مُلا کا مزار
اگر جرمن بھی اپنے مُلاؤں کا مزار بناکر دعائیں مانگنے لگتے تو کیا آج جرمنی ترقی کی اس معراج کو پہنچ پاتا؟
قبائلی علاقوں میں سخت قحط سالی کا عالم تھا۔ برسوں سے بارشیں نہ ہوئی تھیں۔ باغات سوکھ چکے تھے اور لوگ خدا سے ہر طرح دعائیں کرکے دیکھ چکے تھے، لیکن بارشیں تھیں کہ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ ایک دن اچانک کہیں سے ایک سید زادہ مُلا وہاں آنکلا۔ قبائلی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے، خوب خاطر مدارات کی اور رات کے وقت جب تمام گاؤں کے لوگ ایک بیٹھک میں ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے کےلیے اکھٹے ہوئے تو لوگوں نے عرض کی ''حضرت ہمارے لیے دعا کیجئے، بارشیں ہوں، خوشحالی آئے اور قحط سالی ختم ہو''۔
مُلا نے دعا کی اور کہا ''تم لوگ کسی بزرگ کے مزار پر دیا جلاؤ اور وہاں دعائیں کرو تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمھارے لیے خوشحالی نازل فرمائے''۔
مُلا کی بات سن کرقبائلی پریشان ہوگئے۔ اس علاقے میں کسی بزرگ، کسی ملا یا سید زادے کا مزار نہیں تھا۔ آخرکار بڑے بوڑھوں نے ایک فیصلہ کیا۔ مُلا کو اسی رات قتل کرکے ایک قبر کھودی گئی اور اس قبر کو مزار بناکر دیا روشن کردیا اور دعائیں مانگی جانے لگیں۔
پچھلے چند سال میں پورے پاکستان کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ سوئی میں مفلوک الحال بلوچوں کی حالت زار دیکھی، گوادر میں مچھیروں کو سرشام اپنی کشتیوں میں جال ڈالے مچھلی کے شکار کےلیے نکلتے اور کئی دنوں کی انتھک محنت کے بعد چند مچھلیاں لے کر واپس آتے دیکھا۔ ماشکیل کے ریگستانوں میں نوجوانوں کو موٹرسائیکل پر گھروں سے نکلتے اور چند دن بعد ان کی لاشیں واپس آتے دیکھیں، جو صحرا میں راستہ کھونے اور پانی نہ ملنے سے مرے۔ ژوب، لورالائی کے غیور پٹھانوں کو کاریزات سے پانی نکالتے اور پہاڑوں کا سینہ چیر کر باغات کی دیکھ بھال کرتے دیکھا، جو کہ قحط سالی سے خشک ہوچکے تھے۔ پنجاب کے محنتی کسانوں کو چلچلاتی گرمیوں میں فصلیں کاٹتے اور منڈیوں میں خوار ہوتے دیکھا۔ ہر جگہ اتنے تھکے ماندے انسانوں کو بے مثال محنت اور لاحاصل اجر کے لامتناہی دائرے میں سرگرداں دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ یہ لوگ کن بداعمالیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، جس نے ان کی خوشحالی چھین لی ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کی ہر نعمت اور دولت ہونے کے باوجود پاکستان کے لوگ ضروریات زندگی سے بھی محروم ہیں۔ وہ وسائل، جو زمین کے سینے میں دفن ہیں، وہ کب ظاہر ہوکر ان مفلوک الحال لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی لائیں گے۔
پہلی اور دوسرے جنگ عظیم میں اتحادی طاقتوں نے جرمنی کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور صرف دارالحکومت برلن میں یہ عالم تھا کہ اس شہر کو اتحادی طاقتوں نے چار حصوں میں تقسیم کردیا تھا اور ہر حصے پر الگ الگ ملک کی حکمرانی تھی۔ دوسرے جنگ عظیم کو ختم ہوئے ابھی صرف سات دہائیاں ہوئی ہیں اور ان ستر سال میں جرمنی نے اپنے آپ کو جنگ کی تباہ کاریوں سے نکال کر ایک بار پھر خود کو یورپ کی ایک بڑی طاقت تسلیم کروالیا ہے۔ سوچیے اگر جرمن بھی اپنے مُلاؤں کو قتل کرکے ان کا مزار بناکر دعائیں مانگنے لگتے تو کیا آج جرمنی ترقی کی اس معراج کو پہنچ پاتا؟
جرمنی کے مقابلے میں جاپان ایک چھوٹا سا ملک تھا جس پر ایٹم بم گرایا گیا۔ اس ایٹم بم کی تباہ کاریاں یہ ہیں کہ جس جگہ یہ بم گرا وہاں ابھی تک معذور انسان پیدا ہورہے ہیں۔ لیکن جاپان نے پھر بھی ہمت نہ ہاری۔ اپنی خستہ حالی کا موجب کسی اور کو ٹھہرانے کے بجائے جاپانیوں نے وہ محنت کی کہ آج ایک چھوٹا سا جزیرہ ہونے کے باوجود جاپان جدید ترین صنعتی ملک ہے۔ چین کا حال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ابھی پچھلی صدی تک افیون کے نشے میں دھت رہنے والی قوم نے صرف نصف صدی میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ آج کے سپر پاور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
قوموں کی ترقی کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہے کہ اس ایک موضوع پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ میں جب بھی ان قوموں کا موازنہ اپنے ملک سے کرتا ہوں تو دکھ کی لہر پورے جسم میں دوڑ جاتی ہے۔ ہمارے بیچارے غریب عوام اپنے عوامی نمائندوں کو کتنے ارمان سے ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں کہ یہ لوگ اسمبلیوں میں جاکر ہمارے لیے اسکول منظور کرائیں گے، سڑکیں تعمیر ہوں گی، پینے اور باغات کےلیے پانی کے منصوبے بنیں گے اور اسپتالوں میں ان کا مفت علاج ہوگا، ان کو بہتر روزگار کے مواقع ملیں گے۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ یہ نمائندے ایم پی اے، ایم این اے ہاسٹل میں ٹھہرتے ہیں، سرکاری گاڑیوں میں سرکاری گارڈز کے سائے میں گھومتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کے فنڈز اپنی جیب میں ڈال کر جب اپنی مدت پوری کرکے عوام میں واپس آتے ہیں تو ان غریب عوام کی آنکھوں میں عصبیت کا ایک نیا زہر بھر دیتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ تمھارے حقوق فلاں قوم اور فلاں صوبے نے غصب کر رکھے ہیں۔ ہم تو ملک کی ترقی کےلیے کوششیں کررہے تھے، حزب اختلاف نے ہمیں کام نہیں کرنے دیا۔ ہم نے تو فلاں فلاں منصوبے شروع کیے تھے لیکن ہمیں اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، اس لیے اس ملک کی ترقی نہیں ہوسکی۔
تب ان بے چارے سادہ لوح لوگوں کو اپنی تمامتر غربت، تمام تر محرومیوں کا سبب دوسری قومیں، دوسری پارٹیاں اور اسٹیبلشمنٹ نظر آتی ہے اور وہ ایک بار پھر اپنے آپ کو ان غاصب قوتوں سے نجات دلانے کےلیے پھر سے ان ہی لوگوں کو اگلی مدت کےلیے ووٹ دینا شروع کردیتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی نیت اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں میں شاید کسی کو بھی شک نہیں ہوگا۔ ملک کو صحیح معنوں میں اگر یورپ کے برابر لانے کا جذبہ ہے تو وہ شاید صرف عمران خان کے دل میں ہے، کیونکہ انہوں نے یورپی زندگی کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے اور یہ وہ واحد لیڈر ہے جو یورپین لائف اسٹائل سے متاثر ہونے کے بجائے ان کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن ان کو جس طرح ایک سال کے اندر اندر دھرنوں، احتجاج اور الزامات کا سامنا ہے وہ بہت پریشان کن ہے۔ جن مذہبی جماعتوں نے گزشتہ تین دہائیوں سے قوم کو دعاؤں کا اسیر بنا کر رکھا تھا اب وہ نہ تو عمران خان کو کام کرنے کا موقع دے رہے ہیں، نہ قوم کو اس مغالطے سے نکلنے دے رہے ہیں کہ آخر پچھلے تیس سال سے جو وہ برسراقتدار رہے تو خود انہوں نے اس ملک کےلیے کیا کیا۔
وسائل نہ ہوں تو انسان کوئی نہ کوئی جینے کی راہ ڈھونڈ نکالتا ہے۔ قحط سالی ہو تو باہمت انسان اس کا بھی سامنا کرلیتے ہیں اور قدرتی آفات انسان کو تباہ کرنے کے درپے ہوں تو انسان ان کے سامنے بھی سینہ سپر ہوجاتا ہے، لیکن جب اپنے لیڈر ہی قوم کو کوئی راستہ دکھانے کے بجائے انہیں مزاروں پر دیے روشن کرنے کی راہ پر لگادیں تو پھر اس مزار میں آرام فرما ہونے کا سب سے زیادہ حقدار بھی وہی لیڈر ہوتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مُلا نے دعا کی اور کہا ''تم لوگ کسی بزرگ کے مزار پر دیا جلاؤ اور وہاں دعائیں کرو تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمھارے لیے خوشحالی نازل فرمائے''۔
مُلا کی بات سن کرقبائلی پریشان ہوگئے۔ اس علاقے میں کسی بزرگ، کسی ملا یا سید زادے کا مزار نہیں تھا۔ آخرکار بڑے بوڑھوں نے ایک فیصلہ کیا۔ مُلا کو اسی رات قتل کرکے ایک قبر کھودی گئی اور اس قبر کو مزار بناکر دیا روشن کردیا اور دعائیں مانگی جانے لگیں۔
پچھلے چند سال میں پورے پاکستان کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ سوئی میں مفلوک الحال بلوچوں کی حالت زار دیکھی، گوادر میں مچھیروں کو سرشام اپنی کشتیوں میں جال ڈالے مچھلی کے شکار کےلیے نکلتے اور کئی دنوں کی انتھک محنت کے بعد چند مچھلیاں لے کر واپس آتے دیکھا۔ ماشکیل کے ریگستانوں میں نوجوانوں کو موٹرسائیکل پر گھروں سے نکلتے اور چند دن بعد ان کی لاشیں واپس آتے دیکھیں، جو صحرا میں راستہ کھونے اور پانی نہ ملنے سے مرے۔ ژوب، لورالائی کے غیور پٹھانوں کو کاریزات سے پانی نکالتے اور پہاڑوں کا سینہ چیر کر باغات کی دیکھ بھال کرتے دیکھا، جو کہ قحط سالی سے خشک ہوچکے تھے۔ پنجاب کے محنتی کسانوں کو چلچلاتی گرمیوں میں فصلیں کاٹتے اور منڈیوں میں خوار ہوتے دیکھا۔ ہر جگہ اتنے تھکے ماندے انسانوں کو بے مثال محنت اور لاحاصل اجر کے لامتناہی دائرے میں سرگرداں دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ یہ لوگ کن بداعمالیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، جس نے ان کی خوشحالی چھین لی ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کی ہر نعمت اور دولت ہونے کے باوجود پاکستان کے لوگ ضروریات زندگی سے بھی محروم ہیں۔ وہ وسائل، جو زمین کے سینے میں دفن ہیں، وہ کب ظاہر ہوکر ان مفلوک الحال لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی لائیں گے۔
پہلی اور دوسرے جنگ عظیم میں اتحادی طاقتوں نے جرمنی کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور صرف دارالحکومت برلن میں یہ عالم تھا کہ اس شہر کو اتحادی طاقتوں نے چار حصوں میں تقسیم کردیا تھا اور ہر حصے پر الگ الگ ملک کی حکمرانی تھی۔ دوسرے جنگ عظیم کو ختم ہوئے ابھی صرف سات دہائیاں ہوئی ہیں اور ان ستر سال میں جرمنی نے اپنے آپ کو جنگ کی تباہ کاریوں سے نکال کر ایک بار پھر خود کو یورپ کی ایک بڑی طاقت تسلیم کروالیا ہے۔ سوچیے اگر جرمن بھی اپنے مُلاؤں کو قتل کرکے ان کا مزار بناکر دعائیں مانگنے لگتے تو کیا آج جرمنی ترقی کی اس معراج کو پہنچ پاتا؟
جرمنی کے مقابلے میں جاپان ایک چھوٹا سا ملک تھا جس پر ایٹم بم گرایا گیا۔ اس ایٹم بم کی تباہ کاریاں یہ ہیں کہ جس جگہ یہ بم گرا وہاں ابھی تک معذور انسان پیدا ہورہے ہیں۔ لیکن جاپان نے پھر بھی ہمت نہ ہاری۔ اپنی خستہ حالی کا موجب کسی اور کو ٹھہرانے کے بجائے جاپانیوں نے وہ محنت کی کہ آج ایک چھوٹا سا جزیرہ ہونے کے باوجود جاپان جدید ترین صنعتی ملک ہے۔ چین کا حال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ابھی پچھلی صدی تک افیون کے نشے میں دھت رہنے والی قوم نے صرف نصف صدی میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ آج کے سپر پاور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
قوموں کی ترقی کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہے کہ اس ایک موضوع پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ میں جب بھی ان قوموں کا موازنہ اپنے ملک سے کرتا ہوں تو دکھ کی لہر پورے جسم میں دوڑ جاتی ہے۔ ہمارے بیچارے غریب عوام اپنے عوامی نمائندوں کو کتنے ارمان سے ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں کہ یہ لوگ اسمبلیوں میں جاکر ہمارے لیے اسکول منظور کرائیں گے، سڑکیں تعمیر ہوں گی، پینے اور باغات کےلیے پانی کے منصوبے بنیں گے اور اسپتالوں میں ان کا مفت علاج ہوگا، ان کو بہتر روزگار کے مواقع ملیں گے۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ یہ نمائندے ایم پی اے، ایم این اے ہاسٹل میں ٹھہرتے ہیں، سرکاری گاڑیوں میں سرکاری گارڈز کے سائے میں گھومتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کے فنڈز اپنی جیب میں ڈال کر جب اپنی مدت پوری کرکے عوام میں واپس آتے ہیں تو ان غریب عوام کی آنکھوں میں عصبیت کا ایک نیا زہر بھر دیتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ تمھارے حقوق فلاں قوم اور فلاں صوبے نے غصب کر رکھے ہیں۔ ہم تو ملک کی ترقی کےلیے کوششیں کررہے تھے، حزب اختلاف نے ہمیں کام نہیں کرنے دیا۔ ہم نے تو فلاں فلاں منصوبے شروع کیے تھے لیکن ہمیں اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، اس لیے اس ملک کی ترقی نہیں ہوسکی۔
تب ان بے چارے سادہ لوح لوگوں کو اپنی تمامتر غربت، تمام تر محرومیوں کا سبب دوسری قومیں، دوسری پارٹیاں اور اسٹیبلشمنٹ نظر آتی ہے اور وہ ایک بار پھر اپنے آپ کو ان غاصب قوتوں سے نجات دلانے کےلیے پھر سے ان ہی لوگوں کو اگلی مدت کےلیے ووٹ دینا شروع کردیتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی نیت اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں میں شاید کسی کو بھی شک نہیں ہوگا۔ ملک کو صحیح معنوں میں اگر یورپ کے برابر لانے کا جذبہ ہے تو وہ شاید صرف عمران خان کے دل میں ہے، کیونکہ انہوں نے یورپی زندگی کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے اور یہ وہ واحد لیڈر ہے جو یورپین لائف اسٹائل سے متاثر ہونے کے بجائے ان کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن ان کو جس طرح ایک سال کے اندر اندر دھرنوں، احتجاج اور الزامات کا سامنا ہے وہ بہت پریشان کن ہے۔ جن مذہبی جماعتوں نے گزشتہ تین دہائیوں سے قوم کو دعاؤں کا اسیر بنا کر رکھا تھا اب وہ نہ تو عمران خان کو کام کرنے کا موقع دے رہے ہیں، نہ قوم کو اس مغالطے سے نکلنے دے رہے ہیں کہ آخر پچھلے تیس سال سے جو وہ برسراقتدار رہے تو خود انہوں نے اس ملک کےلیے کیا کیا۔
وسائل نہ ہوں تو انسان کوئی نہ کوئی جینے کی راہ ڈھونڈ نکالتا ہے۔ قحط سالی ہو تو باہمت انسان اس کا بھی سامنا کرلیتے ہیں اور قدرتی آفات انسان کو تباہ کرنے کے درپے ہوں تو انسان ان کے سامنے بھی سینہ سپر ہوجاتا ہے، لیکن جب اپنے لیڈر ہی قوم کو کوئی راستہ دکھانے کے بجائے انہیں مزاروں پر دیے روشن کرنے کی راہ پر لگادیں تو پھر اس مزار میں آرام فرما ہونے کا سب سے زیادہ حقدار بھی وہی لیڈر ہوتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔