے بہ جائے بڑے اخبار کے کم تر کالم کا اثر زیادہ ہے۔

45سال بعد بھی 'امن' اخبار کے 'مرکزی دھارے' سے پرے ہونے کی وجہ پوچھی، تو بولے کہ 'امن' کی قیمت سے دو، تین روپے زیادہ قیمت کے اخبارات دُگنے صفحات کے ہیں، ہم اپنی محدود آمدن کی وجہ سے صفحات نہیں بڑھا سکتے۔ ہمارے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے اشتہارات بند ہیں، کبھی کبھی آ جاتے ہیں۔ سرکاری اشتہارات کے لیے آدھے پیسے بطور کمیشن طلب کیے جاتے ہیں۔

اجمل دہلوی کی نظر میں سیاسی جماعتوں کی مفاد پرستی بڑا مسئلہ ہے۔ نواز شریف کا سارا زور پنجاب، جب کہ پیپلز پارٹی کا سندھ میں ہے۔ پی ٹی وی کے نو بجے کے خبرنامے میں کم سے کم تین خبریں وزیراعلیٰ پنجاب کی ہوتی ہیں، باقی تین وزرائے اعلیٰ کو چند سیکنڈ بھی مل جائیں، تو بڑی بات ہوتی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں میں تعصب اتنا ہے کہ وہ اس سے نکل کر نہیں سوچتے۔ سیاسی جماعتیں اہم راہ نماؤں کے بہ جائے بادشاہت کی طرح اپنے بچوں کو آگے لا رہی ہیں، جیسے بادشاہ اور شہزادہ۔۔۔ درباری کی کوئی جگہ نہیں۔ سیاسی جماعتیں صبح شام قلابازیاں کھاتی ہیں، مذہبی جماعتوں کی کم سے کم حکمت عملی تو یک ساں رہتی ہے۔

اجمل دہلوی 1960ء میں دلی میں خالہ زاد کے ہم راہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بچوں کے بھی بچے بیاہ چکے ہیں، بلکہ اب ان کی تیسری پیڑھی کی بھی شادیاں ہونے کو ہیں۔ لباس کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ سیاست میں پہلے بے نظیر اور پھر الطاف حسین کے نزدیک رہے۔ بلا ناغہ دوپہر دو بجے تا رات دو بجے دفتر میں ہوتے ہیں۔ صرف اخبار کی تعطیل پر ہی چھٹی کرتے ہیں۔ اس دوران بھی اداریہ یا کالم لکھنے پر توجہ رہتی ہے۔ سخت معمولات کے باعث کبھی کالموں کو کتابی شکل دینے کا خیال نہیں آیا۔ سیاسی وسرکاری تقاریب کے بلاوے آتے ہیں، مگر شرکت میں دفتری مصروفیات آڑے آتی ہے۔ کہتے ہیں ماتحت کتنا ہی اچھا کام کرلے مگر خود کام کرنے کی بات الگ ہوتی ہے۔ اب کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں ملتا، فلمیں بھی کب کی دیکھی ہوئی ہیں، یاد نہیں۔ اجمل دہلوی کے بقول 'ساری زندگی ہی نشیب وفراز اور بحرانوں میں گزری۔' انہیں اپنے دیرینہ ساتھی افضل صدیقی کے انتقال سے بہت رنج ہوا۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 'امن' کی لوح پر ان کا نام بطور بانی درج کر دیا۔

اجمل دہلوی کا کبھی باقاعدہ دائیں یا بائیں بازو سے تعلق نہیں رہا، کہتے ہیں 'اخبار تو آزاد ہوتا ہے اس کا کسی جماعت سے تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ امن کو ایم کیو ایم کا حامی سمجھا گیا، مگر 'امن' میں سب کی خبریں چھپتی ہیں۔ نوجوان صحافیوں کو تخصیصی مہارت حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں، کہ اپنی صلاحیت کے درست میدان کا تعین کریں اور سوچیں کہ وہاں ان کی جگہ بن سکے گی یا نہیں۔ اجمل دہلوی کہتے ہیں کہ کسی کی زندگی کاکچھ پتا نہیں، انہیں فکر ستاتی ہے کہ ان کے بعد اخبار کی ادارت کسے سونپی جائے گی، دونوں بیٹے یہاں ہیں، مگر وہ صرف اخبار کے انتظامی معاملات دیکھتے ہیں۔

٭برطرف صحافیوں کا اخبار

اجمل دہلوی نے اپنے اخبار کی شروعات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ 'جنگ' کے برطرف صحافیوں نے جب 'امن' اخبار نکالنے کا قصد کیا، تو اُس وقت کاغذ کے ایک بیوپاری نے ہمیں تین ماہ بلا معاوضہ کاغذ دیا کہ اتنے بڑے صحافی ایک نئے اخبار کی داغ بیل ڈال رہے ہیں۔ اخبار کے عملے نے بھی تین ماہ تک بلا معاوضہ کام کیا۔ البتہ چار پانچ لوگوں کو روزانہ سو روپے دیے جاتے۔ ایک زمانے تک یہ روایت رہی کہ جس صحافی کی ملازمت برخاست ہوتی، وہ دھڑلے سے 'امن' کا در کھٹکھٹاتا، کہ یہ اخبار تو نکالا ہی 'برطرف صحافیوں' نے تھا۔ اجمل دہلوی کہتے ہیں کہ 'اُس وقت مستحکم تھے، اس لیے ہم خود بھی کہتے تھے کہ تنخواہ کم ہے یا اور کوئی مسئلہ درپیش ہے، تو یہاں آجاؤ، یوں بہت سے اضافی لوگ بھی رکھ لیے جاتے۔'

٭جب 'معاہدہ کراچی' طے ہوا

اجمل دہلوی کہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو بہت سے معاملات میں اپنے مشیروں پر انہیں ترجیح دیتی تھیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کی پذیرائی دیکھی، تو ملاقات کی خواہش ظاہر کی، اجمل دہلوی نے یہ ملاقات کرائی، جس کے بعد 'معاہدہ کراچی' پر دستخط ہوئے اور ایم کیو ایم پہلی بار حکومت میں شامل ہوئی۔ اجمل دہلوی نے جب وقت لے کر الطاف حسین کو بے نظیر سے ملاقات کا بتایا تو وہ بولے میں مشورے کے لیے رابطہ کمیٹی کا اجلاس بلاتا ہوں۔ اجمل دہلوی نے کہا کہ 'یہ آپ کسی اور سے کہیے گا، کوئی رابطہ کمیٹی وغیرہ نہیں ہے۔

ایم کیو ایم میں آپ ہی آپ ہیں، میں نے وعدہ کر لیا، اور اب آپ نے چلنا ہے، چناں چہ انہیں لینے گئے، وہ اکیلے آنے لگے کہ صرف مجھے ہی بلایا ہے، تو اجمل دہلوی نے کہا میں ہوں اُن (بے نظیر) کی طرف سے، یوں انہوں نے عظیم احمد طارق، ڈاکٹر عمران فاروق اور امین الحق کو بھی ساتھ لیا۔ یہ ملاقات ایک سے ڈیڑھ گھنٹے جاری رہی۔ بے نظیر ان سے بہت متاثر ہوئیں، اور اگلی بیٹھک کے لیے وقت طے کرنا کا کہا، اجمل دہلوی نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہے، جب آپ کہیں گی یہ آجائیں گے یا آپ چلی جائیں، کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔

٭ قصہ سینٹیر بننے کا۔۔۔

اجمل دہلوی کہتے ہیں کہ الطاف حسین انہیں بہت کہتے تھے کہ آپ سینٹیر بنیں، اس کی بہت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں صحافی ہوں اور مجھے سیاست میں حصہ نہیں لینا۔ ایک دن شعیب بخاری مرحوم امن کے دفتر آئے اور کہنے لگے کہ ہم سینیٹ کے لیے امیدوار نام زَد کر رہے ہیں، یہ کورنگ (Covering) امیدوار کے کاغذات ہیں، کہ اگر ہمارے امیدوار کے کاغذات مسترد ہو جائیں تو مسئلہ نہ ہو، انہوں نے کاغذات پر دستخط کر دیے۔

اِدھر وہ نکلے اُدھر الطاف حسین کا فون آگیا کہ صبح کی پرواز سے لندن آجائیں۔ وہاں الطاف حسین کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک فون آیا، الطاف حسین نے فون سنا، ہنسے اور اِن سے کہا چلیے آپ گلے مل لیں۔ گلے ملے، تو بولے 'مبارک ہو آپ بلا مقابلہ سینٹیر منتخب ہو گئے ہیں!' انہوں نے کہا کہ مگر مجھے تو کورنگ امیدوار بنا رہے تھے، تو بولے کہ اگر سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکلے، تو انگلی ٹیڑھی تو کرنی پڑتی ہے۔ یوں مارچ 1997ء میں وہ سینیٹر بنے، کہتے ہیں، مجھے سیاست سے کوئی دل چسپی نہیں تھی، سینٹیر بننے کے باوجود میں اِن سے اختلاف کرتا اور غلطیوں پر سمجھاتا۔

٭'ضیاالحق نے کہا اگر جرنیل نہ ہوتا اِس کی گردن اڑا دیتا!'

اجمل دہلوی صحافتی سفر میں کسی دباؤ اور دھمکی کی نفی کرتے ہیں کہ 'ایسا تب ہوتا ہے کہ جب اخبار کا اپنا کردار خراب ہو۔ ہم نے جنرل ضیاالحق کے خلاف لکھا، وہ کہتے تھے کہ اگر میں جرنیل نہ ہوتا، سیاست دان ہوتا اپنے ہاتھ سے اس آدمی (اجمل دہلوی) کی گردن اڑا دیتا۔' اجمل دہلوی بتاتے ہیں کہ وہ اِس کے باوجود اُن کا کالم پڑھتے تھے۔ اُس وقت کے آئی جی سندھ نے انہیں بتایا تھا کہ ایک دن جنرل ضیا کی میز پر 'امن' دیکھا، تو پوچھا کہ کیا 'امن' پڑھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا 'امن' نہیں، جمعہ خان کا کالم پڑھتا ہوں، اس میں سچائی ہوتی ہے، میں صرف اپنے عیب جاننے کے لیے یہ پڑھتا ہوں، جو کوئی دوسرا نہیں بتاتا۔ اجمل دہلوی کہتے ہیں کہ 'میں نے جتنا ضیاالحق کے خلاف لکھا ہے، شاید ہی کسی نے لکھا ہو، مگر انہوں نے کبھی کوئی اقدام نہیں کیا، یہ ان کی خوبی تھی۔ '

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں